پاکستانی ان کو ملک میں دہشت گردی کی لہر اور اپنے ہی لوگوں کو ڈالروں کے عوض امریکہ کے سپرد کرنے کا بھی ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، مگر ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ ہندوستان کے ساتھ امن مساعی کے نام پر انہوں نے ایک ماحول تیار کرنے میں مدددی تھی، جس کی وجہ سے کشمیر میں سیاسی جماعتوں بشمول حریت کانفرنس اور دیگر آزادی پسند گروپوں کو سانس لینے کا موقع تو ملا۔
ویڈیو: اپنے ناول ‘نعمت خانہ’ کے انگریزی ترجمہ ‘دی پیراڈائز آف فوڈ’ کے لیے 2022 کا جے سی بی پرائز جیتنے والےممتاز فکشن نویس خالد جاوید سے ان کے تعلیمی سفراور تخلیقی رویوں پر فیاض احمد وجیہہ کی بات چیت۔
گزشتہ دنوں ڈائریکٹر جنرل پولیس اور انسپکٹر جنرل کی میٹنگ میں وزیراعظم اور وزیر داخلہ نے بھی شرکت کی تھی۔ یہاں ریاستوں کے سب سے بڑے پولیس افسران خبردار کر رہے تھے کہ ہندوتوا دی ریڈیکل تنظیمیں ملک کے لیے خطرہ بن چکی ہیں۔ تاہم جیسے ہی یہ خبر باہر آئی، اس رپورٹ کو ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا۔
بجٹ 2023-24 کا پاپولزم یہ ہے کہ اس میں بظاہر سماج کے ہر طبقے کو کچھ نہ کچھ دینے کی بات کی گئی ہے، خواہ وہ خواتین ہوں، آدی واسی ہوں، دلت ہوں، کسان ہوں یا پھر مائیکرو، اسمال، میڈیم انٹرپرائزز۔لیکن اعلانات کا تبھی کوئی مطلب ہوتا ہے، جب ہر ایک کے لیے مناسب فنڈز بھی مختص کیے جائیں۔
بجٹ کو خواہ کتنا ہی بڑھا چڑھا کرپیش کیا جائے، نریندر مودی کے نو سال کے اقتدار کی وراثت — مینوفیکچرنگ، نجی سرمایہ کاری اور روزگار میں جمود کی ہے۔ حالیہ دنوں میں بڑھتی ہوئی مہنگائی ایک اضافی مسئلہ بن گئی ہے۔
سال 2015 اور 2018 میں لگاتار دو بھرتی سائیکل میں، مرکزی حکومت نے کوئی وجہ بتائے بغیر ہزاروں سیٹ خالی چھوڑ دی ہیں۔ دریں اثنا، ہزاروں اہل امیدوار بے روزگاری کا بوجھ لیے گھوم رہے ہیں۔
گاندھی جی کے قتل میں آر ایس ایس کا ہاتھ ہونے کے معاملے کو عدالتی کارروائی پر چھوڑنا مناسب ہے۔لیکن تاریخ نگاری ان کے قتل کے پیچھے چھپے نظریہ کو پکڑنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔
بی بی سی کی دستاویزی فلم ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ میں گجرات دنگوں کے حوالے سے برطانوی حکومت کی غیرمطبوعہ تحقیقاتی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے نریندر مودی کو تشدد کا براہ راست ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تشدد منصوبہ بندتھا اور گودھرا کے واقعہ نے صرف ایک بہانہ دے دیا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کوئی اور بہانہ مل جاتا۔
غیرت نہایت ہی غیر ضروری اور فضول شے ہے۔ اس کے بغیر انسان بنے رہنا بھلے مشکل ہو، غیرت کے ساتھ وائس چانسلر بنے رہنا ناممکن ہے۔ جامعہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وی سی وقتاً فوقتاً اس کی تصدیق کرتے رہتے ہیں۔
یوم جمہوریہ پر خاص: ایک ایسے وقت میں جب آئین کی روح اور اس کے ‘بنیادی ڈھانچے’ کے تحفظ پر بحث چھڑی ہوئی ہے، یہ ضروری ہے کہ اس کی بنیادی روح اور اس کے مقصد کو عام لوگوں تک پہنچایا جائے کیونکہ جب تک ‘جمہور’ ہمارے آئین کو نہیں سمجھے گا، ہمارا جمہوری نظام صرف ایک کھلونا بن کر رہ جائے گا۔
بی بی سی کی دستاویزی سیریز ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ کی دوسری اور آخری قسط منگل کو برطانیہ میں نشر کی گئی۔ اس میں بی جے پی حکومت کے دوران لنچنگ کے واقعات میں ہوئے اضافہ، آرٹیکل 370 کے خاتمہ، سی اے اے اور اس کے خلاف مظاہروں اور دہلی میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے بارے میں بات کی گئی ہے۔
بھارت جوڑو یاترا کے دوران پارٹی کواز سر نو منظم کرنے کے علاوہ راہل نے سول سوسائٹی کے افراد کے ساتھ مل بیٹھ کر ہندو توا نظریہ کے مخالفین کو منظم کرکے ایک نظریاتی محاذ بنانے کی کوشش کی ہے۔
دی ہندو کے سابق ایڈیٹراین رام نے مودی حکومت کی جانب سے بی بی سی کی ڈاکیومنٹری کو سوشل میڈیا پر بلاک کرنے کے حوالے سے کہا کہ انہوں نے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ ہندوستان کا قومی سلامتی اور عوامی نظام اتنا نازک ہے کہ اسے ایک ایسی ڈاکیومنٹری سے خطرہ ہے جو ملک میں نشر نہیں ہوئی ہےاور یوٹیوب/ٹوئٹر تک رسائی رکھنے والی بہت کم آبادی نے اس کو دیکھا ہے۔
آئی ٹی رولزکی مجوزہ ترمیم میں کہا گیا ہے کہ پی آئی بی کی فیکٹ چیک اکائی کی جانب سے ‘فرضی’ قرار دیے گئے مواد کو سوشل میڈیا سمیت تمام پلیٹ فارم سے ہٹانا ہوگا۔ دی رپورٹرز کلیکٹو کی صحافی تپسیا نے بتایا کہ اس فیکٹ چیک یونٹ نے ان کی ایک رپورٹ کو بغیر کسی دستاویزی ثبوت کے صرف منسٹری آف ویمن اینڈ چائلڈ ڈیولپمنٹ کے ایک ٹوئٹ کی بنیاد پر ‘فرضی’ قرار دے دیا تھا۔
‘وکاس’ کا یہ کون سا ماڈل ہے، جو جوشی مٹھ ہی نہیں بلکہ پورے ہمالیائی خطہ میں دراڑیں پیدا کر رہا ہے اور انسانوں کے لیے خطرہ بن رہا ہے؟ سرکاری ‘وکاس’ کی اس وسیع ہوتی دراڑکو اگر اب بھی نظر انداز کیا گیا تو پوری انسانیت ہی اس کی بھینٹ چڑھ سکتی ہے۔
نائب صدر جگدیپ دھن کھڑ نے کیسوانند بھارتی کیس کے فیصلے کے قانونی جواز پر سوال اٹھایا ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ پارلیامنٹ کو آئین میں ترمیم کرنے کا خودمختار حق ہونا چاہیے، چاہے یہ آئین کے بنیادی ڈھانچے اور اصولوں کی خلاف ورزی ہی کیوں نہ ہو۔
ویڈیو: گزشتہ دنوں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سرسنگھ چالک موہن بھاگوت نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ہندو سماج جنگ میں ہے، اس لڑائی میں لوگوں میں شدت پسندی دیکھنے کو ملے گی۔ان کے اس بیان پردہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند سے تبادلہ خیال کر رہے ہیں دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن۔
رام چرت مانس کی جو تنقیدبہار کے وزیر تعلیم نے کی ہے اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے اور نہ ہی اس میں کسی طرح کی کوئی غلطی ہے۔ ان پر حملہ کر کے نام نہاد ہندو سماج اپنی ہی روایت اور فیاضی کی توہین کر رہا ہے۔
وزیر اعلیٰ نتیش کمار اور نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو کا ریاست میں ذات پر مبنی مردم شماری کرانے کا فیصلہ 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے پیش نظر قومی سیاست کو بڑے پیمانے پر متاثر کرنے کا مادہ رکھتا ہے۔
پٹنہ کا سمر چیریٹیبل ٹرسٹ گزشتہ چار سالوں سے پنچایتی سطح پر ‘سدبھاونا کپ’ کے نام سے ایک کرکٹ ٹورنامنٹ کا اہتمام کر رہا ہے، جس میں حصہ لینے والی ٹیموں کے لیے پہلی شرط یہ ہوتی ہے کہ اس کے کھلاڑی سماج کے ہر طبقے اور کمیونٹی سے ہوں۔
شرد یادو تقریباً چار دہائیوں کے طویل سیاسی دور کے اہم کردار اور گواہ بھی رہے ہیں۔ کاش انہوں نے ایک مربوط خود نوشت لکھی ہوتی تاکہ سیاست کی نئی نسل بالخصوص مساوات، سیکولرازم اور سماجی انصاف کے لیے لڑنے والے نوجوان یہ سیکھتے کہ انہیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔
جسٹس ایس اے نذیر کی الوداعی تقریب میں سپریم کورٹ بار کونسل کے صدر نے ان کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ سیکولر ہیں۔ ان کے خیال میں جسٹس نذیرکے سیکولر ہونے کی وجہ یہ تھی کہ وہ بابری مسجد کے تنازعہ میں فیصلہ کرنے والی سپریم کورٹ کی بنچ کے واحد مسلمان رکن تھے، لیکن انھوں نےمندر بنانے کے لیے مسجد کی زمین کو مسجد توڑنے والوں کے ہی سپرد کرنے کے فیصلے پر دستخط کیا۔
بھارت جوڑو یاترا ایک ایسی کوشش ہے،جس کے اثرات مستقبل قریب میں مرتب ہوں گے یا نہیں اور اگر مرتب ہوں گے تو کس قدر، یہ کہنا مشکل ہے۔اسے صرف انتخابی نتائج کے ساتھ جوڑ کر دیکھنا غلط ہوگا۔ اس کی وجہ سے ملک میں بات چیت کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا ہے جو اب تک کے نفرت، تشدد اور انسانیت میں دراڑ پیدا کرنے والے ماحول کے برعکس ہے۔
جب راہل گاندھی نے یہ یاترا شروع کی تو ان کے ناقدین نے اسے ایک اور غیر سنجیدہ پیش قدمی قرار دینے کی کوشش کی۔ اور جب اس کو عوامی حمایت حاصل ہونے لگی تو کہا جانے لگا کہ ابھی 2024 کے انتخابات دور ہیں، تب تک اس کا اثر زائل ہو جائےگا۔
بارہ ابواب پر مشتمل 400صفحات کی اس کتاب میں کشمیر کے سبھی ایشوز خاص طور پر پچھلے تین سال کے دوران پیش آئے واقعات اور ان کے اثرات کا جامع جائزہ لیا گیا ہے۔ انورادھا نے اس کتاب میں ہندوستان کے سیکولر اور لبرل طبقہ کو مخاطب کرکے خبردار کیا ہے کہ موجودہ بی جے پی حکومت کشمیر کو ایک لیبارٹری کی طرح استعمال کر رہی ہے اور اگر اس کو روکا نہ گیاتو یہ تجربات قریہ قریہ، گلی گلی ہندوستان کے دیگر علاقوں میں دہرائے جائیں گے۔
ٹی وی آرٹسٹ تونیشا شرما کی خودکشی کے بعد بحث ذہنی صحت پر ہونی چاہیے تھی کہ اس عمر میں اتنا کام کرنے کا دباؤ کسی کے ساتھ کیا کر سکتا ہے، وہ بھی ایسی دنیا میں جہاں مقابلہ آرائی غیر معمولی ہے۔ لیکن بحث کو ‘لو جہاد’ کا زاویہ دے کر آسان سمت میں موڑ دیا گیا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو پولیس سربراہ کا یہ دعویٰ کہ انہوں نے کشمیر میں نسبتاً امن و امان قائم کروانے میں کامیابی حاصل کی ہے کچھ غلط نہیں ہے۔ مگر یہ قبرستان کی پر اسرار خاموشی جیسی ہے۔خود ہندوستان کے سیکورٹی اور دیگر اداروں میں بھی اس پر حیرت ہے کہ کشمیریوں کی اس خاموشی کے پیچھے مجموعی سمجھداری یا ناامیدی ہے یا یہ کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے۔
نئے سال میں اصل تشویش ہندوستان میں ہندو ذہن کی تشکیل ہے جو احساس برتری کے نشے میں دھت ہے۔ مسلمان بےیارومددگارہیں۔ چند دانشور ہی ان کے ساتھ ہیں۔ کشمیر میں مسلمانوں کو ان کے حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ آسام میں ان کو حاشیے میں دھکیلا جا رہا ہے اور پورے ملک میں قانون اور غنڈوں کی ملی بھگت سے ان کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔
پچھلی صدی کی آخری دو دہائیوں میں اس بات پر بحث ہوتی تھی کہ سادھوی اوما بھارتی زیادہ پرتشدد ہیں یا سادھوی رتمبھرا۔ ان دونوں کی روایت خوب پروان چڑھی۔ اس لیے سادھوی پراچی، سادھوی پرگیہ ٹھاکر جیسی شخصیات کے لیے صرف لوگوں کے دلوں میں ہی نہیں ، بلکہ قانون ساز اسمبلیوں اور پارلیامنٹ میں بھی جگہ بنی۔
مغلوں اور سکھ رہنماؤں کے درمیان تصادم ہوا، لیکن سکھوں نے آج اس حقیقت کو مسلمانوں کے خلاف تشدد کی سیاست کے لیے استعمال کرنے سے گریز کیا ہے۔ یہ بات آر ایس ایس اور بی جے پی کو پریشان کرتی رہی ہے۔ وہ سکھوں کو مسلمانوں کے خلاف تشدد میں ملوث کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے وہ گرو گوبند سنگھ یا گرو تیغ بہادر کو یاد کرتے ہیں۔ ارادہ انہیں یاد کرنے کا جتنا نہیں، اتنا مغلوں کی’ بربریت’ کی یاد کو زندہ رکھنے کا ہے۔
حال ہی میں ہندوستانی خارجی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالیسز ونگ یعنی راء سے وابستہ ایک آفیسر واپالا بالا چندرن نے اپنی کتاب میں دعویٰ کیا ہے کہ 1988میں جنرل ضیا نے محسوس کیا تھاکہ ہوشربا دفاعی اخراجات دونوں ممالک کی اقتصادیات پر ایک بوجھ ہیں اور اس کی وجہ سے وہ اپنی استعداد کے مطابق ترقی نہیں کر پا رہے ہیں۔اس لیے انہوں نے اردن کے اس وقت کے ولی عہد شہزادہ حسن سے ہندوستانی وزیر اعظم راجیو گاندھی کو پیغام پہنچانے اور ثالثی کی درخواست کی۔
سال 2018 میں بھیما کورے گاؤں میں ہونے والے تشدد کے لیے ایلگار پریشد کی تقریب کو ذمہ دار ٹھہرانے کے بعد اس کے کچھ شرکاء سمیت کئی کارکنوں کو حراست میں لیا گیا تھا۔ معاملے کی تحقیقات کرنے والے عدالتی کمیشن کے سامنے ایک پولیس افسر نے اپنے حلف نامے میں تشدد میں ایلگار پریشد کی تقریب کے کسی بھی طرح کے رول سے انکار کیا ہے۔
ویڈیو: سوشل میڈیا سے لے کر ٹی وی چینل تک کووڈ کی ‘نئی’ لہر اور لاک ڈاؤن کے خدشات کے بارے میں بتا رہے ہیں۔ کیا کووڈ-19 کا بی ایف .7 ویرینٹ ابھی ہندوستان میں ملا ہے؟ مرکز کے مطابق، 90 فیصد سے زیادہ آبادی کو ویکسین کی دو خوراکیں مل چکی ہیں، تو پھر ڈرکی وجہ کیا ہے؟ بتار رہی ہیں بن جوت کور ۔
بے باک کلیکٹو کی جانب سے جاری ایک حالیہ رپورٹ میں ملک میں گزشتہ چند برسوں میں فرقہ وارانہ پولرائزیشن اور نفرت انگیز جرائم میں اضافے کے باعث مسلم کمیونٹی کو درپیش سماجی، جذباتی اور مالی مشکلات کا احاطہ کیا گیا ہے۔
ویڈیو: گزشتہ اکتوبر میں عالمی ادارہ صحت نے افریقی ملک گیمبیا میں 70 بچوں کی موت کی ممکنہ وجہ ہریانہ کی میڈن فارماسیوٹیکل کمپنی کی ادویات کو بتایا تھا۔ اب گیمبیا کی پارلیامانی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں اس دعوے کی تصدیق کی ہے۔اس معاملے پر تفصیل سے بتا رہی ہیں دی وائر کی بن جوت کور ۔
ویڈیو: گزشتہ دنوں کولکاتہ انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں امیتابھ بچن نے شہری آزادی اور سینسرشپ پر تبصرہ کیا تھا، جسے مین اسٹریم میڈیا میں نہ کے برابر توجہ دی گئی۔ اس سلسلے میں دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن اور دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند کی بات چیت۔
لڑکیاں اپنی مرضی سے جینا چاہتی ہیں۔ اپنی مرضی سے رشتے بنانا چاہتی ہیں۔ اس کے لیے انہیں اپنے لوگوں سے بھاگنے کی ضرورت نہ پڑے، ایسا معاشرہ بنانے کی ضرورت ہے۔ جب تک وہ نہ بنے، تب تک ان خواتین کو اگر بچایا جانا ہے تو ان کے خاندانوں سے، بابو بجرنگی جیسے غنڈوں سے اور بجرنگ دل جیسی پرتشدد تنظیموں سے۔ لیکن اب اس فہرست میں شامل کرنا ہوگا کہ انہیں اسٹیٹ سے بھی بچانے کی ضرورت ہے۔
ویسے تو ہر سال دسمبر میں بنگلہ دیش کے قیام اور پاکستانی لیڈرشپ کی ناکامی اور ہندوستانی فوج کے کارناموں پر سیر حاصل بحث ہوتی ہے۔مگر اگر دیکھا جائے تو بنگلہ دیش یا مشرقی پاکستان کو ایک الگ ملک بنانے کی بنیاد تو 1947 میں ہی ڈالی گئی تھی، جب پاکستانی حکومت بحیرہ عرب میں جزائر لکشدیپ اور خلیج بنگال میں انڈومان نکوبار جزائر پر اپنا دعویٰ کھو بیٹھی تھی۔
کولکاتہ میں منعقد فلم فیسٹیول میں ستیہ جیت رے کی ‘گن شترو’ کا ذکر کرتے ہوئے امیتابھ بچن کی یہ قیاس آرائی بالکل ٹھیک ہے کہ آج عوام کے لیے آواز اٹھانے والےلوگ رے کی فلم کے ‘ڈاکٹر گپتا’ ہی ہیں، جوعوام کو خبردار کرنا چاہتے ہیں، لیکن اقتدار اس وقت کامیاب ہو جاتی ہے جب عوام انہیں ہی اپنا دشمن سمجھ کر انہیں قتل کرنے کے لیےآمادہ ہوجائے۔
آج کے ہندوستان میں، خاص طور پر ہندوؤں کے لیے ضروری ہے کہ وہ غیر ہندوؤں کے مذاہب، صحیفے، شخصیتوں اور ان کے مذہبی طرز عمل کو جانیں۔ مسلمان، عیسائی، سکھ یا آدی واسی تو ہندو مت کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں، لیکن ہندو اکثر اس معاملے میں صفر واقع ہوئے ہیں۔ بہت سے لوگ محرم پر بھی مبارکباد دے ڈالتے ہیں۔ ایسٹر اور بڑاد دن میں کیا فرق ہے؟ اورآدی واسی عقائد کے بارے میں تو کچھ بھی نہیں معلوم ۔