وفاتیہ: بزرگ صحافی شیتلا سنگھ نہیں رہے۔صحافت میں سات دہائیوں تک سرگرم رہتے ہوئے انہوں نے ملک اور بیرون ملک راست گفتارکی سی امیج اور شہرت حاصل کی اور اپنی صحافت کو اس قدرمعروضی بنائے رکھا کہ مخالفین بھی ان کے پیش کردہ حقائق پر شک و شبہ کی جرأت نہیں کرتے تھے۔
جسٹس ایس اے نذیر کی الوداعی تقریب میں سپریم کورٹ بار کونسل کے صدر نے ان کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ سیکولر ہیں۔ ان کے خیال میں جسٹس نذیرکے سیکولر ہونے کی وجہ یہ تھی کہ وہ بابری مسجد کے تنازعہ میں فیصلہ کرنے والی سپریم کورٹ کی بنچ کے واحد مسلمان رکن تھے، لیکن انھوں نےمندر بنانے کے لیے مسجد کی زمین کو مسجد توڑنے والوں کے ہی سپرد کرنے کے فیصلے پر دستخط کیا۔
ادے پور میں بہیمانہ قتل کے باوجود اس پروپیگنڈے کو قبول نہیں کیا جا سکتا کہ ہندو خطرے میں ہیں۔ اس قتل کے بہانے جو لوگ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں، وہ قتل و غارت گری اور تشددکے پیروکار ہیں۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ ایک منصوبہ بند سازش چلائی جارہی ہے کہ کسی ایک واقعہ پر ہندو اورمسلمان ایک ساتھ ایک آواز میں نہ بول پائیں۔
ایودھیاتنازعہ پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعدجن کو لگتا تھا کہ اس کے نام پرفرقہ وارانہ تعصب کی بلا اب ان کےسر سے ہمیشہ کے لیے ٹل جائےگی،اور سیاسی طور پراس کا غلط استعمال بند ہو جائےگا، ملک کی سیاسی قیادت ان کی معصوم امیدوں پر پانی پھیرنے کو تیار ہے۔
ایودھیا کے ہنومان گڑھی مندر کےمہنت دھرم داس نے ٹرسٹ کے تمام ممبروں کے علاوہ گوسائی گنج کے بی جے پی ایم ایل اے اندر پرتاپ تیواری، ایودھیا کےمیئررشی کیش اپادھیائے کے بھتیجے دیپ نارائن اپادھیائےوغیرہ کے خلاف شکایت کی ہے۔ الزام لگایا کہ دیپ نارائن نے مہنت دیویندر پرساداچاریہ سے 676مربع میٹر زمین20 لاکھ روپے میں خریدی تھی، جسے بعد میں2.5 کروڑ روپے میں مندر ٹرسٹ کو بیچ دیا گیا۔
ماہرین کا خیال ہے کہ رام کے نام پر فنڈ اکٹھا کرنا ایک بہت بڑا فریب ہے۔
عام آدمی پارٹی کے ایم پی سنجےسنگھ اورسماجوادی پارٹی کی حکومت میں وزیر رہے ایودھیا کے سابق ایم ایل اے تیج نارائن ‘پون’ پانڈے نے رام مندرکی تعمیر کرا رہے شری رام جنم بھومی تیرتھ شیتر ٹرسٹ کے جنرل سکریٹری چمپت رائے پر الزام لگائے ہیں کہ انہوں نے ٹرسٹ کے ممبر انل مشرا کی مدد سے مارچ میں دو کروڑ روپے قیمت کی زمین 18 کروڑ روپے میں خریدی تھی۔
رام مندر کے لیے زمین کی خریداری میں مبینہ بدعنوانی کو اب تک کا سب سے بڑا ‘مذہبی گھپلا’قرار دیا جارہا ہے۔
ایودھیا مسجدٹرسٹ- انڈو اسلامک کلچرل فاؤنڈیشن نے دھنی پور میں مجوزہ پروجیکٹ کے نقشے ایودھیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے سپرد کر دیے ہیں۔ سپریم کورٹ کے ذریعےدی گئی اس زمین پر ایک مسجد، ریسرچ سینٹر اور کمیونٹی کچن بنانے کامنصوبہ ہے۔
ویڈیو: ایک سال پہلے فرقہ وارانہ فسادات میں شمال-مشرقی دہلی میں جان ومال کا کافی نقصان ہوا تھا۔ تب دی وائر نے شیو وہار کے متاثرین سے اس موضوع پر بات کی تھی۔ ایک سال بعد انہی لوگوں سے دوبارہ بات چیت۔
ویڈیو: دہلی فسادات کے ایک سال بعد بھی لوگ خوف میں جی رہے ہیں۔ فسادات میں ہوئے جان ومال کے نقصان کی بھرپائی ہو پانا ناممکن ہے۔ د ی وائر نے شیو وہار کے لوگوں سے بات کر کے ان کی پریشانی کو جاننے کی کوشش کی ۔
ایودھیا کے دھنی پور گاؤں میں مختص پانچ ایکڑ زمین پر مسجد، انڈو اسلامک ریسرچ سینٹر، لائبریری اور اسپتال کی تعمیر کے لیے‘انڈو اسلامک کلچرل فاؤنڈیشن’ نام سے ایک ٹرسٹ بنایا گیاہے۔
ایک نوٹیفیکیشن میں سینٹرل بورڈ آف ڈائریکٹ ٹیکس نے ‘شری رام جنم بھومی تیرتھ شیتر’ کو انکم ٹیکس ایکٹ کے تحت ‘تاریخی اہمیت کا حامل اوراہم عوامی عبادت گاہ کے طورپرنوٹیفائیڈکیا ہےاور ٹرسٹ میں چندہ دینے والوں کو 50 فیصدی کی حد تک کٹوتی فراہم کی ہے۔
ایران کے سپریم رہنماآیت اللہ خمینی نے کہا کہ دنیا بھر کے مسلمان ہندوستان میں مسلمانوں کے قتل عام سے غم زدہ ہیں۔ حکومت ہند کو شدت پسند ہندوؤں اور ان کی پارٹیوں کو روکنا چاہیے۔
دہلی اقلیتی کمیشن کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ شمال مشرقی دہلی میں فسادات کے بعد ہزاروں لوگ اتر پردیش اور ہریانہ میں اپنے آبائی گاؤں چلے گئے ہیں۔ نئی دہلی: شمال مشرقی دہلی میں فسادات پر دہلی اقلیتی کمیشن کی ایک رپورٹ میں دعویٰ […]
دہلی کے شمال مشرقی علاقوں میں ہوئے فسادات کے بعد کئی فیملی کےممبر گمشدہ ہیں۔ اہل خانہ کا الزام ہے کہ پولیس اس کو لےکر ایف آئی آر درج نہیں کر رہی ہے اور حکومت سے بھی ان کو ضروری مدد نہیں مل رہی ہے۔
برہم پوری منڈل کے بی جے پی اقلیتی سیل کے صدر محمد عتیق نے کہا کہ میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ‘سب کا ساتھ، سب کا وکاس’ میں یقین کرتا تھا اور بی جے پی کی تنقید کرنے والوں سے بحث کرتا تھا۔ اب کمیونٹی کے لوگ مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ پارٹی نے میرے لیے کیا کیا۔ میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔
شمال مشرقی دہلی کے شیو وہار میں گزشتہ دنوں ہوئے فسادات کے بعد سینکڑوں مسلم فیملی نے مصطفیٰ آباد میں پناہ لی ہے۔ متاثرین کو ڈر ہے کہ اگر وہ واپس جائیںگے، تو ہندوتوا تنظیم کے لوگ ان پر حملہ کر سکتے ہیں۔ نئی دہلی: دہلی کے فساد […]
گزشتہ دو ماہ سے حکمراں جماعت کے لوگ کھلے عام مسلمانوں کے خلاف انتہائی زہریلی اور دھمکی آمیز زبان استعما ل کررہے تھے اور پولیس خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک حکمت عملی کا حصہ تھا تاکہ ملک گیر سطح پر شہریت ترمیم قانون کے خلاف تحریک چلانے والوں کو خوف زدہ کیا جائے۔
قومی راجدھانی دہلی میں ہوئے تشدد کو مبینہ طور پر بھڑکانے والے ہیٹ اسپیچ کے لئے رہنماؤں کےخلاف ایف آئی آر درج کرنے کی اپیل والی ایک عرضی پر فوری سماعت کے مطالبے کوٹھکراتے ہوئے سپریم کورٹ نے بدھ کو معاملے کو سننے کی بات کہی۔
شمال مشرقی دہلی میں ہوئے فسادات کے دوران مصطفیٰ آباد علاقے میں متاثرین کی مدد کے لئے پہنچے سماجی کارکن بھی ڈر سے اچھوتے نہیں تھے۔ ایک ایسے ہی کارکن کی آپ بیتی۔
دہلی فسادات پر سرکاری طور پر رد عمل دینے والا ایران چوتھا مسلم اکثریتی ملک بن گیا ہے۔ اس سے پہلے انڈونیشیا، ترکی اور پاکستان پچھلے ہفتے دہلی کے شمال مشرقی علاقے میں ہوئے تشدد کے خلاف تبصرہ کر چکے ہیں۔
دہلی میں فرقہ وارانہ فسادات کے لیے اپوزیشن جماعتوں نے بی جے پی حکومت کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔
کوئی ہوش میں نہیں تھا۔ آدھی بات سن کر پوری کہانی بنا رہا تھا۔ کسی نے نہیں کہا کہ خود دیکھا ہے۔ بس سنا ہے۔ اتنے پر پیغام آگے بڑھا دیا۔ جس سے بھی پوچھا کسی کے پاس جواب نہیں تھا۔ اتنا ہوش نہیں تھا کہ اگر کچھ سنا ہے تو پہلے چیک کریں۔
دہلی تشدد کا کوئی’ہندو’ یا ‘مسلم’ حزب نہیں ہے، بلکہ یہ لوگوں کوفرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم کرنے کی ایک گھناؤنی سیاسی چال ہے۔ 2002 کے فسادات نے بی جے پی کوگجرات میں ناقابل تسخیر بنا دیا۔ گجرات ماڈل کے اس بےحد اہم پہلو کو اب دہلی میں اتارنے کی کوشش زور شور سے شروع ہو گئی ہے۔
اتر پردیش سنی سینٹرل وقف بورڈ نے ریاستی حکومت کے ذریعے ایودھیا میں دی گئی زمین کو قبول کرتے ہوئے کہا کہ یہاں مسجد کی تعمیر کے ساتھ ہند -اسلامی تہذیب کے مطالعے کے لئے ایک سینٹر، ایک چیرٹیبل ہاسپٹل، پبلک لائبریری اور سماج کے ہر طبقے کی افادیت کی دیگر سہولیات کا انتظام بھی کیا جائےگا۔
اسد الدین اویسی نے مرکزی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ، ایک شخص جو بابری مسجد گرائے جانے کا ملزم ہے، اس کو حکومت نے رام مندر بنانے کاذمہ دیا ہے۔ یہ نیاہندوستان ہے جہاں پرمجرمانہ کاموں کوانعام دیا جاتا ہے۔
کورٹ نے کہا کہ ان عرضیوں میں کوئی میرٹ نہیں ہے۔ کئی مسلم فریق، 40 کارکن، ہندو مہاسبھا اور نرموہی اکھاڑا نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔
ویڈیو: 6 دسمبر 2019 کو بابری مسجد انہدام کے 27 سال پورے ہونے جا رہے ہیں۔ایودھیا میں 27 سال پہلے اسی دن کار سیوکوں نے بابری مسجد کو گرا دیا تھا۔گزشتہ 9 نومبر کو سپریم کورٹ نےبابری مسجد-رام جنم بھومی زمینی تنازعے پر اپنا فیصلہ سناتے ہوئے متنازعہ زمین پرمسلم فریق کا دعویٰ خارج کرتے ہوئے ہندو فریق کو زمین دینے کو کہا ہے۔ساتھ ہی سنی وقف بورڈ کو ایودھیا میں ہی پانچ ایکڑ زمین دینے کا حکم دیا۔اسی مدعے پر دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی نے سماجی کارکن ہرش مندر اور سینئر صحافی قربان علی سے بات چیت کی۔
اسدالدین اویسی نے کہا کہ جب سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں کہتا ہے کہ 1949 میں مورتیاں رکھ دی گئیں۔6 دسمبر کو مسجد کا ڈھانچہ گرائے جانے کو وہ جرم قرار دیتا ہے۔ 1934 میں ہوئے فسادات کو جرم بتاتا ہے۔تو یہ جگہ ہندوؤں کو کیسے مل سکتی ہے؟
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اور ایودھیا تنازعہ میں مسلم فریق کے وکیل راجیو دھون نے منگل کوسوشل میڈیا پر لکھا تھا کہانہیں جمیعۃ چیف مولانا ارشد مدنی کے اشارے پر ان کے وکیل اعجاز مقبول کے ذریعے اس معاملے سے ہٹا دیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل راجیو دھون نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ان کوجمیعۃ کے صدر مولانا ارشد مدنی کے اشارے پر ان کے وکیل اعجاز مقبول کے ذریعے اس معاملے سے ہٹا دیا گیا۔ ان کو ایسا کرنے کا حق ہے، لیکن اس کے لئے بتائی جا رہی وجہ بدنیتی سے بھری اور جھوٹی ہے۔ اب وہ اس معاملے میں دائر ریویو کی عرضی سے کسی طرح سے نہیں جڑے ہیں۔
اترپردیش جمیعۃ علماء ہندکے صدر مولانا سید اشہد رشیدی کی جانب سے دائر عرضی میں کہا گیا ہے کہ جبکہ اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے گنبدوں کو نقصان پہنچانے اور اس کے گرانے کو اپنے علم میں لیا ، پھر بھی متنازعہ مقام اسی فریق کو سونپ دیا جس نے غیرقانونی کاموں کی بنیاد پر اپنا دعویٰ پیش کیا تھا۔
فلم ،ادب اور صحافت سمیت مختلف شعبوں کی معروف مسلم شخصیات نے ایودھیا معاملے میں ریویو پٹیشن کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ معاملے کو جاری رکھنے سے سنگھ پریوار کا ایجنڈہ پورا ہوگا ۔وہیں سنی وقف بورڈ نے کہا کہ – وہ کورٹ کے فیصلے کو چیلنج نہیں کریں گے۔
ایودھیا کے فیصلے کے بعد ‘امن ‘ اور معاملے کے آخرکار ‘ختم ‘ ہونے کی باتوں کے درمیان ان ہزاروں لوگوں کو بھلا دیا گیا ہے، جن کی زندگی بابری مسجد کےانہدام کے بعد برباد ہو گئی۔
ہندوستان میں بھی بابری مسجد گرانے والے لوگ شاید اس وقت اپنے آپ کو ونر محسوس کر رہے ہیں۔ ایک طرف 27 سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود بابری مسجدگرانے اور اس معاملے میں مسلمانوں کا قتل کرنے والے لوگوں کو اب تک کوئی سزا نہیں ہو سکی ہے اوردوسری طرف سپریم کورٹ کے ذریعہ انہی لوگوں کو بابری مسجد کی متنازعہ جگہ پر مندر بنانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ ان دونوں وجہوں سے ہندوستان میں بابری مسجد گرانے میں شامل تنظیموں اور اس سے جڑے لوگوں کا حوصلہ کافی بڑھا ہے اورنتیجتاً ہندو مہاسبھا جیسی ہندو نظریاتی تنظیم ان لوگوں کو ہیروبنا کر پیش کر رہی ہے۔
بک ریویو: شیتلا سنگھ کی یہ کتاب ایودھیا تنازعے کے ہر پہلو کا احاطہ کرتی ہے ، فرقہ پرستی کے عروج اور اس کے عروج میں کانگریس کے کردار کو اجاگر کرتی ہے اور6دسمبر1992 کو بابری مسجد کی شہادت کی مکمل تفصیلات اور اڈوانی ، اومابھارتی اینڈ کمپنی کے ہر ’قصور‘ کو ہم تک پہنچادیتی ہے… یہ کتاب پڑھنی چاہئے ، سب کو پڑھنی چاہئے تاکہ وہ رام جنم بھومی بابری مسجد کا ’سچ‘ جان سکیں…
اب جب ‘ قانون کے ہتھوڑے ‘سے مسجد کو گرایا جائےگا، اور اس کی تصویریں میڈیا چینلوں اور اخباروں میں پوری کمنٹری کے ساتھ نشر کریںگے، تب کیاہوگا؟ کئی چینل ہیں، جو اس کو ‘حملہ آوروں ‘ کی پوری تاریخ کے ساتھ پیش کریں گے۔تب کیا اس کا جشن نہیں منےگا؟ کیا تب یہ سب وہاٹس ایپ پر نہیں چلےگا؟
وہیں ہندو مہاسبھا نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ میں صرف مقدمے میں شامل فریق ہی ریویو پیٹیشن داخل کر سکتے ہیں۔ بورڈ اس معاملے میں پارٹی نہیں ہے، اس لیے اس کو عرضی داخل کرنے کاحق نہیں ہے۔
سپریم کورٹ نے بھی متنازعہ زمین رام للا کو دیتے ہوئے یہ نہیں سوچا کہ اس کافیصلہ نہ صرف 6 دسمبر، 1992 کی توڑپھوڑبلکہ 22-23 دسمبر، 1949 کی رات مسجدمیں مورتیاں رکھنے والوں کی بھی جیت ہوگی۔ ایسے میں عدالت کا ان دونوں کارناموں کوغیر-قانونی ماننے کا کیا حاصل ہے؟