کشمیر میں عوام کی اس دورہ کے تئیں دلچسپی کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ اس کو ایک سیاسی عمل کے احیا کا ذریعہ سمجھتے تھے اور سیاسی گھٹن سے نجات چاہتے تھے۔ سیاسی مبصرین بھی خبردار کر رہے ہیں کہ ایک لمبے عرصے تک کسی خطے کو سیاسی عمل سے دور رکھنا، خطرناک عوامل کا حامل ہوسکتا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ کشمیر میں سبھی روایتی سیاسی قوتوں کی ایک طرح سے زبان بندی کرکے ان کو بے وزن کر دیا گیا ہے۔ کشمیر میں واقعی ایک امن ہے، مگریہ قبرستان کی خاموشی ہے۔
جموں و کشمیر انتظامیہ نے مبینہ طور پر تقریباً 7000 ملازمین کو سری نگر کے بخشی اسٹیڈیم میں ایک ریلی میں شرکت کی ہدایت دی ہے، جہاں وزیر اعظم نریندر مودی 7 مارچ کو خطاب کرنے والے ہیں۔ یہ ریلی گزشتہ نو سالوں میں سری نگر میں مودی کی پہلی ریلی ہوگی۔
ویڈیو: اتوار کو پٹنہ کے گاندھی میدان میں ‘انڈیا’ اتحاد کے رہنماؤں کی موجودگی میں تیجسوی یادو نے مہاریلی میں نتیش کمار اور بی جے پی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ریلی کے اثرات کے حوالے سے اجئے کمار کی بہار کے صحافیوں سے بات چیت۔
اب تک جمعیۃ علماء ہند کے وفد نے 13 متاثرہ مساجد کا دورہ کیا ہے، اور بتایا ہے کہ صرف پلول میں 6 مساجد نذر آتش کی گئیں، ہوڈل میں تین مساجد ، سوہنا میں تین مساجد، اور ایک مسجد گروگرام میں جلائی گئی۔ وفد کا یہ بھی کہنا ہے کہ تشدد کے دوران مذہبی کتابوں کو جلایا گیا اور تبلیغی جماعت کے ساتھ مارپیٹ کی گئی۔
غلامی کے دور میں غیر ملکی حکمرانوں تک نے اپنی پولیس سے عوام کے جان و مال کے تحفظ کی امید کی تھی، لیکن اب آزادی کے امرت کال میں لوگوں کی چنی ہوئی حکومت اپنی پولیس کے بوتے سب کو تحفظ دینے سے قاصر ہے۔
کورٹ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے نوح تشدد کے بعد متاثرہ علاقے میں جاری انہدامی کارروائی پر روک لگا دی ہے۔ عدالت نےکہا کہ لاء اینڈ آرڈر کے مسئلے کا استعمال ضروری قانونی ضابطوں کی پیروی کیے بغیر عمارتوں کو گرانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
ہریانہ کے نوح میں31 جولائی کو ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے سلسلے میں سوشل میڈیا اور کچھ نیوز ویب سائٹ پر ایسے دعوے کیے جا رہے تھے کہ نلہر مہادیو مندر میں پھنسی خواتین کے ساتھ ریپ کیا گیا تھا، پولیس نے ان دعووں کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔
نوح میں ہوئے واقعے کے خلاف احتجاج کے طور پربجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد جیسی ہندوتوا تنظیموں نے حصار ضلع کے ہانسی شہر میں 2 اگست کوایک ریلی نکالی تھی، جس میں مسلم دکانداروں کے بائیکاٹ کی اپیل کرنے کے ساتھ ہی مسلمانوں کو دو دن میں شہر چھوڑنے کی وارننگ دی گئی۔
اس ہفتے ہریانہ کے نوح میں تشدد کے بعد ضلع انتظامیہ نے جمعہ کو مکان اور املاک کو مسمار کرنے کا عمل شروع کیا ہے۔ ایک طرف کچھ اہلکار کہہ رہے ہیں کہ توڑ پھوڑ کا تشدد سے کوئی تعلق نہیں ہے تو دوسری طرف کچھ حکام کا دعویٰ ہے کہ کچھ املاک کے مالکان تشدد میں ملوث تھے۔
سوموار کو نوح میں فرقہ وارانہ جھڑپوں کے بعد ریاست کے وزیر داخلہ انل وج نے دعویٰ کیا تھا کہ مسلم فسادیوں نے نلہر مہادیو مندر میں تقریباً 3-4 ہزار لوگوں کو یرغمال بنایا تھا۔ مندر کے پجاری نے دی وائر کو بتایا کہ ایسا نہیں ہوا تھا۔ حالات خراب ہونے کی وجہ سے لوگ وہاں پھنسے ہوئے تھے۔
ہریانہ کے نوح اور گڑگاؤں علاقوں میں جاری فرقہ وارانہ کشیدگی کے درمیان منگل کو گڑگاؤں کے بادشاہ پور میں بریانی بیچنے والی دکانوں کو نشانہ بنایا گیا اور بسئی روڈ کے پٹودی چوک پردکانوں میں توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی۔ دریں اثنا،گڑگاؤں ضلع کے تمام پٹرول پمپوں پر کھلے ایندھن کی فروخت پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
ہریانہ کے نوح میں فرقہ وارانہ تشدد کے بعد انٹرنیٹ خدمات بند کرنے کے ساتھ ہی امتناعی احکامات نافذ کر دیے گئے ہیں۔ سوموار کی شام تک تشدد گڑگاؤں کے قریب سوہنا چوک تک پھیل گیا تھا، جہاں مبینہ طور پربجرنگ دل کے ارکان نے کچھ گاڑیوں میں آگ لگا دی تھی اور دکانوں میں توڑ پھوڑ کی تھی۔
وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) نے گزشتہ اتوار کو گڑگاؤں میں ‘بھویہ بھگوا یاترا’ کا اہتمام کیا تھا۔ گڑگاؤں پولیس حکام نے کہا کہ یہ ریلی غیر قانونی تھی، کیونکہ اس کے لیے اجازت نہیں لی گئی تھی۔ تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ ابھی تک اس میں ملوث افراد کی شناخت نہیں ہوسکی ہے اس لیے اب تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔
ہندوستان کے لیے گجرات کے انتخابی نتائج کے نظریاتی مضمرات بہت سنگین ہوں گے۔ مسلمان اور عیسائی مخالف نفرت اور تشدد گجرات کے باہر بھی شدت اختیار کریں گے۔ مزدوروں، کسانوں، طلبہ وغیرہ کے حقوق کو محدود کرنے کے لیے قانونی طریقے اپنائے جائیں گے۔ آئینی اداروں پر بھی دباؤ بڑھے گا۔
حال ہی میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے گجرات میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے 2002 کے فسادات کے سلسلے میں تبصرہ کیا تھا کہ بی جے پی نے فرقہ وارانہ تشدد میں شامل لوگوں کو سبق سکھایا تھا۔ سابق بیوروکریٹس اور حقوق کے کارکنوں نے اسے ماڈل ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
اسمبلی انتخابات کے پیش نظر مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے کھیڑا ضلع کے مہودھا شہر میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس کے دور حکومت میں ریاست میں اکثر فرقہ وارانہ دنگے ہوتے تھے۔ ریاست میں آخری بارپوری طرح سے کانگریس کی حکومت مارچ 1995 میں تھی۔ بی جے پی ریاست میں 1998 سے اقتدار میں ہے۔
اڑیسہ کے برگڑھ علاقے میں امبیڈکر جینتی کے موقع پر 14 اپریل کو بھیم آرمی کی قیادت میں ایک بائیک ریلی نکالی گئی تھی۔ الزام ہے کہ اس ریلی پر بجرنگ دل کے 40-50 کارکنوں نے لاٹھی-ڈنڈوں اور چاقوؤں سے حملہ کر دیا تھا، جس میں 25 لوگ زخمی ہوگئے تھے۔ امبیڈکر کے پیروکاروں نے الزام لگایا ہے کہ پولیس ان پر سمجھوتہ کرنے کا دباؤ بنا رہی ہے۔