چھتیس گڑھ کا نارائن پور ضلع ریاست کے آدی واسی علاقوں میں مشنریوں کے ذریعے ‘جبراً تبدیلی مذہب’ کے بی جے پی کے دعووں کا مرکز بن کر ابھرا ہے۔ نئے سال کی شروعات پرحالات اس وقت خراب ہوگئے تھے، جب یہاں کے وشو دیپتی ہائی اسکول کے اندر واقع سیکریڈ ہارٹ چرچ میں بھیڑ نے توڑ پھوڑ کی تھی۔
ویڈیو: حال ہی میں مہاراشٹر کے خواتین اور بچوں کی ترقی کے وزیر منگل پربھات لوڑھا نے اسمبلی میں کہا تھا کہ ریاست میں ‘لو جہاد’ کے ایک لاکھ سے زیادہ معاملے ہیں۔ اب حکومت کی طرف سے تشکیل دی گئی کمیٹی نے کہا ہے کہ مبینہ ‘لو جہاد’ کا ایک بھی کیس ان کے سامنے نہیں آیا ہے۔
ویڈیو: نومبر 2022 سے مہاراشٹر میں نفرت انگیز ریلیوں کا ایک دور شروع ہوا۔ یہ ریلیاں سکل ہندو سماج کی طرف سے منعقد کی جاتی ہیں اور اس دوران مبینہ لو جہاد اور تبدیلی مذہب جیسے مسائل اٹھائے جاتے ہیں۔ پچھلے 5 مہینوں میں مہاراشٹر کے 36 اضلاع میں اس طرح کی 100 سے زیادہ ریلیاں دیکھی گئی ہیں۔
دھوکہ دہی سےہونے والے تبدیلی مذہب کو روکنے کے لیےمرکز اور ریاستوں کو کڑی کارروائی کرنے کی ہدایت دینے کی گزارش کرنے والی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ ہم پورے ملک کے لیے فکر مند ہیں۔ اگر یہ آپ کی ریاست میں ہو رہا ہے تو یہ برا ہے۔ اگر نہیں ہو رہا ہے تو اچھی بات ہے۔ اسے سیاسی ایشو نہ بنائیں۔
گزشتہ دنوں نریندر مودی حکومت نے سپریم کورٹ میں پیش کیے گئے ایک حلف نامے میں کہا ہے کہ ‘مذہب کی آزادی کے حق میں دوسرے لوگوں کو کسی خاص مذہب کے اختیار کرنے کا بنیادی حق شامل نہیں ہے’۔
سپریم کورٹ میں ایک عرضی کی سماعت کے دوران مرکزی حکومت نے اپنے حلف نامے میں کہا ہے کہ مذہب کی آزادی کا حق یقینی طور پر کسی شخص کو دھوکہ دہی، زبردستی یا لالچ کے ذریعے مذہب تبدیل کرانے کا حق نہیں دیتا۔ اس طرح کی روایات پر قابو پانے والے قوانین سماج کے کمزور طبقوں کے حقوق کے تحفظ کے لیےضروری ہیں۔
غیرسرکاری تنظیم سینٹر فار پبلک انٹرسٹ لٹیگیشن نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کی ہے،جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ دلت برادریوں کےان لوگوں کو بھی ریزرویشن اور دیگر فوائد دیے جائیں، جنہوں نےاسلام اور عیسائیت کو اپنا لیا ہے۔
بی جے پی رکن پارلیامنٹ تیجسوی سوریہ نے اُڈپی میں ایک پروگرام کے دوران کہا کہ ہندو مذہب چھوڑ کر گئے لوگوں کی واپس اسی مذہب میں’ٹیپو جینتی’پر ہونی چاہیے اور یہ’گھر واپسی’ہندوؤں کی ذمہ داری ہے۔سوریہ نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کے مسلمانوں کو ہندو مذہب اختیار کرنا چاہیے۔ پاکستان متحدہ ہندوستان کےنظریےمیں شامل ہے۔
معاملہ نیمچ ضلع کےجاود تحصیل کا ہے۔پولیس نے بتایا کہ دو درجن نقاب پوشوں نےمبینہ طور پر ایک درگاہ پر دھماکہ خیز مواد سے حملہ کر کےاس کو نقصان پہنچایا ہے، ساتھ ہی اس کے خادم اور زائرین کی لاٹھی ڈنڈوں سے پٹائی کی۔ حملہ سنیچر کی شب تقریباً11 بجے سے اتوار کی صبح تین بجے تک چلا۔
اتر پردیش کےعلی گڑھ ضلع کا معاملہ۔اہل خانہ نے ایف آئی آر پر حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے لڑکے12ویں میں پڑھتے ہیں اور وہ اپنے دوستوں کے بیچ محض ‘بات چیت’ کر رہے تھے۔ اس کو لےکر بےوجہ کسی نے شکایت درج کرائی ہے۔شکایت درج کرانے والے بی جے پی رہنما نے کہا کہ ویڈیوکی وجہ سے لوگوں میں غصہ ہے اور اس کی وجہ سےمذہبی منافرت پھیل سکتی ہے۔
مبینہ طور پر‘تبدیلی مذہب کا سب سے بڑاریکٹ’چلانے کےالزام میں یوپی اے ٹی ایس نے اسلامی اسکالر مولانا کلیم صدیقی کو گزشتہ 21ستمبر کو میرٹھ سے گرفتار کیا تھا۔ صدیقی کے وکیل نے کہا ہے کہ پولیس ثبوت کے طور پر ان کے یوٹیوب چینل کو پیش کر رہی ہے جو پہلے سے ہی عوامی ہے اور اس میں کچھ بھی مجرمانہ یاملک کے خلاف نہیں ہے۔
اتر پردیش کے کانپور شہر کے برہ علاقے کا معاملہ۔سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے ویڈیو میں کچھ لوگ ایک مسلمان رکشہ ڈرائیورکی پٹائی کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں اور اس سےمبینہ طور پر‘جئے شری رام’کا نعرہ لگانے کو کہہ رہے ہیں۔ پولیس ذرائع نے بتایا کہ متاثرہ رکشہ ڈرائیورکے ایک رشتہ دار کا اس کے پڑوسیوں کے خلاف زمین کو لےکرمقدمہ چل رہا ہے اور جولائی میں اس معاملے میں دونوں فریق نے ایک دوسرے کے خلاف کیس درج کرایا تھا۔
اکالی دل پچھلی کئی دہائیوں سے بی جےپی کا ایک دم چھلہ بن گئی تھی۔ جب اس کے گڑھ پنجاب میں مرکزی حکومت کےکسانوں کے تئیں رویہ کی وجہ سے اس کی سبکی ہو رہی تھی تو وہ اپنی ساکھ بچانے کے لیے بی جے پی اور حکومت سے الگ تو ہوگئی مگر سکھوں کی اکثریت کی حمایت سے ابھی بھی وہ محروم ہے۔ اس لیے کشمیر میں سکھ خطرے میں ہے کاالارام بجا کر وہ اپنا سیاسی الو سیدھا کرنا چاہتی تھی، جس کو مقامی آبادی نے ناکام بنادیا۔
معاملہ ناسک کا ہے، جہاں ایک ہندو خاتون کی مسلمان مرد سے شادی کا کارڈ وہاٹس ایپ پر لیک ہونے کے بعد کچھ لوگوں نے اسے ‘لو جہاد’ بتاتے ہوئے اس کی مخالفت کی۔ گھر والوں کی رضامندی سے شادی کی تقریب 18 جولائی کو ہونی تھی، لیکن اب اسے رد کر دیا گیا ہے۔
ویڈیو: حال ہی میں پیو ریسرچ سینٹر نے 2019 کے اواخر اور 2020 کی شروعات کے بیچ17زبانوں میں لگ بھگ 30000بالغان کےانٹرویوز پر مبنی ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ ‘ہندوستان میں مذہبی رواداری اور علیحدگی’کے عنوان سےاس مطالعے نےہندوستانی سماج میں مذہب کی حرکیات میں جامع بصیرت فراہم کی ہے۔ اس موضوع پر پروفیسر اپوروانند نے ماہر تعلیم پرتاپ بھانو مہتہ کے ساتھ بات چیت کی۔
امریکہ کے پیو ریسرچ سینٹرنے ہندوستان میں مذہبی ہونے کو لےکرسروے رپورٹ شائع کی ہے۔ رپورٹ دکھاتی ہے کہ ہم ہندوستانی دور سے سلام کےاصول پر عمل پیرا ہیں۔ آپ ہم سے زیادہ دوستی کی امید نہ کریں، ہم آپ کو تنگ نہیں کریں گے جب تک آپ اپنے دائرے میں بنے رہیں۔
ویڈیو: کشمیر میں دو سکھ لڑکیوں کے مذہب تبدیل کرنےاور نکاح کا معاملہ طول پکڑ چکا ہے۔ سکھ کمیونٹی کے لوگ کشمیر سے لےکر نئی دہلی تک مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ کشمیر میں آئے دن اغوا، دباؤ بناکر تو کبھی بہلا پھسلاکر لڑکیوں کا مذہب تبدیل کروایا جا رہا ہے۔ اس موضوع پر عارفہ خانم شیروانی نے جموں وکشمیر کے صحافیوں گوہر گیلانی، شاکر میر اور سماجی کارکن کنول جیت کور سے چرچہ کی۔
خاتون کا الزام ہے کہ ان کی شادی سال 2019 میں جبراً کرائی گئی تھی۔انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ میکہ والوں کی طرف سے اس کے جنسی رجحان کا علاج کرانے کے لیے دباؤ بنایا جا رہا ہے۔
گجرات کے وزیر اعلیٰ وجئے روپانی نے گودھرا میں ایک انتخابی ریلی کے دوران کہا کہ ان کی سرکار ایک مارچ سے شروع ہو رہے ودھان سبھاسیشن میں لو جہاد کے خلاف قانون لانا چاہتی ہے تاکہ ہندو لڑکیوں کے اغوا اور تبدیلی مذہب کو روکا جا سکے۔
سخن ہائے گفتنی: محبت کی خاطر کی جا رہی اس جنگ میں یہ ضروری ہے کہ اس کو فوجی کی طرح لڑا جائے اور خوبصورت طریقے سے جیتا جائے۔
دہلی کے ایک وکیل نے بتایا کہ اتر پردیش کے ایٹہ ضلع واقع جلیسر کی خاتون کو ان کی مرضی سے مذہب تبدیل کرواکر شادی کروانے میں مدد کی تھی۔ ڈر کی وجہ سےجوڑا لاپتہ ہو گیاہے۔الزام ہے کہ ان کی تلاش میں اتر پردیش پولیس نے وکیل کی فیملی کے لگ بھگ دس لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔
یوگی آدتیہ ناتھ کا کہنا تھا کہ مسلم لڑکیاں خود ہی ہندو لڑکوں سے شادیاں کرکے بہ رضاو رغبت مذہب تبدیل کرتی ہیں۔
مدھیہ پردیش اور اڑیسہ کےتبدیلی مذہب کے انسداد سے متعلق قوانین میں کہیں بھی بین مذہبی شادی کا ذکر نہیں تھا اور نہ ہی سپریم کورٹ نے اس پر کوئی تبصرہ کیا تھا۔ ایسے میں اتر پردیش سرکار کا ایسا کوئی اختیار نہیں بنتا کہ وہ بنا کسی ثبوت یادلیل کے بین مذہبی شادیوں کو نظم و نسق کے سوال سے جوڑ دے۔
اگرہندوستان میں رہنے والے تمام 172ملین مسلمان بھی صرف ہندو لڑکیوں سے ہی شادیا ں کرتے ہیں، تو بھی 966ملین ہندوؤں کو اقلیت میں تبدیل نہیں کرسکتے ہیں۔
کرناٹک میں‘مورل پولیس’کا کام کرنے سے لےکر اتر پردیش کے مظفرنگر میں فسادات بھڑ کانے تک‘لو جہاد’کا راگ چھیڑ کر ہندو رائٹ ونگ تنظیموں نے اپنے کئی مقاصد کی تکمیل کی ہے۔
ایک طرف ہندوستانی آئین بالغ شہریوں کو اپنا شریک حیات منتخب کرنے کااختیار دیتا ہے، مذہب چننے کی آزادی دیتا ہے، دوسری طرف بی جے پی مقتدرہ حکومتیں آئین کی بنیادی قدروں کے برعکس قانون بنا رہی ہیں۔
ویڈیو: مبینہ لو جہاد کو لےکر اتر پردیش سرکار نے آرڈیننس کو منظوری دے دی ہے۔ اس کے تحت شادی کے لیے فریب، لالچ یا جبراًمذہب تبدیل کرائے جانے پر زیادہ سے زیادہ10 سال کی قیداور جرما نے کی سزا کا اہتمام ہے۔
بی جے پی لو جہاد کے راگ کو کیوں نہیں چھوڑ رہی؟وہ ہندوؤں میں خوف بٹھا رہی ہے کہ ‘ہماری’عورتوں کا استعمال کرکے ‘ودھرمی’اپنی تعداد بڑھانے کی سازش کر رہے ہیں۔ ‘ودھرمیوں’ کی تعداد میں اضافہ پریشانی کا سبب ہے۔ تعداد ہی طاقت ہے اور وہی برتری کی بنیاد ہے۔ اس لیے ایسی ہر شادی یا رشتے کی مخالفت کی جانی ہے، کیونکہ اس سے ‘ودھرمی’ کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔
اتر پردیش کے کانپور شہر میں کچھ رائٹ ونگ ہندو تنظیموں نے الزام لگایا تھا کہ مسلم نوجوان مذہب تبدیل کرانے کے لیے ہندو لڑکیوں سے شادی سے کر رہے ہیں۔ اس کے لیے انہیں دوسرے ملکوں سے فنڈ مل رہا ہے اور لڑکیوں سے انہوں نے اپنی پہچان چھپا رکھی ہے۔ اس کی جانچ کے لیے کانپور رینج کے آئی جی نے ایس آئی ٹی بنائی تھی۔
تمل ناڈو کے نادر گاؤں میں دو دسمبر کو دیوار گرنے سے 17 لوگوں کی موت ہو گئی تھی۔ اس دیوار کو ایک شخص نے اپنے گھر کو دلتوں سے الگ کرنے کے لیے بنایا تھا۔ اس کے خلاف ایس سی/ایس ٹی ایکٹ کے تحت کارروائی نہیں ہونے سے دلت کمیونٹی کے لوگوں نے یہ فیصلہ کیا ہے۔
وزارت داخلہ کی طرف سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق، این جی او کے اہلکاروں، ملازمین اور ہر ممبر کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ تبدیلی مذہب کرانے اور فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلانے کے لئے نہ تو اس کو سزا ہوئی ہے اور نہ ہی مجرم ٹھہرایا گیا ہے۔
راجدھانی بھوپال کے کملا نہرو گرلس ہاسٹل کی طالبات نے وزیر اعلیٰ کو لکھا ہے کہ وارڈن مذہب بدلنے اور ان کے مذہب کے بارے میں تبلیغ کرنے کا دباؤ بناتی ہے ،منع کرنے پر بدسلوکی کی جاتی ہے۔
چیف جسٹس دیپک مشرا کی قیادت والی سہ رکنی بنچ نے کہا کہ ہادیہ بالغ ہے اور وہ اپنی مرضی کے مطابق شادی کرسکتی ہے۔اس لئے ایجنسی اس کے نکاح کی جانچ نہیں کرسکتی ۔
ہادیہ کیس میں تبدیلی مذہب کی آزادی اور اس معاملے کودہشت گردی سے جوڑنے پر منیشا سیٹھی کا تبصرہ۔