کس کو ہے بولنے کی کتنی آزادی؟
کنال کامرا کے ویڈیو پر پیدا ہوئے سیاسی تنازعہ اور سیاست دانوں کی جانب سے اظہار رائے کی ازادی پر ‘حدود’ طے کرنے کے بارے میں دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن کے ساتھ میناکشی تیواری کی بات چیت۔
کنال کامرا کے ویڈیو پر پیدا ہوئے سیاسی تنازعہ اور سیاست دانوں کی جانب سے اظہار رائے کی ازادی پر ‘حدود’ طے کرنے کے بارے میں دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن کے ساتھ میناکشی تیواری کی بات چیت۔
‘نیا بھارت’ ویڈیو کے بعد درج معاملے میں اسٹینڈ اپ کامیڈین کنال کامرا کو مدراس ہائی کورٹ نے پیشگی ضمانت دی ہے۔ دریں اثنا، پونے میں مبینہ طور پر شیو سینا (یو بی ٹی) کی جانب سے لگائے گئے ایکناتھ شندے کے کارٹون والے پوسٹر پربھی ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلی ایکناتھ شندے کے خلاف طنزیہ تبصرے پر سیاسی تنازعہ کے درمیان اسٹینڈ اپ کامیڈین کنال کامرا نے کہا کہ وہ معافی نہیں مانگیں گے۔ دریں اثنا، سی ایم دیویندر فڈنویس نے کامرا پر آئینی حقوق کا غلط استعمال کرنے کا الزام لگایا ہے اور انہیں ‘اربن نکسل’ بتایا ہے۔
مودی حکومت پر تلخ تبصروں کے لیےمعروف اسٹینڈ اپ کامیڈین کنال کامرا نے اپنے نئے شو ‘نیا بھارت’ میں ‘دل تو پاگل ہے’ گانے کی پیروڈی میں مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کو نشانہ بنایا۔ اس کے بعد شیوسینکوں نے اس کامیڈی کلب میں توڑ پھوڑ کی جہاں یہ شو ریکارڈ کیا گیا تھا۔
کامن ویلتھ ہیومن رائٹس انیشیٹو کی 2024 کے لوک سبھا اور چار اسمبلی انتخابات میں 22 سیاسی پارٹیوں کی طرف سے اکٹھا کیے گئے اور خرچ کیے گئے فنڈ کے بارے میں رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ ملک کی 22 جماعتوں نے مہم پر مجموعی طور پر 3861.57 کروڑ روپے خرچ کیے ہیں۔ اس کا 45 فیصد سے زیادہ بی جے پی نے خرچ کیا۔
لونی کے ایم ایل اے نند کشور گرجر نے اپنی ہی حکومت پر ‘سب سےزیادہ کرپٹ’ ہونے کا الزام لگایا اور کہا کہ یوپی کے چیف سکریٹری دنیا کے سب سے کرپٹ افسر ہیں۔ ایودھیا کی ساری زمین افسروں نے لوٹ لی۔ لوگوں کو فرضی انکاؤنٹر میں مارا جا رہا ہے اور افسر وزیر اعلیٰ کو گمراہ کر رہے ہیں۔
جیسے جیسے مسلمانوں کو 2014 کے بعد سیاسی طور پر بے وزن کر دیا گیا ہے، دہلی کی افطارپارٹیاں بھی قصہ پارینہ بن گئی ہیں۔ ہندوستان میں اس تناظر میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا مسلمانوں کو واقعی سیاسی اچھوت بنایا گیا ہے اور کیا جو پارٹیاں مسلمانوں کے حقوق یاان کی تقریبات میں شرکت کریں گیں ان کو ووٹ نہیں ملیں گے؟
گزشتہ ہفتے کولگام ضلع میں دو لاپتہ بھائیوں کی لاشیں برآمد کی گئی تھیں۔ اہل خانہ نے الزام لگایا ہے کہ لاشوں پر تشدد کے نشانات تھے۔ اس سلسلے میں پولیس پر ویسو گاؤں کے قریب ہائی وے-44 پر احتجاج کے دوران خواتین کے ساتھ بدسلوکی کا الزام لگایا جا رہا ہے۔
بی جے پی لیڈر نے مالیگاؤں میں ‘غیر قانونی بنگلہ دیشی اور روہنگیا’ کے ہونے کے دعوے کیے تھے، جس کے بعد حکومت نے ایس آئی ٹی تشکیل دی اور تحقیقات شروع کی۔ تاہم، اب تک گرفتار کیے گئے لوگوں پر’غیر قانونی تارکین وطن’ ہونے کا الزام نہیں ہے، بلکہ انہیں مبینہ طور پر دستاویز سے متعلق جعلسازی کے لیے گرفتار کیا گیا ہے۔
ریکھا گپتا کو وزیر اعلیٰ بنا کر بی جے پی نے خواتین کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی ہے، جنہیں گزشتہ ایک دہائی سے ہندوستان کی انتخابی سیاست میں ایک نئے ووٹ بینک کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ریکھا گپتا کے علاوہ پرویش ورما، منجندر سنگھ سرسا، رویندر اندراج سنگھ، آشیش سود، کپل مشرا اور پنکج کمار سنگھ نے بھی وزیر کے طور پر حلف لیا۔
‘انڈیا اگینسٹ کرپشن’ کی بے اُصولی سے قطع نطر اپنی فرقہ پرست سیاست کی ہوشیاری کا مظاہرہ عآپ نے گزشتہ 11 سالوں میں بارہا کیا۔ ہر بار کہا گیا کہ وہ اپنے آئیڈیل ازم یا مثالیت پسندی کی منکر ہے۔ لیکن آج تک کسی نے یہ نہیں بتایا کہ وہ آئیڈیل ازم کیا تھا۔ پھر ہم کس آئیڈیل سیاست سے دھوکے پر ماتم کناں ہیں؟
انڈیا ہیٹ لیب کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ 2024 میں سب سے زیادہ 242 ہیٹ اسپیچ کے واقعات اتر پردیش میں درج کیے گئے۔ یہ 2023 کے مقابلے میں 132 فیصد کا اضافہ ہے۔ ہیٹ اسپیچ دینے والے ٹاپ ٹین لوگوں میں بی جے پی کے سینئر لیڈر- یوگی آدتیہ ناتھ، نریندر مودی اور امت شاہ کے نام شامل ہیں۔
آج وہی جماعت، جو کبھی انقلاب کا استعارہ سمجھی جاتی تھی، خود داستانِ عبرت بن چکی ہے۔
بی جے پی 27 سال بعد دہلی میں واپسی کر رہی ہے۔ عام آدمی پارٹی کی شکست کے پیچھے اینٹی انکمبنسی، وعدے پورے نہ کرنا، کانگریس سے اختلافات اور انڈیا الائنس کی ناکامی کو اہم وجہ تصور کیا جا رہا ہے۔
اس الیکشن میں شکست کے باوجود عآپ نے زیادہ تر مسلم اکثریتی سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ تاہم، یہ واضح ہے کہ مسلم ووٹ کچھ حد تک عآپ سے الگ ہوگیا ہے، گزشتہ انتخابات میں ان 10 مسلم اکثریتی سیٹوں میں سے 9 سیٹیں عآپ کے پاس تھیں، جبکہ اس بار کے الیکشن میں عآپ صرف 7 سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوئی ہے۔
انڈیا الائنس کے لیڈروں کی جانب سے اٹھائے گئے ان سوالوں کو اس بات سے تقویت ملتی ہے کہ بھلے ہی کانگریس اپنا کھاتہ تک کھول نہیں پائی، لیکن پارٹی نے کہا کہ انتخابی نتائج وزیر اعظم مودی کی پالیسیوں کی توثیق نہیں بلکہ اروند کیجریوال اور عآپ پر ریفرنڈم ہیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی بھاری اکثریت سے جیت کے بعد حکمران جماعت عام آدمی پارٹی کو عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جبکہ کانگریس کے ہاتھ تیسری بار بھی خالی رہے اور اسے ایک بھی سیٹ نہیں ملی۔
سیاسی جماعتیں خواتین کو کوئی نہ کوئی لالچ دے رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے اس الیکشن کا سب سے بڑا مسئلہ صرف یہی ہے کہ خواتین کو زیادہ سے زیادہ مالی فائدے کیسے دیے جائیں، وہیں سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ دہلی کی خطرناک حد تک آلودہ فضا کسی کو یاد ہی نہیں ہے۔
دہلی کے اسمبلی حلقوں میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا مسلمان عام آدمی پارٹی کو صرف اس لیے ووٹ کر رہے ہیں کہ وہ اسے بی جے پی کے مقابلے واحد متبادل کے طور پر دیکھتے ہیں؟ یا پھراروند کیجریوال کے کام سے مطمئن ہیں؟ یا پھر یہ کہ شمال-مشرقی دہلی کے رائے دہندگان کے لیے 2020 کا دنگا اب بھی انتخابی ایشو ہے؟
ہری نگر اسمبلی سیٹ پر عآپ اور بی جے پی کے امیدوار وی ایچ پی کے ‘شستر دکشا پروگرام’ میں ایک ساتھ شریک ہوئے۔ دونوں نے پوجا کی اور جئے شری رام کے نعرے لگائے۔ وی ایچ پی نے اس پروگرام میں 2100 ہتھیار تقسیم کرنے کی بات کہی۔
ویڈیو: دہلی اسمبلی انتخابات عام آدمی پارٹی کے لیے حکومت بچانے کا ایک موقع ہے اور بی جے پی کے لیے یہ اس کی ساکھ کا سوال ہے۔ دہلی کی سیاست پر دی وائر کے پالیٹکل ایڈیٹر اجئے آشیرواد اور ستیہ ہندی ویب سائٹ کے بانی رکن شیتل پی سنگھ کے ساتھ تبادلہ خیال کر رہی ہیں میناکشی تیواری۔
دہلی یونیورسٹی کے وائس چانسلر یوگیش سنگھ نے 16 جنوری کو دوردرشن کے پریزنٹر اشوک شری واستو کی کتاب ‘مودی بنام خان مارکیٹ گینگ’ کی رونمائی کے موقع پر مودی حکومت اور بی جے پی کے تئیں اپنی حمایت کا اعلان کیا اور کہا کہ یہ کتاب حب الوطنی کو فروغ دیتی ہے۔
بی جے پی نے دہلی کی سڑکوں کی خستہ حالی کا ویڈیو جاری کرکے عام آدمی پارٹی کی حکومت کو نشانہ بنایا ہے۔ آلٹ نیوز کے فیکٹ چیک میں سامنے آیا ہے کہ بی جے پی کے ویڈیو میں دکھائی جانے والی سڑکیں دہلی کی نہیں ہیں، بلکہ فرید آباد، ہریانہ کی ہیں، جہاں بی جے پی اقتدار میں ہے۔
یونائیٹڈ کرسچن فورم کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ملک میں عیسائیوں کے خلاف تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ سال 2024 میں ایسے 834 واقعات کا مشاہدہ کیا گیا ،جو 2023 کے مقابلے ایک سو زیادہ ہے۔ اس طرح کے واقعات کا سب سے زیادہ مشاہدہ یوپی میں کیا گیا، اس کے بعد چھتیس گڑھ میں ایسے سب سے زیادہ واقعات پیش آئے ۔
نند کشور گرجر نے غازی آباد میں صحافیوں کو بتایا کہ ان کی حکومت میں روزانہ 50000 گائیں ذبح کی جا رہی ہیں۔ افسران گائے کی فلاح و بہبود کے لیے آئے پیسےکو کھا رہے ہیں۔ ہر جگہ لوٹ مچی ہے اور اس سب کے سرغنہ چیف سکریٹری ہیں۔ یہ معاملہ وزیر اعلیٰ تک پہنچنا چاہیے۔
بی جے پی نے 19 دسمبر کو جو کچھ بھی کیا اس کی سنگینی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ تشدد کے بعد ہمیشہ شک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ دو فریق بن جاتے ہیں۔ دوسرے فریق کو وضاحت پیش کرنی پڑتی ہے۔ بی جے پی ہر عوامی تحریک یا اپوزیشن کے احتجاج کے دوران تشدد کا سہارا لےکر یہی کرتی ہے۔
جمعرات (19 دسمبر) کو پارلیامنٹ کے احاطے میں اپوزیشن اور بی جے پی کے درمیان جھڑپ ہوگئی۔ کانگریس نے الزام لگایا کہ بی جے پی کے ارکان پارلیامنٹ نے راہل گاندھی کو پارلیامنٹ میں داخل ہونے سے روکا اور ان کے ساتھ بدتمیزی کی۔ وہیں، بی جے پی نے راہل گاندھی پر اپنے ارکان پارلیامنٹ کو چوٹ پہنچانے کا الزام لگایا۔
وزیر اعظم نریندر مودی آئین کے آگے ماتھا ٹیکتے ہیں اور بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کی تصویر کے سامنے ادب سے سر کو خم کرتے ہیں، لیکن سب جانتے ہیں کہ یہ دلت ووٹ حاصل کرنے کے لیے ان کا شو آف ہے۔
لوک سبھا میں اپنی پہلی تقریر میں پرینکا گاندھی واڈرا نے آئین، ریزرویشن اور ذات پر مبنی مردم شماری کے معاملوں پر حکومت کو نشانہ بنایا۔ 1975 کی ایمرجنسی کا ذکر کرتے ہوئے پرینکا نے سبق لینے کی بات کہی اور آئین کے تحفظ پر زور دیا۔
بھوپیندر سنگھ جھالا بی جے پی کارکن ہیں اور ان کی تصویریں گجرات کے وزیر اعلیٰ سمیت بی جے پی کے سینئر لیڈروں کے ساتھ نظر آتی رہی ہیں۔ وہ بی جے پی کو بھاری چندہ بھی دے چکے ہیں۔ رہنماؤں کے ساتھ یہ نزدیکی ان کی اسکیم کے نفاذ کو آسان بناتی تھی۔
آئین کی تمہید سے لفظ ‘سیکولر’ اور ‘سوشلزم’ کو ہٹانے کا مطالبہ جمہوریت اور آئین کے لیے خطرے کی علامت ہے۔ الفاظ میں تبدیلی کے بجائے اپنی ذہنیت میں تبدیلی کا سامان کیا جانا چاہیے۔
امبیڈکر کا کہنا تھا کہ ہندو راج اس ملک کے لیے سب سے بڑی آفت ہوگی کیونکہ ہندو راشٹر کا خواب آزادی، مساوات اور بھائی چارے کے خلاف ہے اور یہ جمہوریت کے بنیادی اصولوں سے میل نہیں کھاتا۔
اس الیکشن میں پرشانت کشور کی پارٹی جن سوراج بھی میدان میں تھی، لیکن وہ کوئی اثر نہیں چھوڑ پائی۔
الیکشن کمیشن نے یوپی میں ضمنی انتخاب کی ووٹنگ کے دوران بڑے پیمانے پر پولیس کی بدسلوکی اور مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے الزامات کے بعد پانچ پولیس اہلکاروں کو معطل کر دیا تھا۔ اس دوران بی جے پی ایم ایل اے شلبھ منی ترپاٹھی اس کی رپورٹنگ کرنے والے مسلمان صحافیوں کی فہرست جاری کرتے ہوئے اسے ‘میڈیا جہاد’ کا نام دے رہے تھے۔
چھتیس گڑھ میں کوئلے کی کانوں کے خلاف آدی واسیوں کی مزاحمت کو روکنے کے لیے اڈانی گروپ نے ان کے ہی علاقے کے لوگوں کو کوآرڈینیٹر بنا دیا ہے۔ وہ گاؤں والوں کے سامنے کمپنی کی بات رکھتے ہیں، گاؤں والوں کو بغیر احتجاج کے معاوضہ قبول کرنے اور مظاہرہ سے دور رہنے کے لیے راضی کرتے ہیں۔ اس حکمت عملی نے قبائلی سماج کو تقسیم کر دیا ہے۔
منی پور کے بی جے پی ایم ایل اے پاؤلن لال ہاؤکیپ نے ایک انٹرویو میں سی ایم بیرین سنگھ کو تشدد کو روکنے میں ناکام قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر ایوان میں اعتماد کے ووٹ کی ضرورت پڑی تو وہ اور ان کے ساتھی دیگر چھ بی جے پی کُکی ایم ایل اے بھی بیرین سنگھ حکومت کی حمایت نہیں کریں گے۔
کانگریس لیڈر ڈولی شرما نے بی جے پی لیڈر اتل گرگ پر الزام لگائے تھے، جس کی بنیاد پر غازی آباد کے صحافی عمران خان نے اپنے اخبار میں خبر شائع کی تھی۔ یوپی پولیس نے اسے ہتک عزت کا معاملہ مانتے ہوئے عمران کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا ہے۔
نیتی آیوگ کے مطابق، بہرائچ اتر پردیش کا غریب ترین ضلع ہے، جس میں کل آبادی کے 55 فیصد لوگ غربت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ لیکن حالیہ دہائیوں میں تیزی سے طاقتور ہوتے گئے ہندوتوا کو یہ المناک یا توہین آمیز نہیں لگتا۔
گزشتہ 13 اکتوبر کو بہرائچ کے مہاراج گنج علاقے میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد میں گوپال مشرا نامی ایک ہندو نوجوان کی گولی لگنے سے موت ہوگئی اور کئی دیگرزخمی ہو گئے۔ سوموار کو مشتعل ہجوم نے مشرا کی موت کے خلاف احتجاج کیا اور دکانوں، گاڑیوں، ایک نجی اسپتال اور دیگر املاک کو آگ کے حوالے کر دیا۔ اسی دوران، بی جے پی ایم ایل اے نے سوشل میڈیا پر مسلمان صحافیوں کی فہرست شیئر کرتے ہوئے ایک اور فرقہ وارانہ آگ بھڑکا دی۔
اتر پردیش میں ایودھیا ضلع کی ملکی پور اسمبلی سیٹ کے آئندہ ضمنی انتخاب میں بھدرسا قصبے کی ایک نابالغ کے ساتھ مبینہ گینگ ریپ کے معاملے کو دیگر انتخابی ایشوز پر حاوی کرنے کی کوششیں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں، جبکہ بھدرسا ملکی پور اسمبلی حلقہ کا حصہ بھی نہیں ہے۔