خبریں

دہلی فسادات: وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ سے استعفیٰ کا مطالبہ

دہلی میں فرقہ وارانہ فسادات کے لیے اپوزیشن جماعتوں نے بی جے پی حکومت کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ بی جے پی صدر امت شاہ (فوٹو : رائٹرس)

وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ بی جے پی صدر امت شاہ (فوٹو : رائٹرس)

نئی دہلی: پارلیامنٹ میں بجٹ اجلاس کے دوسرے دور کی کارروائی آج سوموار دو مارچ کو شروع ہوتے ہی اپوزیشن جماعتوں نے دہلی فسادات کے خلاف زبردست احتجاج کیا، جس کی وجہ سے دونوں ایوانوں کی کارروائی ملتوی کرنی پڑی۔اس دوران ایک نالے سے تین لاشیں برآمد ہونے کے ساتھ ہی فسادات میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر 46 ہوگئی ہے جب کہ 350 سے زیادہ زخمی زیر علاج ہیں۔ پولیس نے فسادات کے سلسلے میں 250 سے زیادہ ایف آئی آر درج کیے ہیں اور تقریباً ایک ہزار افراد کو حراست میں لیا ہے۔

اپوزیشن جماعتوں نے دہلی فسادات میں بڑے پیمانے پر جان و مال کے نقصان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس ’غیر معمولی تشدد‘ کی وجہ سے ملک کی سیکولر امیج  کو زبردست نقصان پہنچا ہے اور پوری دنیا میں بھارت کا امیج خراب ہوا ہے۔ اپوزیشن نے فسادات کی جوائنٹ  پارلیامانی کمیٹی سے جانچ کرانے اور وزیر داخلہ امت شاہ سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ بھی کیا۔واضح ہو کہ دہلی میں پولیس اور قانونی انتظام کی ذمہ داری وفاقی وزارت داخلہ کے پاس ہے۔

پارلیامنٹ کے ایوان زیریں یعنی لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر کانگریس کے ادھیر رنجن چودھری نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی حکومت دہلی میں تشددکو روکنے میں ناکام ثابت ہوئی۔ انہوں نے کہا،ہم نے وزیر داخلہ سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔ ملک کی راجدھانی میں تشدد ان کی نگرانی میں ہوا ہے۔ یہی مغربی بنگال میں بھی ہو رہا ہے۔ وہاں بھی گولی مارو سالوں کو جیسے اشتعال انگیز نعرے لگائے جارہے ہیں۔ بی جے پی ملک کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ پورا ملک ہی دھیرے دھیرے فرقہ وارانہ تشدد کی زد میں آ رہا ہے۔

دوسری طرف حکومت نے اپوزیشن پارٹیوں کو دہلی فسادات پر سیاست نہ کرنے کا مشورہ دیا۔ بی جے پی کے رہنما اور مرکزی وزیر ارجن رام میگھوال کا کہنا تھا،حکومت یہ نہیں کہہ رہی ہے کہ آپ اس معاملے کو نہ اٹھائیں۔ اس معاملے پر بحث ہونی چاہیے لیکن اس پر اگر کوئی سیاست کرے گا تو یہ درست نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دہلی جیسا واقعہ ملک میں دوبارہ نہ ہونے پائے۔

مرکزی وزیر میگھوال کا کہنا تھا کہ دہلی فسادات کی جانچ ہو رہی ہے اور تفتیش سے سب کچھ سامنے آجائے گا۔ انہوں نے مزید کہا،یہ بات اپوزیشن کے لیے اہم ہوسکتی ہے کہ کون انکوائری کر رہا ہے لیکن اس پر سب کوبھروسہ ہونا چاہیے کہ انکوائری غیر جانبدارانہ ہوگی۔

اپوزیشن نے فسادات کی انکوائری کے لیے تشکیل شدہ ٹیم کے سربراہ کے انتخاب پر اعتراضات کیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مذکورہ افسر نے شاہین باغ میں فائرنگ میں ملوث شخص کے بارے میں غلط بیانی سے کام لیا تھا اور دہلی ہائی کورٹ نے پولیس افسر کے رویے پر ناراضگی ظاہر کی تھی۔

دریں اثناآج ایک اہم پیش رفت میں سپریم کورٹ نے بی جے پی لیڈر کپل مشرا، مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر، بی جے پی ممبر پارلیامان پرویش ورما اور دوسرے بی جے پی لیڈروں کی اشتعال انگیز تقریروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے لیے ایک عرضی کی سماعت پر رضامندی ظاہر کر دی۔ عدالت اس معاملے پر آئندہ بدھ کو سماعت کرے گی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس شرد اروند بوبڈے نے سخت تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ عدالت فسادات نہیں روک سکتی لیکن ماحول ایسا بنادیا جاتا ہے گویا فساد ہونے میں عدالت کی ہی کوئی غلطی ہے۔

ایک غیر حکومتی تنظیم نے بی جے پی کے لیڈروں کے اشتعال انگیز بیانات کے خلاف دہلی ہائی کورٹ میں عرضی دائر کی تھی لیکن ہائی کورٹ نے اس معاملے کی سماعت 13اپریل تک ملتوی کردی جس کے بعد عرضی گزار نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔

وہیں فسادات کی وجہ سے جان و مال کی زبردست تباہی کے بعد دارالحکومت دہلی میں حالات دھیرے دھیرے معمول پر آرہے ہیں لیکن کوئی بھی افواہ صورت حال کو خراب کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔

کل اتوار یکم مارچ کی شام کو کچھ ایسا ہی ہوا جب دہلی کے مختلف علاقوں میں فساد کی افواہ پھیل گئی۔ اتوار کو چھٹی کا دن ہونے کی وجہ سے بیشتر علاقوں کے بازاروں میں کافی بھیڑ ہوتی ہے۔ ایسے میں افواہ پھیلنے سے افراتفری مچ گئی۔ مسلم اکثریتی علاقے بٹلہ ہاؤس میں بھگدڑ میں ایک شخص گر کر بے ہوش ہوگیا۔ اسے ہاسپٹل لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے اسے مردہ قرار دیا۔ متوفی32 سالہ حبیب اللہ، بہار کے بھاگلپور کا رہنے والا تھا۔

دہلی پولیس نے بعد میں بتایا کہ دراصل پولیس راجوری گارڈن علاقے میں جوئے کے ایک اڈے پر چھاپہ مارنے پہنچی تھی جس کی وجہ سے لوگ وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے اور جب لوگوں نے انہیں بھاگتے دیکھا تو سمجھا کہ فساد ہوگیا ہے۔ اس کے بعد آس پاس کے علاقوں میں بھی افواہ پھیلتی چلی گئی۔ پولیس نے افواہیں پھیلانے کے الزام میں کئی لوگوں کو حراست میں لیا ہے۔

(ڈی ڈبلیو اردو کے ا ن پٹ کے ساتھ)