2019 کے عام انتخابات کے لئے گاندھی پریوار پر لگاتار حملہ کرتے ہوئے خود کو قومی سلامتی کے واحد محافظ کے طور پر پیش کرنا ہی نریندر مودی کا سب سے بڑا داؤ ہوگا۔
پارلیامنٹ میں حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے دوران جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے واقعی میں 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔مودی کی تقریر کی ایک سب سے اہم بات یہ تھی کہ وہ اپنے مخصوص انداز میں گاندھی پریوار اور گاندھی پریوار کے ذریعے سبھاش چندر بوس، سردار پٹیل، چودھری چرن سنگھ، چندرشیکھر، مرارجی دیسائی اور حال ہی میں پرنب مکھرجی جیسے رہنماؤں کو ‘دھوکہ دینے’کی تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے حملہ کرنے سے نہیں چوکے۔
ہمیشہ کی طرح مودی اپنی اس کوشش میں آدھا سچ اور جھوٹ کو ملانا بڑے آرام سے کرتے رہے ہیں۔ مودی کا یہ انداز 2014 سے جاری ہے اور اس کا مقصد گاندھی فیملی اور کانگریس کو علاقائی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کی نظر میں گرانا اور اس سے دور کرنا ہے۔ حالانکہ حقیقت میں اس کا اثر ان چار سالوں میں الٹا ہی دیکھنے کو ملا ہے۔جس طرح سے پارلیامنٹ میں تحریک عدم اعتماد آئی ہے وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے اپنے معاون اوراپوزیشن دونوں ہی صورت میں علاقائی جماعتوں سے بڑھتی دوری کو دکھاتی ہے۔
حالانکہ اس صورت حال کا المیہ دیکھیے کہ اس بات کا نریندر مودی کو علم ہی نہیں تھا اور وہ لوک سبھا میں اس بحث کے دوران بار بار یہ پوچھتے رہے کہ ان کی حکومت، جو اتنی ‘ مضبوط اور مستحکم ‘ ہے، تو پھر اس کے خلاف تحریک عدم اعتماد کیوں لائی گئی۔محترم وزیر اعظم جی، یہ تحریک عدم اعتماد اس لئے لائی گئی تھی کیونکہ آپ کی سب سے بڑی معاون پارٹی رہی تیلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) نے آپ کی حکومت کا ساتھ ‘ نئی ریاست آندھر پردیش کو دھوکہ دینے ‘ کا حوالہ دیتے ہوئے چھوڑ دیا ہے۔
آپ کی دوسری سب سے بڑی معاون پارٹی شیوسینا نے تحریک کے دوران خود کو ووٹنگ سے دور رکھا۔ اور یہ سارے سیاسی واقعات اقتصادی مَحاذ پر آپ کے وعدوں کی چو طرفہ ناکامی کے درمیان ہوئے ہیں پھر چاہے بات روزگار سے متعلق ہوں، ترقی سے یا پھر کسانوں کی آمدنی سے۔اگر اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی مودی کو اپنے کئے پر اتنا فخر ہے، تو اس کی وجہ ان کی اپنے آس پاس تیار کی گئی غلط فہمی کی دنیا ہے، جہاں اصل فیڈ بیک ان تک پہنچ ہی نہیں پاتا۔
یا پھر کسی طرح پہنچ بھی جاتا ہے، تو سرکاری طور پر اس کو کانٹ چھانٹکر صاف ستھرا بنا دیا جاتا ہے جیسا کہ چھتیس گڑھ کی اس خاتون کسان کے معاملے میں ہم نے دیکھا۔ اس خاتون نے مودی کو ایک ویڈیو بات چیت میں بتایا کہ ان کی آمدنی دوگنی ہو گئی ہے لیکن بعد میں ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل نے جب ان سے اور ان کے گاؤں والوں سے اس بارے میں بات کی، تو کچھ اور تصویر سامنے آئی۔
این ڈی اے حکومت اس وقت پوری طرح کمزور نظر آئی، جب حقائق اور اعداد و شمار کی بات ہوئی اور ٹی ڈی پی رکن پارلیامان جےدیو گلہ نے ایک ایک کر کے حال کے مہینوں میں مرکزی حکومت کی آندھر پردیش کو دئے جانے والی مدد کے دعوے کو خارج کیا۔جے دیو گلہ نےاس بات پر دکھ ظاہر کیا کہ آندھر پردیش کی راجدھانی امراوتی کی ترقی کے لئے مرکزی حکومت کے ذریعے گجرات میں لگنے والا سردار پٹیل کا مجسمہ سے بھی کم فنڈ دئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ کل ملاکر نئی ریاست کے لئے ضروری رقم کا صرف 2-3 فیصد ہی مختص کیا گیا ہے۔
گلہ نے اپنی بات سردار پٹیل کے ایک قول کے ساتھ ختم کی کہ اگر آپ حقیقت کو نظرانداز کرتے ہیں تو حقیقت اپنے طریقے سے بدلہ لیتی ہے۔مودی کو اس کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور اپنی غلط فہمی کے عالم تک پہنچنے والے اعداد و شمار، جو کہتے ہیں کہ 2017-18 میں ایک کروڑ نوکریاں ملک میں پیدا ہوئی ہیں، کی بنیاد پر خود کو کسی غلط فہمی میں نہیں رکھنا چاہیے۔
جب ایکسپورٹ کی شرح نمو منفی ہے، ریئل اسٹیٹ سیکٹر اب تک سنبھل نہیں پایا ہے اور صنعتی پیداوار کی شرح اب بھی لڑکھڑا رہی ہے، تو ایک کروڑ نوکریاں کیسے پیدا ہو سکتی ہیں؟ ان سب کے باوجود وزیر اعظم نے لوک سبھا میں پورے اعتماد کے ساتھ کہا کہ نوکریوں میں شرح نمو کو پوری طرح سے واپس حاصل کر لیا گیا ہے اور عالمی ایجنسی ہندوستان کی اس ترقی کی بات کر رہی ہیں۔سیاسی طور پر، انہوں نے کانگریس اور گاندھی فیملی پر ہمیشہ کی طرح حملہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ‘ پوری طرح سے اپنا اعتماد کھو چکے ہیں۔ اگر ان کو خود پر اعتماد نہیں ہے، تو پھر مجھ پر کیسے اعتماد کر سکتے ہیں؟ ‘یہ صاف ہے کہ گاندھی فیملی پر لگاتار سخت حملہ اور خود کو قومی سلامتی کے واحد محافط، خاص کر پاکستان اور چین کے تناظر میں، کے طور پر پیش کرنا ہی 2019 کے عام انتخابات کے لئے مودی کا سب سے بڑا داؤ ہوگا۔
ساتھ ہی ساتھ فرقہ وارانہ پولرائزیشن کا کھیل الگ کیڈر اور نچلی سطح کے رہنماؤں کے ذریعے کھیلا ہی جائےگا۔ ایسا لگتا ہے کہ اب اس کا آغاز ہو چکا ہے۔وزیر اعظم مودی کی اس ترش مزاجی کے باوجود کہ ان کے خلاف اگلی تحریک عدم اعتماد 2024 میں آئےگی، لوک سبھا کی بحث میں واضح طور پر دکھا کہ حزب مخالف حال کے ضمنی انتخاب میں ملی جیت اور کرناٹک میں ہوئے سیاسی واقعات کے سبب نئی توانائی سے بھرا ہوا ہے۔
پہلی بار، راہل گاندھی کہیں زیادہ اعتماد سے بھرپور اور اپنے نظریہ کو لےکر پالیسی ساز نظر آ رہے ہیں۔ ان کی گلے لگانے کی حکمت عملی ‘ ہگ پلومیسی ‘ کے علاوہ انہوں نے اپنی تقریر میں موثر طریقے سے رافیل ڈیل کو لےکر سیدھا سوال پوچھا کہ کیسے راتوں رات تجربہ کار ہندوستانی ایئروناٹکس لمیٹڈ (ایچ اے ایل) کو درکنار کرتے ہوئے ایک نجی کمپنی کو اس کا معاہدہ دیا گیا، جس کے پاس کوئی تجربہ نہیں ہے اور جو بھاری قرض کے بوجھ تلے دبی ہے۔
مودی رافیل معاہدے کو لےکر اس طرح سے سیدھے سوال پوچھنے پر سکتے میں آ گئے۔ وزیر اعظم نے بھلےہی اس پر ایک لیپا پوتی کرنے والا جواب دے دیا ہو لیکن یہ مدعا آسانی سے ختم ہونے والا نہیں ہے۔ دراصل سچ تو یہ ہے کہ حکومت نے جس طرح سے فرانس سے وضاحت کے لئے زمین و آسمان ایک کردیا تھا، وہ خود اپنی کہانی بیاں کرتی ہے۔راہل گاندھی کو رافیل ڈیل کو لےکر پوری بات پوچھتے رہنا چاہیے جس کو عام کیا جا سکتا ہے۔ ایک جنگی طیارہ کی قیمت کو مخفی رکھنے کی کوئی تاریخی مثال موجود نہیں ہے۔ فی الحال اس معاملہ کی تفتیش کیگ کے ذریعے کی جا رہی ہے۔
کیوں ایچ اے ایل کو آخری وقت میں درکنار کرکے ریلائنس کو اس معاہدے میں شامل کیا گیا، اس کا جواب بھی ملنا چاہیے۔ اس کو کسی بھی لحاظ سے مخفی نہیں رکھا جا سکتا۔2019 کے عام انتخابات تک ان میں سے کئی مدعے سامنے آئیںگے۔ ایک بات ایسی ہے جو آخری وقت تک چھپی رہنی چاہیے کہ بی جے پی کو 200 کے قریب یا اس سے کم سیٹ آنے کی حالت میں مودی کو سنگھ پریوار سے کس طرح کی حمایت کی امید کر سکتے ہیں۔
کیا علاقائی جماعتوں اور پرانے معاونین شیوسینا، ٹی ڈی پی اور بیجو جنتا دل وغیرہ کی مدد سے پارٹی کے اندر ہی بغاوت ہو سکتی ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ مودی کی علاقائی جماعتوں کے رہنماؤں کے ساتھ رشتے اپنے سب سے خراب دور میں ہے۔اگر بی جے پی کو اکثریت نہیں ملتی ہے تو رہنما کے لئے سنگھ کی پسند پر یقینی طور پر اثر پڑےگا۔ یہ ایک ایسی بات ہے جس کی پیشن گوئی مودی اور امت شاہ بھی آج نہیں کر سکتے ہیں اور یہی بات 2019 کے انتخابات کو اور زیادہ مزے دار اور دلچسپ بناتی ہے۔
Categories: فکر و نظر