خبریں

دہلی فسادات: پروفیسر اپوروانند سے پولیس نے پانچ گھنٹے تک پوچھ تاچھ کی، موبائل ضبط

دہلی یونیورسٹی کےپروفیسر اپوروانند نے بتایا کہ دہلی فسادات کے معاملے میں ان سے پوچھ تاچھ کی گئی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ پریشان کن بات ہے کہ ایک ایسااصول بنایا جا رہا ہے جہاں مظاہرین کو ہی تشدد کا ذریعہ  بتایا جا رہا ہے ۔ امید کرتا ہوں کہ جانچ پوری طرح سے غیرجانبدارانہ اور منصفانہ ہو۔

پروفیسر اپوروانند(فوٹو:دی وائر)

پروفیسر اپوروانند(فوٹو:دی وائر)

نئی دہلی: دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اور سیاسی مفکر اپوروانند سے سوموار کو دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے پانچ گھنٹے لمبی پوچھ تاچھ کی۔ انہیں دہلی فسادات سے جڑے معاملے میں پوچھ تاچھ کے لیےاسپیشل سیل کے لودھی روڈ واقع آفس بلایا گیا تھا۔منگل کو ایک بیان جاری کرکے اپوروانند نے کہا،‘فروری،2020 میں شمال مشرقی دہلی میں ہوئے تشددسےمتعلق ایف آئی آر 59/20 کےتحت دہلی پولیس کی اسپیشل سیل کے ذریعے مجھے 3 اگست، 2020 کو جانچ کے سلسلے میں بلایا گیا۔ وہاں میں نے پانچ گھنٹے بتائے۔ دہلی پولیس نے آگے کی جانچ کے لیے میرا موبائل فون ضبط کرنا ضروری سمجھا۔’

انہوں نے آگے کہا، ‘پولیس اتھارٹی کے دائرہ اختیار اورمعاملے کی مکمل طور پرغیرجانبدارانہ جانچ کےخصوصی اختیار کا احترام کرتے ہوئے یہ امید کی جانی چاہیے کہ اس پوری تفتیش کا مقصدپرامن شہری مزاحمت اور شمال مشرقی  دہلی کے بے گناہ لوگوں کے خلاف تشدد بھڑ کانے اور اس کی سازش کرنے  والوں کو پکڑنا ہوگا۔’

انہوں نے کہا، ‘اس جانچ کا مقصدشہریت قانون (سی اےاے)2019،این پی آراور این آرسی کے خلاف آئینی  حقوق اور طریقوں سے ملک  بھر میں اپنااحتجاج  درج کرنے والے مظاہرین اور ان کے حامیوں  کو ہراساں  کرنا نہیں ہونا چاہیے۔’اپوروانند نے آگے کہا، ‘یہ پریشان کن بات ہے کہ ایک ایسااصول بنایا جا رہا ہے جس میں مظاہرین کو ہی تشدد کاذریعہ بتایا جا رہا ہے۔ میں پولیس سے یہ اپیل کرنا چاہتا ہوں اور یہ امید کرتا ہوں کہ ان کی جانچ پوری طرح سےغیرجانبدارانہ اور منصفانہ  ہو تاکہ سچ سامنے آئے۔’

اپوروانند دی  وائر کے لیےباقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ مئی مہینے میں انہوں نے دہلی فسادات کے معاملے میں سی اےاے کے خلاف مظاہرہ کرنے والے کئی طلباکی گرفتاری کے بعد جانچ کے بارے میں لکھے ایک مضمون  میں کہا تھا؛

دہلی پولیس اس بات پر یقین کرنے کو کہہ رہی ہے کہ فروری میں دہلی میں ہوئے تشدد کے پیچھے ایک سازش  ہے اور اس میں وہی لوگ شامل ہیں جنہوں نے کسی نہ کسی طور پرشہریت ترمیم  قانون کےخلاف  ہوئے مظاہروں  میں حصہ لیا تھا۔ پولیس کو یہ اسکرپٹ  اس کے سیاسی آقاؤں نے دی اور جانچ ایجنسیوں نے اس کوکہانی کے طور پر فروغ دیا ہے۔

دیگردانشوروں  اور کارکنوں سے بھی ہو سکتی ہے پوچھ تاچھ

دی  وائر نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ نریندر مودی سرکار کے ناقدایسے ہی دیگردانشوراورسماجی کارکنوں کوا سپیشل سیل پوچھ تاچھ کے لیے بلا سکتی ہے۔دہلی پولیس کی ٹیم‘دہلی پروٹیسٹ سپورٹ گروپ’(ڈی پی ایس جی)نام کے وہاٹس ایپ گروپ کےممبروں کے رول  کی جانچ کر رہی ہے۔ اپوروانند بھی اس گروپ کے ممبر تھے۔

حالانکہ اسی دوران دہلی پولیس کپل مشرا اور انوراگ ٹھاکر جیسےبی جے پی رہنماؤں اور ہندوتووادی کارکنوں پر نرمی برت رہی ہے جنہوں نے مسلمانوں اور سی اے اے این ارسی کے خلاف دو مہینے سے زیادہ وقت تک پرامن مظاہرہ کرنے والے لوگوں کے خلاف کھلے عام ہیٹ اسپیچ دیے تھے۔

ڈی پی ایس جی کو ملک  بھر میں سی اے اے کی مخالفت کے لیے رضاکارانہ حمایتی گروپ کے طورپر پچھلے سال دسمبر مہینے کے آخری ہفتے میں بنایا گیا تھا۔گروپ میں فلمسازراہل رائے، صبا دیوان، سیاسی کارکن کویتا کرشنن، یوگیندر یادو، عینی راجہ اورسماجی کارکن  ہرش مندر، گوتم مودی، این ڈی جئے پرکاش، انجلی بھاردواج، ندیم خان سمیت 100 سے زیادہ ممبر ہیں۔

قومی  راجدھانی میں فسادبھڑکنے کے بعد دہلی پولیس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ملک  بھر میں خواتین کی قیادت  میں جن لوگوں نے سی اے اے اوراین آرسی مخالف مظاہرے کی حمایت  کی وہ  کارکن  تشدد کی گہری سازش میں شامل تھے۔حالانکہ، اس دوران اس نے ہندوتووادی کارکنوں کے ذریعے استعمال کی جانے والی اشتعال انگیز حکمت عملی  کو نظر اندازکردیا۔

پنجرہ توڑ کی بانی ممبرنتاشا نروال اور دیوانگنا کلیتا، جے این یو کے سابق طالبعلم عمر خالد اور یونائٹیڈ اگینسٹ ہیٹ کارکن خالد سیفی، عشرت جہاں اور صفورہ زرگر جیسے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے کئی طلبا پر پہلے سے ہی یو اے پی اےکے تحت معاملہ درج ہے۔حال ہی میں عمر خالد کو بھی پوچھ تاچھ کے لیے بلایا گیا تھا لیکن انہیں ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔

پولیس نے اپنے دستاویزوں میں  ڈی پی ایس جی میں سازش کرنے والوں  کے شامل ہونے کی بات کہی ہے اورگروپ  کے کچھ سینئر ممبروں  کو تشددکی سازش کرنے والوں کے طور پر نامزد کیا ہے۔دی  وائر نے اپنی تفصیلی رپورٹ میں پولیس کے دستاویزوں اور ڈی پی ایس جی چیٹ میں بات چیت کا مطالعہ  کیا ہے اور دکھایا ہے کہ کیسے پولیس کی تھیوری بے بنیادہے اور کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہیں۔

اس کے علاوہ، دہلی پولیس کی دنگا جانچ اب عجیب و غریب طریقے سے بھیماکورے گاؤں  معاملے کے ماڈل کی طرح معلوم  ہوتی ہے، جہاں سکیورٹی  ایجنسیوں نے کارکنوں اورمرکزی حکومت  کے ناقدین  پر سنگین دفعات  میں معاملہ درج کیا ہے لیکن ابھی تک ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں دے پائی ہے۔

شاید یہ وہی فطرت ہے، جس کو اپوروانند پریشان کن  بتاتے ہیں، جس میں زندگی بھر فرقہ واریت کی مخالفت کرنے والے کارکن  کو دہلی میں فرقہ وارانہ تشدد کی سازش کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔