فکر و نظر

تہاڑ جیل سے لوٹ کر مندیپ پنیا کی رپورٹ: جیل میں بند کسانوں کے بھی حوصلے توڑ پانا سرکار کے بس کی بات نہیں

تہاڑ جیل میں آزاد صحافی مندیپ پنیا کو ایک کسان نے کہا،سرکار کو کیا لگتا ہےکہ وہ ہمیں جیل میں ڈال کر ہمارے حوصلے توڑ دےگی۔ وہ بڑی غلط فہمی میں ہے۔ شاید اس کو ہماری تاریخ کاعلم نہیں۔ جب تک یہ تینوں زرعی قوانین واپس نہیں ہو جاتے، ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

اتوار کو عدالت لے جانے کے دوران مندیپ پنیا۔ (فوٹو: Twitter/@TimesTrolley)

اتوار کو عدالت لے جانے کے دوران مندیپ پنیا۔ (فوٹو: Twitter/@TimesTrolley)

تیس جنوری کی شام آزاد صحافی مندیپ پنیا کو دہلی پولیس نے سنگھو بارڈر سے گرفتار کر کےجیل بھیج دیاتھا۔ ان کا ‘جرم’صرف اتنا تھا کہ انہوں نے روز اول سے کسانوں کی تحریک کی رپورٹنگ کی، جو حکومت اور پولیس کو پسند نہیں آئی۔

انہیں بری طرح پیٹا گیا اور یہ کہا گیا کہ ‘اور کرو رپورٹنگ…’ مگر وہ سوال کرتے رہے کہ ان کو کس بات کی سزا دی جا رہی ہے۔ان کی  ایک نہیں سنی گئی اور  جیل بھیج دیا گیا۔مندیپ کو جیل میں تین دن گزارنے پڑے ،لیکن وہ جیل میں بھی چپ نہیں بیٹھے اور یہاں بھی انہوں نے اپنی صحافتی ذمہ داری ادا کی۔

جیل میں کاغذ میسر نہ ہونے اور پکڑے جانے کے ڈر سے گرفتار شدہ کسانوں کے ساتھ اپنی بات چیت کو اپنے پاؤں پر نوٹ کر لیا۔

پیش ہے تہاڑ جیل میں کسانوں کے ساتھ مندیپ پنیا کی بات چیت پر مبنی ایک رپورٹ:  ادارہ

گزشتہ29جنوری کو دہلی پولیس کے ذریعے گرفتار کیے گئے پنجاب کے پیروں گاؤں کے 43 سالہ کسان جسمندر سنگھ گیلی آنکھوں سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہتے ہیں،

سرکار کو کیا لگتا ہےکہ وہ ہمیں جیل میں ڈال کر ہمارے حوصلے توڑ دےگی۔ وہ بڑی غلط فہمی میں ہے۔ شاید اس کو ہماری تاریخ کاعلم نہیں۔ جب تک یہ تینوں زرعی قوانین واپس نہیں ہو جاتے، ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

غصے سےبھری اپنی آواز کے پرسکون  ہونے کے بعد تہاڑ جیل کی چھوٹی سی چکی(کمرے)میں لگے روشن دان سے آ رہی روشنی کو جسمندر ایک ٹک دیکھنے لگتے ہیں۔ ایک طویل خاموشی  کے بعد وہ کہتے ہیں،

گزشتہ 29 جنوری کو ہم کئی کسان نریلا مارکیٹ سامان لانے گئے تھے۔ جب واپس آ رہے تھے تو پولیس نے ہم نہتوں پر لاٹھی ڈنڈوں سے حملہ کر دیا۔

غصے میں بھرے جسمندر اپنا پاجامہ ہٹاکر اپنے پیروں پر ڈنڈوں کی چوٹ کے نشان دکھاتے ہوئے کہتے ہیں،

یہ دیکھ پولیس نے کتنی بری طرح سے مارا ہے۔

جسمندر ایک ایک کرکے ان کے بدن پر لگی چوٹوں کے نشان دکھاتے ہیں۔ ان کے گندمی بدن  پر نیلے رنگ کے بڑے بڑے نشان اس بات کی تصدیق کر رہے تھے کہ انہیں ڈنڈوں سے بے رحمی  سے پیٹا گیا ہے۔جسمندر نے بتایا کہ 30 کے قریب کسانوں پر لاٹھی چارج کے بعد پولیس انہیں ایک ہرے رنگ کی بس میں بٹھاکر ایک تھانے  لے گئی  اور ان کا میڈیکل کرواکر تہاڑ جیل میں بند کر دیا ہے۔

جسمندر کی طرح ہی ہریانہ کی ٹوہانہ تحصیل کے ہمت پوراگاؤں کے 47سالہ کسان ملکیت سنگھ بھی ان کسانوں میں شامل تھے، جنہیں پولیس نے لاٹھی چارج کرنے کے بعد29 جنوری کو گرفتار کیا تھا۔ ملکیت سنگھ کے چہرے پرخوف  اور خوداعتمادی  کے مبہم جذبات تھے۔ ان کے ان مبہم جذبات کے بارے میں پوچھنے پر انہوں نے مجھے بتایا،

خوف تو کچھ نہیں ہے، بس فکر ہے۔ ہمیں تو یہ بھی نہیں پتہ ہے کہ ہمارے اوپر دفعات کون سی لگائی ہیں، کیوں لگائی ہیں۔

ملکیت سنگھ کے ساتھ ان کی چکی میں بند پنجاب کے سنگرور ضلع کے دیہلا گاؤں کے دو نوجوان کسان جگسیر اور جسی لگاتارتمام  کسانوں کی ہمت بڑھانے کے لیے پنجابی میں چھوٹے چھوٹے لوک محاورےکہتے ہیں۔ نوجوان کسان جسی نے مجھے بتایا،

میں گزشتہ کئی سالوں  سے بھارتیہ کسان یونین (اگراہاں)کے ساتھ کام کر رہا ہوں اور کسانوں پر ہونے والے سرکاری جبر کا پہلےبھی شاہد رہا ہوں۔ ہمارے تمام  کسان یونینوں نے اعلان کر دیا ہے کہ جب تک جیلوں میں بند کسانوں کو رہا نہیں کیا جاتا، تب تک سرکار سے کسی بھی طرح کی بات چیت نہیں ہوگی۔

سرکار کو پتہ ہونا چاہیے کہ کسان گرفتاریوں سے ڈرنے والے نہیں  ہیں۔ ہمارے حوصلے پہاڑوں سے بھی بڑے ہیں اور ہمارے حوصلے توڑ پانا اس سرکار کے بس کی بات نہیں۔ پنجاب کی کسان لہر مضبوطی سے جدوجہد کرنے کے لیے جانی جاتی ہے اور اسی جدوجہد کرنے والی کسان لہر کے وارث ہیں ہم سب کسان۔

تہاڑ جیل میں لگ بھگ 120کسانوں کے بند ہونے کی خبر سرکار نے خودقبول کی ہے۔ میں جیل کے جس وارڈ میں بند تھا اس میں جے کے ایل اور ایم حروف سے جن کے نام شروع ہوتے ہیں ان  کو بند کیا گیا تھا۔ اسی وارڈ میں میری ملاقات 70سالہ بابا جیت سنگھ سے ہوئی۔ بابا جیت سنگھ ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہرلال کھٹر کے گاؤں بنیانی میں واقع گرودوارے میں گرنتھی ہیں اور وہ اس کسان تحریک  میں براڑی گراؤنڈ میں بیٹھے کسانوں کو لنگر کھلاتے ہیں۔ سفید داڑھی مونچھوں کے بیچ چھپے ان کے چہرے پر پڑی جھریوں کے بیچ پسری ان کی ہنسی حکومت  پرطنز جیسی  لگتی ہے۔ انہوں نے مجھے بتایا،

میں تو حکومت کی طرف سےطے جگہ براڑی گراؤنڈ میں بیٹھے کسانوں کے لیے لنگرکے انتظام  میں مصروف تھا۔ ہم پر لاٹھی چارج کرکے ہمیں بھی اٹھا لائے۔

بابا جیت سنگھ نے مجھے ان کے ساتھ بند ہریانہ کے روہتک ضلع کے ریٹھال گاؤں کے 60 سالہ کسان جگبیر سنگھ سے ملوایا۔ جگبیر سنگھ نے مجھے بتایا،

مجھے پیراگڑھی کے میٹرو اسٹیشن کے پاس سے پولیس نے گرفتار کیا۔ میں راجندر پلیس اپنے بھائی کے گھر  جا رہا تھا، لیکن مجھے راستے میں ہی یہ کہہ کر گرفتار کر لیا کہ بس آدھار کارڈ دیکھ کر چھوڑ دیں گے۔ انہوں نے چھوڑنے کے لیے تھوڑی نہ اٹھایا تھا۔ بلکہ تہاڑ میں ڈالنے کے لیے اٹھایا تھا۔ میرے ساتھ جیند کے ایک نو جوان کسان کو بھی تہاڑ میں بند کر دیا ہے۔

جگبیر سنگھ یہ سب بتا ہی رہے تھے کہ انہوں نے ان کے پاس کھڑے نوجوان نریندر گپتا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا،

یہ دیکھیے اس لڑکے کو۔ یہ تو کسان بھی نہیں ہے۔ پھر بھی اس کو کسانوں کی تحریک کے نام پر بند کر دیا۔

تہاڑ جیل میں مندیپ نے اس رپورٹ کے لیے اپنے پاؤں پر نوٹ تیار کیے تھے ، فوٹو بہ شکریہ؛ٹوئٹر

تہاڑ جیل میں مندیپ نے اس رپورٹ کے لیے اپنے پاؤں پر نوٹ تیار کیے تھے ، فوٹو بہ شکریہ؛ٹوئٹر

میں نے جب نریندر گپتا سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے مجھے بتایا،

میں تو دہلی کا رہنے والا ہوں اور کسان بھی نہیں ہوں۔ میں چپ چاپ اپنے گھر کی طرف جا رہا تھا۔ اچانک پولیس نے مجھے اٹھا لیا۔ میں نے پولیس کو بتایا بھی کہ میں کسان نہیں ہوں لیکن انہوں نے میری ایک نہیں سنی۔ حالانکہ اب مجھے باہر نکالنے کی کارروائی  کی جا رہی ہے۔ شاید جلدی ہی میں گھر واپس چلا جاؤں۔

جیل کی جس چکی میں میں قید تھا اس سے اگلی چکی میں پنجاب کے گرداس پور ضلع کے ڈیرہ بابا نانک کے کچھ نوجوان کسان بھی قید تھے۔ وہ  دن میں کئی بار اونچی آواز میں کسان تحریک سے متعلق پنجابی لوک گیت گنگناتے ۔ وہ گنگناتے؛

کیندر دی سرکار رہی سدا کسانا لئی غدار ہو جٹا تگڑا ہوجا

 آجا سڑک تے دھرنے مار، لڑائی چھڑ پئی آر یا پار

 ہو جٹا تگڑا ہوجا

گانے گنگنانے کے بعد وہ  لوگ کسان ایکتا زندہ باد کے نعرے لگاتے تو جیل میں قید دوسرے قیدی بھی ان کے نعروں کا جواب زندہ باد سے دیتے۔

جیل میں جن کسانوں سے میری ملاقات ہوئی ،انہوں نے مجھے ان کے اہل خانہ کے فون نمبر دیے۔ حالاں کہ بعض لوگوں نے اپنے گھر والوں سے مختصر بات کی تھی ، لیکن وہ چاہتے تھے کہ میں باہر نکل کر ان کے اہل خانہ کو یقین دلاؤں کہ ان کا حوصلہ ٹوٹا نہیں ہے۔

ابھی جیل سے باہر آیا ہوں۔ تب بھی وہ گیت میری سماعتوں  میں گونج رہے ہیں۔ ان گیتوں کو ریکارڈ کرنے کے لیے جیل میں شاید کوئی سازوسامان  نہ ہو، لیکن وہ  گیت جن کی  بھی سماعتوں  میں پڑے ہیں، ان کے ذہن میں ہمیشہ کے لیےمحفوظ  ہوگئے ہوں گے۔