خبریں

ہندوستانی مسلمانوں کے لیے دوہری مار بن کر آیا ہے کورونا وائرس

سب جانتے ہیں کہ کووڈ 19 ایک مہلک  وائرس کی وجہ سے پھیلا ہے، لیکن ہندوستان  میں اس کو فرقہ  وارانہ  جامہ پہنا دیا گیا ہے۔ آنے والے وقت میں یہ یاد رکھا جائےگا کہ جب پورے ملک میں لاک ڈاؤن ہوا تھا، تب بھی مسلمان فرقہ وارانہ تشددکا شکار ہو رہے تھے۔

(فوٹو: پی ٹی آئی)

(فوٹو: پی ٹی آئی)

کو رونا وائرس کی وبا اور لاک ڈاؤن سے پورا ملک بے حال  ہے، لیکن ہندوستان  کے مسلمانوں کے لیے یہ وائرس اضافی خطرہ  بن کر آیا ہے۔مسلمانوں کو ولن  کی نظر سے دیکھا جانے لگا ہے۔ اپنے روزمرہ کی زندگی میں توہین  اور سماجی بائیکاٹ جھیل رہے مسلمانوں کے لیے یہ وائرس کیسی کیسی پریشانیاں کھڑی کر رہا ہے، ہم اور آپ صرف تصور  ہی کر سکتے ہیں۔

آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کے تکلیف دہ سفر کی  ایک طویل ترین تاریخ رہی ہے۔ جب ملک کا تقسیم ہوا، تب تشدداور نفرت کی وجہ سے لاکھوں مسلمانوں کو ملک چھوڑنا پڑا۔اس کے بعد رام مندر کے نام پر ہوئے کئی فسادات نے مسلمانوں کے زخموں کو پھر سے کریدا۔ پھرملک  میں ہوئے دہشت گردانہ  حملوں نے مسلمانوں کے اوپر نیاخطرہ  پیدا کیا۔

دہشت گردانہ  حملوں کی آڑ میں سرکاروں نے مسلمانوں کا استحصال  کرنا شروع کر دیا۔ مسلم نوجوانوں  کو دہائیوں تک قید میں رکھ کر اذیتیں  دی گئیں۔ بعد میں یہ لوگ بے قصورثابت ہوئے۔ ان سب کا گنہگار کون ہے؟ادھر پچھلے کچھ سالوں میں گئورکشا اور لو جہاد کے نام پر مسلمانوں کی لنچنگ اور ان پر ہوئے حملے ہمیں یاد دلاتے رہے کہ ہندوستان  اب بھی مسلمانوں کے لیے فیاض نہیں ہے۔

سال 2014 میں جب پہلی بار نریندر مودی کی سرکار بنی، تب سے مسلمانوں کے خلاف ماحول اور زیادہ زہریلا ہو گیا ہے۔ بڑے اور آئینی عہدوں پر بیٹھے لوگوں نے مسلمانوں کے خلاف کھلے  عام زہر اگلا۔ملک کی مین اسٹریم  کی ہندی میڈیا اور دوسرے ہندوستانی زبانوں  کے ٹی وی چینلوں نے بھی مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مسلمانوں کوسیاسی اور سماجی  طور پر درکنار کر دینے کی ایک پوری کارروائی منظم طریقے سے چلائی گئی۔

سال 2019 میں حکومت میں واپسی کے بعد مودی سرکار نے مسلمانوں کے اوپر کئی آئینی  اور قانونی حملے کئے۔کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹاکر مہینوں تک اسے قید میں رکھنا، تین طلاق کو مجرمانہ قراردینا اور رام مندرکی تعمیر  کے فیصلے نے مسلمانوں کو الگ تھلگ محسوس کرایا۔

این آرسی اور شہریت  قانون کے خلاف ہوئے مظاہروں  نے مسلمانوں کو آپسی بھائی چارے اور امید کی ایک کرن دکھائی تھی۔ان مظاہروں  میں ہر مذہب اور کمیونٹی کے لوگ کندھے سے کندھا ملاکر ایک سر میں بول رہے تھے۔ طلبا ہوں یا کسان، ہرطبقے نے اس قانون کی  بولڈ ہوکر مخالفت کی، لیکن کو رونا کی وبا کے کچھ دن پہلے ہی دہلی میں ہوئے تشدد نے مسلمانوں کو پھر سے خوف زدہ  کر دیا۔

ملک  کی  سب سے بڑی  ریاست  اتر پردیش کی سرکار نے تو جیسے اپنے ہی مسلم شہریوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔21 دنوں کے لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعدان آرگنائزڈ سیکٹر کے کروڑوں مزدوروں  کے اوپربحران  آ گیا ہے۔ کام ٹھپ پڑ جانے کی وجہ سے انہیں کھانا اور بنیادی صحت سہولیات بھی نہیں مل پا رہی ہیں۔

اس مشکل دور میں ہم سب کو ایک ساتھ مل کر چلنا چاہیے تھا، لیکن ہماری سرکار کو ایسا منظور نہیں تھا۔ سرکار نے تو کچھ اور ہی سوچ رکھا تھا۔قابل ذکر ہے کہ 13 مارچ سے 15 مارچ کے بیچ قدامت پسند مسلمانوں کے تبلیغی جماعت نے دہلی کے نظام الدین علاقے میں اجتماع  کا انعقاد کیا۔ اس میں ملیشیا اور انڈونیشیا جیسے کئی ملکوں  سے لوگ آئے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ یہ انعقاد بہت ہی نقصاندہ  ثابت ہوا۔ حالانکہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ نظام الدین میں اس انعقاد سے پہلے تبلیغی جماعت کے لوگوں نے دہلی اورمرکزی حکومت  سے اجازت لی تھی۔ملک  کے کئی حصہ میں اسی طرح کے انعقاد اس بیچ کئے گئے، لیکن کسی بھی میڈیا یا سرکار نے اس کی کوئی کھوج خبر نہیں لی۔

گجرات کے مندروں اور پنجاب میں سکھوں کے جمع ہونے  پر سرکار نے کوئی دھیان نہیں دیا اور نہ ہی اس کے لیے کوئی پریس ریلیز جاری ہوئی۔تبلیغی جماعت کے معاملے میں پوری میڈیا اور سرکار نے جیسے مورچہ ہی کھول لیا۔ پریس ریلیز میں رسمی  طور پر تبلیغی جماعت کو کو رونا وائرس کاہاٹ اسپاٹ  بتایا جانے لگا۔

دہلی سرکار اپنی سرگرمیوں  میں ہر روز ‘مرکز مسجد’ نام سے ایک الگ سرکاری اعدادوشمار جاری کرنے لگی۔اسکرال ڈاٹ ان میں شعیب دانیال کی رپورٹ کے مطابق تبلیغی جماعت کے معاملے میں سرکار نے امتیازی  رویہ اپنایا۔ جہاں تبلیغی جماعت کے 25000 لوگوں کی اسکریننگ کی گئی، وہیں دوسرے مذاہب اورسیاسی انعقاد، جہاں اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ سمیت حکمراں پارٹی  کے بڑے رہنما شامل تھے، کی کوئی جانچ نہیں ہوئی۔

اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ چونکہ تبلیغی جماعت کے زیادہ سے زیادہ لوگوں کی جانچ ہوئی، اسی وجہ سے وہاں کو رونا متاثرین کی تعداد زیادہ  ہے۔

تبلیغی جماعت کے سہارے نشانے پر عام مسلمان

تبلیغی جماعت کا سہارا لے کر عام مسلمانوں کے خلاف ماحول بنایا جانے لگا۔ سوشل میڈیا پربی جے پی کے آئی ٹی سیل نے فیک ویڈیوز ڈال کر یہ بتانے کی کوشش کی کہ مسلمان جان بوجھ کر کو رونا وائرس پھیلا رہے ہیں۔کئی وائرل ویڈیوز میں بتایا کہ مسلم دکاندار پھلوں اور سبزیوں میں تھوک رہے ہیں اور دوسرے مذہب کے لوگوں کے سامنے جانے پر زبردستی کھانس رہے ہیں تاکہ کو رونا کاانفیکشن پھیلے۔

کئی ویڈیوز میں یہ بتایا گیا کہ مسلمان کو رونا کی جانچ نہیں کرا رہے ہیں اور مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھ کر لاک ڈاؤن کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ کو رونا جہاد، بایو جہاد اور تبلیغی جماعت وائرس جیسے کئی شرمناک ٹرینڈ سوشل میڈیا پر چلائے گئے۔

(فوٹو: پی ٹی آئی)

(فوٹو: پی ٹی آئی)

نفرت کی اس کھیتی کا مہلک نتیجہ بھی جلدی ہی دکھنے لگا۔ تبلیغی جماعت سے جڑے لوگوں کو دہشت گردوں  کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ جماعت سے جڑے کم سے کم دو لوگوں نے اس وجہ سے خودکشی کی۔اونا ضلع کے رہنے والے 38 سالہ دلشاد محمد تبلیغی جماعت میں شامل ہوکر لوٹے تھے۔ جانچ میں انہیں کو رونا نگیٹو پایا گیا پھر بھی پڑوسیوں کے طعنے اور استحصال کی وجہ سے انہوں نے خودکشی کر لی۔

اس کے کچھ دن بعد ہی آسام کے 30 سالہ  ایک نوجوان نے مہاراشٹر کے ایک اسپتال میں خودکشی کر لی۔ یہ نوجوان تبلیغی جماعت کے انعقاد میں شامل ہوا تھا اور یہ کو رونا وائرس سے متاثر پایا گیا تھا۔

مسلمانوں پر حملے

میرے ساتھیوں کے ذریعے لاک ڈاؤن سے متاثرین  کے لیے چلائے جا رہے ہیلپ لائن پر مسلمانوں کے خلاف تشددکے کئی واقعات کی جانکاری ملی۔ تبلیغی جماعت کے ساتھ ساتھ عام مسلمانوں پر بھی حملے ہوئے، لیکن شاید ہی مین اسٹریم  کے کسی میڈیا چینل نے اسے کور کیا ہو۔

اروناچل پردیش میں مسلم ٹرک ڈرائیوروں کو مارا گیا۔ ہریانہ کے گروگرام میں دھنکوٹ گاؤں میں نامعلوم  لوگوں نے ایک مسجد پر حملہ کر دیا۔دہلی اقلیتی کمیشن  کے صدر کے مطابق اتر پچھمی دہلی کے مکھمیل پور میں 200 لوگوں کی بھیڑ نے ایک مسجد پر حملہ کیا۔دی کوئنٹ کی رپورٹ کے مطابق کرناٹک کے کئی حصہ میں مسلمانوں کے اوپر حملے کئے گئے۔ باگلکوٹ ضلع کے بداری گاؤں میں کرشنا ندی کے ساحل  پر ایک مسلم مچھوارے پر حملہ کیا گیا۔

اس حملے کے ویڈیو میں حملہ آوروں کا کہنا تھا، ‘تمہیں لوگ (مسلمان) یہ بیماری پھیلا رہے ہو۔’اسی ضلع کے کدکورپا گاؤں میں مسجد میں نمازپڑھ رہے لوگوں کے اوپر بھیڑ نے حملہ کیا۔ 5 اپریل کی رات وزیر اعظم کی اپیل پر بتی بند نہ کرنے کی وجہ سےبیلاگاوی گاؤں میں دو اورمسجدوں پر بھی حملہ ہوا۔

مسلمانوں پر حملے کی فہرست کافی لمبی ہے اور یہ آج بھی جاری ہے۔ آنے والے وقت میں یہ یاد رکھا جائےگا کہ جب پوراملک  لاک ڈاؤن ہوا تھا، تب بھی مسلمان فرقہ وارانہ تشددکا شکار ہو رہے تھے۔اسی بیچ کرناٹک میں ایک عجیب  واقعہ ہوا۔ وہاں کے کئی اخباروں نے خبر چلائی کہ کرشنراجپیٹے میں 8 اپریل کو تین نوجوان  ایک آٹو رکشہ سے سفر کرکے لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کر رہے تھے اور جب پولیس نے انہیں پکڑا تو کہنے لگے، ‘ہم مسلمان ہیں اور ہمیں کو رونا ہوا ہے۔ اگر تم ہمیں پکڑوگے تو ہم چھینک دیں گے اور تمہیں بھی کو رونا ہو جائےگا۔’

بعد میں انکشاف ہوا کہ ان تینوں کا نام مہیش، ابھیشیک اور شری نواس تھا!

مسلمانوں کے بائیکاٹ کی اپیل

لاک ڈاؤن سے متاثر لوگوں کے بیچ راشن بانٹ رہے ہمارےادارےکاروان  محبت کے کچھ مسلم ساتھیوں نے بتایا کہ جب وہ کسی ہندو اکثریت  محلے میں جاتے ہیں تو ان کے ساتھ بدسلوکی ہوتی ہے اور باہر کر دیا جاتا ہے۔سوراج ابھیان کے رضاکاروں کو بھی اسی طرح کی زیادتی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا کہنا ہے کہ جب وہ مہاجر مزدوروں کے بیچ راشن بانٹ رہے تھے تبھی کچھ لوگوں نے کرکٹ بیٹ سے ان کی پٹائی کی۔

سید تبریز نام کے ایک رضاکار نے دی  کوئنٹ کو بتایا، ‘انہوں نے کہا کہ تمہیں کھانا نہیں بانٹنے دیں گے کیونکہ تم سبھی لوگ نظام الدین علاقے سے ہو۔ تم لوگ ہی وائرس کو ملک بھر میں پھیلا رہے ہو۔’اس کے ساتھ ساتھ کئی جگہوں سے مسلمانوں کے سماجی  اوراقتصادی بائیکاٹ کی باتیں بھی سامنے آئیں۔ مڈل اور اپرکلاس کے لوگوں نے مسلمانوں کابائیکاٹ  کرنے کا جھنڈا اٹھایا۔

دہلی، اتراکھنڈ اور کئی ریاستوں  سے اس طرح کی خبریں سامنے آئیں۔ دی  وائر کی ہی رپورٹ کے مطابق پنجاب کے ہوشیارپور میں دودھ بیچنے والے گوجر مسلمانوں پر حملے ہوئے۔ انہیں اپنا دودھ ندی میں بہانا پڑا۔آسام اور کرناٹک جیسی  ریاستوں کے گاؤں میں مسلمانوں کے داخلہ کی پابندی والا پوسٹر بھی لگایا گیا۔

ہم سب جانتے ہیں کہ کووڈ 19 ایک مہلک  وائرس کی وجہ سے پھیلا ہے۔ لیکن، ہندوستان  میں اس وائرس کو فرقہ وارانہ جامہ پہنا دیا گیا ہے۔یہ افواہ بہت گہرے میں بٹھا دیا گیا ہے کہ کو رونا وائرس مسلمانوں کے ذریعے ایک سازش کے تحت ہندوؤں کو مارنے کے لیے پھیلایا جا رہا ہے۔

رائٹ ونگ  اور سوشل میڈیا پر موجود ٹرولز نے اس کے لیے جھوٹے فوٹو اور ویڈیو وائرل کئے۔میں نے کچھ ایسے ہندوؤں سے بھی بات کی، جوعام طور پر اسلام سے نفرت نہیں کرتے ہیں۔ ان سب کا بھی یہی ماننا تھا کہ کو رونا پھیلنے کی اہم وجہ  مسلمان ہی ہیں۔تبلیغی جماعت اور پورے مسلم سماج کو کو رونا وائرس کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا جانا محض ایک اتفاق  نہیں ہے۔مرکزی حکومت کے ایک وزیر(جن کے اوپر اقلیتوں کے فلاح وبہبودکی ذمہ داری ہے)نے تو تبلیغی جماعت کو طالبانی جرم  قرار دیا۔

تبلیغی جماعت کے روشنی میں آنے سے پہلے ملک کے سبھی لوگوں کا دھیان لاک ڈاؤن کی وجہ سے نقل مکانی  کو مجبور ہوئے غریب مزدوروں پر تھا۔لوگ سرکار کی ناکامیوں پر سخت سوال پوچھ رہے تھے، لیکن تبلیغی جماعت کے سامنے آتے ہی مدعے کو بھٹکانے کا ایک موقع مل گیا۔

سرکاراسپانسرڈفرقہ پرست میڈیا نے مسلمانوں کو گھیرنا شروع کر دیا۔ تمام ضروری سوالوں کو پرے کرکے مسلمانوں کو نشانہ  بنایاجانے لگا۔عام ہندو بھلے ہی فرقہ پرست نہ ہوں، لیکن وہ بھی میڈیا کے اس پروپیگنڈہ  کاشکار آسانی سے ہو گئے۔ وہ بھی ماننے لگے کہ مسلمان ہی باقی قوم کے لوگوں کے بیچ کو رونا پھیلا رہے ہیں۔

کو رونا مہاماری کی جتنی قیمت دوسرے قوم کے لوگ چکا رہے ہیں، اتنی ہی قیمت مسلمان بھی چکا رہا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ باقی کسی بھی کمیونٹی  سے زیادہ تکلیف میں شہری حلقوں کے چھوٹے مسلم کاروباری  ہیں۔ انہیں کوئی سرکاری راحت بھی نہیں مل سکتی، کیونکہ وہ  رجسٹرڈ مزدور نہیں ہیں۔

آج اس وبا میں جب پورا ہندوستان  نقل مکانی ، بے روزگاری اور بھوک جیسی  پریشانیوں سے جوجھ رہا ہے، ہندوستان کے مسلمان ان سب کے ساتھ ساتھ اپنے پڑوسیوں کی نفرت اور تشددکو بھی جھیلنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔کو رونا وائرس مسلم بھائی بہنوں کے لیے دوہری مار بن کر آیا ہے۔ اپنے ہی لوگوں کے بیچ نفرت اور تشددکا سامنے کر رہے مسلمانوں کے لیے یہ سب سے خطرناک اور کٹھن وقت ہے۔

(ہرش مندر سابق آئی اے ایس افسر اور سماجی کارکن ہیں۔ )