یہ ہندوستان کی معاشرتی فطرت بنتی جا رہی ہے کہ مسلمانوں کو کھلے عام مارا جا سکتا ہے، ان کے خلاف پرتشدد پروپیگنڈہ کیا جا سکتا ہے اور پولیس انتظامیہ سے لےکر سیاسی پارٹیوں تک کوئی بھی اسے سنگین معاملہ ماننے کو تیار نہیں۔
ہریانہ کے نوح کے انڈری گاؤں میں30 مئی کو ایک اجلاس ہوا جس میں ایک مقررنے پوچھا، ‘وہ ہماری ماؤں اور بہنوں کی ننگی تصویر کھینچتے ہیں۔ کیا ہم ان کا خون بھی نہیں کر سکتے؟’اسم معرفہ (اسم خاص) نہیں ہے۔ وہ کون، کس کا خون کرنے کی چھوٹ مانگی جا رہی ہے۔ اسم ضمیر کا یہ استعمال بڑ ی ہوشیاری سے کیا گیا ہے۔ سامعین جانتے ہیں کہ وہ کون ہیں اور کن کا خون دن دہاڑے کرنے کاحق ان کو ہے۔
یہ اجلاس ہریانہ، اتر پردیش اور راجستھان سے آئے لوگوں کا تھا، جو 16مئی کو سوہنا میں ایک جم ٹرینر نوجوان آصف کے قتل کے ملزمین کو چھوڑنے کی مانگ کرنے کے لیےاکٹھا ہوئے تھے۔
آصف اور اس کے بھائی راشد پر کچھ لوگوں نے حملہ کیا تھا اور آصف کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالا۔ راشد بچ گئے اور انہوں نے بتایا کہ حملہ آور اسے جئے شری رام بولنے کو مجبور کر رہے تھے اور سارے مسلمانوں کے قتل کی دھمکی دے رہے تھے۔
پولیس نے ایف آئی آر میں نامزد 14ملزمین میں کچھ کو گرفتار کیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ کوئی فرقہ وارانہ تشدد کا معاملہ نہیں ہے۔ پرانی ذاتی رنجش کی وجہ سےیہ قتل کیا گیا ہے۔ اس نے کچھ ملزمین کو پکڑ لیا ہے اور باقی کی تلاش جاری ہے۔
اس قتل کے بعد یہ بھرم بنا رہا کہ یہ فرقہ وارانہ تشددہے یاعام تشدد۔ میوات میں مسلمانوں کی اچھی تعداد ہے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ وہ پولیس کی کارروائی پر بھروسہ کریں گے جس کی ذمہ داری ایسےتشدد کے معاملوں کی تفتیش کی اور ملزمین کی گرفتاری کی ہے۔
الزام تھا کہ یہ فرقہ وارانہ تشدد ہے۔ اس کے باوجود مسلمانوں نے کوئی عوامی اجلاس، احتجاجی مظاہرہ وغیرہ کرنے سے پرہیز کیا اور اسے پولیس پر چھوڑ دیا کہ وہ اپنا کام کرے۔ لیکن خود کو ہندو مفاد کی محافظ کہنے والی تنظیمیں اور افراد متحرک ہو گئے اور ملزمین کی رہائی کے لیے انہوں نے جگہ جگہ پنچایت کرنا شروع کر دی۔
جیسا اس آخری اجلاس کی تقاریر سے واضح ہے کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ قتل بالکل ٹھیک کیا گیا ہے۔ لیکن ملزمین کے نام لےکر کہا گیا کہ انہوں نے نہیں مارا۔ ‘آصف اپنی کرتوت کی وجہ سے مارا گیا۔ وہ ہماری ماں بہنوں کی ننگی تصویریں کھینچتے ہیں… اور ہم ان کا خون بھی نہیں کر سکتے! ہم انہیں گولی مار دیں گے اور دیکھتے ہیں کہ کس نے اپنی ماں کا دودھ پیا ہے کہ ہمیں روک دے…’
مقررین نے مسلمانوں کے لیےغیرمہذب الفاظ اور گالیوں کا جم کر استعمال کیا۔ ان کے ویڈیو اب چاروں طرف گھوم رہے ہیں۔ جس شخص نے چلتی ٹرین میں15 سال کے جنید کا قتل کیا تھا اس نے بھی شان سے کہا کہ اس نے ایک جہادی کو مارا تھا۔
یاد کر لیں کہ پولیس نے جنید کے قتل کو سیٹ کے لیے ہوئے جھگڑے میں ہوئی موت بتلایا تھا۔ اس کے مطابق یہ فرقہ وارانہ تشدد نہیں تھا۔ لیکن ملزم خود ہی قبول کر رہا ہے کہ اس نے جنید کو مسلمان ہونے کی وجہ سے مارا تھا۔
اس اجلاس کو ہفتہ گزر گیا۔ پولیس نے اب تک اجلاس کے آرگنائزر اورمقررین پر کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔ یہ کہنا بے مطلب ہے کہ جو پولیس مظاہرہ کررہے کسانوں کو گرفتار تک کر لیتی ہے، وہ دفعہ144نافذ ہونے کے باوجود یہ اجلاس ہوتے دیکھتی ہے۔
کھلے عام تشدد کے لیے اکسانے والوں کے خلاف کارروائی میں اس کی کوئی دلچسپی نہیں دکھتی۔ سرکار اورحکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کی توسیاست ہی مسلمان مخالف نفرت کو اکسانے پر ٹکی ہے اس لیے اس سے امید ہی بیکار ہے۔ لیکن آج تک دوسری سیاسی پارٹیوں نے اس نفرت اورتشدد کے کھلےعام پرچار پر کوئی بیان نہیں دیا ہے۔
کسانوں کی تحریک کا ایک مرکز ہریانہ ہے اور وہ سرکاری جبر کوبھی جھیل رہے ہیں۔ لیکن کسان رہنماؤں نے بھی اس تشددکی تشہیرکے خلاف کوئی بیان نہیں دیا ہے۔ اس سے کیا نتیجہ نکالا جائے؟ اگر مرنے والا مسلمان ہو اور ملزم ہندو تو کیا ملزم کے حق میں ہندو صف بندیاں کریں گے اور ملزم کو چھڑانے کی مانگ کریں گے؟
ہو سکتا ہے کہ آصف کا قتل فرقہ وارانہ نفرت کی وجہ سے نہ کیا گیا ہو لیکن اب اس کے قاتلوں کےحق میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ یقینی طور پر مسلمان مخالف نفرت پر مبنی فرقہ وارانہ تشددکو بھڑ کانے کی کوشش ہے۔ اسے کیسے برداشت کیا جا سکتا ہے؟
کسان رہنما کیا اس لیے چپ ہیں کہ اگر انہوں نے اس فرقہ واریت کے خلاف منھ کھولا تو ان میں پھوٹ پڑ جائےگی؟ تو اب تک وہ کس اخلاقیات کی بات کر رہے تھے؟ اور مظفرنگر میں کس مسلمان ہندو اتحاد کی دہائی دی جا رہی تھی؟
کیا کانگریس پارٹی بھی اسی وجہ سے چپ ہے کہ اس مسلمان مخالف نفرت کی مہم میں شامل لوگوں میں اس کے ووٹر بھی ہوں گے اور وہ انہیں کھونا نہیں چاہتی؟
یہ ہندوستان کی معاشرتی فطرت بنتی جا رہی ہے کہ مسلمانوں کو کھلے عام مارا جا سکتا ہے، ان کے خلاف تشدد کی تشہیر کی جا سکتی ہے اور اسے پولیس اور انتظامیہ سے لےکرسیاسی پارٹیوں تک کوئی بھی سنگین معاملہ ماننے کو تیار نہیں۔
دہلی میں پچھلے سال مرکزی حکومت کے وزیروں اور بھارتیہ جنتا پارٹی کےرہنماؤں نے سی اے اے کی مخالفت کرنے والے مظاہرین کے خلاف کھل کر تشددکو بھڑکایا۔ تشدد ہوا،53 لوگ مارے گئے، ہزاروں کو نقل مکانی کرنی پڑی ۔ لیکن پولیس نے اس تشدد کی تشہیر پر کوئی بھی کارروائی کرنے سے منع کر دیا۔
دہلی کے ہائی کورٹ نے بھی ان کے خلاف فوراً ایف آئی آر درج کرنے کی عرضی کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا۔ یعنی اس تشدد کی تشہیر کی ہندوستان میں اب کھلی چھوٹ ہے۔آپ مسلمانوں کو کھلے منچ سے گالی دے سکتے ہیں، ان کا خون کرنے کی بات کر سکتے ہیں، ایک قاتل اپنی شان بگھار سکتا ہے اور کسی کو کچھ بھی نہیں کیا جائےگا۔
کیا ہندو سماج کو اس پر کچھ سوچنا چاہیے؟ کیا ان اجلاس میں حصہ لینے والے اور مسلمانوں کے خلاف تشدد کا ارادہ رکھنے والے اس سماج میں بڑھتے جا رہے ہیں اور کیا یہ اس کے لیے تشویش کاباعث نہیں ہونا چاہیے؟
جب اس کی بات کی جاتی ہے تو لوگ پوچھنے لگتے ہیں کہ جب فلاں مسلمان نے ایک ہندو کو مارا تھا یا ریپ کیا تھا، تب آپ کہاں تھے؟ وہ یہ نہیں پوچھتے کہ کیا کبھی ایسے معاملوں میں ملزم کے حق میں مسلمانوں نے جلوس نکالا یا میٹنگ کی؟ کیا انہوں نے تقریر کی کہ ہندو کا قتل کیا جانا چاہیے؟ کیا کبھی کسی مسلمان رہنما نے ایسے کسی ملزم کو ضمانت ملنے پر مالا پہنائی؟ اس لیے یہ موازنہ ہی بے معنی ہے۔
ہم اس گہری ہوتی بیماری کو دیکھنا نہیں چاہتے جو ہندو سماج کو اندر سے کھوکھلا کر رہی ہے۔ یہ ہم کٹھوعہ میں بھی دیکھ چکے ہیں اور دادری میں بھی اور رام گڑھ میں بھی۔ ہندو اگرمسلمان کے خلاف تشدد کرے، وہ ریپ ہو یا قتل تو اس کے حق میں گاؤں والے، کمیونٹی والے، یا ہندو جلوس نکالنے لگتے ہیں۔ راجسمند میں افرازل کا قتل کرنے والے شمبھولال ریگر کی جھانکی رام نومی جیسےمقدس موقع پر نکالی گئی تھی۔ اس کے لیے چندہ اکٹھا کیا گیا۔ یہ بیماری پورے ہندوستان میں ہندو سماج میں پھیل رہی ہے۔
زیادہ تر لوگ کہہ رہے ہیں کہ چونکہ ابھی انتخاب ہونے والے ہیں، مسلمان مخالف تشددمیں اضافہ ہورہا ہے۔ ایسا کرکے بھارتیہ جنتا پارٹی کے حق میں ہندوؤں کا پولرائزیشن کیا جا رہا ہے۔ صلاح دی جا رہی ہے کہ بہتر ہو، مسلمان ابھی اسے مسئلہ نہ بنائیں اور خاموش رہیں۔ کیونکہ بی جے پی چاہتی یہی ہے کہ مسلمان اپنے اوپر تشددکی مخالفت کریں۔ ایسا کرتے ہی ہندو بی جے پی کی طرف چلے جائیں گے۔
یہ ایک عجیب دلیل ہے۔ مسلمان تشددجھیلتے رہیں، منھ بھی نہ کھولیں کیونکہ اس سے ان کے قاتلوں کو فائدہ ہو جائےگا کیونکہ ان کی محافظ پارٹی انتخاب جیت جائےگی۔
یہ بھی صاف ہو جانا چاہیے کہ یہ کوئی انتخاب نزدیک آتے دیکھ ہندوؤں کا دھیان‘اصلی مدعوں’سے بھٹکانے کی سازش نہیں ہے۔ بلکہ اصل مدعا پچھلے 7 سالوں میں یہی بن گیا ہے۔ کیا مسلمان، بزدل سیکولرپارٹیوں کے مفاد میں اپناقتل ہونے دیں اور روزانہ کی ذلت بھی برداشت کریں! کیونکہ بیچارے ان پارٹیوں کو ہندو ووٹ چاہیے اور وہ بدک جا ئیں گے اگر انہوں نے اس تشدد کے خلاف کچھ کہا!
اس سرکار کے پہلی بار 2014 میں اقتدار میں آنے کےبعد پونے میں محسن شیخ کی‘لنچنگ’کے ملزمین کو عدالت نے رہا کیا یہ کہہ کر کہ وہ محسن کے حلیہ کو دیکھ کر مشتعل ہو گئے تھے۔ مانو یہ ان کا حق تھا اور اس لیے بیچارے سے قتل ہو گیا تو بڑی بات نہ تھی۔ اسی وقت طے ہو گیا کہ ایسے تشدد کے لیے سماج کی ہر اکائی کے پاس دلیل ہے۔
ہندوستان کی تمام پارٹیوں، تنظیموں اور ہندو سماج کے لوگوں کو اس پرسنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ کیا وہ نفرت،تشدد اورقتل کے حق میں کھڑا ہونے والا بیمار معاشرہ بنتا جا رہا ہے؟
(مضمون نگار دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر