اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے لیے نصراللہ کی موت کی خبر ایک ایسے وقت میں بڑا مورال بوسٹر ہے جب ان کی قیادت پر سوالات کیے جا رہے تھے۔ اس نے اسرائیل میں فتح کا احساس دلایا ہے جو نیتن ہاہو کو ااقتدار میں برقرار رہنے کا موقع فراہم کرے گا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن ہاہو نے تہران میں ہنیہ پر حملہ کرکے ایک تیر سے کئی شکار کیے ہیں۔ ایک تو امریکی ایما پر ہو رہی جنگ بندی مذاکرات کا بیڑا غرق کردیا، دوسرا ایران اور مغربی ممالک کے درمیان جوہری معاہدہ پر از سر نو مذاکرات کا راستہ فی الحال بند کردیا اور اسی کے ساتھ اپنے لیے اقتدار میں برقرار رہنے کا جواز بھی فراہم کردیا۔
عصمت کورک اولو نے کہا کہ ان کی سب سے بڑی کامیابی یہی ہے کہ وہ ایک آزاد ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ فلسطین ابھی بھی اس سے کافی دور ہے۔ ہماری عمر تو بس چالیس سال ہے۔ ہم نہایت خوش قسمت ہیں کہ ترکیہ ہماری ضامن ریاست اور ہمارے پڑوس میں ہے۔ فلسطین کے لیے اگر کوئی بد قسمتی ہے، تو یہ ہے اس کی سرحد پر ترکیہ جیسا ملک نہیں ہے، جوان کی حفاظت کرسکتا تھا۔ ہماری بقا ہی ترکیہ کی وجہ سے ہے۔ ورنہ بہت سے طاقتیں ہمارے وجود کے درپے تھی۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان تقریباً 9 ماہ سے جنگ جاری ہے۔ غزہ کی وزارت صحت کا اندازہ ہے کہ فلسطینی علاقے میں گزشتہ ماہ جون تک تقریباً 37000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ میڈیکل جرنل لانسیٹ ے مطابق ، ہلاکتوں کی اصل تعداد 186000 تک ہو سکتی ہے۔
انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے چیف پراسیکوٹر کریم خان نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو، وزیر دفاع یوو گالانٹ اور حماس کے تین رہنماؤں کے خلاف بھی جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا حوالہ دیتے ہوئے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی مانگ کی ہے۔
خصوصی انٹرویو: یہودی عالم ربی یسروئیل ڈووڈ ویس نے کہا کہ، میرا دل غزہ کے لیے خون کے آنسو رو رہا ہے۔
سخن ہائے گفتنی: پوری دنیا میں لاکھوں یہودی، مسلمان، عیسائی، ہندو، کمیونسٹ اور ملحد غزہ کے خلاف فوراً جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ لیکن وہ ملک جو کبھی فلسطین کا خیرخواہ اور سچا دوست تھا، جہاں کبھی لاکھوں لوگوں کے جلوس نکلے ہوئے ہوتے، وہاں کی سڑکیں آج خاموش ہیں۔
غزہ کے مکینوں کو راحت کی چند سانسیں لینے کا موقع ملا ہے۔ مگر کب تک؟ جب تک فلسطین کے مسئلہ کا کوئی پائیدار حل عمل میں نہیں لایا جائےگا، تب تک جنگ بندی عارضی ہی رہےگی۔ پائیدار حل ہی میں اسرائیل کی سلامتی بھی ہے۔
فلسطین میں جاری تنازع کو پچاس سے زیادہ دن ہو چکے ہیں، اور اب تک 12000 سے زائد فلسطینی عوام شہید ہوچکے ہیں،لیکن ابھی تک چند ممالک نے ہی فلسطینیوں کی حالت زار پر لب کشائی کی ہے اور ان میں سے بھی صرف ایک ملک یعنی جنوبی افریقہ نے واضح طور پر اسرائیل کے خلاف سفارتی اقدامات کیے ہیں، اور اسرائیلی جارحیت کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔
وفاتیہ: ویوین سلور 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملوں کے بعد غائب تھی، اور گمان تھا کہ شاید حماس کے عسکری اس کو اپنے ساتھ لے کر گئے ہیں اور غازہ میں فلسطینوں میں ان کی مقبولیت اور گڈ ول کی وجہ سے وہ شاید محفوظ ہوں گی۔ ان کا موازنہ ہندوستان میں امن مساعی کے کسی داعی سے کیا جائے، تو وہ آنجہانی نرملا دیش پانڈے تھی۔ وہ ان ہی کی طرح معتدل مزاج کی مالک تھی اور انتہائی اشتعال انگیز لمحات میں بھی اپنے نرم لہجے کو برقرار رکھتی تھی اور شاید ہی ان کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوتی تھی۔
فلسطین اور اسرائیل کی خاطر، جو زندہ ہیں ان کی خاطر اور جو مارے گئے ان کے نام پر، حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے لوگوں کی خاطر اور اسرائیلی جیلوں میں بند فلسطینیوں کی خاطر، ساری انسانیت کی خاطر، غزہ پر حملہ فوراً بند ہونا چاہیے۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے غزہ پٹی میں فوری طور پر انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر گزرتے گھنٹے کے ساتھ سامنے آ رہی تباہی جنگ بندی کی ضرورت کو مزید ضروری بنا دیتی ہے۔ اس دوران انہوں نے حماس کے ذریعے یرغمال بنائے گئے 200 سے زائد اسرائیلیوں کی رہائی کا مطالبہ بھی دہرایا۔
انٹرویو: فلسطینی لیڈر حنان عشراوی کہتی ہیں کہ اسرائیل آج غزہ کے ساتھ جو کچھ کر رہا ہے، وہ کئی دہائیوں سے کر رہا ہے۔ حالیہ اور تازہ حملوں سے قبل غزہ پر پانچ حملوں میں ہزاروں فلسطینی مارے گئے تھے۔یہ ایک منظم دہشت گردی ہے، جو اسرائیل نے برپا کر رکھی ہے۔
انٹرویو: حماس کے نائب سربراہ موسیٰ ابو مرزوق کہتے ہیں کہ ہم ایک آزادی کی تحریک ہیں جو مغربی ممالک کے حمایت یافتہ قبضے کے خلاف لڑ رہے ہیں، اور ہم صرف آزادی چاہتے ہیں۔ جس طرح ہندوستان نے برطانوی قبضے کو مسترد کر کے آخر کار اسے نکال باہر پھینکا، ہم بھی ویسی ہی جنگ لڑ رہے ہیں۔ کیا 1857 کی جنگ جس میں ہزاروں افراد مارے گئے نا جائز تھی؟ اگر وہ جائز تھی اور اس کا دفاع کیا جا سکتا ہے، تو ہماری جدو جہد بھی جائز ہے۔ اگر کوئی اس وقت کہتا کہ یہ عظیم قربانیاں ہم نہیں دینا چاہتے، تو آج تک برصغیر پر برطانیہ قابض ہوتا۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کی گئی قرارداد میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر غزہ میں جنگ بندی کی اپیل کرتے ہوئے بین الاقوامی انسانی قانون کی اہمیت پر زور دیا گیا۔ اس میں یرغمال بنائے گئے تمام شہریوں کی غیر مشروط رہائی اور غزہ کو ضروری سامان کی بلا تعطل فراہمی کی بھی اپیل کی گئی۔ ہندوستان نے اس تجویز پر ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
مصر نے مغربی ایشیا میں جاری تنازع میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور غزہ میں جاری انسانی بحران کا حل تلاش کرنے کی کوشش میں قاہرہ امن سربراہی اجلاس کی میزبانی کی، لیکن اس کا نتیجہ جیسا کہ امید کی جارہی تھی کچھ زیادہ خوش آئند نہیں رہا اور نہ ہی اس میں کوئی حکمت عملی وضع کی گئی۔
حماس کے زیر انتظام چلنے والی وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ غزہ میں آرتھوڈوکس یونانی چرچ پر اسرائیلی فضائی حملے میں کم از کم آٹھ افراد مارے گئے ہیں۔جس وقت یہ حملہ ہوا اس وقت عیسائی اور مسلم کمیونٹی کے تقریباً 500 لوگ یہاں پناہ لیے ہوئے تھے۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جنگ شروع ہونے کے بعد انہیں نقل مکانی کو مجبور ہونا پڑا تھا۔
بتایا گیا ہے کہ اسپتال میں مرنے والوں کی تعداد میں مزید اضافے کا اندیشہ ہے۔ 1982 میں لبنان کے صابرہ اور شتیلا میں اسرائیلی فوج اور اس کے اتحادیوں کے ہاتھوں قتل عام کے بعد کسی ایک واقعے میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی یہ تعداد سب سے زیادہ ہے۔
یوم نکبہ: فلسطین-ہماری آنکھوں کے آگے گم ہوتے ہوئے ایک ملک کا نام ہے۔فلسطین کے زخم سے خون آہستہ آہستہ ٹپک رہا ہے۔ لیکن وہ ہماری روح کو نہیں چھوتا۔ ابھی جو لاکھوں فلسطینی جلاوطن ہیں، کیا ان کو اپنے ملک لوٹنے کا حق نہیں ہے؟ کیا ہم اسرائیل کے جھوٹ کو سچ مان لیںگے۔
امریکی سفارت خانہ کے القدس منتقلی اور فلسطینی مظاہرین پر اسرائیلی جارحیت مشرق وسطی کے پریس کی سب سے نمایاں خبر رہی ، اسی بحران کی پیش نظر تنظیم تعاون اسلامی (OIC) اورعرب لیگ نے ہنگامی اجلاس طلب کیا۔ دوسری بڑی خبروں میں عراقی انتخابات میں غیرمتوقع طور پر مقتدی الصدر کی کامیابی نے میڈیا میں کافی جگہ پائی۔
غزہ کے باشندے اسباب زندگی کے تحفظ کےلیے مزاحمت کررہے ہیں ، نوجوانوں کے پاس گھر خریدنے یا شادی کے پیسے نہیں ہیں اس کی وجہ سے وہ شادیا ں ٹال رہے ہیں اور خودکشی کا تناسب کافی بڑھ چکا ہے۔
کویت سوسائٹی آف انجینئرس، ہندوستانیوں کی ڈگریوں کی بہت باریک بینی سے چھان بین کررہی ہے اور صرف انہیں افراد کو سرٹیفیکٹ جاری کررہی ہے جنہوں نے منظورشدہ(Accredited) کالجز میں انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی ہو،۔