خبریں

یوپی: سی اے اے مظاہرین کے خلاف وصولی کے نوٹس واپس لینے کے بعد حکومت کا یو ٹرن، پھر بھیجے نوٹس

دسمبر 2019 میں سی اے اے مخالف مظاہرین کواتر پردیش حکومت نے وصولی کے نوٹس جاری کیے تھے، اس سلسلے میں سپریم کورٹ نے گزشتہ ماہ اس کی سرزنش کی تو نوٹس واپس لے لیے گئے تھے، لیکن اب از سر نو دوبارہ یہ نوٹس کلیم ٹریبونل کےتوسط سےبھیجے گئے ہیں۔

یوگی آدتیہ ناتھ۔ (تصویربہ شکریہ : فیس بک)

یوگی آدتیہ ناتھ۔ (تصویربہ شکریہ : فیس بک)

نئی دہلی: کچھ دن پہلےہی اتر پردیش (یوپی) حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا تھاکہ اس نے عدالت کی سرزنش کے بعد مبینہ طور پر شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین کو بھیجے گئےوصولی کےنوٹس واپس لے لیے ہیں۔اب کچھ دنوں کے بعد دوبارہ یوپی حکومت نے مبینہ ملزمین کے خلاف کارروائی شروع کی ہے۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، اس بار کئی لوگوں کو کلیم ٹریبونل کے سامنے پیش ہونے کے نوٹس ملے ہیں۔

لکھنؤ زون کےکلیم ٹربیونل کی صدر پریم کلا سنگھ نے مبینہ ملزمین سے کہا ہے کہ وہ ٹریبونل کے سامنے پیش ہوں اور اس سلسلے میں اپنے بیانات ریکارڈ کرائیں کہ ان کے خلاف الزامات کیوں نہ لگائے جائیں۔

یہ کارروائی اس وقت ہوئی ہےجب سپریم کورٹ سرکار کے کلیم ٹریبونل میں جانے کی  درخواست  کومسترد کرچکی ہے۔

فروری کی شروعات میں پرویز عارف ٹیٹو نامی ایک شخص کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور سوریہ کانت کی سپریم کورٹ کی بنچ نے اتر پردیش حکومت سے کہا تھاکہ وہ سی اے اے مخالف مظاہرین کے خلاف وصولی کی کارروائی واپس لے، ورنہ ہم اس عدالت کے وضع کردہ قانون کی خلاف ورزی کے لیے اس کو رد کر دیں گے۔

بتادیں کہ عارف ٹیٹو نے اپنی درخواست میں مطالبہ کیا تھا کہ 2019 کے سی اے اے مخالف مظاہروں کے دوران عوامی املاک کو نقصان پہنچانے کے معاملے میں مبینہ مظاہرین کو ضلعی انتظامیہ کی طرف سے بھیجے گئے وصولی کے نوٹس کورد کیا جائے۔

ساتھ ہی  سپریم کورٹ نے حکومت سے کہا تھا کہ وہ اس مبینہ نقصان کے لیے لوگوں کی طرف سے ادا کیے گئے کروڑوں روپے واپس کرے۔

دسمبر 2019 کے آخر میں اتر پردیش کی حکومت نے مبینہ طور پر توڑ پھوڑ کرنے والوں کے جرم ثابت ہونے سے پہلے ہی ہرجانہ ادا کرنے یا ان کی جائیداد ضبط کرنے کے لیے تیاررہنے کا اعلان کیاتھا۔اور فساد برپا کرنے کے الزام میں 130 سے زائد لوگوں کو تقریباً 50 لاکھ روپے ہرجانے کے لیے نوٹس جاری کیے گئے تھے۔

دی وائر کی رپورٹ میں قانونی ماہرین نے اس قدم کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھایا تھا۔ آدتیہ ناتھ حکومت کی طرف سے کل 274 نوٹس جاری کیے گئے تھے، جن میں سے 236 میں ریکوری آرڈر پاس کیے گئے، جبکہ 38 معاملے کو بند کر دیا گیا۔

سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں دلیل دی گئی تھی کہ نوٹس من مانے ڈھنگ سے بھیجے گئے تھے۔ یہاں تک کہ ان لوگوں کو بھی نوٹس بھیجے گئے جن کی موت  چھ سال قبل ہوچکی  ہے اور جن کی عمر 90 سال سے زیادہ ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے چند دن بعداتر پردیش حکومت نے بنچ کو بتایا کہ اس نے تمام 274 ریکوری نوٹس اور مظاہرین کے خلاف عوامی املاک کو نقصان پہنچانے سے متعلق کارروائی واپس لے لی ہے۔

بنچ نے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل گریما پرساد کی اس دلیل کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھاکہ رقم کی واپسی کی ہدایت دینے کے بجائے مظاہرین اور ریاستی حکومت کو کلیم ٹریبونل سے رجوع کرنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، کانپور کے تمام 21 اور لکھنؤ کے دو افراد، جنہیں پہلے نوٹس ملے تھے، کوکلیم ٹریبونل سے نوٹس موصول ہوئے ہیں۔

ان کے وکیل نے کہا کہ کانپور کے 21 لوگوں میں سے زیادہ تر یومیہ اجرت والے مزدور ہیں اور سبھی نے ضلع انتظامیہ کو 13476 روپے ادا کیے ہیں۔ یہ رقم ابھی تک انہیں واپس نہیں کی گئی ہے۔

اتر پردیش ریکوری آف ڈیمیج ٹو پبلک اینڈ پرائیویٹ پراپرٹی بل 2021 مارچ 2021 میں پاس کیا گیا تھا۔ اس کے تحت مظاہرین کو سرکاری یا نجی املاک کو نقصان پہنچانے کا جرم ثابت ہونے پر ایک سال قید یا 5 ہزار روپے سے لے کر ایک لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا کا اہتمام ہے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)