آج کل سیکولر (کچھ لوگوں کے لئے Sickular) لفظ دہشت گرد، اینٹی نیشنل، پاکستانی ایجنٹ، ٹکڑے ٹکڑے گینگ جیسے کئی الفاظ کا مترادف بن گیا ہے۔
ایک عجیب سا سوال ہے، دماغ میں ایسے پھنس گیا ہے جیسی داڑھ میں بھٹّے کا چھلکا۔ زبان سے لگاتار کرید رہا ہوں پر نہ اس کو نکال پا رہا ہوں نہ بھول پا رہا ہوں۔ ناخن اس تک پہنچتا نہیں ہے اور وہ اپنےآپ نکلنے کو تیار نہیں ہے۔ اس چھلکے نے میری داڑھ میں اپنا گھر بنا لیا ہے۔
آج سوچ رہا ہوں کہ دلیل کی ٹوتھ پک سے اس کو نکال پھینکوں۔ ہو سکتا ہے داڑھ سے خون بھی نکلے پر اب تو اس چھلکے کا سامنا کرنا ہی پڑےگا۔ پر اس سے پہلے سوال کا پس منظر بنا دیتا ہوں۔
ابھی کچھدو چار سال سے ایک نئی گالی ابھر کے سامنے آ رہی ہے۔ خاص طور پر کاس گنج کے بعد پڑھےلکھے لوگ بھی اس کو گالی کی طرح استعمال کر رہے ہیں۔ لفظ ہے سیکولر۔
سیکولر یا اس کی ایک بگڑی ہوئی صورت ‘ سیکلر ‘ کا استعمال آج کل کئی شکلوں میں دیکھا جا رہا ہے۔ یہ کئی الفاظ کا مترادف بن گیا ہے، جیسے دہشت گرد، اینٹی نیشنل، پاکستانی ایجنٹ، ٹکڑے ٹکڑے گینگ وغیرہ وغیرہ۔ جو بیچارے اصل میں سیکولر ہیں، آج کل ان کو بڑی گالیاں پڑ رہی ہیں، ہرجگہ ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔
تو آئیے ذرا اس لفظ سیکولر پر تھوڑا غور فرمایا جائے۔ ہندی میں سیکولر کو دھرم نِرپیکچھ کہتے ہیں۔ ہندی لغت اس کا مطلب کچھ ایسے بتاتی ہے :
دھرم نِرپیکچھ [و۔]-1۔ جو کسی بھی مذہب کی طرفداری یا جانبداری نہ کرتا ہو 2۔ جو تمام مذہبوں کو یکساں مانتا ہو 3۔ جو مذہبی اصولوں سے متاثر نہ ہو۔ 4۔ غیرفرقہ وارانہ 5۔ دنیاوی ؛ کائناتی۔
اس لفظ کے پہلے معنی پر تھوڑا دھیان دیں، ‘ جو کسی بھی مذہب کی طرفداری یا جانبداری نہ کرتا ہو ‘ مطلب، وہ خود کسی بھی مذہب کا / کی ہو، انصاف کی بات کرے۔ کسی کی بےوجہ سائڈ نہ لے۔ صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہے۔ بات سننے میں آسان لگتی ہے پر نبھانے میں بہت مشکل ہے۔
دوسرا مطلب ہے ‘ جو تمام مذہبوں کو یکساں مانتا ہو ‘ مطلب اس کے لئے سارے مذہب ایک جیسے ہیں۔ یا تو سارے مذہب صحیح ہیں یا سارے مذہب غلط ہیں۔ وہ کسی کو کسی سے زیادہ نہ کم آنکے۔ یا تو سارے مذہب ایک ہی منزل تک پہنچنے کے راستے ہیں یا سارے مذہب برابر کا بھرم ہے، برابر کا ڈھونگ ہیں۔ یا تو برابر کے اچھے یا برابر کے برے۔
تیسرا مطلب ہے ‘ جو مذہبی اصولوں سے متاثر نہ ہو ‘ لیکن اگر کوئی بھی انسان مذہبی اصولوں سے متاثر نہیں ہوگا تو پھر کس سے ہوگا؟ آخر ہر مذہب ہمیں اچھا انسان بنانے کی ہی تو کوشش کرتا ہے؟
ہمّم… اصل میں یہ جواب اتنا آسان نہیں ہے۔ کیونکہ دنیا ایک ہم شکل یا ہم ہم جماعتنہیں ہے۔ ایک زمانے میں دنیا کا ہر علاقہ، باقی دنیا سے الگ تھلگ بنا تھا۔
جیسے ہندوستان کے بارے میں 1903 میں ایک انگریز نوکرشاہ جان اسٹریچی نے اپنی کتاب ‘ انڈیا ‘ میں لکھا تھا کہ اسکاٹ لینڈ اور اسپین میں زیادہ مساوات ہیں، بنگال اور پنجاب کے مقابلے۔
یہاں الگ ہونے کا مطلب مذہب سے نہیں ہے بلکہ کلچر سے ہے، تہذیب سے ہے۔ بنگال کے برہمن گوشت اور مچھلی کھاتے ہیں جبکہ راجستھان میں سبزی خور ہیں۔ ایک ہی مذہب، الگ الگ روایات، الگ الگ جینے کے انداز۔
اور آہستہ آہستہ یہ روایات پکیہوتی چلی جاتی ہیں، مذہب کا حصہ بنتی جاتی ہیں۔ ایک وقت ایسا آتا ہے مذہب اور تہذیب میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا ہے۔ تب روایات اور مذہب میں دودھ اور پانی کی طرح مل جاتے ہیں۔
لیکن تبھی ایک سوال اٹھتا ہے۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ ہر مذہب، خدا کی خدائی اور اس کیمداخلت کا نتیجہ ہے۔ یہ وہ سچ ہے جو کہ ایک عام انسان کے علم سے بہت بڑا ہے، اس پر عمل کرنا ہمارا مذہب ہے اور اس کو پوری طرح سے سمجھنا ہماری سوچکے پرے۔
لیکن جب اس میں روایتیں مل جاتی ہیں تو کوئی کیسے طے کرے کہ کیا اس میں خدا کا دیا اور کیا انسان کا؟جیسے مسلمان گھر میں پیدا ہونے کے باوجود، میں ا س حقیقت سے بالکل ناواقف تھا۔ جب میں نے پہلی بار لڑکیوں کا ختنہ (Female Genital Mutilation) کے بارے میں سنا تو مجھے یقین ہی نہیں ہوا۔ میرے آس پاس کبھی بھی ایسی کوئی چیز میں نے نہ دیکھی تھی نہ سنی تھی۔
جب اس موضوع کے بارے میں پڑھا تو پتا چلا کہ یہ مذہبی پریکٹس کم کلچرل پریکٹس زیادہ ہے۔ لیکن جہاں اس روایت کا چلن ہے وہاں اس کو مذہبی عمل ہی مانا جاتا ہے۔
تو ایک بات صاف ہے، بہت ساری برائیاں ہیں ہر مذہب میں، جو اب خود مذہب بن چکی ہیں۔ مطلب، اگر دودھ میں زہر مل چکا تو اب دودھ اور زہر کو الگ کرنا ناممکن ہے۔
لیکن مشکل یہ ہے کہ دودھ دکھنے میں اب بھی دودھ جیسا ہی ہے۔ صرف دیکھنے سے پتا نہیں چلتا ہے کہ یہ دودھ زہریلا ہے۔
ایک وقت ایسا آیا کہ مذہبی قانون ہماری بدلتی دنیا کے نہ تو موافق تھے نہ مطابق۔ کیونکہ کہاں خدا ختم ہوتا ہے اور کہاں انسان شروع، اس کا فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا تھا۔ اور اوپر سے ہر مذہب کے مذہبی گرو اپنے حساب سے ہر مذہبی قانون کی من مرضی وضاحت کر دیتے تھے۔ بڑا کنفیوژن ہو چلا تھا۔
اب ہمارے آباواجداد (انسانی آباواجداد صرف ہندوستانی نہیں) کے پاس بس ایک تدبیر بچی تھی۔ قانون اور سماج کو مذہبی چشمہ ہٹا کر انسانی آنکھوں سے دیکھا جائے۔ ہر چیز، ہر قانون کو ایک بار پھر سے تولا جائے انسانیت کے ترازو میں، جس کی تول اور سودا صحیح ہو وہ رکھا جائے باقی اٹھاکر پھینک دیا جائے۔ اور یہاں پر پیدا ہوتا ہے سیکولرازم۔
یہ وہ قانون ہے، وہ ملک ہے، جو کسی طرح کے مذہبی اصولوں سے متاثر نہیں ہے۔ حالانکہ اس کا مطلب دہریہ ہونا نہیں ہے۔ اس کا مطلب صرف اتنا سا ہے کہ قانون مذہب کی حدود سے دور اور انسانیت کے احاطے میں کھڑا ہے۔ اگر مذہب اور انسانیت میں تصادم ہوگی تو انسانیت جیتےگی۔
(یہ تیسرا مطلب اتنا عظیم ہے کہ ایک کتاب تو کیا 1000 کتابیں بھی اس پر لکھی جائیں تو کم ہوںگی۔ لیکن میں نے آسان الفاظ میں سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ اگر یہ وضاحت آپ کو ادھوری اور بہت آسان لگے، تو کوئی بات نہیں بھول چوک، لینی دینی)
چوتھا مطلب ہے ‘ غیرفرقہ وارانہ ‘ [و۔]-1۔ جو کسی فرقہ خاص سے متعلق نہ ہو 2۔ خیال اور رویے میں جو فرقہ وارانہ عداوت کے جذبہ سے آزاد ہو۔
اس کو زیادہ سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جیسا اس کے مطلب سے صاف ظاہر ہے۔ اگر پھر بھی آپ کی سمجھ میں نہیں آ رہا بھائی، بادام کھاؤ۔
پانچواں اور آخری مطلب ہے ‘ دنیاوی ؛ سنساری۔ ‘ حالانکہ ان الفاظ کا استعمال اکثر لوگ دوئم درجے میں کرتے ہیں، جیسے مافوق فطری خاص ہے اور دنیاوی عام۔ روحانیت خاص ہے اور سنساری یا کائناتی عام۔ پر مجھے اس تعریف سے کوئی پرہیز نہیں ہے۔
ویسے بھی سیکولر اس دنیا میں رہنے کا اور صحیح سے چلانے کا طریقہ ہے، مرنے کے بعد کیا ہوگا مجھے تھوڑی اس کی پرواہ کم ہے۔
ویسے ایک بات مجھے ہمیشہ پریشان کرتی ہے۔ سوچیے آپ 6 سال کے بچّے ہیں، میلہ میں جانے کے لئے پیسے اکٹّھے کر رہے ہیں۔ میلہ قصبے میں 15 دن بعد لگےگا۔ پوری محنت کرکے آپ بہت سارے پیسے جمع کر لیتے ہیں اور جس دن آپ میلہ میں جانے کے لئے تیار ہو رہے ہوںگے، آپ کے چہرے پر اس کان سے لےکر اس کان تک کی مسکان ہوگی۔ آپ سے زیادہ خوش کوئی نہیں ہوگا۔
یہ ایکسٹرا ری لیجیس لوگ، جو موت کے بعد زندگی کی، کوئی موت کی، تو کوئی جنت کی، تو کوئی ہیوین کی تیاری میں مصروف ہیں، یہ مرنے کے لئے اس چھوٹےسے میلہ جانے والے بچّے کی طرح پرجوش کیوں نہیں ہوتے ہیں؟
خیر، بات ہے سیکولر کی، تو اگر آپ سب مذہبوں کو یکساں سمجھتے ہیں، چاہے اچھا یا برا۔
انسانیت میں یقین ہے،
اپنے عقیدہ کے سبب کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کرتے ہیں یا ناانصافی کی طرفداری نہیں کرتے ہیں۔
مذہبی روایت اور شہری حقوق میں آپ ہمیشہ سول حقوق کو اعلیٰ ترین سمجھتے ہیں۔
کسی خاص کمیونٹی یا گروہ کے چکر میں، انسانیت سے منھ نہیں موڑتے ہیں۔
اگر آپ کو موت کی کم اور زندگی کی زیادہ فکر ہے۔
تو آپ سیکولر ہیں۔
میں سیکولر ہوں اور یہ میری زندگی کے کچھ سب سے اہم مقاصد میں سے ایک ہے۔ تو اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ مجھے سیکولر بولکر ہنس دیتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ مجھے برا لگےگا تو یہ ایسا ہے کہ آپ آئنسٹائنکو آئنسٹائن بلا کر اس کا مذاق اڑانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اصل میں بیوقوف آپ لگ رہے ہیں۔ چاہے آپ کے پاس پوری لافنگ ٹیم ہو، اور گلی میں 20 لونڈے آپ کے ساتھ ہنس رہے ہوں یا آپ کے کسی ٹوئٹ کو 1000 لائکس اور ری ٹوئٹ مل رہے ہوں، تب بھی بات وہیں کی وہیں ہے۔
اب چاہے آپ اس کے آگے ‘ سوڈو ‘ سیکولر لگا دیں یا سیکلر بول دیں، یا کچھ اور سابقہ یا لاحقہ لگا دیں، آپ صرف سچے کو سچا اور اچھے کا اچھا بولکر اس کا مذاق اڑانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
میں اور میرے کروڑوں دوست سیکولر ہیں اور رہیںگے کیونکہ ہندوستان کا آئین سیکولر ہے۔ اگر آپ لوگوں کو سیکولر لفظ سے پرہیز ہے تو آپ لوگ کوئی اور ملک ڈھونڈ سکتے ہیں کیونکہ ہندوستانی ہونے کا مطلب ہی سیکولر ہونا ہے۔ ایسا میں نہیں، میرے ملک کا آئین کہتا ہے۔
(داراب فاروقی اسکرپٹ رائٹر ہیں اور فلم ڈیڑھ عشقیہ کی کہانی لکھ چکے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر