دہلی فسادات کےسلسلےمیں گرفتار گل فشاں فاطمہ سو دن سے زیادہ عرصے سے تہاڑ جیل میں ہیں۔سول سوسائٹی کے ممبروں، ماہرین تعلیم اور قلمکاروں سمیت450 سے زیادہ لوگوں نے ان کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ دہلی پولیس وباکا فائدہ اٹھاکر مظاہرین کو غیر قانونی طریقےسے گرفتار کر رہی ہے۔
نئی دہلی: قومی راجدھانی دہلی میں فسادات کے سلسلے میں گرفتار کی گئیں سیلم پور سے ایک نوجوان اسٹوڈنٹ اور کمیونٹی ٹیچر گل فشاں فاطمہ کی رہائی کو لےکرسول سوسائٹی کے ممبروں ، ماہرین تعلیم ، کارکنوں،قلمکاروں ، صحافیوں ، آرٹسٹ اوروکیلوں سمیت 450 سےزیادہ لوگوں نے ایک بیان جاری کیا ہے۔
فاطمہ پچھلے 100دن سے زیادہ عرصےسے یو اے پی اے قانون کے تحت دہلی کی تہاڑ جیل میں بند ہیں۔بیان جاری کرنے والوں میں اوما چکرورتی، روپ ریکھا ورما، جیتی گھوش، عائشہ فاروقی، میری جان، نندنی سندر، کویتا کرشنن اور پردیپ کرشن جیسے لوگ شامل ہیں۔انہوں نے کہا ہے کہ آئین کی حفاظت کرنے کی ہمت کرنے اور سی اے اے –این آرسی-این پی آر کے خلاف پرامن احتجاج کرنے کے لیے ان کو جیل میں ڈالا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دہلی پولیس اس وبا کا فائدہ اٹھاکرمتنازعہ سی اے اے -این آرسی کے خلاف احتجاج کرنے والے لوگوں کو غیرقانونی ڈھنگ سے گرفتار کر رہی ہے۔کارکنوں نے کہا کہ جب کورونا کی وجہ سے جیلوں میں بھیڑ کم کرنے کے لیے عالمگیر مانگ اٹھ رہی ہے، ایسے میں یہ بہت دردناک ہے کہ کئی لوگوں کی طرح گل فشاں 100 دنوں سے جیل میں بند ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ دسمبر 2019 سے فروری 2020 کے بیچ ملک بھر کے لاکھوں شہریوں نے، بالخصوص خواتین نےامتیازی سلوک اور اور جبرواستحصال کی اس سرکار کے فرقہ وارانہ منصوبے کو پرامن طریقے سےچیلنج دیا۔انہوں نے کہا کہ گل فشاں کے بارے میں ایسے کئی مثالیں ہیں جن میں وہ مقامی مظاہروں میں شامل ہوکرکلاسز چلا رہی ہیں، کمیونٹی کے بچوں اور خواتین کوتعلیم دے رہی ہیں اور انہیں تعلیم یافتہ بنا رہی ہیں۔
بیان میں کہا گیا،‘اس طرح گل فشاں ساوتری بائی پھولے اور فاطمہ شیخ کی وراثت کی ایک وارث اور امین ہیں، جنہوں نے لڑکیوں اور خواتین کے لیےتعلیم اور آزادی کو ایک حقیقت بنانے کے لیے تمام رکاوٹوں سے لڑائی کی۔’انہوں نے کہا کہ جیسے ہی گل فشاں کو ایک معاملے میں ضمانت ملی، ویسے ہی پولیس نے ایک اور ایف آئی آر دائر کرکے انہیں دوبارہ گرفتار کیا اور یواے پی اے جیسے سخت قانون کی دفعات لگا دیں۔
سرکار اس قانون کا استعمال احتجاج کی آوازوں کو دبانے کے لیے کر رہی ہے اور مظاہرین کوقومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دے رہی ہے۔بیان میں گل فشاں فاطمہ کے علاوہ صفورہ زرگر، عشرت جہاں، دیوانگنا کلیتا، نتاشا نروال، میران حیدر، شرجیل امام، شرجیل عثمانی، خالد سیفی، اکھل گگوئی، دھیرجیا کو نور، بٹھو سونووال، مانش کو نور کے خلاف بھی تمام معاملوں کو خارج کرنے اور انہیں رہا کرنے کی مانگ کی گئی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ،شمال مشرقی دلی میں فروری 2020میں ہوئے منصوبہ بند فساد کی، دہلی پولیس اور وزیر داخلہ کی طرف سے جو جانبدارانہ تحقیقات ہورہی ہیں اس کوپورا ملک دیکھ رہا ہے ۔اس وبا کے بہانے ان لوگوں پر تشدد کیا جارہا ہے ، پوچھ تاچھ کے نام پر ہراساں کررہے ہیں اور جیلوں میں بند کررہے ہیں ۔یہ لوگ سی اے اے -این آرسی-این پی آر کے خلاف پُر امن احتجاج کر رہے تھے۔یہ طلبااور جمہوریت پسند لوگ ہیں، جن میں بہت سارے مسلمان ہیں۔اقوام متحدہ سمیت، ملک اوردنیا کی تمام جمہوری قوتوں نے ان گرفتاریوں کے ذریعہ مزاحمت کو دبانے کی کوشش پرزبردست تشویش ظاہر کی ہے اور اپنے غم و غصہ کا اظہار کیاہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ،پسماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والی گل جیسی ذہین طالبہ کی حکومت کی طرف سے حوصلہ افزائی اور حمایت کی جانی چاہیے تھی۔ اس کے برعکس اس کو جیل بھیج کرسرکار ایک بھیانک پیغام دے رہی ہے جس کا مقصد خواتین کو قابو میں رکھنا، تعلیمی اداروں سے دور رکھنا اور ان پر لگی بندشوں کو مستحکم کرنا ہے جس کے خلاف خواتین نے طویل جدوجہد کی ہے۔
کارکنوں نے کہا کہ ،ہم گل کے ساتھ کھڑےہوکر یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ریاست فوری طور پر اس پر اور دیگر تمام طلبا اور کارکنوں پر لگائے گئے فرضی الزامات کومنسوخ کرے اور اس کے ساتھ ہی دہلی ، اترپردیس اور دوسرے مقامات پر ہوئے فرقہ وارانہ تشدد اور نفرت پھیلانےکے لیے ذمہ دارلوگوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کرے۔
Statement on Gulfisha Fatima by The Wire on Scribd
Categories: خبریں