ایمرجنسی کے 43 سال بعد ان سینسر فرمان کو پڑھنے پر اس ڈراؤنے ماحول کا اندازہ ہوتا ہے جس میں صحافیوں کو کام کرنا پڑا تھا، اخباروں پر کیسی پابندی لگی تھی اور کیسی کیسی خبریں روکی جاتی تھیں۔
‘ محکمہ اطلاعات میں سینسر کے شری واجپئی نے فون کیا تھا کہ سینسر-فرمان کے مطابق خاندانی منصوبہ بندی، تعلیمی فیس میں اضافہ اور آب پاشی کی شرحوں میں اضافہ کے خلاف کسی قسم کی خبریں نہ چھاپی جائے۔ اس کے علاوہ، طلبہ تحریک کی خبریں بھی نہیں چھپیںگی۔ ‘
11 جولائی، 1976 کو لکھنؤ کے مؤقر روزنامہ ‘سوتنتر بھارت’کے ادارتی سیکشن کے ایک سینئر ممبر نے یہ سطریں ٹائپ کرکے ہدایت-رجسٹر میں لگائیں تاکہ سبھی دیکھیں اور عمل کر سکیں۔ ملک بھر کے تمام اخباروں میں ان دنوں روزانہ ایسے کئی کئی سینسر-فرمان پہنچتے تھے۔ اخباروں کی خبروں پر کڑا پہرا تھا۔
آج سے 43 سال پہلے، 25 جون، 1975 کی رات اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے اپنی اقتدار بچانے اور بڑھتی سیاسی مخالفت کو کچلنے کے لئے ملک میں اندرونی ایمرجنسی نافذ کر دیا تھا۔ عوام کے آئینی حق معطل کر دئے گئے تھے۔ مخالف رہنما گرفتار کر جیل میں ڈالے گئے۔ پریس پر سینسرشپ نافذ کر دی گئی تھی۔
اخباروں میں کیا چھپےگا کیا نہیں یہ مدیر نہیں، سینسر افسر طے کرتے تھے۔ ریاستوں کے محکمہ اطلاعات، حکومت ہند کے صحافتی اطلاعات دفتر (پی آئی بی)اور ضلع انتظامیہ کے افسروں کو سینسر-افسر بناکر اخباروں پر نگرانی رکھنے کا کام دیا گیا تھا۔ یہ افسر مدیروں اور صحافیوں کے لئے ہدایت جاری کرتے تھے۔ خود ان کو یہ ہدایت دہلی کے اعلیٰ حکام، کانگریسی رہنماؤں، خاص کر اندرا گاندھی اور ان کے چھوٹے بیٹے سنجےگاندھی کی چوکڑی سے حاصل ہوتے تھے۔ ان پر عمل کرنا ضروری تھا، نہیں تو گرفتاری سے لےکر پریس-بندی تک ہو سکتی تھی۔
اگست، 1977 میں میں نے روزنامہ ‘ سوتنتر بھارت ‘ میں بطور زیرتربیت معاون مدیر کام کرنا شروع کیا تو ادارتی ہدایت رجسٹر میں نتھی کئی سینسر-احکام دیکھے تھے۔ بعد میں اس میں سے کچھ سینسر-فرمان اپنے لئے محفوظ رکھ لئے تھے۔
ایمرجنسی کے 43 سال بعد آج ان چند ہدایتوں کو پڑھنے پر اس ڈراؤنے ماحول کا اندازہ ہوتاہے جس میں صحافیوں کو کام کرنا پڑا تھا، اخباروں پر کیسی پابندی تھی اور کیسی-کیسی خبریں روکی جاتی تھیں۔
ایک سینسر فرمان 20 جولائی، 1976 کو اس وقت کے مدیر اشوک جیکے دستخط سے اس طرح تھا-
‘ نس بندی میں موت یا دیگر دھاندلی کی خبریں نہ دی جائیں۔ حاصل ہونے پر انھیں اخبار کے مدیر شری دیکشت یا مجھے دیا جائے۔ ‘
اسی بارے میں ایک سینسر-فرمان 1 نومبر 1976 کا بھی ہے-
‘ ریاستی قانون ساز مجلس کا آج سے اجلاس شروع ہو رہا ہے۔ خاندانی منصوبہ بندی کے تعلق سے کچھ ضلعوں میں کچھ ناپسند واقعات ہوئے تھے۔ خبریں دیتے وقت ان واقعات کے برائے مہربانی ‘ٹون ڈاؤن ‘کریں اور اس سے متعلق پرانی ہدایتوں پر عمل کریں۔ (دھرو مالویہ کا فون)-دستخط، معاون مدیر’
غور طلب ہے کہ ایمرجنسی میں سنجے گاندھی نے سنک کی طرح آبادی کنٹرول پروگرام چلوایا۔ سرکاری ملازمین، ڈاکٹروں وغیرہ کو نس بندی کے بڑے ہدف دئے گئے۔ غیر شادی شدہ جوانوں، بوڑھوں، بھکاریوں تک کو پکڑ-پکڑکر ان کی جبراً نس بندی کی گئی۔ غیر محفوظ نس بندی کی وجہ سے ملک بھر میں بہت سی اموات ہوئی تھیں۔ روہنٹن مستری کے انگریزی ناول ‘اے فائن بیلینس ‘میں ان سب کا جذباتی اور دہلانے والا بیان ہے۔
ایک اور سینسر فرمان دیکھیے-
‘ سینسر افسر، ایم آر اوستھی کا فون، 9 اکتوبر 1976 کو-
- ہندوستان اور دیگر کسی ملک کے درمیان اسلحہ یا فاعی سمجھوتہ کی اطلاع اور اس پر کوئی تبصرہ شائع نہ کیا جائے۔
- بستی ضلع میں بی ڈی او اور اے ڈی او کے قتل کی خبر نہ چھاپی جائے۔ – معاون مدیر ‘
بنا تاریخ کا ایک سینسر-نوٹ کہتا ہے-
‘ گجرات ہائی کورٹ کے ججوں کے تبادلے سے متعلق بحث کی کوئی خبر بنا سینسر کرائے نہیں جا سکتی۔ ‘ (1976 میں گجرات ہائی کورٹ کے ایک جج نے اپنے تبادلے کو بڑا مدعا بناکر عدالت میں چیلنج دیا تھا اور حکومت ہند کو بھی پارٹی بنا لیا تھا۔ اس پر لمبی عدالتی بحث چلی تھی)
10 دسمبر، 1976 کو اخبارکے مدیر کے دستخط سے جاری حکم-
‘ 14 دسمبر کو سنجےگاندھی کا یومِ پیدائش ہے۔ اس تناظر میں کسی بھی کانگریسی رہنما کا پیغام نہیں چھپےگا۔ محکمہ اطلاعات سے ٹیلی فون پر اطلاع ملی۔ ‘
28 دسمبر (سنہ درج نہیں) کو اخبار کےمدیر کے دستخط سے جاری انگریزی میں ٹائپ کیا ہوا سینسر –
‘ کانگریس، یوتھ کانگریس اور کل ہند کانگریس کے اندر یا آپس میں تنازعہ اور گٹبازی کے بارے میں کوئی بھی خبر، رپورٹ اور تبصرہ قطعی نہیں دیا جائے (شڈ بی کلڈ)۔ یہ خاص طورپر کیرل، مغربی بنگال اور اڑیسہ کانگریس کی خبروں پر نافذ ہوگا۔ ‘
25 اکتوبر (سنہ درج نہیں) کی انگریزی میں ہاتھ سے لکھا ہوا نوٹ-
‘ سینسر آفس سے شری پاٹھک کی ہدایت-یہ فیصلہ ہوا ہے کہ 29 اکتوبر سے ہونے والے چوتھے ایشیائی بیڈمنٹن کھیل مقابلہ میں چین کی بیڈمنٹن ٹیم کی شراکت داری ہندوستانی اخباروں میں بہت دبا دی جائے۔ ‘
یہ سمجھ پانا مشکل ہے کہ چین کی بیڈمنٹن ٹیم کے ہندوستان آکر کھیلنے کی خبر اس وقت کی اندرا حکومت کیوں دبانا چاہتی تھی۔
مضمون نگار کے ہاتھ لگے سینسر-فرمان ایمرجنسی لگنے کے قریب سال بھر بعدکے ہیں۔ بالکل شروع کے فرمان اور سخت رہے ہوںگے۔ کچھ فرمان ایسے بھی ہوںگے جو مالکوں یا مدیروں کو سیدھے سنائے گئے ہوںگے، بنا کہیں درج کئے۔
تمام اخباروں کو سینسر فرمان پر عمل کرنا پڑا تھا۔ مخالفت کی علامتی شکل میں کئی اخباروں نے متعدد بار اپنے اداریہ کی جگہ خالی چھوڑی۔ کچھ چھوٹے لیکن نہ جھکنے والے اخباروں نے اشاعت ملتوی کی یا حکومت نے ہی ان کو بند کر مدیروں اور صحافیوں کو جیل میں ڈال دیا تھا۔
25 جون 1975 کی رات نافذ ایمرجنسی 21 مارچ 1977 تک رہی۔ یہ پورا دور آزاد ہندوستان کے لئے بہت خوف ناک تھا۔ جمہوریت اور اظہار کی آزادی کے لئے سب سے کالا دور، جب ہر قسم کی مزاحمتی آواز کچل دی گئی تھی۔
ایمرجنسی ہٹنے کے بعد ہوئے انتخاب میں کانگریس (ای) کی بہت بری شکست ہوئی۔ اندرا گاندھی اور سنجے دونوں انتخاب ہارے۔ ان کو اپنے سب سے برے دن دیکھنے پڑے تھے۔
جمہوریت اور اظہار کی آزادی چھیننے کی کوشش کرنے والوں کے لئے وہ دور ایک بڑا اور ضروری سبق ہے۔ اسی لئے ابھی حال میں این ڈی ٹی وی کے معاملے میں دہلی پریس کلب میں ہوئے مخالف جلسہ میں کلدیپ نیّر سے لےکر ارون شوری تک نے یاد دلایا کہ جس کسی نے پریس کی آزادی پر حملہ کیا، اس نے اپنے ہی ہاتھ جلائے۔
(مضمون نگار ہندوستان اخبار کے لکھنؤ اور یوپی ایڈیشن کے سابق ایگزیکٹیو مدیر ہیں)
Categories: فکر و نظر