خبریں

یوپی: عدالت نے کسانوں کے احتجاجی مظاہرہ سے متعلق رپورٹ پر دی وائر اور مدیر کے خلاف درج مقدمہ کو خارج کیا

چھبیس جنوری 2021 کو نئی دہلی میں زرعی قوانین کے خلاف مظاہرہ کے دوران احتجاج کررہے ایک شخص کی موت سے متعلق رپورٹ کے سلسلے میں دی وائر، اس کے مدیر سدھارتھ وردراجن اور رپورٹر عصمت آرا کے خلاف یوپی پولیس کی طرف سے درج کی گئی ایف آئی آر کو خارج کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ خبرمیں  کسی بھی قسم کی اشتعال انگیزی نہیں تھی۔

سدھارتھ وردراجن اور عصمت آرا۔ (فوٹو: دی  وائر )

سدھارتھ وردراجن اور عصمت آرا۔ (فوٹو: دی  وائر )

نئی دہلی: الہ آباد ہائی کورٹ نے دی وائر، اس کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن اور رپورٹر عصمت آرا کے خلاف گزشتہ سال 26 جنوری 2021 کو نئی دہلی میں زرعی قوانین کے خلاف مظاہرہ کے دوران احتجاج کررہے ایک شخص کی موت کی رپورٹ کے سلسلے میں اترپردیش پولیس کے ذریعےدرج کی گئی ایف آئی آر کو خارج کر دیا ہے۔

لائیو لاء نےبتایا کہ عدالت نے کہا کہ اس رپورٹ میں صرف متاثرہ  خاندان کے بیانات شامل تھے  اور ایسا کوئی مواد نہیں ہے،  جس سے اشتعال انگیزی پیدا ہوتی ہو۔

یہ معاملہ پہلی بار 31 جنوری 2021 کو سدھارتھ وردراجن کے خلاف ان کے ایک ٹوئٹ کے سلسلے میں رام پور ضلع کے سول لائنز پولیس تھانے میں درج کیا گیا تھا۔ اس ٹوئٹ میں انہوں نے عصمت آرا کی اسی سال 30 جنوری کو دی وائر میں شائع رپورٹ کو شیئر کیا تھا۔

وردراجن کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 153بی  اور 505 کے تحت معاملہ درج کیے جانے کے ایک دن بعداس میں عصمت اور دی وائر کے نام شامل کیے گئے تھے۔

اس رپورٹ میں 26 جنوری 2021 کو کسانوں کی ٹریکٹر ریلی کے دوران مارے جانے والے نوریت سنگھ کے دادا ہردیپ سنگھ ڈبڈبا کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ان کے پوتے کی موت حادثاتی طور پر نہیں بلکہ گولی لگنے سے ہوئی ہے۔

سنگھ کے اہل خانہ نے دہلی پولیس کے اس دعوے کو ماننے سے انکار کر دیا تھا کہ ان کی موت اس لیے ہوئی کیوں کہ ان کا ٹریکٹر پلٹ گیا تھا۔ ان کا کہنا تھاکہ نوریت کو گولی ماری  گئی ہے۔ جن کسانوں نے کہا تھا کہ وہ آئی ٹی او کے پاس ہونے والے واقعے کے عینی شاہد ہیں، انہوں نے بھی پہلے یہی دعویٰ کیا تھا۔

دی وائر کی رپورٹ میں پولیس اور ہسپتال انتظامیہ کے بیانات بھی شامل کیے گئے تھے۔

دی وائر نے شروع میں  یہ کہتے ہوئے کہ یہ پریس کی آزادی پر حملہ ہے، رام پور، بارہ بنکی اور غازی آباد میں تین الگ الگ رپورٹ پر یوپی پولیس کی طرف سے درج کی گئی تین ایف آئی آر کو رد کرنے کے لیے سپریم کورٹ کا رخ کیا تھا۔ تاہم، دی وائر نے اپنی عرضی اس وقت  واپس لے لی جب عدالت نے کہا کہ اسے پہلےالگ سے  ہائی کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے۔

الہ آباد ہائی کورٹ کے سامنے دی وائر کی نمائندگی اس کی  وکیل سینئر ایڈوکیٹ نتیا رام کرشنن نے کی۔

عدالت نے کیا کہا

لائیو لاء کے مطابق،  بدھ کو عدالت نے کہا کہ دی وائر کی رپورٹ میں سدھارتھ وردراجن یا عصمت آرا نے اپنی رائے کا اظہار نہیں کیا ہے اور اس میں صرف متاثرہ خاندان اور ڈاکٹروں کی بات کو ہی  رکھا گیا ہے۔

جسٹس اشونی کمار مشرا اور جسٹس رجنیش کمار کی ڈویژن بنچ نے کہا، درخواست گزاروں کی طرف سے کی گئی رپورٹ  کے مطالعہ سے اشارہ ملتا ہے کہ اس میں واقعہ کی حقیقت کا ذکر کیا گیا ہے، اس کے بعد اس واقعہ کے تعلق سے اہل خانہ کے بیانات اور ڈاکٹروں کی جانب سے  دی گئی مبینہ جانکاری، یوپی پولیس کی تردید اور اس دن جو کچھ ہوا تھاوہ درج ہے۔

بنچ نے واقعات کی ترتیب پر بھی تبصرہ کیا اور کہا کہ رپورٹ کو بعد میں رام پور پولیس کے بیان کے ساتھ اپ ڈیٹ کیا گیاتھا۔

بنچ نے کہا، یہ رپورٹ 30 جنوری کی صبح 10.08 بجے شائع ہوئی تھی اور اسی دن شام 4.39 بجے رام پور پولیس نے تینوں ڈاکٹروں کی وضاحتیں جاری کی تھیں، جسے عرضی گزاروں نے کچھ منٹوں بعد 4.46 بجے شائع کیا۔

رام پور پولیس نے کہا تھا کہ ‘یہ ٹوئٹ عوام کو اکسانے، فساد پھیلانے اور میڈیکل افسران کی شبیہ کو خراب کرنے والے تھے۔ عدالت نے اس دعوے پر بھی تبصرہ کیا ہے۔

عدالت نے کہا، مذکورہ رپورٹ یہ نہیں بتاتی کہ درخواست گزاروں نے کوئی رائے ظاہر کی تھی، جس کا کوئی نتیجہ نکلا، اس لیے عدالت کو درخواست گزاروں کی طرف سے اس طرح کی کوئی  رائے یا دعویٰ نہیں ملتا جو لوگوں کو اکسایا بھڑکا سکے۔ اس عدالت کے سامنے ایسا کچھ بھی پیش نہیں کیا گیا ہے جس سے یہ ظاہر ہو کہ درخواست گزاروں کی خبر/ٹوئٹ کی اشاعت سے کسی قسم کی ہنگامہ آرائی ہوئی یا فساد ہوا جس کا امن عامہ پر کوئی اثر پڑ سکتا تھا۔

Allahabad HC order quashing… by The Wire

قابل ذکر ہے کہ نوریت سنگھ کی موت صحافیوں اور کانگریس لیڈر ششی تھرور کے خلاف درج کئی ایف آئی آر کے مرکز میں تھی۔

وردراجن اور عصمت آرا کے علاوہ انڈیا ٹوڈے کے صحافی راجدیپ سردیسائی، مرنال پانڈے، ظفر آغا، پریش ناتھ، اننت ناتھ اور ونود کے جوس کے خلاف مدھیہ پردیش، اتر پردیش، ہریانہ، کرناٹک اور دہلی میں بھی ایف آئی آر درج کی گئی تھیں، جہاں ان پر سیڈیشن سمیت کئی الزامات لگائے گئے تھے۔