آخر کار سابق جسٹس چندر چوڑ نے ہندوتوا کے لیے اپنی وفاداری کا ثبوت دے ہی دیا …
ڈی وائی چندر چوڑ کی یہ دلیل کہ سینکڑوں سال قبل بابری مسجد کی تعمیر ایک ‘ناپاک حرکت’ تھی، آر ایس ایس اور بی جے پی کے ہندوتوا کے تئیں ان کی اٹوٹ وفاداری کا ثبوت ہے۔
ڈی وائی چندر چوڑ کی یہ دلیل کہ سینکڑوں سال قبل بابری مسجد کی تعمیر ایک ‘ناپاک حرکت’ تھی، آر ایس ایس اور بی جے پی کے ہندوتوا کے تئیں ان کی اٹوٹ وفاداری کا ثبوت ہے۔
گزشتہ دو برسوں کے دوران غزہ پر جاری قتل عام نے جدید تاریخ میں انسانی تباہی کی ایسی مثال قائم کی ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ ہزاروں بچوں کی شہادت، براہِ راست نشر ہونے والے قتل عام، دنیا بھر میں سب سے زیادہ معذور بچوں کی تعداد اور اتنے صحافیوں کی ہلاکت کہ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم سمیت تمام جنگوں کا مجموعہ بھی اس کے برابر نہیں آتا۔
بہار میں متعدد پسماندہ برادریاں ہیں،جن کی آبادی اچھی خاصی ہے۔لیکن ان میں مناسب سیاسی نمائندگی نہیں ہے۔ یہ برادریاں درج فہرست ذات کا درجہ اور ریزرویشن حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ کانگریس اس دلت مرکوز سیاست کا محور بننا چاہتی ہے۔ کانگریس نے روی داس برادری کے لیڈر کو ریاستی صدر بھی بنایا ہے۔ لیکن کیا یہ وہ ان بکھری ہوئی برادریوں کو متحد کر پائے گی؟
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ، جس نے ابھی حال میں اپنی 100 ویں سالگرہ منائی ہے، ‘غیر سیاسی’ ہونے کا دعویٰ کرتی ہے، حالانکہ اس کےنظریے کا عکس اقتدار کے اعلیٰ ترین عہدوں سے لے کر تعلیمی اداروں حتیٰ کہ سنیما تک پر دیکھا جا سکتا ہے۔آر ایس ایس کے 100 سالہ سفر پر صحافی اور مصنف دھیریندر جھا اور دی وائر کے بانی مدیرسدھارتھ وردراجن کے ساتھ تبادلہ خیال کر رہی ہیں میناکشی۔
بہار ایس آئی آر کی فائنل لسٹ جاری کی جا چکی ہے۔ اپوزیشن اس عمل کو لے کر الیکشن کمیشن پر کافی عرصے سے حملہ آور تھا اور اس دوران کئی ایسے سوال بھی تھے جن کے جواب یا توکمیشن کے پاس نہیں تھے یا وہ ان سے بچ رہا تھا۔ اب حتمی فہرست جاری ہونے کے بعد بھی کئی سوال باقی ہیں، جن پر دی وائر ہندی کے ایڈیٹر آشوتوش بھاردواج کے ساتھ تبادلہ خیال کر رہے ہیں علی شان جعفری ۔
الیکشن کمیشن نے بہار میں ‘اسپیشل انٹینسو ریویژن’ مکمل کرتے ہوئے حتمی ووٹر لسٹ جاری کر دی ہے۔ 47 لاکھ رائے دہندگان کے نام خارج کر دیے گئے ہیں۔کمیشن نے نام ہٹائے جانے کی واضح وجوہات کی جانکاری نہیں دی ہے۔ دستاویزوں کی کمی کی وجہ سے ہٹائے گئے نام، نئے ووٹروں کی تعداد اور غیر قانونی غیر ملکی تارکین وطن کی تعداد جیسی اہم جانکاری بھی نہیں دی گئی ہے۔
غزہ کے صحافی وہ چراغ ہیں، جو شبِ سیاہ میں بجھا دیے جا رہے ہیں۔ مگر انہی کی قربانیوں نے غزہ کی کہانی کو دنیا تک پہنچایا ہے۔ اگر یہ نہ ہوں تو دنیا اندھی ہو جائے۔ تاریخ ان کے خون کو سطر سطر لکھے گی اور آنے والی نسلیں جانیں گی کہ ظلم کے اندھیروں میں بھی کچھ لوگ اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر سچ کا چراغ جلاتے رہے۔
معروف ماحولیاتی کارکن اور ریمن میگسیسےایوارڈ یافتہ سونم وانگچک کو قومی سلامتی ایکٹ کے تحت گرفتار کیے جانے اورانتہائی عجلت میں لداخ سے باہر لے جانے کے دو دن بعد ان کی اہلیہ گیتانجلی جے آنگمو نے بتایاکہ ان پر اپنے لوگوں کی آواز بننےکی وجہ سے ‘ہندوستان مخالف’ ہونے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔
افغانستان کی طرح یہ خطہ بھی عالمی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں یعنی گریٹ گیم کا شکار رہا ہے۔ مغلوں اور بعد میں برطانوی حکومت نے لداخ پر بر اہ راست علمداری کے بجائے اس کو ایک بفر علاقہ کے طور پر استعمال کیا۔
پروفیسر عبدالغنی بٹ محض سیاست دان نہیں تھے، ایک استاد تھے، ادیب تھے، اور ان سب سے بڑھ کر وہ ایک ایسے شخص تھے جنہوں نے اپنی زندگی کو کشمیر کے دکھوں اور خوابوں کے ساتھ باندھ رکھا تھا۔
اگر ماؤنوازہتھیار ڈال دیتے ہیں، تو ان کے مستقبل کا لائحہ عمل کیا ہوگا؟ کیا وہ کسی ایسی سیاسی جماعت کے ساتھ وابستہ ہو جائیں گے، جنہیں وہ اب تک رجعت پسند اور بورژوا کہتے رہے ہیں، یا اپنی نئی پارٹی بنائیں گے؟
دی وائر کے ساتھ ایک خصوصی بات چیت میں اویسی نے حد بندی ایکٹ کے اطلاق، وقف بائی یوزر، املاک وقف کرنے کے لیےکم از کم پانچ برس تک ’پریکٹسنگ مسلمان‘ کی شرط پر ’مکمل روک‘ نہیں لگائے جانے پر اپنے خدشات کا اظہار کیا۔
سشیلا کارکی کی مدت کار مختصر ہے، لیکن ان کا اثر دیرپا ہو سکتا ہے۔ اگر وہ منصفانہ اور شفاف انتخابات کرانے میں کامیاب ہوجاتی ہیں ،تو یہ پورے نیپال کی جیت ہوگی۔ کیا ان کا دور اقتدار یہ ثابت کر پائے گا کہ ادھورے انقلابات کے اس طویل سفر میں امید کی لو اب بھی جل رہی ہے؟
آر ایس ایس کے پرچارکوں میں سے ایک نریندر مودی آج ہندوستان کے وزیر اعظم ہیں۔ جس کی وجہ سے اس کا اثر قومی زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں نظر آتا ہے۔
نیپال میں سوشل میڈیا پر پابندی، بے روزگاری اور بدعنوانی کے خلاف شروع ہوئے مظاہروں کے بعد وزیراعظم کے پی شرما اولی کو استعفیٰ دینا پڑا ہے۔ دارالحکومت کاٹھمنڈو سمیت کئی شہر آگ اور تشدد کی زد میں ہیں۔ مظاہرین نے رہنماؤں کے گھروں کو نشانہ بنایا ہے۔ یہ عدم اطمینان نیپال کے جمہوری سفر کی گہری دراڑوں کو اجاگر کرتا ہے۔
سنکرشن ٹھاکر کا جانا صرف ایک شخص کا جانا نہیں، بلکہ ان الفاظ کا خاموش ہو جانا ہے جو سماج کی بُو باس اور سچائی کو گرفت میں لینے کی قوت رکھتے تھے۔ پٹنہ کی سرزمین سے آنے والے اس صحافی نے کشمیر سے بہار تک کی کہانیوں کو دلجمعی سے قلمبند کیا۔ ان کے یہ نوشتہ جات صحافت کا لازوال ورثہ ہیں۔
کلکتہ کے حالیہ واقعے سے اردو کا بھی مقدمہ کمزور ہوتا ہے اور مسلمانوں کا بھی۔ مسلمانوں کے درمیان سول سوسائٹی کے استحکام کی ضرورت بطور خاص اس لیے بھی ہے کہ کوئی متبادل آواز ابھر سکے۔ مہذب دنیا مختلف خیالوں اور آوازوں سے ہی چل رہی ہے۔
سال 2014کے سیلاب کے بعد وزیراعظم نریندر مودی نے 80 ہزار کروڑ روپے کے ایک پیکیج کا اعلان کیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت دریائے جہلم اور اس کی معاون ندیوں کی ڈریجنگ اور پشتوں کی مضبوطی کا کام ہونا تھا۔ مگر ایک آرٹی آئی کے مطابق،ایک دہائی کے بعد بھی 31 میں سے صرف 16 منصوبے مکمل ہو پائے ہیں۔یعنی 2014 کے سیلاب سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا گیا ہے۔
سیدہ حمید کے پاس آسام کی بے حدخوبصورت یادیں ہیں۔لیکن آج اچانک انہیں یہ احساس دلایا جا رہا ہے کہ وہ عورت ہیں اور مسلمان ہیں۔ان کی تکلیف کون محسوس کرنا چاہتا ہے؟
محکمہ انکم ٹیکس کے مطابق، بہار سرکار کی کنٹریکٹ پر بھرتیوں پر ایک کمپنی کا قبضہ ہے۔ یہ کمپنی ریاست کے اعلیٰ افسران کو رشوت دیتی ہے اور مختلف محکموں میں امیدواروں سے پیسے لے کر بھرتی کرواتی ہے۔ اس انویسٹیگیشن کی پہلی قسط۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے ہندوستان پر عائد کیے گئے تجارتی جرمانوں نے ہندوستانی وزرا اور اہلکاروں کو ماسکو اور بیجنگ کی طرف دوڑنے پر مجبور کردیا ہے، مگر وہ اس کو ‘اسٹریٹجک چابک دستی’کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ ماسکو اور بیجنگ اس چابک دستی کو ہندوستان کی مجبوری گر دانتے ہیں اور اس کی پوری وصولی کریں گے۔
اگر شہریوں کے پاس ڈیٹا کی ملکیت نہ ہو، اگر آپ سے متعلق معلومات پر آپ کا آئینی حق نہ ہوتو حکومت بغیر کسی رکاوٹ کے مداخلت کرتی رہے گی اور ہم ایسے معاشرے میں تبدیل ہو جائیں گے جہاں آزادی صرف ڈیٹا بیس میں درج ہوگی۔ اور آپ کا وجود ایک کلک سے مٹ جائے گا۔
مذہب، رنگ ونسل اور خون کے سوداگر زندگی کو کس سمت لے جا رہے ہیں؟ اس نئے نظام میں اُن تہذیبی قدروں کے لیے جگہ نہیں ہے، جن کے سائے میں امن وعافیت کے خواب پلتے تھے، جن کی روشنی میں آرزو اور جستجو کے معرکے سَر ہوتے تھے۔ میں اور میرے عہد کی تخلیقی سرگزشت کی اس قسط میں پڑھیے ممتاز شاعرہ ملکہ نسیم کو۔
ہندوستان کا ریئل ٹائم شور مانیٹرنگ نیٹ ورک شہری آوازوں کی مسلسل بڑھتی ہوئی سطح کو ریکارڈ کرتا ہے، لیکن شور میں زندگی بسرکرنے والے کروڑوں لوگوں کے لیے راحت کا وعدہ افسر شاہی کی بے حسی اور سیاسی خاموشی میں پھنسا ہوا ہے۔
الیکشن کمیشن نے 2002-03 کی مثال دیتے ہوئے بہار میں ایس آئی آرکے 97 دن کے عمل کا دفاع کیا ہے۔ لیکن ریکارڈ اور سابق عہدیداروں کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت یہ عمل آٹھ ماہ تک جاری رہا تھااور شہریت اور ووٹر آئی ڈی کے بارے میں موقف بالکل مختلف تھا۔
جسے پورا مہاراشٹردو بھائیوں کا ملن سمجھ رہا ہے، کیا یہ ادھو ٹھاکرے کے لیے ٹریپ ہے؟ راج ٹھاکرے بی جے پی کے قریب رہے ہیں۔ گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں انہوں نے بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ کیا بھائیوں کے ملن کی یہ کہانی بی جے پی نے لکھی ہے؟
امت شاہ کی جانب سے پیش کیے گئے 130 ویں آئینی ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ 30 دن کی حراست پر وزیر، وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم تک کی کرسی جا سکتی ہے۔ یہ بل جانچ ایجنسیوں کا غلط استعمال کرکے اپوزیشن لیڈروں کو اقتدار سے بے دخل کرنے کا نیا ہتھیار بن سکتا ہے۔
آج کا غزہ صرف بموں اور ناکہ بندیوں کی کہانی نہیں۔ یہ بھوک کی کہانی ہے۔ ایسی قحط سالی جو قحط یا آفت سے نہیں، بلکہ منصوبہ بند جبر سے پیدا کی گئی ہے۔ غزہ کے عوام کے پیٹ ہی خالی نہیں بلکہ دنیا کی روح بھی خالی ہو چکی ہے۔
الیکشن کمیشن نے بہار میں ووٹر لسٹ پر نظر ثانی کے تنازعہ اور ‘ووٹ چوری’ کے الزامات کی وضاحت پیش کی، لیکن اہم سوالوں کا جواب نہیں دیا۔ راہل گاندھی سے حلف نامہ طلب کیا گیا، جبکہ بی جے پی ایم پی انوراگ ٹھاکر پر خاموشی اختیار کی گئی۔ غیر ملکی تارکین وطن، دستاویزوں اور ووٹر لسٹ میں بے ضابطگیوں پر کوئی واضح جواب نہیں دیا گیا۔
بہار کے ووٹر دیکھ رہے ہیں کہ کون ان کے حقوق کی حفاظت کر رہا ہے اور کون ان کی خاموشی کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔آنے والے انتخابات نہ صرف حکومت بدلنے کی لڑائی ہوں گے بلکہ اس میں اس بات کا بھی امتحان ہوگا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جمہوریت کی کسوٹی پر میں کون کھرا اترتا ہے۔
الیکشن کمیشن کا یہ بیان کہ 1 لاکھ پولنگ بوتھ کی سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھنے میں 273 سال لگیں گے، بیل گاڑی کے دور کی یاد دلاتا ہے۔ کیا کمیشن نہیں جانتا کہ ڈیٹا اینالیٹکس میں ہندوستان نے کتنی ترقی کرلی ہے؟
اس پابندی کو ایک بڑے بیانیہ کا حصہ سمجھنا چاہیے۔یہ یاداشتوں کو کھرچنے کا عمل ہے، جو کئی دہائیوں سے جاری ہے، اگرچہ 2019 کے بعد یہ بے حد بڑھ گیا ہے۔کشمیر کے اخبارات کے آرکائیوز بند کر دیے گئے ہیں۔ پچھلے تیس سالوں میں اس خطے پر کیا قیامت برپا ہوگئی، اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔
بہار میں ووٹر لسٹ کے اسپیشل انٹینسو ریویژن (ایس آئی آر) پر تنازعہ جاری ہے۔ 1 اگست کو جاری کی گئی مسودہ فہرست سے 65 لاکھ نام ہٹائے گئے ہیں۔ اپوزیشن اس پورے عمل کے خلاف سڑکوں پر ہے۔ شہری حقوق کی تنظیموں نے عدالت سے رجوع کیا ہے۔ اس عمل کے شفاف نہ ہونے اور بعض طبقات کو نشانہ بنانے کے الزامات ہیں۔ ڈرافٹ لسٹ کئی طرح کی بے ضابطگیوں کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔
بہار میں ووٹر لسٹ پر نظرثانی کے عمل کے بعد الیکشن کمیشن نے بتایا ہے کہ پہلی ڈرافٹ لسٹ میں 65 لاکھ ووٹروں کے نام نہیں آئے ہیں۔ اس عمل پر پہلے ہی کئی سوال تھے اور اب یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے کہ یہ مشق لوگوں کو جوڑنے کے لیے نہیں بلکہ ہٹانے کے لیے ہے۔ آزاد صحافی پونم اگروال اور دی وائر ہندی کے ایڈیٹر آشوتوش بھاردواج کے ساتھ تبادلہ خیال کر رہی ہیں میناکشی تیواری ۔
راہل گاندھی نے مہادیو پورہ اسمبلی حلقہ کی ووٹر لسٹ میں فرضی پتے، ڈپلیکیٹ ووٹر اور’ووٹ چوری’ کے الزام لگاتے ہوئے الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ اب یہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ گاندھی یا کسی دوسرے اپوزیشن لیڈر کے ساتھ زبانی جمع خرچ کرنےکے بجائے ان الزامات کا جائزہ لے اور واضح جواب دے۔
میں ایک خوشحال ملک کا شہری ہوں اور معترف ہوں کہ یہ خوشحالی آپ کی بدولت ہے۔ آپ کے اقتدار سے پہلے یہ ملک دنیا کا سب سے غریب ملک تھا ۔لوگ زندہ درگور تھے۔ آپ نے ہمیں غربت ، جہالت اور ذلت کی دلدل سے آزاد کیا۔ میری طرح آپ کے لاکھوں پرستار ہیں۔ ایک اداکارہ تو آپ کی دیوانی ہے۔ اس نے بجا فرمایا ہے کہ ہم صحیح معنوں میں آپ کے اقتدار میں آنے کے بعد آزاد ہوئے ہیں ۔ آپ نے ہمیں آزادی، عزتِ نفس اور تاریخی افتخار سے آشنا کیا ہے۔
مالیگاؤں بم دھماکے میں ہندوتوا تنظیموں سے تعلق رکھنے والے ملزمان کے بری ہونے کے باوجود مہاراشٹر حکومت بامبے ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کی خواہشمند نہیں ہے ۔ جبکہ حال ہی میں 2006 کے ممبئی ٹرین دھماکے کے مسلم ملزمان کے بری کیے جانے پر حکومت نے فوراً سے پیشترسپریم کورٹ کا رخ کیا تھا۔
بہار میں الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ ڈرافٹ ووٹر لسٹ میں غریب، مسلم اکثریتی اور روزی روٹی کے لیے دوسری ریاستوں میں جانے والے اضلاع سے بڑی تعداد میں ناموں کو حذف کیا گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ غربت، ہجرت اور ناموں کے ہٹائے جانے کے درمیان براہ راست تعلق ہے۔
اگر ہندوستانی حکومت کے پچھلے چھ سالوں کے اقدامات کا جائزہ لیا جائے، تو ان کا ایک ہی مقصد معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح ریاست کی مسلم اکثریتی آبادی کو بے اختیار بناکر مجبور بنایا جائے۔