انتخابی میدان میں یہ فتح ونیش کی لڑائی کا خاتمہ نہیں ہے۔ یہ دراصل شروعات ہے۔ جن عزائم کے ساتھ انہیں ایک کھلاڑی کی حیثیت سے اپنے کیریئر کو عروج پر خیرباد کہتے ہوئے سیاست کا رخ کرنا پڑا، ان کی تکمیل کی راہیں اب یہاں سے شروع ہوتی ہیں۔
ونیش اسٹیڈیم کو خیرباد کہہ کر ایک نئی راہ پر چل پڑی ہیں۔ ان سے پہلے بھی کھلاڑی سیاست میں آئے ہیں، لیکن ان سب نے اپنی مکمل پاری کھیلنے کے بعد پارلیامنٹ کا رخ کیا تھا۔ کیا ایک دم سے چنا گیا یہ راستہ ونیش کے لیے ثمر آور ہوگا؟
ہریانہ میں جولانا امیدوار ونیش پھوگاٹ کے عوامی اجلاس کے لیے بھلے ہی کانگریس نے ہریجن بستی کا انتخاب کیا تھا، لیکن جلسے کی تیاری کے لیے ہدایات برہمن دے رہے تھے اور دلت ان کی پیروی کر رہے تھے۔ مایاوتی کی بے عملی کے باوجود محروم سماج اب بھی اپنی قیادت بی ایس پی میں ہی تلاش کر رہا ہے اور سماجی انصاف کے کانگریس کے دعوے پر انہیں بھروسہ نہیں ہے۔
وقتاً فوقتاً جاری ہونے والی سرکاری رپورٹ، پرائیویٹ اداروں کے جاری کردہ لیبر فورس کے اعداد و شمار اور روزگار بازار کے رجحانات سے اپوزیشن پارٹیوں، بالخصوص کانگریس کو یہ اعتماد ملا ہے کہ وہ بے روزگاری کا مسئلہ اٹھا کر بی جے پی کو اقتدار میں واپسی کرنے سے روک سکتی ہیں۔
کانگریس صدر نے پی ایم نریندر مودی کے خلاف الزام لگاتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پی آر کا استعمال کر کے حکومت کو عوام کے بنیادی مسائل سے دور رکھا ہے، لیکن جون 2024 کے بعد ایسا نہیں چلے گا، لوگ اب حساب مانگ رہے ہیں۔
اتر پردیش میں نوجوانوں کے لیے بے روزگاری ایک بڑا مسئلہ بن گئی ہے۔ سرکاری نوکریوں کا خواب دیکھنے والے نوجوانوں کا کہنا ہے کہ بھرتی کے امتحانات کا لمبا انتظار، پھر پیپر لیک کا مسئلہ اور بعض اوقات بڑے پیمانے پر دھاندلی کی وجہ سے امتحانات کا رد ہوجانا بھی اب ریاست میں عام سا واقعہ ہے۔
کئی انتخابات کے بعد ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اپوزیشن اتحاد کے ایشوز عام لوگوں تک پہنچے ہیں اور ان کا اثر بھی پڑ رہا ہے۔
دیگر رپورٹس بھی بتاتی ہیں کہ اگنی پتھ اسکیم کے تحت منتخب ہونے والے بہت سے نوجوانوں نے ٹریننگ کے درمیان ہی نوکری چھوڑ دی تھی۔ یہ نوجوان فوج کی نوکری میں جانا تو چاہتے ہیں، لیکن اگنی پتھ نے ان کے جذبے پر پانی پھیر دیا ہے۔
سی ایس ڈی ایس – لوک نیتی کے ذریعے عوام کے درمیان انتخابی ایشوز پر کیے گئے ایک سروے میں لوگوں نے بے روزگاری، مہنگائی اور ترقی کو 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے لیے تین سب سے زیادہ اہم ایشو مانا ہے۔
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن اور ہیومن ڈیولپمنٹ انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک کے کل بے روزگار نوجوانوں میں تعلیم یافتہ بے روزگاروں کی تعداد سال 2000 کے مقابلے میں دگنی ہو چکی ہے۔ اس وقت تعلیم یافتہ بے روزگارنوجوانوں کی تعداد کل بے روزگار کا 35.2 فیصد تھی، جو 2022 میں بڑھ کر 65.7 فیصد ہو گئی۔
ویڈیو: آئندہ لوک سبھا انتخابات کے پیش نظر ملک کی معیشت، نوکریوں کی صورتحال اور بے روزگاری کے مسائل پر ماہر معاشیات پروفیسر سنتوش مہروترا اور یوا ہلہ بول کے انوپم کے ساتھ تبادلہ خیال کر رہے ہیں یوگیندر یادو۔
نوجوان کی شناخت اتر پردیش کے قنوج کے رہنے والے برجیش پال کے طور پر کی گئی ہے۔ وہ حال ہی میں پولیس بھرتی کے امتحان میں شامل ہوئے تھے اور مبینہ طور پر پیپر لیک سے پریشان تھے۔ اپنے پیچھے چھوڑے گئے ایک سوسائیڈ نوٹ میں انہوں نے اپنے اس قدم کے لیے بے روزگاری کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
ویڈیو: سال 2023 میں آمدنی، بے روزگاری، غربت، مہنگائی، جی ڈی پی، زراعت، ایم ایس پی پر مودی حکومت کی اقتصادی پالیسی کیا رہی ہے؟ دی وائر کے اجئے کمار بتا رہے ہیں کہ ملک میں تقریباً 10 سال سے برسراقتدار مودی حکومت میں زیادہ تر لوگوں کی زندگی میں کوئی نمایاں اور بنیادی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
کیا وزیر اعظم مودی اس بات کی وضاحت کر سکتے ہیں کہ ‘سب سے تیزی سے بڑھتی معیشت، جو 2028 تک دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بننے کی راہ پر ہے’ اسے 80 کروڑ لوگوں میں مفت اناج کیوں تقسیم کرنا پڑ رہا ہے؟
سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی کے اعداد و شمار کے مطابق، اکتوبر میں ہندوستان میں بے روزگاری کی شرح دو سال کی بلند ترین سطح 10.09 فیصدپر پہنچ گئی۔ یہ اعداد و شمار ستمبر کے مقابلے میں تقریباً تین فیصد اضافے کی نمائندگی کرتا ہے، جب یہ 7.09 فیصد تھا۔ ایک اور سروے میں پایا گیا کہ 15 سے 34 سال کی عمر کے 36 فیصد ہندوستانیوں نے مانا کہ بے روزگاری ملک کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
سال 2022 میں ہندوستان میں نوجوانوں کی بے روزگاری کی شرح 23.22 فیصد تھی جو پاکستان (11.3فیصد)، بنگلہ دیش (12.9فیصد) اور بھوٹان (14.4فیصد) سے کہیں زیادہ تھی۔ اسی سال چین میں بے روزگاری کی شرح 13.2 فیصد تھی۔
سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دسمبر کے مہینے میں شہری بے روزگاری کی شرح 10.09 فیصد اور دیہی بے روزگاری کی شرح 7.44 فیصد رہی ۔ سب سے زیادہ شرح 37.4 فیصد ہریانہ میں درج کی گئی۔
پچھلے کچھ دنوں سے آر ایس ایس لیڈروں کی زبان بدلی بدلی سی نظر آ رہی ہے، لیکن تبدیلی سنگھ کے ایجنڈے کا حصہ کبھی نہیں رہی۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ سنگھ نے ‘غیر سیاسی ہونے کی سیاست’ کرتے ہوئے اپنے سویم سیوکوں کو اقتدار کی چوٹی تک پہنچایا ہے اور کیسے وہ جمہوری اور آئینی اقدار کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں۔
سال 1995 کے بعد 2020 میں تمام برادریوں میں مسلم خواتین کی برتھ ریٹ میں سب سے تیز گراوٹ درج کی گئی۔ نتیجتاً ان کی آبادی میں اضافے کی شرح میں بھی کمی آئی۔ ایک سیاسی پروپیگنڈہ کے تحت مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کی بات کرتے ہوئے خوف اور اندیشہ پیدا کر کے ہندوؤں کو پولرائزکیا جا رہا ہے۔
موہن بھاگوت نے کسی بھی برادری کا نام لیے بغیر ملک میں برادریوں کے درمیان آبادی کے بڑھتے ہوئے عدم توازن پرتشویش کا اظہارکیا۔ سنگھ شروع سے ہی اشاروں میں بات کرتا رہا ہے۔ اس سے وہ قانون کی گرفت سے بچتا رہا ہے۔ ساتھ ہی اشاروں کی زبان کی وجہ سے دانشور حضرات بھی ان کے دفاع میں کود پڑتے ہیں، جیسا کہ اس وقت سابق الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی کر رہے ہیں۔
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے جنرل سکریٹری دتاتریہ ہوس بولے نے کہا کہ ہمیں اس بات کا دکھ ہونا چاہیے کہ 20 کروڑ لوگ خط افلاس سے نیچے ہیں اور 23 کروڑ لوگ یومیہ 375 روپے سے بھی کم کما رہے ہیں۔ غریبی ہمارے سامنے ایک قوی ہیکل دیو کی طرح چیلنج بن کر کھڑی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ اس شیطان کو ختم کیا جائے۔
ویڈیو: ہندوستان میں مہاماری کی تیسری لہر کے بیچ اَن آرگنائزڈ سیکٹر کے مزدوروں کی جدوجہد جاری ہے۔ قومی راجدھانی سے متصل گریٹر نوئیڈا کے لیبر چوک علاقے میں دی وائر کے یاقوت علی نے مزدوروں کا حال دریافت کیا۔
چار جنوری کو الہ آباد میں رہ کر پڑھائی کرنے والے اور مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کرنے والے طالبعلم اچانک سڑکوں پر نکل آئے اور تالی-تھالی پیٹتے ہوئےمؤخربھرتیوں کو پُرکرنے کامطالبہ کرنے لگے۔ ان کا کہنا تھاکہ وہ روزگار جیسے اہم مدعے پر سوئی ہوئی حکومت کونیند سےجگانا چاہتے ہیں۔
روزگار کی شرح یالیبر فورس کی شرکت کا تناسب اس بات کا ایک پیمانہ ہے کہ معیشت میں کتنے روزگار کے اہل لوگ اصل میں نوکری کی تلاش میں ہیں۔سی ایم آئی ای کےمطابق،ہندوستان کے لیبر فورس کی شرکت کا تناسب مارچ 2021 میں41.38 فیصدی تھا (جو کہ بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن کے بالکل قریب ہے)لیکن گزشتہ ماہ یہ گر کر 40.15 فیصدی رہ گیا۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے 70ویں یوم پیدائش کے موقع پر ٹوئٹر پر دن بھر کئی ایسے ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرتے رہے، جن کے ذریعہ ٹوئٹر صارفین نے ملک میں بڑھتی بےروزگاری اور شدید معاشی بحران کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وزیر اعظم سے جواب طلب کیا۔
سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی کے اعدادوشمار کے مطابق اس سال صرف جولائی مہینے میں ہی 50 لاکھ نوکریاں گئی ہیں۔
کانگریس کے سابق صدرراہل گاندھی کے ساتھ ویڈیو کانفرنسنگ کے توسط سے بات چیت میں راجن نے کہا کہ ہندوستان ایک غریب ملک ہے اور وسائل کم ہیں۔ یہ ملک زیادہ لمبے وقت تک لوگوں کو بٹھاکر کھلا نہیں سکتا، اس کی معیشت کو کھولنا ہوگا۔
ہندوستانی معیشت کی مانیٹرنگ کرنے والے مرکز(سینٹر فار مانیٹرنگ اکانومی، سی ایم آئی ای) کی جانن سے جاری حالیہ اعدادوشمار کے مطابق ہندوستان کی بے روزگاری کی شرح فروری 2020 میں 7.78 فیصد پر پہنچ گئی ہے، جو اکتوبر 2019 کے بعد سے سب سے زیادہ ہے۔
نریندر مودی حکومت میں چیف اکانومک ایڈوائزر رہتے ہوئے ارویند سبرامنیم نے دسمبر 2014 میں دوہرے بیلنس شیٹ کا مسئلہ اٹھایا تھا، جس میں نجی صنعت کاروں کے ذریعے لئے گئے قرض بینکوں کےاین پی اے بن رہے تھے۔سبرامنیم نے کہا کہ ہندوستان کی معیشت ایک بار پھر سے دوہرےبیلنس شیٹ کے بحران سے جوجھ رہی ہے۔
آر بی آئی کےسابق گورنر رگھو رام راجن نے کہا کہ ہندوستان اقتصادی بحران کی زد میں ہے۔اقتصادی سستی کو دور کرنے لیے یہ ضروری ہے کہ مودی حکومت سب سے پہلےمسئلہ کو قبول کرے۔
رواں مالی سال کی دوسری سہ ماہی میں اقتصادی شرح نمو 4.5 فیصد رہنے کو سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے ناکافی بتایا۔ انہوں نے یہ بھی جوڑا کہ معیشت کی حالت تشویشناک ہے لیکن ہمارے سماج کی حالت زیادہ تشویشناک ہے۔
این ایس او کے ذریعے جاری اعداد و شمار کے مطابق،مینوفیکچرنگ سیکٹر میں گراوٹ اور زراعتی شعبہ میں گزشتہ سال کے مقابلے کمزور مظاہرے میں مالی سال 2019-20 کی دوسری سہ ماہی میں جی ڈی پی شرح نمو 4.5فیصد رہ گئی۔ گزشتہ مالی سال کی اسی سہ ماہی میں یہ 7 فیصد تھی۔
لیبر اور امپلائمنٹ منسٹر سنتوش گنگوار نے راجیہ سبھا میں بتایا کہ یونین ٹرٹیری لکش دیپ میں پچھلے تین مالی سالوں میں پرائم منسٹر امپلائمنٹ جنریشن پروگرام کے تحت پیدا ہوئے روزگار کے مواقع کی تعداد زیرو رہی، جبکہ 2016-17 میں لکش دیپ میں روزگار کے 1398 مواقع پیدا ہوئے تھے۔
عراق میں بدعنوانی اور بے روزگاری کی مخالفت میں گزشتہ ایک اکتوبر سے حکومت مخالف مظاہرہ چل رہا ہے۔ اکتوبر میں مظاہرہ کے دوران اب تک تقریباً231 لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔
آر بی آئی کے گورنر رہے رگھورام راجن نے ہندوستان میں جی ڈی پی کی گنتی کے طریقے پر نئے سرے سے غور کرنے کا بھی مشورہ دیا ہے۔
عراق کی راجدھانی بغداد میں گزشتہ ایک اکتوبر سے حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے ، جو جلدہی جنوبی عراق کے شیعہ اکثریتی شہروں میں پھیل گیا۔
مرکزی وزیر برائے محنت و روزگار سنتوش گنگوار کے اس بیان پر کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے کہا کہ شمالی ہندکےباشندوں کو ذمہ دار ٹھہرا کر وزیر روزگار کے سوالوں سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ملک کے سابق چیف اکانومک ایڈوائزراروند سبرمنیم کا کہنا ہے کہ سال 2011سے12 اور 2016سے17 کے دوران ملک کی جی ڈی پی کے اعداد و شمار کو کافی بڑھاچڑھاکر بتایا گیا۔ اس دوران جی ڈی پی سات فیصد نہیں، بلکہ 4.5 فیصد کی شرح سے بڑھی ہے۔
شیو سینا نےاپنے ماؤتھ پیس سامنا میں کہا ہے کہ محض لفظو ں کے کھیل یا اشتہارات سے بڑھتی بے روزگاری کا مدعا حل نہیں ہونے والا ۔صرف اشتہارات دینے سے ہی نوکریاں نہیں مل جائیں گی ۔
عام انتخاب سے ٹھیک پہلے بےروزگاری سے متعلق اعداد و شمار پر مبنی یہ رپورٹ لیک ہو گئی تھی اور جمعہ کوحکومت کے ذریعے جاری اعداد و شمار میں اس کی تصدیق ہو گئی۔