ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں خاص طور پر گنجان آباد شہروں دہلی اور لاہور کے حکام کو اس زلزلہ سے سبق حاصل کرنا چاہیے، کیونکہ ترکیہ کے شہروں کی طرح سرگودھا، لاہور اور دہلی کی پٹی زلزلہ کے لحاظ سے حساس زون میں شمار کی جاتی ہے۔ اس لیے ان علاقوں میں بلڈنگ کوڈ کو وضع کرنے اور اس کا سختی کے ساتھ اطلاق کرنے کی ضرورت ہے۔
ابھی بھی زندہ افراد کے ملبہ سے نکلنے کا سلسلہ جاری ہے، اس لیے بلڈوزر اور بھاری مشینری استعمال کرنے سے پرہیز کیا جا رہا ہے۔ ہاتھوں سے ملبہ اٹھانا اور اس میں زندہ وجود کا پتہ لگانا انتہائی صبر آزما کام ہے۔
پاکستانی ان کو ملک میں دہشت گردی کی لہر اور اپنے ہی لوگوں کو ڈالروں کے عوض امریکہ کے سپرد کرنے کا بھی ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، مگر ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ ہندوستان کے ساتھ امن مساعی کے نام پر انہوں نے ایک ماحول تیار کرنے میں مدددی تھی، جس کی وجہ سے کشمیر میں سیاسی جماعتوں بشمول حریت کانفرنس اور دیگر آزادی پسند گروپوں کو سانس لینے کا موقع تو ملا۔
ابھی تک رائے عامہ کے جوابتدائی جائزے شائع ہوئے ہیں، ان کے مطابق حکمراں اتحاد اور اپوزیشن کے درمیان کانٹے کامقابلہ ہونے کی پیشن گوئی کی گئی ہے۔
بھارت جوڑو یاترا کے دوران پارٹی کواز سر نو منظم کرنے کے علاوہ راہل نے سول سوسائٹی کے افراد کے ساتھ مل بیٹھ کر ہندو توا نظریہ کے مخالفین کو منظم کرکے ایک نظریاتی محاذ بنانے کی کوشش کی ہے۔
جب اس وقت کشمیری ثقافت، انفرادیت اور تہذیب انتہائی نازک دور سے گزر رہی ہے اور ایک طرح سے بقا کی جنگ لڑ رہی ہے، ایسے وقت میں راہی کا منظر سے غائب ہونا کشمیری ادب کے لیے ایک بڑا نقصان ہے
بارہ ابواب پر مشتمل 400صفحات کی اس کتاب میں کشمیر کے سبھی ایشوز خاص طور پر پچھلے تین سال کے دوران پیش آئے واقعات اور ان کے اثرات کا جامع جائزہ لیا گیا ہے۔ انورادھا نے اس کتاب میں ہندوستان کے سیکولر اور لبرل طبقہ کو مخاطب کرکے خبردار کیا ہے کہ موجودہ بی جے پی حکومت کشمیر کو ایک لیبارٹری کی طرح استعمال کر رہی ہے اور اگر اس کو روکا نہ گیاتو یہ تجربات قریہ قریہ، گلی گلی ہندوستان کے دیگر علاقوں میں دہرائے جائیں گے۔
اگر دیکھا جائے تو پولیس سربراہ کا یہ دعویٰ کہ انہوں نے کشمیر میں نسبتاً امن و امان قائم کروانے میں کامیابی حاصل کی ہے کچھ غلط نہیں ہے۔ مگر یہ قبرستان کی پر اسرار خاموشی جیسی ہے۔خود ہندوستان کے سیکورٹی اور دیگر اداروں میں بھی اس پر حیرت ہے کہ کشمیریوں کی اس خاموشی کے پیچھے مجموعی سمجھداری یا ناامیدی ہے یا یہ کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے۔
حال ہی میں ہندوستانی خارجی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالیسز ونگ یعنی راء سے وابستہ ایک آفیسر واپالا بالا چندرن نے اپنی کتاب میں دعویٰ کیا ہے کہ 1988میں جنرل ضیا نے محسوس کیا تھاکہ ہوشربا دفاعی اخراجات دونوں ممالک کی اقتصادیات پر ایک بوجھ ہیں اور اس کی وجہ سے وہ اپنی استعداد کے مطابق ترقی نہیں کر پا رہے ہیں۔اس لیے انہوں نے اردن کے اس وقت کے ولی عہد شہزادہ حسن سے ہندوستانی وزیر اعظم راجیو گاندھی کو پیغام پہنچانے اور ثالثی کی درخواست کی۔
ویسے تو ہر سال دسمبر میں بنگلہ دیش کے قیام اور پاکستانی لیڈرشپ کی ناکامی اور ہندوستانی فوج کے کارناموں پر سیر حاصل بحث ہوتی ہے۔مگر اگر دیکھا جائے تو بنگلہ دیش یا مشرقی پاکستان کو ایک الگ ملک بنانے کی بنیاد تو 1947 میں ہی ڈالی گئی تھی، جب پاکستانی حکومت بحیرہ عرب میں جزائر لکشدیپ اور خلیج بنگال میں انڈومان نکوبار جزائر پر اپنا دعویٰ کھو بیٹھی تھی۔
یہ دیکھ کر مایوسی ہوتی ہے کہ میڈیا، جو جمہوریت کے سب سے زیادہ تسلیم شدہ اداروں میں سے ایک ہے، دلتوں، آدی واسیوں اور دیگر پسماندہ گروہوں کو نہ صرف نیوز رومز میں نوکریاں دینے بلکہ ان کے ایشوز کو بھی جگہ دینے میں ناکام رہا ہے۔
اسرائیلی فلمساز کے تبصرہ پر جس طرح حکومت بھڑک اٹھی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ناکام فلمساز اگنی ہوتری کی فلم پر تنقید کو خود ہندوستان پر حملہ تصور کیا جائےگا۔ حیرت ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کسی فلم پر ایک سند یافتہ فلمساز کی تنقید کوبرداشت نہیں کر پارہی ہے۔
پاکستانی سفارت کاری کی وجہ سے عالمی طور پر تلافی کے فنڈنگ کا ایک مسئلہ فی الحال تو حل ہوگیا، مگر ان کو اسی شدو مد کے ساتھ اپنے ہی خطے میں ہندوستان کے ساتھ دریائے سندھ اور اس کی معان ندیوں کو پانی فراہم کرنے والے کشمیر اور لداخ کے پہاڑوں میں موجود گلیشیرزکے تیزی کے ساتھ پگھل کر ختم ہونے کے ایشوز پر بھی اسی طرح کا کوئی قدم اٹھانا ہوگا۔
آر ایس ایس، ایچ ایس ایس اور دیگر تنظیمیں اب 48 ممالک میں سرگرم ہیں۔ امریکہ میں ایچ ایس ایس نے 32 ریاستوں میں 222 شاکھائیں قائم کی ہیں۔کیا وقت نہیں آیا ہے کہ مغرب کو بتایا جائے کہ جس فاشزم کو انہوں نے شکست دی تھی، وہ کس طرح ا ن کی چھتر چھایا میں دوبارہ پنپ رہا ہے اور جلد ہی امن عالم کے لیے ایک شدید خطرہ ثابت ہو سکتا ہے؟
ایسا کیوں ہے کہ پاکستان میں جب بھی کسی ادارے، چاہے سویلین حکومت، صدر، عدلیہ، ملٹری و میڈیا کو طاقت ملتی ہے، تو وہ بے لگام ہو جاتا ہے؟
شیخ عبداللہ کے دست راست ہونے کے باوجود، وہ میٹنگوں میں ان سے اختلاف رائے کا اظہار کرتے تھے۔ میٹنگوں سے واک آؤٹ کرنے کے لیے وہ مشہور ہو گئے تھے۔تما م طبقہ ہائے فکر میں ان کی مقبولیت کی وجہ سے 1986میں جب مسلم یونائیٹڈ فرنٹ کا قیام عمل میں آیا، تو اس کا کنوینر ان کو بنایا گیا۔
چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی اور ملٹری طاقت کی وجہ سے بیجنگ کے گریٹ ہال میں منعقد چینی کمیونسٹ پارٹی کی بیسویں کانگریس پر سب کی نگاہیں ٹکی ہوئی تھیں۔ اس طرح کی کانگریس پانچ سال کے بعد ہوتی ہے، اس میں حکومت کی کارکردگی پر بحث و مباحثہ کیا جاتا ہے اور مستقبل کے لیے پالیسی ڈائریکشن دی جاتی ہے۔
ملائم سنگھ یادو، لالو پرساد یادو اور کانشی رام نے دبے کچلے مجبور و مقہور مظلوموں کو جگا تو دیا، مگر ان کا ایک واضح اتحاد بنانے میں ناکام رہے، جو ملکی سطح پر اثر انداز ہوکرہندوستان کے سماجی توازن کو ٹھیک کرکے اس خطے کی تقدیر بدل دیتا۔ ہندوستان میں فرقہ پرستی اور اعلیٰ ذاتوں کی ہندو قوم پرستی اور سیاست و سماج میں ان کی پکڑ کا مقابلہ صرف مسلمانوں اور نچلے طبقے پر مشتمل مظلوموں کے ایک ایسے اتحاد سے ہی ممکن ہے۔ مگر اس کے لیے شاید ایک با ر پھر کسی ملائم سنگھ یادو کا انتظار کرنا پڑے گا، جو دور اندیش اور اپنے نعرے کوعملی جامہ پہنانے اور منزل تک پہنچنے میں مخلص ہو۔
جو میدان الطاف شاہ نے چنا تھا اس میں معلوم ہی تھا کہ موت و حیات ہمیشہ باہم دست و گریباں رہے گی۔ اس میدان میں زندگی بہت مہنگی اور موت ارزاں ہوتی ہے۔موت،زندگی سے ایک لمحے کے فاصلے پہ تعاقب میں پھرتی ہے۔دل— گردہ چاہیے، اس میدان میں جمے رہنے کے لیے۔دو بار انہوں نے موت کو چکمہ دیا تھا۔ شاید وہ تیسری بار بھی اس کو شکست دیتے، اگر ان کا خاطر خواہ علاج کرایا جاتا یا تہاڑ جیل کے ڈاکٹر اپنے پیشے کے اصولوں سے انحراف نہیں کرتے۔
عوامی رابطہ مہم اور غیر گاندھی خاندان کے فرد کو اندرونی انتخابات کے ذریعے کمان دینا اپنی جگہ، مگر جب تک کانگریس گراؤنڈ یعنی بلاک لیول تک انتخابات کو یقینی نہیں بناتی ہے، تب تک اس مشق کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
بہت سے الزامات جو آج پی ایف آئی پر لگائے جا رہے ہیں، کم و بیش ان ہی الزامات کا پٹارہ سیمی کے خلاف بھی کھولا گیا تھا۔سیمی کی طرف سے دائر کئی اپیلیں کئی دہائیوں سے عدالت اعظمیٰ کی کارروائی کی منتظر ہیں۔اگر یہ انصاف ہے تو ظلم اور ناانصافی کسے کہتے ہیں؟ اندیشہ ہے کہ یہی ڈرامہ دوبارہ کھیلا جا رہا ہے۔
سائبر اور مواصلات کے حوالے سے یہ جنگ پوری دنیا میں فوجی منصوبہ سازوں کے لیے ایک سبق ہے۔ ماہرین کے مطابق اس جنگ کے بعد کئی ممالک جن میں ہندوستان، پاکستان، چین اور امریکہ بھی شامل ہیں، اپنی جنگی حکمت عملی یا منصوبہ بندی کی از سر نو تشکیل کریں گے۔
اگر افغانستان پر چڑھائی سے لےکر اقتصادی امور پر بھی فیصلے اقوام متحدہ کے باہر ہونے ہیں، تو ایک بھاری بھرکم تنظیم اور اس کے سکریٹریٹ پررقوم خرچ کرنے کا کیا فائدہ ہے؟ یہ سوال اب دنیابھر کے پاور کوریڈورز میں گشت کر رہا ہے۔
حکومتی یا گودی میڈیا نے 11صحافیوں کو کٹہرے میں کھڑا کرکے ان کی طرف سے حکومت سے جوابدہی کا مطالبہ کرنے پر اس کو ریاست مخالف بیانیہ بتایا اور ا ن پر الزام لگایا کہ ان کو پاکستان کی سرپرستی حاصل ہے۔
آزاد اگر مرکزی حکومت کے مشن کے تحت نہیں آئے ہیں اور حقیقتاً آزاد سیاسی لیڈر کا رول ادا کرنا چاہتے ہیں، تو اس خطے کی 33 فیصد مسلم آبادی اور 23فیصد دلت آبادی کا ایک مشترکہ اتحاد قائم کرکے اپنی سیاست کو دوام بخش کر فرقہ پرستوں کو بھی خاصی حد تک لگام لگا سکتے ہیں۔ ان کے پاس آزادانہ سیاست کرنے کا بس یہی ایک راستہ ہے۔ ورنہ ان کی اس دوسر ی سیاسی پاری کو بھی ان کی غلامی کے دور کے ہی توسیع کے طور پر یاد کیا جائےگا۔
سال 2014میں کشمیر کے سیلاب اور اس وقت پاکستان میں رونما تباہی یہ بتاتی ہے کہ سیاسی قضیہ یا دہشت گردی امن و امان کے لیے خطرہ تو ہیں، مگر قدرتی آفات اور ماحولیاتی تباہی کئی نسلوں کو متاثر کرتی ہے اور کسی دوسرے خطرے کے مقابلے انسانی جانوں کا کہیں زیادہ زیاں ہوتا ہے۔اس لیے اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ اتنے اہم معاملے پر ہندوستان اور پاکستان کے سفارتی حلقوں میں خاطر خواہ دلچسپی کیوں نہیں لی جارہی ہے۔
ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات تو پہلے بھی ہوتے تھے اور فسادیوں کا چھوٹ جانا بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ فرق بس یہ ہے کہ عدالتوں سے مجرم ثابت ہونے اور سزائیں پانے کے بعد بھی انصاف کے عمل کو انگوٹھا دکھایا جا رہا ہے۔ ایک غیر محسوس طریقے سے20 کروڑمسلمانوں کو بتایا جا رہا ہے کہ یا تو وہ دوسرے درجہ کے شہری بننا منظور کریں یا کہیں اور چلے جائیں۔
اس شورش زدہ خطے میں سویلین ہلاکتوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، جس سے خوف و ہراس کے ماحول میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ دوسری طرف انسداد دہشت گردی اور بغاوت کو کچلنے کے قوانین کا بے محالہ اور بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پریس شدید دباؤ کا شکار ہے۔
جہاں وزیرا عظم مودی نے علاقائی روابط کو سفارتی ترجیحات میں رکھا ہے، وہاں وہ اس بات کو سمجھنے سے آخر قاصر کیوں ہے کہ وسط ایشیا کے ساتھ روابط کشمیر سے ہوکر اور پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کے ذریعے ہی ممکن ہیں۔
پاکستان کے برعکس ہندوستان میں سویلین حکومتیں اور سیاستدان لاکھ اختلافات کے باوجود ملک کے وسیع تر مفادات کی حفاظت کرتی ہیں۔پاکستان کے لبرل مدبرین اس سوال پر بس یہ کہہ کر جان چھڑاتے ہیں کہ ان کے ملک میں ملٹری سویلین حکومتی فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ مگر جب سویلین حکمران بھی اقتدار میں آتے ہیں، تو کیا وہ توازن برقرار رکھ پاتے ہیں؟ جمہوی نظام کو چلانے کے لیے توازن برقرار رکھنا ایک لازمی امر ہے اورایک کامیاب جمہوریت کے لیے آئین کو چلانے کے لیے امبیڈ کر کی نصیحت پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
موجودہ دور میں اب ایسا لگتا ہے کہ مسلمانوں کو اس حد تک سیاسی یتیم اور بے وقعت بنایا گیا ہے کہ اب علامتی طور پر بھی ان کی ضرورت محسوس نہیں کی جا رہی ہے۔
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان اگر کبھی مستقبل میں امن و امان کی صورت حال بن جاتی ہے اور دونوں ممالک اپنے تنازعات پر امن طور پر سلجھانے کو تیار ہو جاتے ہیں تو اس کا کریڈٹ لازماً ستی لامبا کو ہی جائے گا۔ان کے لیے بہترین خراج یہی ہے کہ مزید ہزاروں بے گناہ و معصوم افراد کو موت کی بھیٹ چڑھانے کے بجائے دونوں ممالک دیرنہ تنازعات کو عوامی خواہشات کے مطابق حل کرنے کے عمل کو شروع کرکے اس کو منتقی انجام تک پہنچا دیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے زیر حراست نابالغ افراد کی اصل تعداد کا تعین کرنا مشکل ہے اور جس طرح بچوں کے ساتھ پولیس اور نظم و نسق کے دیگر ادارے پیش آتے ہیں، اس سے ان کی ایک بڑی آبادی شدید نفسیاتی دباؤکا شکار ہو گئی ہے۔
آر ایس ایس کے ایک مرکزی لیڈر او ر نظریہ سازشری رام مادھو نے مسلمانوں کو ایک تین نکاتی فارمولہ پیش کیا ہے جس سے وہ ہندوستان میں سکون کے ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں۔ یہ شرطیں کچھ اس طرح کی ہیں کہ مسلمان غیر مسلموں کو کافر نہ کہیں، مسلمان خود کو امت اسلام یا مسلم امت کا حصہ سمجھنا ترک کردیں اور مسلمان جہاد کے نظریے سے خودکو الگ کریں۔
ٹیکس نظام میں اصلاحات سے بھی زیادہ اہم چیز سیاسی نظام میں بد عنوانی کا خاتمہ کرنا ہے۔
عدالت میں کشمیر ی اور پاکستانی قیدیوں کی معاونت کرنے اور عالمی مسلم مسائل و فلسطین کو اجاگر کرنے کی حد تک تو بھیم سنگھ کا ایکٹوزم سمجھ میں آتا تھا، مگر کشمیر کے حوالے سے لگتا تھا کہ وہ خود بھی کنفیوژ تھے۔ کشمیر کی خصوصی پوزیشن […]
اب پارلیامنٹ کی طرف سے پاس کیے گئے مذہبی مقامات ایکٹ 1991 کو کالعدم کرنے کی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ ہندو انتہا پسند تنظیم وشو ہندو پریشدکے نشانے پر ملک بھر میں 25ہزار مساجد و قبرستان اور وقف کی جائیدادیں ہیں، جو ان کے مطابق عہد قدیم میں ہندو عبادت گاہیں تھیں۔
لگتا ہے وزارت خارجہ میں امریکہ نواز لابی کو مزید تقویت بخشنے کے لیے کواٹرا کی تقریری کی گئی ہے۔ کیونکہ نہ صرف وہ جے شنکر کے قریبی مانے جاتے ہیں، بلکہ جب مودی نے 2014میں وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالا، تو وہ ان کے لیے کئی ماہ تک بطور مترجم و معاون کار کے کام کرتے تھے اور ان کے لیے تقریریں لکھنے کا بھی کام کرتے تھے، جس کی وجہ سے وہ براہ راست مودی کے رابطہ میں رہتے تھے۔
یہ اب تقریباً طے ہوگیا ہے کہ کمیشن نے ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران کی ایما پر ہی حد بندی ترتیب دی ہے، تاکہ مسلم آبادی کو سیاسی طور پر بے وزن کیا جائے اور مسلم خطے پر ہندو وزیر اعلیٰ مسلط کراکے اس کو 2024 کے عام انتخابات میں بھنایا جائے۔
پچھلے کئی سالوں سے ہندوستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے پاکستان کے لیے پانی ایک اہم ایشو کی صورت اختیار کر گیا ہے، مگر جھیل ولر کی صحت کے حوالے سے کبھی بھی دونوں ممالک نے کوئی سرگرمی نہیں دکھائی ہے۔ ہندوستان کے لیے شاید اس کی اتنی اقتصادی اہمیت نہیں ہے، مگر پاکستانی زراعت اور پن بجلی کے لیے اس کی حیثیت شہ رگ سے بھی زیادہ ہے۔