سی اےاے قانون کے خلاف وی دی پیپل آف انڈیا کے بینر کے تحت اپنی مخالفت کا اعلان کرتے ہوئے میوانی نے کہا کہ ،ہم اس کالے قانون کے خلاف عدم تعاون تحریک چلائیں گے۔
نئی دہلی : آزاد ایم ایل اے جگنیش میوانی اور کسانوں،خواتین ، مزدوروں، آدیواسی،ماہی گیروں ، خانہ بدوشوں اور دوسرے قبائل کی کئی رضاکارانہ تنظیموں نے اعلان کیا ہے کہ وہ 10 جنوری کو احمدآباد میں 12 مقامات پرشہریت قانون (سی اےاے)کی کاپیاں جلائیں گے۔قابل ذکر ہے کہ گجرات حکومت نے اسمبلی میں اس قانون کو نافذ کرنے کاعزم لیا ہے۔ ان تنظیموں نے ریاست میں سی اے اے اور مجوزہ این آرسی اوراین پی آر کے خلاف ایک عدم تعاون تحریک شروع کرنے کا بھی عزم لیا ہے۔ میوانی نے کہا کہ سی اےاے قانون کے کاپیاں جلاکر ہولی منائیں گے۔
ٹائمس آف انڈیا کی ایک خبر کے مطابق، میوانی نے کہا کہ، گجرات کے وزیر اعلیٰ وجئے روپانی پہلے اپنی شہریت کے دستاویز دکھائیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ وزیر اعلی برما(میانمار) سے آئے ہیں ۔ جب تک وہ اپنے دستاویز نہیں دکھاتے ہم بھی اپنا کاغذ نہیں دکھائیں گے۔انہوں نے کہا کہ ،ہم اس کالے قانون کے خلاف عدم تعاون تحریک چلائیں گے۔
بتا دیں کہ ریاستی سرکار نے 10 جنوری کو گجرات اسمبلی کاخصوصی سیشن بلایا ہے جس میں سی اے اے کی حمایت کی تجویز لائی جائےگی۔میوانی نے بدھ کو میٹنگ میں شامل تنظیمو ں کی طرف سے صحافیوں کو کہا کہ ہم یہاں سی اےاے قانون کے خلاف“وی دی پیپل آف انڈیا” کے غیر رسمی بینر کے تحت ایک ساتھ آئے ہیں۔ ہم ہر حال میں سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کی مخالفت کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ جب گجرات اسمبلی میں سی اے اے کی حمایت میں تجویز کو پاس کیا جائے گا، تو ہم احمدآباد میں 12 جگہوں پر اس کی کاپیاں جلاکر اس کی مخالفت کریں گے۔انڈین ایکسپریس کی ایک خبر کے مطابق،میوانی نے کہا کہ ،سی اےاے ، این پی آر اور این آرسی جیسی پہل کو بے روزگاری، ایجوکیشن اور ہیلتھ کی نجکاری، مہنگائی اور پبلک سیکٹر کی کمپنیوں کی فروخت جیسے اصل مدعوں سے دھیان ہٹانے کے لیے سرکار نے یہ حکمت عملی اپنائی ہے۔
میوانی نے کہا کہ سماج کے الگ الگ طبقے کے لوگوں – کسانوں، ماہی گیروں ،اقلیتوں ، دلت، آدیواسی، نوجوان یا خواتین نے عدم تعاون تحریک شروع کرنے کاعزم لیا ہے اور فیصلہ کیا ہے کہ جب بھی سرکار اس کونافذ کرے گی تو ان میں سے کوئی بھی اپنا دستاویز نہیں دکھائیں گے۔خانہ بدوش اوردوسرے قبائل (Denotified Tribes)کے رہنما ڈیکسن چھارا نے کہا کہ ان کی کمیونٹی کے کسی بھی ممبر کے پاس 1970 سے پہلے کا ریکارڈ ہونا ناممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ کمیونٹی نے جنگ آزادی میں اپنی خدمات دی ہیں اور ان سے دستاویزوں کی مانگ کرنا ان کی توہین کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کمیونٹی کے لوگ اصل میں ہندوستانی شہری ہیں سرکار یہ مانتی ہو یا نہ مانتی ہو۔
ایک سینئر قبائلی اشو ک چودھری نے کہا کہ ، ان کی فیملی نے جنگ آزادی میں حصہ لیا اور آزاد ی کے بعد ہر آدمی کا عقیدہ تھا کہ اب آزادی کا احساس ہوگا ۔ لیکن ہم ادھر کچھ سالوں میں دیکھا ہے کہ ہمارے حقوق پر ایک ایک کرکے حملہ کیا جارہا ہے۔ اور اب بات یہاں تک آپہنچی ہے کہ ہم سے ہماری شہریت پوچھی جارہی ہے۔ یہ توہین ہے ۔ اگر ہم اپنی عزت کرتے ہیں تو اس کی مخالفت کریں گے ۔
اس موقع پر واصف حسین نے کہا کہ ، کیا حکومت نے خاص کمیونٹی اور مذہب کو نشان زد نہیں کیا ہے ، کیا یہ قانون کے خلاف نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے مسلمان اس لیے سڑکوں پر نہیں آرہے تھے کہ اس کو لگ رہا تھا کہ اس سے پولرائزیشن کی سیاست کرنے والوں کو فائدہ ہوگا ۔ لیکن اب مسلمانوں کو سمجھ میں آگیا ہے کہ اگر وہ سڑکوں پر نہیں آئیں گے تو ان کی کمیونٹی کو خطرہ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ مسلم کمیونٹی نے آزادی کی لڑائی میں قابل ذکر خدمات انجام دی ہیں ۔ اور اب وہ اس لیے سڑکوں پر ہیں کہ وہ اس ملک کو فسطائی طاقتوں سے بچانا چاہتے ہیں۔
Categories: خبریں