خبریں

توہین عدالت کے معاملے میں پرشانت بھوشن کا معافی سے انکار، کہا-افسوس ہے کہ بیان کو غلط سمجھا گیا

سینئر  وکیل پرشانت بھوشن کی جانب سے2009 میں تہلکہ میگزین کو دیےانٹرویو میں سپریم کورٹ کے ججوں کے خلاف غلط تبصرہ  کرنے کاالزام  ہے، جس کے لیے سپریم کورٹ  نے انہیں اور میگزین  کے سابق مدیرترون تیج پال کو معافی نامہ جاری کرنے کو کہا تھا۔

پرشانت بھوشن، فوٹو: پی ٹی آئی

پرشانت بھوشن، فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی:سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے سال 2009 میں تہلکہ میگزین کودیے ایک انٹرویو کے دوران مبینہ  طور پر عدلیہ  کو لےکر کیے گئے ایک تبصرہ پر معافی مانگنے سے انکار کر دیا۔پرشانت بھوشن اور تہلکہ میگزین کے سابق مدیرترون تیج پال کے خلاف سال 2009 میں درج مجرمانہ توہین عدالت  کا معاملہ چل رہا ہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، بھوشن کے آفس کی جانب  سے جاری ایک پریس نوٹ میں کہا گیا کہ جسٹس ارون مشرا کی صدارت میں سپریم کورٹ کی بنچ نے بھوشن اور تیج پال کی جانب  سے پیش سینئر ایڈووکیٹ راجیو دھون اور کپل سبل کو بتایا کہ جج عدالت اور ججوں کے وقار کی حفاظت کے لیے اس معاملے کو ختم  کرنا چاہتے ہیں۔

نوٹ میں کہا گیا،‘عدالت نے متعلقہ فریقین(بھوشن اور تیج پال)سے معافی کے ساتھ بیان جاری کرنے کو کہا ہے تھا۔ پرشانت بھوشن نے معافی مانگنے سے انکار کر دیا ہے لیکن اس تناظر میں بیان جاری کرنے پررضامندی کا اظہار کیا ہے۔’بتا دیں کہ اس پریس نوٹ کو وکیل شیرل ڈی سوزہ نے عدالت کو سونپا۔

بھوشن نے اپنے بیان میں کہا، ‘سال 2009 میں تہلکہ کو دیےانٹریو میں میں نے وسیع معنوں  میں بدعنوانی لفظ  کا استعمال کیا تھا، جس کا مطلب تھا اخلاقیات کی کمی۔ میرا مطلب صرف مالی بدعنوانی یا کسی طرح  کے مالی نفع پانے سے نہیں تھا۔ میں نے جو کچھ کہا، اگر اس سے انہیں یا ان کے اہل خانہ  کو کسی بھی طرح سے ٹھیس پہنچی ہے تو مجھے اس کا افسوس ہے۔’

بھوشن نے کہا، ‘میں عدالتی ادارےکی حمایت کرتا ہوں بالخصوص سپریم کورٹ کی، جس کا میں حصہ ہوں اور میری عدلیہ  کے وقار کو کم کرنے کی کوئی منشا نہیں تھی، جس میں میرا مکمل یقین ہے۔ مجھےافسوس ہے کہ میرے انٹرویو کو غلط سیاق  میں لیا گیا۔’شنوائی کے بعد عدالت نے اپنے آرڈر میں کہا، ‘پرشانت بھوشن اور ترون تیج پال کی جانب سےمعافی نامہ یا وضاحت ابھی تک نہیں ملی ہے۔ ہم معاملے کی شنوائی کریں گے۔ ہم فیصلہ محفوظ  رکھتے ہیں۔’

معاملے کی شنوائی کے بعد جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس کرشن مراری کی بنچ نے ایڈووکیٹ دھون کو بتایا، ‘ہم ہمیشہ اظہار رائے کی آزاد ی  کے لیے ہیں اور اظہار رائے  کی آزادی اور ہتک کے بیچ ایک باریک فرق ہوتا ہے۔’اس کے بعد معاملے کی شنوائی کیمرا ریکارڈنگ کے بنا ہوئی۔ ججوں نے ایڈووکیٹ  دھون اور سبل سے وہاٹس ایپ کال کے ذریعے بات کی۔

بھوشن کے دفتر کی جانب  سے جاری بیان میں کہا گیا، ‘دوپہر کے وقت عدالت میں شنوائی دوبارہ شروع ہونے کے بعد جسٹس مشرا نے اشارہ دیا کہ وہ اس سیاق  میں آرڈر پاس کر سکتے ہیں کہ عدلیہ میں بدعنوانی کو لےکر دیا گیا بیان ہتک  کے برابرہی ہوتا ہے۔ اس پر ڈاکٹر دھون نے انہیں بتایا کہ فریقین  کو سنے بنا اس طرح کےنتائج  پر نہیں پہنچا جا سکتا یا نہیں پہنچا جانا چاہیے۔’