فکر و نظر

پولیس انکاؤنٹر: کیا ’فوری انصاف‘ کے نام پر لاقانونیت کو قبول کیا جاسکتا ہے؟

ایک ملک اور ایک مجرم میں یہی فرق ہوتا ہے کہ ملک  قانون کا پابند ہوتا ہے جبکہ مجرم  اس کو توڑتا ہے۔ اگر ملک ایک بار بھی قانون توڑ دےتو اس کا مطلب  ہوگا کہ وہ بھی مجرم کےخانے میں آ گیا اور اس کو حکومت کرنے کا اخلاقی حق نہیں ہے۔

(فوٹو: پی ٹی آئی)

(فوٹو: پی ٹی آئی)

حال ہی میں آٹھ پولیس اہلکاروں کےقتل اوردودہائیوں سےبھی زیادہ عرصے سے متعددقتل معاملوں کے ملزم وکاس دوبے کی پولیس‘انکاؤنٹر’ میں موت نے ایک بار پھر اس ‘مقبول’روایت کو سوالوں کے دائرے میں کھڑا کردیاہے، جس میں پولیس کسی کو بھی قانون سے سزا دلوانے کے بجائے فرضی انکاؤنٹر میں مار دیتی ہے۔

اتر پردیش میں مارچ 2017 سے اب تک پولیس کے ہاتھوں مارا جانے والا یہ119واں مجرم ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا‘قانون کا راج’ سستی شہرت  کے کفن میں لپیٹ کر ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا گیا ہے؟

پولیس کی کہانی پر سوال

ایسی حالت میں جب یوپی سرکار‘انکاؤنٹر’کے معاملے میں پہلے سے ہی سوالوں کے گھیرے میں ہیں، دوبے کے انکاؤنٹر کے بارے ان کی طرف سےبتائی گئی کہانی بھی ان سوالات سے اچھوتی نہیں ہے۔

جس شخص نے ایک دن پہلے ہی کھلے عام سرینڈر کیا ہو وہ اچانک بھاگنے پر کیوں آمادہ ہو جائےگا اور وہ بھی بیسیوں ہتھیاربند لوگوں کے سامنے؟

اس کو750 کیلومیٹر سڑک سے لانے کی کیا ضرورت تھی، سوائے اس کے کہ آپ راستے بھر بھکتوں کی واہ واہی لوٹنا چاہتے تھے؟ ہیلی کاپٹر یا بی ایس ایف کے پلین سے بھی لا سکتے تھے۔

جب پریم شنکر شکل بنام دہلی ایڈمنسٹریشن اور سٹیزنس فار ڈیموکریسی بنام اسٹیٹ آف آسام کے فیصلوں میں سپریم کورٹ نے آرڈر دے رکھا ہے کہ خطرناک مجرموں کو ہتھکڑیاں لگائی جا سکتی ہیں تو اس کویا پربھات مشرا کو کیوں نہیں لگائی گئی تھیں؟ ایسے تو جیب کترے کو بھی ہتھکڑی لگایا کرتے ہیں۔

پولیس ہر بار یہ کہانی سناتی ہے کہ مجرم نے ان کی پستول چھین لی۔ پستول کو لینیارڈ سے محفوظ کرنے کی ہدایت  ایک صدی سے زیادہ پرانی  ہے۔ اس پر عمل  کیوں نہیں ہو رہا ہے؟

کاروں کے قافلے کے پیچھے چل رہے صحافیوں کی گاڑیاں ٹول پلازہ پر کیوں روک  دی گئی تھیں؟

وکاس دوبے کو دوسری کار میں کیوں ڈالا گیا؟

اس کی کار آرام سے سڑک کے کنارے ‘کروٹ سوتی’ دکھ رہی ہے۔ وہ کسی بھی طرح  سے حادثے کا شکار نہیں لگتی کیونکہ تیز رفتار گاڑی کے پلٹنے پر جو نقصان ہوتا وہاں ویسا  کچھ نہیں ہے۔

کار ڈیوائیڈر سے ٹکرائی نہیں دکھتی کیونکہ اس پر کوئی نقصان نہیں ہے یوں بھی کار ڈیوائیڈر سے پہلے ہے۔

اگر کاراسکڈ ہوئی(رپٹی)ہوتی تو سڑک اور سڑک کے کنارے بارش سے گیلی کچی زمین پرا سکڈ ہونے، بریکنگ یا گھسٹنے کے نشان ہونے چاہیے تھے جو نہیں ہیں، نہ ہی پہیوں پر کیچڑ لگا ہے۔

اسکڈ ہوئی کار پلٹتی ہے اور اسے سڑک سے اینگل پر ہونا چاہیے یہاں کار سڑک کے متوازی ہے۔

کار جیسے لیٹی ہوئی ہے، اس کی واحد وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ درجن بھر لوگوں نے اس کو دھکا دےکر پلٹ دیا ہے۔

پولیس نے ایک کہانی بنائی کہ سڑک پر گائے بھینسوں کا جھنڈ اچانک آ گیا اور ان کو بچانے کے چکر میں حادثہ ہو گیا۔ لیکن گیلی زمین پر جانوروں کے کھروں کے کوئی نشان نہیں ہیں۔ یوں بھی سڑک کے کنارے کوئی اونچے پودے نہیں ہیں اور جانوروں کا جھنڈ دور سے ہی دکھ جانا چاہیے تھا۔ شاید پولیس یہ کہے کہ وہ اڑتے ہوئے سڑک پر آ گئے تھے!

کار پلٹی، اس میں سوار باقی تمام لوگوں کو اتنی چوٹیں لگیں کہ وہ بے بس  ہو گئے۔ خدا کا معجزہ  دیکھیے کہ صرف مجرم سہی سلامت رہا اس نے نہ صرف ان کی پستول چھینی بلکہ پلٹی ہوئی گاڑی سے نکل کر بھاگ بھی گیا۔ اب خدا پر کس کو شک ہو سکتا ہے؟ جو کرے وہ کافر!

اور بھاگا بھی کہاں؟ آس پاس دوردور تک کھلے کھیت میں، جہاں چھپنے کی کوئی جگہ نہیں! شاید آخری وقت میں دماغ خراب ہو گیا ہو۔ یا ہو سکتا ہے دوبے نے حال فی الحال میں فلم ‘پان سنگھ تومر’دیکھی ہو اور خواب  دیکھ رہا ہو کہ وہ چمبل کی گھاٹیوں  میں ہے، کہیں گڑھےمیں چھپ جائےگا!

کاروں کے قافلے میں درجن بھر گاڑیاں تھیں لیکن بیچ میں ایک کار کے پلٹنے پر لوگوں نے آگے پیچھے کی گاڑیوں سے دوڑکر اسے گھیر لینا مناسب نہیں سمجھا اور دوبے کو بھاگ جانے کا موقع دیا سوچا ہوگا کیوں دوڑنے کی تکلیف کریں، گولی تو آدمی سے تیز چلتی ہے، مار دیں گے!

دوبے پلٹی گاڑی سے نکل کر بارش پڑے کھیتوں میں بھاگا، گولیاں چلائیں اور گولیاں کھائیں۔ لیکن اس تمام دوڑ بھاگ کے بیچ اس کا کورونا کا ماسک لگا رہا! یہی نہیں سوچھ بھارت کے لیے اس نے کپڑوں پر کیچڑ تک نہیں لگنے دیا۔

بھاگتے آدمی کو گولیاں سینے پر لگی ہیں۔ ایساصرف دوصورت میں ہو سکتا ہے۔ یا تو وہ پلٹ کر پولیس پر گولی چلا رہا ہو۔ ایسی حالت میں اس کی لاش پستول کے ساتھ پولیس کی طرف منھ کیے ملنی تھی۔ ویسا دکھایا نہیں گیا۔

یا پولیس والے رجنی کانت کی فلموں کی طرح ایسے گولیاں چلا رہے ہوں جو اس کے آگے نکل کر پھر 180 ڈگری گھوم جائیں اور سینہ پر لگیں!

ریاستی حکومت نے اس پر جوڈیشل انکوائری کمیشن بٹھا دیا ہے۔ لیکن اوپر اٹھائے گئے سوالات اتنے اہم  ہیں کہ تسلی بخش جوابات کے فقدان  میں یہ نتیجہ نکالنے کو مجبور ہیں کہ یہ نہ صرف  ایک سراسر ‘فرضی انکاؤنٹر’ تھا بلکہ اس کی اسکرپٹ بھی اتنی گھٹیا لکھی گئی تھی جتنی گھٹیا شاید کسی سی گریڈ تھرلر کاا سکرپٹ رائٹر بھی نہ لکھے۔


یہ بھی پڑھیں: سابق ڈی جی پی کی قلم سے–حراست میں تشدد اور ہندوستانی پولیس کا مکروہ چہرہ


کیا پولیس کو کسی  راز کے کھل جانے ڈر تھا؟

میرے خیال سے نہیں۔ پولیس-مجرم-رہنما-بااثر اور متمول افراد لوگوں کا اتحاد ہمیشہ سے رہا ہے۔ لیکن اب ‘حوالہ ڈائری’ کا زمانہ نہیں رہا۔عقل مند لوگ گناہ کی کمائی کو بے حد محفوظ طریقے سے ‘پارک’ کرنا بخوبی جانتے ہیں۔ سزا دلانے لائق ثبوت کبھی نہیں ملتا۔

موٹی چمڑی کے لوگ بدنامی سے نہیں ڈرتے۔ یوں بھی مجرموں کے رشتے ہر پارٹی میں ہوتے ہیں کیچڑ سب پر ہی اچھلتا، اس لیے فکر کی کوئی بات نہیں۔

زیادہ باعث تشویش بات عوام  کی خون کی پیاس ہے

پولیس نے قانون توڑکر قتل کیا، یہ ان کا جرم  ہے اور شاید عدالتی نظام  میں تبدیلی  سے کچھ فرق بھی پڑے۔مگر زیادہ تشویش کی بات لاکھوں لوگوں کی  وہ ذہنیت ہے، جس کی وجہ سے وہ ایسے انکاؤنٹر پر پولیس کی جئے  جئے کار کرتے ہیں اور پولیس والوں کو پھولوں کے ہار سے لاد دیتے ہیں۔

اپنی اس ذہنیت کو چھپانے کے لیے لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ عدالتی نظام  بےحد سست ہے، فیصلہ آتےآتے برسوں لگتے ہیں۔اور سزا ہوگی بھی اس کی کوئی گارنٹی نہیں کیونکہ مجرم گواہوں کو دھمکا دیتے ہیں، مروا دیتے ہیں یا خرید لیتے ہیں۔یہ دلیل بے معنی ہے کیونکہ اگر انہیں عدالتی نظام میں خامیاں نظر آتی ہیں تو ان کا اور ان کے عوامی نمائندوں  کی ذمہ داری  تھی کہ وہ1898 سے چلے آ رہے کوڈ آف کریمینل پروسیجر اور 1872 کے ایویڈنس ایکٹ کو بدلتے تاکہ جلدی انصاف مل سکے اور گواہوں کی حفاظت ہو سکے۔

یہ دھاندلی نہیں چلےگی کہ ایک طرف وہ اپنی ذمہ داری سے بھاگیں اور دوسری طرف یہ کہنے کی جرأت کریں کہ وہ تو غیر قانونی طریقوں کا ہی استعمال کریں گے۔نفسیات کےنظریے سے فرضی انکاؤنٹر میں قتل سے لوگوں کی خونریزی یاتشدد کی وہ دبی ہوئی خواہش بالواسطہ طور پر مطمئن  ہوتی ہے۔ جو وہ خود کرنا چاہتے ہیں پر نہیں کر سکتے، اسے دوسرے کو کرتا دیکھ کر انہیں خوشی ہوتی ہے۔

یہی وجہ  ہے کہ 19ویں صدی میں جب تک انگلینڈ اور امریکہ میں عوامی  طور پر پھانسی دیےجانے کا چلن تھا تو انہیں دیکھنے کے لیے بڑی تعداد میں عوام جمع ہواکرتی تھی اور باقاعدہ  میلہ سا لگ جاتا تھا۔جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مجرم برسوں جیل میں قصاب کی طرح آرام سے رہتے ہیں، تو انہیں یاد دلا نا ضروری ہے کہ اگر قصاب کا بھی انکاؤنٹر کردیا گیا ہوتا تو اس کے پاکستان اور لشکر طیبہ سے تعلقات  کا پتہ ہی نہ چلتا، جن کی بنیاد پر ہندوستان  پاکستان کو بین الاقوامی پلیٹ فارم  پر گھیر سکا۔

پولیس اہلکار ایسا کیوں کرتے ہیں؟

پرتھی پال سنگھ اور دیگر بنام اسٹیٹ آف پنجاب اور دیگر کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے قبول کیا کہ پنجاب میں دہشت گردی کو ختم کرنے کے بہانے پولیس نے معصوم اوربے قصور2097 لوگوں کو بے رحمی سےقتل کر کےان کی لاش  بھی چوری سے جلا دی تھی۔اس لیے اس پر کوئی بحث کی گنجائش ہی نہیں ہے کہ پولیس یہ گناہ کرتی آ رہی ہے۔ اس طرح کاگناہ کرنے کی پہلی وجہ  میڈل اور اس کام کا جھوٹا سہرا لینا ہوتا ہے جس کے وہ کبھی لائق ہی نہیں تھے۔

ان کی خواہش فوری انصاف نہیں،فوری(اور سستی)شہرت ہوتی ہے۔دوسرےاپنی پیشہ ورانہ ایمانداری کو اپنے آقاؤں کو سپرد کر دینا ہوتا ہے۔ ایسا نہ سمجھیے کہ وہ رہنماؤں سے ملائی دارعہدوں  کے لالچ میں ہی ایسا کرتے ہیں۔پرکاش کدم اور دیگر بنام رام پرساد وشوناتھ گپتا اور دیگر کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے انکشاف کیا کہ وہ غنڈوں کی طرح ‘سپاری’ لےکر بھی فرضی انکاؤنٹر کرتے ہیں۔

تیسری نفسیاتی وجہ ان کی وہ دبی ہوخواہش  ہوتی ہے جس میں وہ خود کو انکاؤنٹر اسپیشلسٹ کہلوا کر خود کو ‘سپر کاپ’یاغیرمعمولی مردانگی والا فلمی ہیرو(جیسے چل بل پانڈے یا سنگھم)سمجھنا چاہتے ہیں۔فرضی انکاؤنٹروں کے بارے میں پولیس اپنا رویہ بدلنے کو تیار نہیں ہے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ انہیں عوام کے ایک بڑے طبقے  کی حمایت حاصل ہے اور یہ بھی کہ ان کا کوئی کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔

اتر پردیش میں 119انکاؤنٹروں میں ہوئی لازمی  جانچ میں 74 معاملوں میں پولیس کو کلین چٹ مل گئی ہے۔فرضی انکاؤنٹر کرکے پولیس والے ایک ایسے‘دبنگ’سسٹم کے تصور کوثابت کرنا چاہتے ہیں جو ‘لوہے کے دستانے’ پہنے ہے اور جو مانتا ہے کہ قانون کی دہائی نامرد لوگ دیا کرتے ہیں۔

پولیس اصلاحات  سے کوئی فرق پڑے گا؟

اس کا جواب ہے نہیں۔ پولیس اصلاحات  ایک گہری چال ہے جس کے ذریعے پولیس افسرعوام کی جانب سے  چنے ہوئے رہنماؤں کے کنٹرول سےآزاد ہوکر ‘بنا جوابدہی کے اختیار’ چاہتے ہیں۔رہنما بھی اسی سماج سے آتے ہیں اور ایسا ماننے کی کوئی وجہ  نہیں ہے کہ ایک امتحان پاس کر لینے سے افسر خوبیوں کے مالک  بن جاتے ہیں، جبکہ رہنمابدکارہی رہتے ہیں۔

غلط کے حق  میں کوئی دلیل ممکن ہی نہیں ہے

ایک ملک  اور ایک مجرم میں یہی فرق ہوتا ہے کہ ملک  قانون کے تحت  چلتا ہے جبکہ مجرم قانون توڑ دیتا ہے۔اگر ملک  ایک بار بھی قانون توڑ دے تو اس کا مطلب ہوگا کہ ملک  بھی مجرم کے خانے میں آ گیا اور اس کی حکمرانی  کا اخلاقی  حق  ختم  ہو جائےگا۔یہ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ گناہ کی کوئی انتہانہیں ہے۔ فرضی انکاؤنٹر کو ایک بار معاف کیا گیا تو پولیس اور فوج کل کو کسی پر بھی یہ جھوٹا الزام  لگاکر کہ اس نے ان پر فائر کیا اس کومار سکتی ہے! لاش کے اوپر ایک ہتھیار ڈال دینے میں کیا دقت ہے بھلا؟

یعنی کسی کی اور بالخصوص غریب، پسماندہ،محروم، دلت اور اقلیتوں  کی جان تو بالکل ہی محفوظ نہیں رہےگی۔آج کسی کے قتل پر تالیاں بجانے والے یاد رکھیں کہ کل کو ان کے ساتھ بھی ویسا ہو سکتا ہے۔ایک بار غلطی معاف کی جا سکتی ہے، گناہ کبھی معاف نہیں کیا جا سکتا۔

امریکہ کے سابق چیف جسٹس ارل وارن نے اسپانو بنام نیویارک کے فیصلے میں کہا تھا کہ قانون پر عمل کرانے میں پولیس کو پہلے خود قانون پر عمل  کرنا چاہیے۔ہمیں اس پر قطعی کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے نہیں تو ملک سے ‘قانون کا راج’ ختم ہوکر ‘جنگل راج’ قائم  ہو جائےگا۔

قانون کی حفاظت  کرنے میں جو پولیس اہلکار شہید ہوتے ہیں، ان کی شہادت کے ساتھ انصاف کرنے میں حکومت کو دوسروں کے ساتھ ناانصافی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔حکومت کو قانون پر عمل کرنا چاہیے، بذات خود قانون نہیں بن جانا چاہیے۔

(مضمون نگار ریٹائرڈ آئی پی ایس افسرہیں اور کیرل کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس اور بی ایس ایف و سی آر پی ایف میں ایڈیشنل ڈائریکٹرجنرل رہے ہیں۔ )