گرفتاری پرکارکنوں کےایک گروپ نے بیان جاری کر کےدہلی پولیس کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پرامن سی اے اے مخالف مظاہروں کو نشانہ بنانے کے لیے پولیس اپنی متعصب جانچ کے ذریعے انہیں پھنسا رہی ہے۔
نئی دہلی: اس سال فروری میں شمال-مشرقی دہلی میں ہوئے فسادات میں مبینہ رول کےالزام میں پولیس نے اتوار کی دیر رات جواہر لال نہرو یونیورسٹی(جے این یو)کےسابق اسٹوڈنٹ لیڈر عمر خالد کو گرفتار کر لیا ہے۔دہلی فسادات کے سلسلے میں دہلی پولیس کی کرائم برانچ نے دو ستمبر کو کچھ گھنٹے تک عمر سے پوچھ تاچھ کی تھی۔ خالد کویواے اپی اےقانون کی دفعات کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔
پولیس نے دعویٰ کیا کہ شہریت قانون(سی اےاے) اوراین آرسی کے خلاف مظاہروں میں شامل عمر خالد اور دیگر نے دہلی میں فسادات کی سازش کی تاکہ دنیا میں مودی سرکار کی امیج کو خراب کیا جا سکے۔
Umar Khalid has been booked under the Unlawful Activities Prevention Act (UAPA). https://t.co/EaA7fKLd6g
— ANI (@ANI) September 13, 2020
کارکنوں،ماہرین تعلیم اور وکیلوں کے ایک گروپ کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں بےبنیادالزام لگاکرعمر خالد کی گرفتاری کے لیے دہلی پولیس کی مذمت کی گئی ہے اور خالد کو ‘ملک کے آئینی قدروں کی حفاظت کرنے والی نوجوان آواز’بتایا گیا ہے۔انہوں نے آگے کہا،‘آئینی قدروں کے لیےوقف شہری کے طورپر ہم عمر خالد کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہیں۔پرامن اینٹی سی اے اےمظاہرین کو نشانہ بنانے کے لیےپولیس اپنی متعصب جانچ کے ذریعے خالد کو پھنسا رہی ہے۔’
پریس ریلیز کے مطابق، ‘بےحد رنج کے ساتھ ہمیں یہ کہنے میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ جانچ ملک کی راجدھانی میں فروری2020 میں ہوئے تشددکےبارے میں نہیں ہے،بلکہ غیرآئینی سی اے اےکےخلاف ملک بھر میں ہوئے پوری طرح سے پرامن اورجمہوریت مخالف مظاہروں پر ہے۔’
عمر خالد کو ‘پورے ملک میں آئین کے حق میں بولنے والی سینکڑوں آوازوں میں سے ایک’ بتاتے ہوئے کارکنوں، ماہرین تعلیم اور وکیلوں کے گروپ نے کہا کہ وہ آئین اور جمہوریت کے حق میں بولنے والے نوجوان ہندوستانیوں کی ایک مضبوط اور مؤثرآواز کے طورپرابھرے ہیں۔
اس بیان پر دستخط کرنے والوں میں پیپلس یونین فار سول لبرٹیز کے وکیل روی کرن جین اور وی سریش، وکیل مہر دیسائی اور اینڈی پنچولی،ماہرتعلیم ستیش دیش پانڈے، میری جان، اپوروانند،نندنی سندر اور شدھبرتا سین گپتااورکارکن آکار پٹیل، ہرش مندر، فرح نقوی اور براج پٹنایک شامل ہیں۔
اس سے پہلے پولیس نے فسادا ت سے جڑے ایک دیگر معاملے میں عمر کے خلاف یواے پی اے کے تحت معاملہ درج کیا تھا۔ دہلی پولیس کی اسپیشل برانچ نے بھی فسادات کے پیچھےمبینہ سازش کے معاملے میں عمر سے پوچھ تاچھ کی تھی۔پولیس نے اس کا موبائل فون بھی ضبط کر لیا تھا۔
قابل ذکر ہے کہ فروری مہینے میں شمال-مشرقی دہلی میں فرقہ وارانہ فسادات بھڑک گئے تھے جس میں کم سے کم 53 لوگوں کی موت ہوئی تھی جبکہ 200 کے قریب زخمی ہوئے تھے۔
فسادات میں شامل تمام لوگوں کے رول کی جانچ کی جا رہی: دہلی پولیس
جانچ کو لےکرتنازعات میں گھری دہلی پولیس نے اتوار کو کہا کہ وہ فروری میں شمال-مشرقی دہلی میں ہوئے فسادات میں شامل ان تمام لوگوں کے رول کی جانچ کر رہی ہے، جو تشدد پھیلانے کی سازش کے پیچھے تھے اور مختلف کمیونٹی کے بیچ فرقہ وارانہ جنون بھرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
ایک بیان میں دہلی پولیس نے کہا کہ مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارم اور دیگر آن لائن پورٹل کا استعمال کرکے فسادات کے معاملوں کی جانچ کی غیرجانبداری پر سوال اٹھا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس طرح کےالزام لگائے جا رہے ہیں کہ سی اے اے کی مخالفت کرنے والے مظاہرین کے علاوہ سماجی کارکنوں،ماہرین تعلیم اورطلبا کو ‘فرضی معاملوں’میں پھنسایا جا رہا ہے۔
پولیس نے اپنے بیان میں کہا، ‘جانچ کے بارے میں تنازعہ اور شکوک پیدا کرنے کے لیے کچھ لوگ عدالتوں میں دائر چارج شیٹ کی کچھ لائنوں کو لےکر اس کو تناظر سے الگ استعمال کر رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ سہی نہیں ہے۔’بیان میں کہا گیا کہ دہلی پولیس ایسے وقت میں جب معاملہ عدالت میں زیرسماعت ہو اس پر جواب دینا ضروری اورمناسب نہیں مانتی ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں