معاملہ غازی آباد کے کراسنگ ریپبلک کی ایک رہائشی سوسائٹی کا ہے، جہاں محمد عالمگیر ایک فلیٹ میں اردو پڑھانے جاتے ہیں۔ منگل کو جب وہ سوسائٹی پہنچے تو ایک شخص نے ان سے سوال جواب شروع کر دیا اور بعد میں انہیں لفٹ سے باہر نکال دیا۔
کرناٹک میں گزشتہ سال ستمبر میں دو لوگوں نے مقامی مسجد کے اندر’جئے شری رام’ کا نعرہ لگایا تھا۔ اس سے متعلق عرضی پر سماعت کرتے ہوئے کرناٹک ہائی کورٹ نے سپریم کورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آئی پی سی کی دفعہ 295 اے کے تحت اسے اس وقت تک جرم نہیں مانا جاسکتا، جب تک کہ اس سے امن و امان کے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہ ہو۔
معاملہ ویر بہادر سنگھ پوروانچل یونیورسٹی کا ہے، جہاں ایک آر ٹی آئی درخواست کے جواب میں یہ انکشاف ہوا ہےکہ فارمیسی کورس کے امتحان میں کچھ طالبعلموں نے ‘جئے شری رام’ اور کرکٹ کھلاڑیوں کے نام لکھے تھے۔ اس کے باوجود انہیں اچھے نمبر دیے گئے۔
اب تک جمعیۃ علماء ہند کے وفد نے 13 متاثرہ مساجد کا دورہ کیا ہے، اور بتایا ہے کہ صرف پلول میں 6 مساجد نذر آتش کی گئیں، ہوڈل میں تین مساجد ، سوہنا میں تین مساجد، اور ایک مسجد گروگرام میں جلائی گئی۔ وفد کا یہ بھی کہنا ہے کہ تشدد کے دوران مذہبی کتابوں کو جلایا گیا اور تبلیغی جماعت کے ساتھ مارپیٹ کی گئی۔
غلامی کے دور میں غیر ملکی حکمرانوں تک نے اپنی پولیس سے عوام کے جان و مال کے تحفظ کی امید کی تھی، لیکن اب آزادی کے امرت کال میں لوگوں کی چنی ہوئی حکومت اپنی پولیس کے بوتے سب کو تحفظ دینے سے قاصر ہے۔
کورٹ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے نوح تشدد کے بعد متاثرہ علاقے میں جاری انہدامی کارروائی پر روک لگا دی ہے۔ عدالت نےکہا کہ لاء اینڈ آرڈر کے مسئلے کا استعمال ضروری قانونی ضابطوں کی پیروی کیے بغیر عمارتوں کو گرانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
ہریانہ کے نوح میں31 جولائی کو ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے سلسلے میں سوشل میڈیا اور کچھ نیوز ویب سائٹ پر ایسے دعوے کیے جا رہے تھے کہ نلہر مہادیو مندر میں پھنسی خواتین کے ساتھ ریپ کیا گیا تھا، پولیس نے ان دعووں کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔
اس ہفتے ہریانہ کے نوح میں تشدد کے بعد ضلع انتظامیہ نے جمعہ کو مکان اور املاک کو مسمار کرنے کا عمل شروع کیا ہے۔ ایک طرف کچھ اہلکار کہہ رہے ہیں کہ توڑ پھوڑ کا تشدد سے کوئی تعلق نہیں ہے تو دوسری طرف کچھ حکام کا دعویٰ ہے کہ کچھ املاک کے مالکان تشدد میں ملوث تھے۔
سوموار کو نوح میں فرقہ وارانہ جھڑپوں کے بعد ریاست کے وزیر داخلہ انل وج نے دعویٰ کیا تھا کہ مسلم فسادیوں نے نلہر مہادیو مندر میں تقریباً 3-4 ہزار لوگوں کو یرغمال بنایا تھا۔ مندر کے پجاری نے دی وائر کو بتایا کہ ایسا نہیں ہوا تھا۔ حالات خراب ہونے کی وجہ سے لوگ وہاں پھنسے ہوئے تھے۔
ہریانہ کے نوح اور گڑگاؤں علاقوں میں جاری فرقہ وارانہ کشیدگی کے درمیان منگل کو گڑگاؤں کے بادشاہ پور میں بریانی بیچنے والی دکانوں کو نشانہ بنایا گیا اور بسئی روڈ کے پٹودی چوک پردکانوں میں توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی۔ دریں اثنا،گڑگاؤں ضلع کے تمام پٹرول پمپوں پر کھلے ایندھن کی فروخت پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
جنوبی کشمیر کے پلوامہ ضلع کے جدورا گاؤں کے لوگوں نے الزام لگایا تھا کہ 23-24 جون کی درمیانی شب کو فوج کے کچھ جوانوں نے مسجد میں گھس کر مؤذن سمیت نمازیوں کو ’جئے شری رام‘ کا نعرہ لگانے کے لیے مجبورکیا۔ اب خود کو اس واقعے کا عینی شاہد بتانے والے ایک شخص نے دی ٹیلی گراف کو بتایا کہ اتوار کو فوج کے سینئر افسر نے گاؤں والوں سے معافی مانگی ہے۔
اتر پردیش کے بلند شہر ضلع کا معاملہ۔شروع میں پولیس نے ملزمین کے خلاف کارروائی کرنے کےبجائے متاثرہ ساحل خان کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا تھا۔ بعد میں ان کے ساتھ مار پیٹ کرنے والے تین ملزمین کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا، ان میں سے دو کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
سوشل میڈیا پر سامنےآئے ویڈیو میں عالمی کتاب میلے میں ایک عیسائی آرگنائزیشن ‘دی گیڈینز انٹرنیشنل’ کے اسٹال پر لوگوں کو’جئے شری رام’، ‘ہر ہر مہادیو’ اور ‘بھارت ماتا کی جئے’ کے نعرے لگاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ مظاہرین نے ‘مفت بائبل بانٹنا بند کرو’ کے نعرے بھی لگائے اور اسٹال پر لوگوں کو عیسائی بنانے کا الزام لگایا۔
یہ واقعہ کرناٹک کے بیدر میں محمود گنوا مدرسہ میں 5 اکتوبر کو پیش آیا۔ معاملہ سامنے آنے کے بعد پولیس نے 9 لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کر کے چار لوگوں کو گرفتار کر لیا ہے۔
سپریم کورٹ میں صحافی محمد زبیر کی عرضی کی سماعت کے دوران حکومت کی طرف سے پیش ہوئے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل ایس وی راجو نے کہا کہ بجرنگ منی ایک ‘قابل احترام ‘ مذہبی رہنما ہیں، جن کے بہت سے پیروکار ہیں۔بجرنگ منی کی مسلمانوں کے خلاف ہیٹ اسپیچ کی ایک طویل تاریخ ہے، جس کی وجہ سے انہیں ایک بار گرفتار بھی کیا گیا تھا۔
ویڈیو: اتر پردیش کے سیتا پور ضلع کے خیر آباد علاقے کے مہنت بجرنگ منی نے 2 اپریل کو ہندو نئے سال اور نوراتری کے موقع پر مسلمان عورتوں کو مبینہ طور پر ریپ کرنے کی دھمکی دی تھی۔ اس معاملے میں اسے گرفتار کیا گیا ہے۔ مدھیہ پردیش پولیس کے ایک سابق سب انسپکٹر کے بیٹے بجرنگ منی پہلے انوپم مشرا کے نام سے معروف تھے۔
اتر پردیش کے سیتا پور ضلع کے خیر آباد کے مہرشی شری لکشمن داس اُداسی آشرم کے مہنت بجرنگ منی پر مسلمانوں کے خلاف توہین آمیز تبصرے کے لیےگزشتہ 8 اپریل کوآئی پی سی کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ مہنت نے یہ بیان نوراتری اور ہندو نئے سال کے موقع پر نکالے گئے جلوس کے دوران پولیس کی موجودگی میں دیا تھا۔
بتایاجاتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف ہیٹ اسپیچ ایک ویڈیو 2 اپریل کو ریکارڈ کیا گیا تھا، جب سیتا پور ضلع کے خیر آباد قصبے کے مہرشی شری لکشمن داس اُداسین آشرم کے مہنت بجرنگ منی داس کے طور پر شناخت کیے گئے ایک شخص نے نوراتری اور ہندو سال نو کے موقع پر جلوس نکالا تھا۔
یہ واقعہ 25 فروری کو جنوبی دہلی کے فتح پوری بیری علاقے میں پیش آیا۔ 35 سالہ پادری پرزبردستی مذہب تبدیل کروانے کا الزام لگاتے ہوئے ہجوم نے ان کو مارا پیٹا اور’جئے شری رام’ کا نعرہ لگانےکومجبور کیا۔ گزشتہ 18 سالوں سے جنوبی دہلی میں رہ رہےپادری نے بتایا کہ 15 سال پہلے بھی انہیں ایک گروہ نےسنجے کالونی علاقے میں نشانہ بنایا تھا۔
کچھ عرصہ سے ہندو انتہاپسندوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس کو یہ خیال ستا رہا ہے دلیپ کمار عرف یوسف خان سے شروع ہو کر شاہ رخ خان تک اداکاروں کی ایک بڑی کھیپ، سوسائٹی کے لیے رول ماڈل کا کام کرتے ہیں۔ اسی لیے پچھلے کئی برسوں سے بالی ووڈ ان کے نشانے پر ہے۔
ایودھیا میں صدر رام ناتھ کووند کو اپنے خطاب میں نہ اودھ کی‘جو رب ہے وہی رام ہے’ کی گنگا جمنی تہذیب کی یاد آئی، نہ ہی اپنے آبائی شہر کانپور کےاس رکشےوالے کی، جسے گزشتہ دنوں بجرنگ دل کے کارکنوں نے مسلمان ہونے کی وجہ سے پیٹا اور جبراً ‘جئے شری رام’ بلوا کر اپنی ‘انا’ کی تسکین کا سامان کیا تھا۔
گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے ایک ویڈیو میں بزرگ مسلمان عبدالصمدسیفی نے غازی آباد کے لونی علاقے میں چار لوگوں پر انہیں مارنے، داڑھی کاٹنے اور ‘جئے شری رام’ بولنے کے لیے مجبور کرنے کا الزام لگایا تھا۔واقعہ کے بعد سماجوادی رہنما امید پہلوان ادریسی نے ان کے ساتھ فیس بک لائیو کیا تھا۔
غازی آباد پولیس نےسوموار دیر شام نوٹس جاری کر ٹوئٹر انڈیا کے ایم ڈی کو آگاہ کیا کہ اگر وہ 24 جون کو اس کے سامنے پیش نہیں ہوئے تو اسے جانچ میں رکاوٹ کے مترادف مانا جائےگا اور قانونی کارروائی کی جائےگی۔
ٹوئٹرکی جانب سے یہ کارروائی یوپی پولیس کے ذریعےمبینہ طور پرفرقہ وارنہ کشیدگی کو بڑھاوا دینے کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے خلاف چل رہی جانچ کے مد نظر کی گئی ہے۔ غازی آباد کے لونی میں ایک بزرگ مسلمان کے ساتھ مارپیٹ، ان کی داڑھی کاٹنے اور انہیں‘جئے شری رام’بولنے کے لیے مجبور کرنے کے واقعہ سے متعلق ویڈیو/خبر ٹوئٹ کرنے کو لےکردی وائر اور ٹوئٹر کے ساتھ کئی صحافیوں اور رہنماؤں کے خلاف کیس درج کیا گیا ہے۔
سماجوادی پارٹی کےرہنما امید پہلوان ادریسی نے مذہبی وجوہات سے حملے کا شکار ہونے کا دعویٰ کرنے والے 72سالہ عبدالصمد سیفی کے ساتھ فیس بک لائیوکیا تھا۔الزام ہے کہ اتر پردیش کے غازی آباد کے لونی علاقے میں چار نوجوانوں نے سیفی کو ‘جئے شری رام’کے نعرے لگانے کو مجبور کیا تھااور اس کی داڑھی کاٹنے کے ساتھ ان کے ساتھ مارپیٹ کی تھی۔
اتر پردیش کے غازی آباد کے لونی میں گزشتہ پانچ جون کو ایک بزرگ مسلمان پرحملہ کرنے کےمعاملے میں پولیس نے ٹوئٹر انڈیا کےایم ڈی کو نوٹس بھیج کر جانچ میں شامل ہونے کے لیے کہا ہے۔ معاملے سے متعلق ویڈیو/خبر ٹوئٹ کرنے کو لےکر دی وائر اور ٹوئٹر سمیت کئی صحافیوں کے خلاف کیس درج کیا گیا۔ اس بیچ عدالت نے بزرگ پر حملے کے ملزم9 لوگوں کو ضمانت دے دی ہے۔
اتر پردیش کے غازی آباد کے لونی میں گزشتہ پانچ جون کو ایک بزرگ مسلمان پرحملہ کرنے کا معاملہ سامنے آیا تھا۔متاثرہ کاالزام تھا کہ حملہ آوروں نے ان کی داڑھی کاٹ دی تھی اور ان سے جبراً ‘جئے شری رام’ کا نعرہ لگانے کو کہا تھا۔اس معاملے سے متعلق ویڈیو/خبر ٹوئٹ کرنے کو لےکر دی وائر سمیت کئی صحافیوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
اتر پردیش کے غازی آباد کے لونی علاقے میں عبدالصمد سیفی نام کے ایک بزرگ مسلمان پر حملہ کرنے اور انہیں‘جئے شری رام’ کہنے پر مجبور کرنے کا معاملہ سامنے آیا تھا۔ اس سلسلے میں دہلی کے تلک مارگ تھانے میں دی گئی ایک شکایت میں اداکارہ سورا بھاسکر، ٹوئٹر کے ایم ڈی منیش ماہیشوری، دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی، ٹوئٹر انک، ٹوئٹر انڈیا اور آصف خان کا نام شامل ہے۔
اتر پردیش کے غازی آباد کے لونی علاقے میں عبدالصمد سیفی نام کے ایک بزرگ مسلمان پر حملہ کرنے اور انہیں ‘جئے شری رام’ کہنے پر مجبور کرنے کا معاملہ سامنے آیا تھا۔ متاثرہ کے بیٹے کا کہنا ہے کہ والد نےتحریری شکایت میں ان کے ساتھ ہوئی بدسلوکی کو بیان کیا ہے، لیکن پولیس نے جو ایف آئی آر لکھی ہے، اس میں اہم تفصیلات کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔
دی وائر سمیت دیگر میڈیا اداروں نے اتر پردیش کے غازی آباد کے لونی علاقے میں ایک بزرگ مسلمان پر حملہ کر انہیں ‘جئے شری رام’ کہنے پر مجبور کرنے کا الزام لگانے سے متعلق خبر شائع کی تھی۔ اس کو لےکر دی وائر اور دیگرتمام لوگوں کے خلاف یوپی پولیس نے کیس درج کر دیا ہے۔
غازی آباد میں ایک بزرگ مسلمان کی بے رحمی سے پٹائی کے سلسلے میں ٹوئٹ کرنے کے معاملے میں منگل کی دیر رات کو آلٹ نیوز کے محمد زبیر،صحافی رعنا ایوب، دی وائر، کانگریس رہنما سلمان نظامی، مشکور عثمانی، شمع محمد، صبا نقوی، ٹوئٹر انک و ٹوئٹر کمیونی کیشن انڈیا پی وی ٹی کے خلاف پولیس نے ایف آئی آر درج کی ہے۔
اتر پردیش میں غازی آباد کے لونی میں یہ واقعہ گزشتہ پانچ جون کو رونماہوا۔ اس سے متعلق ویڈیو کچھ دن پہلے ہی سوشل میڈیا پر سامنے آیا ہے۔ اس مبینہ ویڈیو جس میں بلندشہر کے رہنے والے عبدالصمدسیفی کو کم از کم دو ملزمین کے ذریعےپیٹتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ان میں سے ایک سیفی کو مارتا ہے اور ان کی داڑھی کاٹنے کی کوشش کرتا ہے۔
ویڈیو: ایک سال پہلے فرقہ وارانہ فسادات میں شمال-مشرقی دہلی میں جان ومال کا کافی نقصان ہوا تھا۔ تب دی وائر نے شیو وہار کے متاثرین سے اس موضوع پر بات کی تھی۔ ایک سال بعد انہی لوگوں سے دوبارہ بات چیت۔
ویڈیو: دہلی فسادات کے ایک سال بعد بھی لوگ خوف میں جی رہے ہیں۔ فسادات میں ہوئے جان ومال کے نقصان کی بھرپائی ہو پانا ناممکن ہے۔ د ی وائر نے شیو وہار کے لوگوں سے بات کر کے ان کی پریشانی کو جاننے کی کوشش کی ۔
مشرقی چمپارن ضلع کے مہسی تھانہ حلقہ کے ایک نوجوان محمد اجرائیل کا الزام ہے کہ دو جون کو پڑوس کے ایک گاؤں میں اپنے دوست سے ملنے جانے کے دوران ایک گروپ نے انہیں روک کر جئے شری رام کا نعرہ لگانے کو کہا۔ ایسا نہ کرنے پر گا لی گلوچ کرتے ہوئے بری طرح مارپیٹ کی گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ حملہ آور بجرنگ دل کے لوگ ہیں۔
ایران کے سپریم رہنماآیت اللہ خمینی نے کہا کہ دنیا بھر کے مسلمان ہندوستان میں مسلمانوں کے قتل عام سے غم زدہ ہیں۔ حکومت ہند کو شدت پسند ہندوؤں اور ان کی پارٹیوں کو روکنا چاہیے۔
دہلی اقلیتی کمیشن کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ شمال مشرقی دہلی میں فسادات کے بعد ہزاروں لوگ اتر پردیش اور ہریانہ میں اپنے آبائی گاؤں چلے گئے ہیں۔ نئی دہلی: شمال مشرقی دہلی میں فسادات پر دہلی اقلیتی کمیشن کی ایک رپورٹ میں دعویٰ […]
دہلی کے شمال مشرقی علاقوں میں ہوئے فسادات کے بعد کئی فیملی کےممبر گمشدہ ہیں۔ اہل خانہ کا الزام ہے کہ پولیس اس کو لےکر ایف آئی آر درج نہیں کر رہی ہے اور حکومت سے بھی ان کو ضروری مدد نہیں مل رہی ہے۔
برہم پوری منڈل کے بی جے پی اقلیتی سیل کے صدر محمد عتیق نے کہا کہ میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ‘سب کا ساتھ، سب کا وکاس’ میں یقین کرتا تھا اور بی جے پی کی تنقید کرنے والوں سے بحث کرتا تھا۔ اب کمیونٹی کے لوگ مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ پارٹی نے میرے لیے کیا کیا۔ میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔
شمال مشرقی دہلی کے شیو وہار میں گزشتہ دنوں ہوئے فسادات کے بعد سینکڑوں مسلم فیملی نے مصطفیٰ آباد میں پناہ لی ہے۔ متاثرین کو ڈر ہے کہ اگر وہ واپس جائیںگے، تو ہندوتوا تنظیم کے لوگ ان پر حملہ کر سکتے ہیں۔ نئی دہلی: دہلی کے فساد […]