بک ریویو: تحریک کے ساتھ ہی تحریکوں کو دستاویزی پیرہن عطا کرنا ایک اہم اور ذمہ دارانہ کام ہے۔ صحافی مندیپ پنیا نے زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی تحریک کے سفر کو تخلیقی انداز میں حقائق کے ساتھ پیش کرکے اس سمت میں کوشش کی ہے۔
گزشتہ چند سالوں میں جن تحریکوں نے ہندوستان کو سب سے زیادہ حیران کیا وہ شہریت ترمیمی مخالف تحریک اور کسانوں کی تحریک ہیں۔ کسانوں کی تحریک اس تناظر میں اور بھی خاص ہے کہ جب یووال نوح ہراری جیسے دانشور یہ پیشین گوئی کر رہے تھے کہ کورونا کے بعد کی دنیا ‘عدم مزاحمتی/عدم تحریکی دنیا’ ہوگی، تو انہیں غلط ثابت کرتے ہوئے کسان دہلی کی سرحدوں پر ڈٹے ہوئے تھے۔
کورونا سے پہلے اور کورونا کےبعد کی ان دونوں تحریکوں نے نہ صرف ملک بلکہ پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی۔ ان تحریکوں کی باز قرأت یا تجزیہ صرف ان کی فتح یا شکست کے دائرے میں ممکن نہیں، کیونکہ ہر تحریک معاشرے میں ایسی لہریں پیدا کرتی ہیں، جس سے بہت سی چیزو ں کا ظہور ہوتا ہے— نئے خیالات/آئیڈیاز، جدوجہد کے طریقے، انسان، ثقافت، روایت اور صحافت بھی۔
مندیپ پنیا کسانوں کی تحریک سے پہلے بھی صحافی تھے، لیکن اس تحریک نے ان کی صحافت کو تراشنے کا کام کیا، جس کا ثبوت ان کی نئی کتاب ‘کسان آندولن، گراؤنڈ زیرو 2020-21‘ ہے۔ انہوں نےاس کا حصہ بن کر کسانوں کی تحریک کی رپورٹنگ کی۔ وہ ان کے ساتھ ہی دہلی کی سرحدوں پر آئے اور رہے۔
رپورٹنگ کے دوران اور رپورٹنگ کے لیے ہی وہ 30 جنوری 2021 کو گرفتار بھی ہوئے۔ گرفتاری کے دوران دہلی پولیس نے یہ کہہ کر ان کی پٹائی بھی کی کہ ‘تیرےجیسے کئی صحافی میں نے رگڑے ہیں، اب کرنا تہاڑ میں صحافت ۔’ انہوں نے پولیس والوں کے طنز کو حقیقت میں بدل دیا اور تہاڑ کو وہاں رہنے تک اپنا نیا ‘گراؤنڈ زیرو’ بنا لیا۔
جب وہ 4 فروری کو تہاڑ سے باہر آئے تو ان کے زخمی پاؤں ان کے رپورٹنگ کے نوٹس کا صفحہ بنا ہوا تھا۔ اس پر تہاڑ میں بند لوگوں کے نام اور مقدمات لکھے ہوئے تھے، جنہیں کسانوں کی تحریک کی وجہ سے مختلف اوقات میں مختلف مقامات سے گرفتار کیا گیا تھا۔ بعد میں انہوں نے اسے رپورٹ کی صورت میں تیار کیا، جو اس کتاب میں بھی شامل ہے۔ پاش کی یہ نظم ایسے رپورٹر پر بھی بالکل فٹ بیٹھتی ہے کہ—
‘میں گھاس ہوں
تمہارے ہر کیے—دھرے پر اُگ آؤں گا’
کسانوں کی تحریک پر مندیپ پنیا کی رپورٹ، جو حال ہی میں راج کمل پرکاشن سے کتابی صورت میں شائع ہوئی ہے، اس میں انہوں نے پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں کے دہلی آنے سے لے کر جیت کے بعد ان کی واپسی تک کی کہانی درج کی ہے۔
ملکی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے والی اس تحریک کے سفر کو انہوں نے بے حد تخلیقی انداز میں حقائق کے ساتھ قلمبند کیا ہے۔ ہندی میں پنجابی اور ہریانوی لہجے والی زبان ایسی ہے کہ پڑھتے ہوئے کسی عمدہ ادب کا سالطف ملتا ہے۔ بیانیہ اس قدر رواں دواں ہے کہ ایک بار کتاب شروع کر دیں تو اسے رکھنے کا دل ہی نہیں کرتا۔ زبان کی بعض خصوصیات ملاحظہ کیجیے-
تارےاوڑھ کر سوئے کسانوں کے گال صبح لال ٹماٹر ہو رہے تھے۔
دورتک ٹریکٹروں کی ندی دکھائی دے رہی تھی…
‘سورج ڈھیلا پڑ رہا تھا اور اپنی واپسی کے استھان کی اُور بھاگ رہا تھا…’
میرے سامنے والی دیوارپر پیٹھ کیے ہوئےاس نوجوان جو کہ قانون کی بھاشا میں آج میرا ‘مائی لارڈ’ تھا، کے سر کے اوپر گھڑا ٹنگا ہواتھا،اس میں ابھی ڈیڑھ ہی بج رہا تھا…’
کئی جگہوں پر انہوں نے ایسے جملوں اور اشاروں سےاپنے بیانیہ کو پرقوت بنایا ہے۔
یہ ڈائری نما رپورٹ حقائق کےتوسط سےاس بات کو بخوبی قائم کرتی ہے کہ کوئی ایک— دو ہیروز نہیں، بلکہ لوگ تاریخ رقم کرتے ہیں۔ اس تحریک میں وہ کسان عوام ہی تھے، جنہوں نے طاقتور حکومت سے لڑتے ہوئے تمام بیریکیڈس کو’ مکی (مکئی)کے دانوں کی طرح ہوا میں اڑا تے’ اپنے لیڈروں کو گھسیٹ کر دہلی کی سرحد تک لے گئے۔
وہ عوام ہی تھے، جنہوں نے اپنے لیڈروں کو سمجھوتے کی راہ پر پھسلنے سے روکے رکھا، اور فتح کا تاج ان کے سروں پر باندھا۔ کتاب میں کسانوں کے دہلی آنے ، سرحدوں پر ڈیرہ ڈالنے اور پھر 26 جنوری کی پریڈ تک کی رپورٹنگ کو پڑھتے ہوئے بار بارجان ریڈ کی روسی انقلاب کودرج کرنے والی کتاب ‘دس دن جب دنیا ہل اٹھی‘ذہن میں چمک اٹھتی ہے۔ یہ حصہ کسی تاریخی ناول کو پڑھنے جیسا ہے۔
چونکہ مندیپ نے یہ رپورٹنگ کسانوں اور ان کے لیڈروں کے درمیان رہ کر کی ہے، اس لیے اس نے ان کے بیچ ہونے والے تضادات، جھگڑوں اورتصادم کو بھی ریکارڈ کیا ہے۔ 26 جنوری کو کسانوں کے پریڈ کے دوران لال قلعہ میں کسانوں کی اچانک آمد ملک کے لیے ایک اسرارجیسا ہی تھا۔
یہ ایک ایسا پراسرار واقعہ تھا، جس نے نہ صرف کسانوں کی تحریک بلکہ اس سے باہر ملک کے ایک بڑے حصے کو بھی پرجوش کر دیا تھا۔ لیکن بعد میں جب کسان لیڈروں نے ہی لال قلعہ پہنچنے والے لوگوں کو تحریک سے الگ کر کےان کو گرفتار کیے جانے والے بیان دیے، تو سب اباک رہ گئے تھے۔
صرف راکیش ٹکیت نے انہیں ‘اپنے لوگ’ بتاتے ہوئے کسانوں کی کارروائیوں کو حکومت کے خلاف اپنے غصے کا ا ظہارکہا تھا۔ اس سے ان کی ساکھ میں بھی اضافہ ہوا، لیکن عام لوگوں کے درمیان یہ اسرار ہی رہا کہ ایسا کیوں اور کیسے ہوا۔ جنہیں کچھ سمجھ نہیں آیا، انہوں نے اسے حکومت کی سازش تسلیم کر لیا تھا۔
کسانوں اور سنیکت کسان مورچہ کے لیڈروں کے درمیان ہونے والے اس جھگڑے کو اس کتاب میں منظم طریقے سے کھولا گیا ہے اور اس راز سے پردہ اٹھایا گیا ہے کہ کسان لال قلعہ تک کیسے پہنچے۔ کسان دہلی کے اندر جانا چاہتے تھے، اس کے لیے انہوں نے لیڈروں پر دباؤ بنایا، لیکن جب وہ نہیں مانے تو وہ خود ہی دہلی کے اندر داخل ہوگئے۔ جو ہوا وہ لوگوں کی خواہش تھی،سنیکت کسان مورچہ کی قیادت نے اس پر جو بیان دیا، وہ اس کی حدیں تھیں، یہ کتاب حقائق کے ذریعے اسے واضح کرتی ہے۔
کتاب کے اس پہلے حصے میں مندیپ نے کسان لیڈروں اور عوام کے درمیان ہونے والے جھگڑے کو انتہائی حقیقت پسندانہ اور تجزیاتی انداز میں پیش کیا ہے، جس میں ‘کسان بنام سرکار’ کی لڑائی اورمورچے کے اندر ہونے والے تنازعات اور تضادات کو سامنے لایا گیا ہے۔ لیکن 26 جنوری کے بعد والے حصے میں مندیپ کی رپورٹنگ جانے کیوں ‘سرکار بنام کسان’ سے بدل کر ‘کسان نیتا بنام کسان نیتا’، ‘کسان نیترتو(قیادت) بنام کسان جنتا’ یا ‘نوجوان آندولن کاری بنام بزرگ آندولن کاری’ کی طرف منتقل ہو گئی۔
یہ کتاب کی کمزوری ہے۔ یہاں بھی حقائق پیش کیے گئے ہیں، لیکن ایسی کمزور جگہوں پر مندیپ کی حقائق پر مبنی رپورٹنگ ان صحافیوں کی طرح ہو جاتی ہے، جو اکثر یہ دکھانے یا بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ‘دیکھو مجھے اندر کی ساری باتیں پتہ ہیں’، جبکہ ان ‘اندر کی باتوں’ کا لوگوں یا قارئین کے لیے کوئی خاص معنی ومفہوم نہیں ہوتا۔
اس کتاب میں بھی کئی متنازعہ حوالے، قیادت کے درمیان تضادات کی ‘جانکاری’ کو ‘رپورٹ’ کے طور پر پیش کرنا مناسب نہیں لگتا۔ یہ رپورٹنگ کی اخلاقیات کے بھی خلاف ہے کہ کسی کے ساتھ ہوئی ذاتی گفتگو کو رپورٹنگ کا حصہ بنا دیا جائے۔ حاصل کی گئی تمام جانکاریوں کو حقیقت کے طور پر پیش کرنا اچھی رپورٹنگ نہیں ہے۔ اس کتاب میں کئی مقامات پر ایسے غیر ضروری حقائق کی وجہ سے یہ سمجھ میں نہیں آ تا کہ مندیپ کہنا کیا چاہتے ہیں۔
یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ جس تحریک میں مختلف نظریات کی 32 تنظیموں کا متحدہ محاذ ہو اس میں کوئی تنازعہ یا تضاد نہیں ہو گا۔ قارئین تورپورٹ کے ذریعے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اس کے بعد بھی تحریک متحد رہ کر جیت کی منزل تک کیسے پہنچی؟ شروع میں مندیپ نے اس کی کڑی قارئین کے ہاتھ میں پکڑا دی تھی کہ عوام ہی اس تحریک کے رہنما تھے۔ لیکن بعد میں انہوں نے خود اس کڑی کو ترک کر دیا۔
رپورٹنگ میں اتحاد کے دھاگوں کے چھوٹ جانےکے باوجود میں نے اپنے لیے کتاب سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ تحریک اس لیے کامیاب رہی کہ سنیکت مورچے میں 32 نہیں بلکہ 33 تنظیمیں تھیں۔ 33 ویں تنظیم خود لوگ تھے، جس کے پاس ویٹو پاور بھی تھا،جس کی وجہ سے باقی 32 بھی جھک جانے کے راستے سے دور رہے۔
کتاب کی ایک اور بڑی خامی یہ ہے کہ کتاب میں خواتین کسانوں کی خدمات کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا ہے، حالانکہ وہ اس کا بڑا حصہ تھیں۔ دو جگہوں پر جہاں ان کی موجودگی کا احساس کرایا گیا ہے، ان میں ایک جگہ وہ پدری علامتوں کا استعمال کرتے ہوئے لوٹ جانے والے مردوں کو چوڑیاں دکھا رہی ہیں، اور دوسری جگہ جب ایک آندولن کاری لڑکی ریپ کا شکار ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ صرف ایک جگہ چھوٹے سے پیراگراف میں یہ بتایا گیا ہے کہ اس تحریک میں خواتین نے بھی حصہ لیا۔ پتہ نہیں کیوں ان کی بہادری کے واقعات، جو تحریک میں رونما ہوئے، مندیپ کی نظروں سے اوجھل رہے ۔
میں اس کی وجہ ان کے پدرانہ ‘انتخاب’ کو ہی مانتی ہوں، کیونکہ پنجاب اور ہریانہ کے کئی ٹول پلازہ اور ناکوں پر خواتین کے بہادری کے کارناموں کے علاوہ 18 جنوری کو تحریک میں کسان مہیلا دوس (یوم خواتین) منایا گیا، جس میں ٹریکٹر چلاتے ہوئے پنجاب سے آنے والی خواتین کی تصویریں ہمارے دلوں میں بسی ہوئی ہیں۔
اس کی رپورٹنگ اس لیے بھی نہیں چھوڑنی چاہیے تھی کہ کسان مہیلا دوس (یوم خواتین)منائے جانے کے پہلے11جنوری 2021 کو اس وقت کے چیف جسٹس آف انڈیا ایس اے بوبڈے نے تحریک میں شامل خواتین پر تبصرہ کرتے ہوئے سوال کیا تھا کہ ‘خواتین اور بزرگ اس تحریک میں کیا کررہے ہیں؟’
اس کے بعد مورچے پر ہی نہیں، تمام جتھے بندیوں سمیت ہندوستان بھر کی تحریکوں میں خواتین کے رول ہی نہیں، خدمات پر بھی بحث شروع ہوگئی تھی۔ اس کا جواب دینے کے لیے مورچے پر کسان مہیلا دوس منایا گیا، جس میں مورچے کی ساری کارروائی خواتین کے ہاتھ میں تھی۔ خواتین اور لڑکیوں نے نہ صرف لنگر میں کھانا پکانے میں رول ادا کیا، بلکہ ہاتھوں میں لٹھ لے کر پہرہ بھی دیا ۔
خواتین کے ساتھ ساتھ بچے بھی اس تحریک میں شامل ہوئے اور بہت زیادہ سکھائے بغیر انہوں نے اپنے ماحول سے بہت کچھ سیکھا۔ ارپن منجنک، ہریندر بندو، جسکرن نٹ، سکھویندرسمیت مورچے میں شامل اور قیادت کر رہی خواتین نے کئی انٹرویوز میں مورچے پر تحریک کے مطالبات سے خواتین کی وابستگی، ان کے تئیں تحریک کے رہنماؤں کا رویہ اور خواتین کا بتدریج مورچے پر اپنے لیے جگہ اور ماحول بنانے کی جدوجہد کو بیان کیا ہے۔
یہ کسان تحریک کی رپورٹنگ کا بہت ضروری حصہ تھا، جس کو کتاب لکھتےہوئے ‘بھول جانا’ یا چھوڑ دینا قلمکار پر ہی ایک تبصرہ ہے۔ اس پرمندیپ کوسوچنا ہی چاہیے۔
اپنی ان کوتاہیوں اورحدود کے ساتھ کسانوں کی تحریک کو بہت جاندار انداز میں پیش کرنے والی یہ اہم کتاب ہے، لیکن مکمل نہیں۔ ایسی مزید کتابیں تحریکوں کے درمیان سے آنی چاہیے۔ تحریک کے ساتھ ساتھ تحریکوں کو دستاویزی پیرہن عطاکرنا ایک ضروری، اہم اور ذمہ دارانہ کام ہے۔ ہمیں امید ہے کہ مستقبل میں ایسی اور کتابیں ہمارے سامنے آئیں گی۔
(سیما آزاد سماجی کارکن ہیں۔)
Categories: فکر و نظر