کوئی ہوش میں نہیں تھا۔ آدھی بات سن کر پوری کہانی بنا رہا تھا۔ کسی نے نہیں کہا کہ خود دیکھا ہے۔ بس سنا ہے۔ اتنے پر پیغام آگے بڑھا دیا۔ جس سے بھی پوچھا کسی کے پاس جواب نہیں تھا۔ اتنا ہوش نہیں تھا کہ اگر کچھ سنا ہے تو پہلے چیک کریں۔
دلی بیمار ہے۔ باربار بستر سے اٹھ کر دیکھنے لگتی ہے کہ نرس آئی کہ نہیں ۔ڈاکٹر صاحب کب آئیں گے۔ ہر سیکنڈ لگتا ہے کہ ای سی جی ڈراپ کر رہا ہے۔ بیمار کے تیماردار ہاسپٹل کے کاریڈور میں ٹہل رہے ہیں۔ شام ہوتے ہی دنا دن فون آنے لگے۔ پیغام کے آنے کی رفتار بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ محلوں کے نام جڑنے لگے۔ سریتا وہار، مدن پور کھادر سے لے کر روہنی، دوارکا تک سے پیغام آنے لگے۔ 2001 میں اسی طرح منکی مین کے دور میں دہلی راتوں کو جاگنے لگی تھی۔ لوگ طرح طرح کاتصور کرنے لگے۔ کسی گلی سے اچانک کوئی چلاتا ہوا آتا تھا کہ اس نے منکی مین دیکھا ہے۔ چھت کی سیڑھیوں سے گر جاتا تھا۔ چوٹ لگ جاتی تھی۔ اس بار بھی منکی مین آ گیا ہے۔ تشدد کی زبان برداشت کرنے کا احساس جرم اس کو منکی مین کے دور میں لے جائےگا۔
کوئی ہوش میں نہیں تھا۔ آدھی بات سن کر پوری کہانی بنا رہا تھا۔ کسی نے نہیں کہا کہ خود دیکھا ہے۔ بس سنا ہے۔ اتنے پر پیغام آگے بڑھا دیا۔ جس سے بھی پوچھا کسی کے پاس جواب نہیں تھا۔ اتنا ہوش نہیں تھا کہ اگر کچھ سنا ہے تو پہلے چیک کریں۔ پولیس سے بات کریں۔ کسی نے کہا دکانیں بند ہو رہی ہیں۔ وہاں پولیس آ گئی ہے۔ وہاں دنگے ہو رہے ہیں۔ بغیر چیک کئے، بغیر پوری جانکاری لیے یہاں کے شہری دوسرے شہریو کو سر درد دیتے رہے اور پولیس کو پاگل کرتے رہے۔
جنوری سے دلی یہی تو کر رہی ہے۔ آدھی ادھوری باتوں پر نعرے لگانے لگ جا رہی ہے۔ آج بھی اس کی سڑکوں پر ‘گولی مارو…’کے نعرے لگ رہے ہیں۔ گولیاں چل رہی ہیں۔انتخاب کے بعد بھی درجہ حرارت کم نہیں ہوا ہے۔ شمال مشرقی دہلی تو جل ہی گئی۔ دہلی کو پہلے سوچنا تھا۔تشدد کا خدشہ اس شہر میں گھسے گا تو بات بات پر راتوں کی نیند اڑےگی۔ دہلی نے دو مہینے سے چپ رہ کر تشدد کی زبان کو سنا ہے، منظوری دی ہے، قبولیت دی ہے۔ اب وہ اپنی ہی دی ہوئی منظوری سے گھبرانے لگی ہے۔
دلی دلی نہیں رہی۔ راجدھانی ہونے کا اپنا رعب تھا دلی والوں کے پاس۔ وہ رعب چلا گیا۔ شمال مشرقی دہلی کے دنگوں کا حال دیکھ کر کسے بھروسہ ہوگا کہ پولیس آئے گی۔تشدد رک جائےگا۔ دکانیں نہیں جلیں گی۔ راجدھانی ہونے کی ساکھ ختم ہو گئی ہے۔ مگر اس بار پولیس نےہوشیاری دکھائی۔فوراً ہی محلوں کے نام سے افواہوں کی تردید شروع کر دی۔ بھروسہ بحال ہوا۔
دلی میں امن مارچ میں گولی مارنے کے نعرے لگنے لگے ہیں۔ اب ایسے شہر میں لوگ شام کے وقت خرگوش نہیں ہو جا ئیں گے تو کہاں کے ہوں گے۔ یہاں سے وہاں کودیں گے ہی۔ ہر آہٹ پر لگےگا کہ شیر آ گیا ہے۔ ہر کوئی بنا دیکھے، بنا جانچے بس پیغام بھیجتا جا رہا ہے۔پیغام آ رہا ہے توفارورڈ کر دے رہا ہے۔ کوئی کسی سے پوچھ نہیں رہا ہے کہ صحیح صحیح بتاؤ۔ کب دیکھا، کہاں دیکھا، کس سے سنا، کوئی تصویر ہے، پولیس سے بات ہوئی ہے، بس پیغام لکھو اور فارورڈ کر دو اور فون کرنے لگ جاؤ۔
دلی میں افواہوں کا دور ابھی چلےگا۔ منکی مین آ گیا ہے۔ اس بار کا منکی مین اس نفرت کی لیب میں تیار ہوا ہے جس کا کچھ نہیں ہو سکتا۔ تجربہ کامیاب رہا ہےکہ دلی کے لوگوں کو جو شہری ہونے کا فخر حاصل تھا وہ اب خوف میں بدل گیا ہے۔ میں نے کئی سال پہلے کہا تھا ایک ڈرا ہوا صحافی مرا ہوا شہری پیدا کرتا ہے۔ آپ دن رات چینلوں اور وہاٹس ایپ پیغامات کی دنیا میں ڈر بانٹ رہے تھے اور ڈر خرید رہے تھے۔
اس لیے دلی کو آرام چاہیے۔ اچھی نیند چاہیے۔ دلی کے لوگ نیوز چینل نہ دیکھیں۔ وہاٹس ایپ سے دور رہیں۔ لوگوں کے گھر جائیں۔ پڑوسی سے ملیں۔ تھانے جاکر ایس ایچ او صاحب سے ملیں۔ گودی میڈیا پر اینکروں کی زبان سن کر دلی کا تصورنہ کریں۔ ورنہ آپ خرگوش کی طرح اچھلتے رہیں گے۔ خرگوش پر ہی تو تجربہ ہوتا ہے، اتنا تو پتہ ہی ہوگا۔
(یہ مضمون رویش کمار کے فیس بک پیج پر شائع ہوا ہے۔)
Categories: فکر و نظر