دہلی کے شمال مشرقی علاقوں میں ہوئے فسادات کے بعد کئی فیملی کےممبر گمشدہ ہیں۔ اہل خانہ کا الزام ہے کہ پولیس اس کو لےکر ایف آئی آر درج نہیں کر رہی ہے اور حکومت سے بھی ان کو ضروری مدد نہیں مل رہی ہے۔
نئی دہلی: دہلی کے شمال مشرقی علاقوں میں ہوئے خوفناک تشدد کی وجہ سے ہندو اور مسلم کمیونٹی کی فیملی کو ناقابل برداشت تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ہر دن ایک نئی دل دہلا دینے والی کہانی سامنے آتی ہے۔ ایسا ہی ایک معاملہ مصطفیٰ آباد کا ہے، جہاں کچھ مہینے پہلے ہی اتر پردیش کے میرٹھ سے مصطفیٰ آبادآیا ایک شخص فساد والے دن سے ہی غائب ہے۔
’26 تاریخ کی شام میں میں نماز پڑھنےگیا تھا۔ اس بیچ میرا سالا حمزہ کچھ سامان خریدنے باہر گیا۔ اس وقت کرفیو لگا ہواتھا۔ شام کی نماز پڑھکر واپس آنے پر فون لگانے لگا، تو اس کا فون سوئچ آف آ رہاتھا۔ میں نے اس کے دوستوں سے جاننا چاہا، لیکن کچھ پتہ نہیں چلا۔ ‘مصطفیٰ آبادمیں نور مسجد کے پاس فاسٹ فوڈ کی دکان چلانے والے محمد عارف نے یہ بتایا۔
عارف کا 25 سالہ سالا حمزہ 26 فروری سے ہی غائب ہے۔ گجرات میں کاروبار کامیاب نہ ہو پانے کی وجہ سے عارف تین مہینے پہلے دہلی آ گئے اور حمزہ کوبھی ساتھ لے آئے تھے۔ یہاں پر اپنے خالو کی مدد سے انہوں نے چاؤمین-برگر کی ایک چھوٹی-سی دکان لگائی۔ دونوں اسی میں کام کرتے تھے۔
عارف کا الزام ہے کہ پولیس حمزہ کی گمشدگی کی رپورٹ نہیں لکھ رہی ہے اور الٹے ان پر فرقہ وارانہ تبصرہ کر رہی ہے۔
انہوں نے بتایا،’27 تاریخ کو میں گمشدگی کی رپورٹ لکھانے کے لئےدیال پور تھانہ گیا۔ پولیس نے رپورٹ نہیں لکھی۔ وہاں کے ایس ایچ او نے کہا کہ ہم رپورٹ نہیں لکھیںگے۔ وہاں دوسرے پولیس والے بھی کھڑے تھے۔ ان سے بات کرنے کی کوشش کی، لیکن انہوں نے مجھ سے بدتمیزی کی۔ کسی نے ہم سے صحیح سے بات نہیں کی۔ ‘
عارف نے آگے کہا، ‘اگلے دن 29 تاریخ کو میں پھر سے گیا۔ اس بارمیں اس کے برابرمیں واقع گوکل پوری تھانہ میں گیا۔ وہاں بھی ایف آئی آر درج کرانےکی کوشش کی لیکن پولیس نے کوئی مدد نہیں کی۔ اگلے دن پھر گوکل پوری گئے، لیکن کوئی مدد نہیں ہوئی۔ الٹے مجھ پر نازیبا تبصرہ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ آپ پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہو۔ ایک اللہ کو مانتے ہو۔ روزہ رکھتے ہو اور سب سے زیادہ فساد تم ہی کرتے ہو۔ ‘
عارف ایک چھوٹے-سے خستہ گھر میں اپنی بیوی، دو بچے اور حمزہ کےساتھ رہتے تھے۔ حمزہ کے ماں باپ میرٹھ میں رہتے ہیں۔ والد پرچون کی دکان چلاتےہیں۔ ایک بھائی لیڈیز کپڑے بناکر بیچنے کا کام کرتا ہے۔ چھوٹا بھائی ایک چھوٹا-ساسائبر کیفے چلاتا ہے۔
ان کی فیملی والے دہلی آنا چاہتے ہیں لیکن موجودہ حالات کو دیکھتےہوئے عارف نے منع کر دیا ہے۔ عارف نے بتایا کہ انہوں نے تمام ہاسپٹل، تمام جاننےوالوں سے بات کر لی لیکن حمزہ کہیں نہیں مل رہا ہے۔
اس محلے میں عارف کی امیج بہت اچھی ہے۔ آس پاس کے لوگ بتاتے ہیں کہ یہ لوگ کافی سیدھے ہیں اور اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔
عارف آگے کہتے ہیں،100 نمبر پر بھی شکایت کروائی لیکن ابھی تک کوئی حل نہیں نکلا ہے۔ ایم ایل اے کے پاس بھی گیا۔ وہاں وکیل تھے، وہ ہماری شکایت لکھکر لے گئے ہیں۔ پتہ نہیں اب کیا ہوگا۔ جتنا ہو سکتا ہے، ہم کوشش کر رہے ہیں،لیکن پولیس والے اپنی ذمہ داری نہیں نبھا رہے ہیں۔ ‘
پولیس کے رویہ کے بارے میں عارف نے بتایا کہ 26 تاریخ کی رات میں پولیس نے کرفیو ہٹا لیا تھا، تو انہوں نے کچھ لوگوں کے ساتھ 100 نمبر پر کال کیااور کہا کہ ان کو ڈر لگ رہا ہے اور ان کے یہاں پولیس لگائی جائے۔
اس پر پولیس نے کہا،’تم تو آزادی مانگ رہے تھے نا۔ تو تم آزادی لو! اب پولیس کی کیا ضرورت، تم کو خودبخود آزادی مل جائےگی۔ ‘
عارف کہتے ہیں،’فسادات کو دیکھکر لگ رہا ہے کہ اب واپس چلاجاؤں، بیوی بہت ڈر رہی ہے۔ ہم نے کبھی ایسا ماحول نہیں دیکھا۔ ‘
جمیل
اتر پردیش کے مئو ضلع سے ڈیڑھ مہینے پہلے دہلی آئے 23 سالہ جمیل بھی گزشتہ منگل 25 فروری سے ہی غائب ہے۔ جمیل کی ایک بیٹی ہے اور ان کی بیوی گاؤں میں رہتی ہیں۔ گھر کی معاشی حالت کافی خراب ہے۔ دہلی میں جمیل کے تین بھائی اور ان کی ماں رہتی ہیں۔ بھائی لوگ کباڑی کا کام کرتے ہیں، اسی کے سہارے گھر چلتا ہے۔
جمیل کی گمشدگی والے دن سے ہی ان کی ماں نورجہاں نے کھانا نہیں کھایا ہے۔ وہ بات کرتے-کرتے کھو جاتی ہیں۔ آس پاس والے ڈھارس بندھاتے ہیں کہ وہ دہلی میں ہی گیا ہے کہیں، جلدہی آ جائےگا۔
50 سالہ نورجہاں بتاتی ہیں،’وہ اجمیرگیا تھا۔ اجمیر سے یہاں گاؤں کے ایک لڑکے کو دہلی چھوڑنے آیا تھا، تو میں نے اس کوگھر بلا لیا۔ عید آنے والی ہے، اس لئے کہا کہ بچوں کے لئے کچھ کپڑے وغیرہ لے لوپھر چلے جانا۔ لیکن میں اس کو کچھ دے پاتی کہ یہ سب ہو گیا۔ ‘
اگلے مہینے کی پہلی تاریخ کو جمیل اپنے گاؤں واپس جانے والا تھا۔جمیل کے بھائی سلیم بتاتے ہیں،’اس دن ہم سب لوگ گھر میں ہی تھے۔ یہاں شور مچ رہاتھا۔ لوگ نیچے بلانے لگے۔ میں نے کہا کہ کھانا کھاکر جانا، اس نے کہاں پاس والی مسجد سے آتا ہوں۔ اتنا کہہکر وہ چلا گیا۔ اس کے بعد سے ہم اس کا چہرہ نہیں دیکھ پائے۔ ‘
سلیم اور ان کے بھائی کباڑی کا کام کرتے ہیں۔ مصطفیٰ آباد کے چمن پارک میں گلی نمبر چار میں ایک کمرے کے کرائے کے گھر میں چار لوگ رہتے ہیں۔ کمرےکا کرایہ2000 روپے مہینے ہے۔
جمیل کی ماں روتے روتے کہتی ہیں کہ ایک بار گرنے کی وجہ سے اس کےپیر میں راڈ ڈالی گئی ہے۔ اس کا پیر درد کرتا ہے بہت۔ پتہ نہیں کس حالت میں ہوگااب۔
دوسرے بھائی شکیل نے کہا، ‘ہم نے بہت ڈھونڈا، نہیں ملا۔ الہند، جی ٹی بی ہاسپٹل ہرجگہ دیکھ لیا ہے۔ اس کے پاس فون بھی نہیں ہے۔ ‘ معاملے میں ابھی تک کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا ہے۔
پولیس میں شکایت کرنے کے بارے میں پوچھنے پر انہوں نے بتایا، پولیس یہاں آئی تھی تو ہم نے بھائی کی فوٹو دکھایا۔ پولیس نے کہا دیکھتے ہیں۔ ایک دن بعدجب ہم نے فون کیا تو انہوں نے کہا کہ ان کی کوئی جانکاری نہیں ہے۔
ایسے میں اب اس فیملی کو کوئی راستہ سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ وہ اس معاملے کو لےکر کیا کریں، کہاں جائیں، کس سے مدد مانگے۔ معاشی حالت خراب ہونے کی وجہ سے فیملی بے بس ہے اور قانونی کارروائی کو لےکر کوئی جانکاری نہیں ہے۔
Categories: گراؤنڈ رپورٹ