بیانیہ، بیداری اور فیصلے: استنبول میں اسلامی دنیا کی نئی صف بندی
مسلم دنیا میں یہ سوچ پنپ رہی ہے کہ طاقت اب صرف سیاست اور احتجاج میں نہیں، بلکہ تعلیم، ابلاغ اور ادارہ جاتی صلاحیت میں بھی پنہاں ہے۔
مسلم دنیا میں یہ سوچ پنپ رہی ہے کہ طاقت اب صرف سیاست اور احتجاج میں نہیں، بلکہ تعلیم، ابلاغ اور ادارہ جاتی صلاحیت میں بھی پنہاں ہے۔
دنیا جب اس بحران کو بڑھتے ہوئےدیکھ رہی ہے، تو بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ہم ایک نئے عالمی تنازعہ کے آغاز کا مشاہدہ کر رہے ہیں؟ ایران، جو پانچ ہزار سال سے بھی زیادہ پرانی تہذیب والا ملک ہے، اس طرح کی جارحیت کے سامنے خاموش رہنے والا نظر نہیں آتا۔
ٹام صاحب نے آسامی، بنگلہ، مراٹھی، ملیالم، ہندی، انگریزی، کنڑ اور اردو جیسی زبانوں میں سینکڑوں فلموں، ڈراموں اور ٹی وی سیریل میں کام کیا۔ لیکن اردو کے لیے ان کے دل میں ایک خاص جگہ تھی۔ وہ اردو بولنے، پڑھنے اور لکھنے میں بہت حساس تھے اور اردو کو اردو رسم الخط میں ہی پڑھنے اور لکھنے کے قائل تھے۔
مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا ہےکہ ہندوستان میں انگریزی بولنے والے لوگ جلد ہی شرم محسوس کریں گے۔ یہ بیان ثقافتی ہی نہیں بلکہ سیاسی بھی ہے – جو زبان، تعلیم، پہچان اور عالمی مسابقت سے متعلق سوالوں کو جنم دیتا ہے۔ یہ خیال معاشرے میں تفرقہ پیدا کرتا ہے اور عدم مساوات کو وسیع کرتا ہے۔
اسرائیل نے ایران پر یہ کہتے ہوئے حملہ کیا کہ یہ اس کے وجود کے لیے خطرہ ہے۔ ایک ملک جس کے پاس ایٹم بم ہے، ایک پڑوسی ملک پر یہ کہہ کر حملہ کرتا ہے کہ وہ ایٹم بم بنانے کے قریب ہے۔
اگر آج مہاتما گاندھی زندہ ہوتے، تو فلسطین جیسی مظلوم قوم کے تئیں ہندوستان کی خاموشی پر کیا کہتے؟ یہاں راجیہ سبھاممبرمنوج کمار جھا گویا گاندھی کی روح کو لفظوں کا پیرہن عطا کر رہے ہیں۔
اگرچہ اسرائیل نے سخت رازداری قائم رکھی ہے، تاہم جوہری ماہرین کے درمیان اس بات پر اتفاق ہو چکا ہے کہ اسرائیل ایک جوہری طاقت ہے۔ مگر شفافیت نہ ہونے کی وجہ سے اس کی صلاحیتیں، حکمت عملیاں اور خطرے کی حدود اب بھی اندھیرے میں چھپی ہیں۔یہ ابہام ایک طرف دشمنوں کو باز رکھنے کا ذریعہ ہے، تو دوسری طرف کھلے اعتراف سے بچنے کا طریقہ ہے۔
سفارتی احسان فراموشی کی اس سے بدتر مثال کیا ہوسکتی ہے، جب ایران نے نازک وقت میں ہندوستان کو عالمی رسوائی سے بچایا اور بدلے میں نئی دہلی نے اس کو بے یار و مدد گار چھوڑ کر مغربی طاقتوں اور اسرائیل کا دامن پکڑا۔
اسرائیل نے یہ کیسے معلوم کیا کہ اعلیٰ ایرانی حکام کے گھر کہاں ہیں اور وہ کہاں سو رہے تھے؟ اس کا سہرا مخبروں کے اس وسیع نیٹ ورک کو جاتا ہے، جو اسرائیل نے ایران کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے اندر بنا رکھا ہے۔
جدوجہد آزادی صرف برطانوی راج کو ختم کرنے کے لیے نہیں تھی۔ یہ اپنے وقار کو دوبارہ حاصل کرنے، بے اختیار لوگوں کو بااختیار بنانے اور ایک منصفانہ اور جامع معاشرے کی تشکیل کے لیے ایک تہذیبی تحریک تھی۔ ہندوستان کو دوبارہ انہی جذبات کی ضرورت ہے…
بکر انعام کی بدولت سہی، بانو مشتاق پڑھی جا رہی ہیں۔ ساتھ ہی کم یا زیادہ تنقید کا نشانہ بھی بن رہی ہیں۔میرے خیال میں اردو (مسلم؟) سوشل میڈیا پر جو لعن طعن ہو رہی ہے اس میں نہ صرف پدر شاہی طرزِ فکر کا عکس جھلکتا ہے بلکہ مذہبی عصیبت کا وہ پہلو بھی نمایاں ہے جو عورتوں کو ان مسائل پر بات کرنے سے روکنا چاہتا ہے جن کا تعلق مذہب کے ادارے سے ہے۔
بارہ جون 2025 کو احمد آباد سے لندن جا رہی ایئر انڈیا کی پرواز اے آئی 171 گر کر تباہ ہو گئی، جس میں 241 افراد ہلاک ہو گئے۔ حادثے کا مرکز بنا ڈریم لائنر طیارہ برسوں سے کوالٹی، اسمبلی کی خامیوں اور سابق ملازمین کی وارننگ کے حوالے سے تنازعات میں رہا ہے۔ یہ سانحہ اب ان تمام انتباہات کا بھیانک نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔
راجستھان میں آ رہے سولر پاور پلانٹس کی وجہ سے قدرتی نباتات تباہ ہو رہی ہیں، چراگاہیں ختم ہو رہی ہیں اور حیاتیاتی تنوع کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ راجستھان کا فخر سمجھے جانے والے کھیجڑی کے درخت بڑے پیمانے پر کاٹے جا رہے ہیں۔
شاید وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے ڈرائنگ رومز کو جنگی ہیڈکوارٹر کے بجائے امن کے مراکز میں بدلیں۔ جنگ صرف ہتھیاروں سے نہیں، ذہنوں سے بھی لڑی جاتی ہے۔ اگر ہم صرف نفرت، افواہوں اور پوائنٹ اسکورنگ میں الجھے رہے، تو وہ دن دور نہیں جب ہمارے بچے فلمی اور اصلی جنگ کا فرق بھول جائیں گے۔
مہاراشٹر حکومت کے پہلی جماعت کے اسکولی بچوں کو فوجی تربیت دینے کے منصوبے نے تعلیم اور بچوں کے حقوق سے متعلق بنیادی خدشات کو جنم دیا ہے۔ حکومت اسے ‘نظم وضبط’ اور ‘حب الوطنی’ کی مثال قرار دے رہی ہے، لیکن یہ قدم بچوں کی ذہنی نشوونما، تعلیم کی آزادی اور جمہوری اقدار کو بری طرح متاثر کر سکتا ہے۔
دنیا کے کئی میڈیا اداروں نے حالیہ دنوں میں اندرونی ایڈوائزیز جاری کرکے اپنے صحافیوں کو ہندوستانی میڈیا کا حوالہ دےکر خبریں فائل کرتے وقت انتہائی محتاط رہنے کا مشورہ دیا ہے۔
محمود آباد کے بہانے اب اشوکا یونیورسٹی پر حملہ کیا جا رہا ہے۔ کیا ہم اس ادارے سےامید کر سکتے ہیں کہ یہ ہارورڈ کی طرح حکومت کے سامنے اٹھ کرکھڑا ہوجائے؟ شاید وہ روایت یہاں نہیں ہے۔ خدشہ یہ ہے کہ اس بار پھر سے اس ادارے کے آقا بی جے پی کو مطمئن کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی قربانی دے دیں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے ترکیہ کے ساتھ تجارتی بائیکاٹ کا شاید ہی کوئی اثر ترکیہ پر پڑے گا۔ کیونکہ ترکیہ کی کل درآمدات میں ہندوستان کا حصہ صرف 0.2 فیصد ہے۔اسی طرح ہندوستان سے ترکیہ جانے والے سیاح کل سیاحوں کا صرف 0.6 فیصد ہیں۔
امن کا راستہ بہت کٹھن ہے اور ہوگا۔ ہمارا ہمسایہ بھی آسانی سے اس راستے پر چلنے کوراضی نہیں ہوگا کیونکہ وہ فوج کے زیر انتظام ملک ہے۔ لیکن یہی واحد راستہ ہے جو ہمیں تباہی اور بربادی سے بچا سکتا ہے۔
ہندوستان-پاکستان کشیدگی کے بعد 30 ممالک میں آل پارٹی وفد بھیجنے کے نریندر مودی حکومت کے فیصلے کے سیاسی اور سفارتی مضمرات پر دی وائر کے پالیٹکل ایڈیٹر اجئے آشیرواد اور دی وائر ہندی کے مدیر آشوتوش بھاردواج کی بات چیت۔
نارائن پور کے جنگلات میں حال ہی میں ہوئے انکاؤنٹر میں سی پی آئی (ماؤسٹ) کے جنرل سکریٹری نمبلا کیشوا راؤ عرف بسواراجو مارے گئے۔ بستر رینج کے آئی جی نے کہا ہے کہ بسواراجو پچھلے 40-45 سالوں سے ماؤنواز تحریک کا حصہ تھے اور 200 سے زیادہ نکسلی حملوں میں شامل تھے۔ اس کارروائی کو حکومت اور سیکورٹی فورسز کے لیے ایک بڑی کامیابی ماناجا رہا ہے، لیکن کیا اسے نکسل ازم کا خاتمہ سمجھا جا سکتا ہے؟ دی وائر ہندی کے مدیر آشوتوش بھاردواج سے ذیشان کاسکر کی بات چیت۔
کرناٹک بی جے پی کی ایک ایکس پوسٹ میں نکسلائٹ کی قبر کے پاس مرکزی وزیر داخلہ کے کیریکیچرکوایک گوبھی کے ساتھ دکھایا گیاہے۔ گوبھی کو علامتی طور پر 1989 کے بھاگلپور کے مسلم مخالف فسادات کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جاتاہے۔ حالیہ برسوں میں اس علامتی تناظر کو شدت پسند دائیں بازو کے گروہوں کی جانب سے بڑے جوش و خروش سےپیش کیا گیا ہے۔
سال2001 سے 2019 کے درمیان ہندوستان میں ہیٹ ویو کی وجہ سے تقریباً 20000 افراد ہلاک ہوئے۔ تحقیق میں پایا گیا کہ مرد اور پسماندہ سماج کے لوگ سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ محققین نے ذات پر مبنی سماجی تحفظ کی پالیسی کی سفارش کی ہے۔
گزشتہ دس سالوں میں مسلم مخالف تعصب اور جذبات عروج پر پہنچ گئےہیں– اور اسے مقتدرہ پارٹی کی خطرناک سیاست نے اوربھڑکایا ہے۔ پاکستان کے ساتھ جب بھی کشیدگی کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے، تو اس کا اثر مسلمانوں پر ظلم کی صورت میں نظر آتا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ پہلگام حملے کے بعد جو ماحول بنا ہے، وہ بالکل وہی ہے جس کا مجھے خدشہ تھا۔
مرکزی حکومت نے ہندوپاک کشیدگی سے متعلق مسئلے پر 30 سے زائد ممالک میں سات وفد بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس میں حکمراں جماعت اور اپوزیشن کے رہنما شامل ہیں، جن کے بارے میں حزب اختلاف کے ارکان پارلیامنٹ کا کہنا ہے کہ وہ ملک سے باہر مختلف اندرونی اختلافات کے باوجود متحد ہیں۔
حکومت چلانے کے لئے تدبر، تحمل اور معاملہ فہم ہونے کی ضرورت ہوتی ہے، مہم جوئی فوج اور انٹلی جنس میں تو درست ہے مگر اعلیٰ سیاسی عہدوں میں اس طرح کا مزاج خطرناک ہوتا ہے۔
پہلگام حملے کے تقریباً چار ہفتے بعد بھی اس کو انجام دینے والے دہشت گردوں کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں ملی ہے۔ وزیراعظم منہ توڑ جواب دینے کی بات کرتے ہیں، لیکن حفاظتی انتظامات کے بارے میں خاموشی ہے۔ آپریشن سیندور کے بعد کیا کچھ ہو رہا ہے،اس بارے میں دی وائر کی مدیر سیما چشتی اور سینئر صحافی ندھیش تیاگی سے تبادلہ خیال کر رہی ہیں میناکشی تیواری۔
بائیس اپریل کے بعد کے ہفتوں میں ثابت ہوا کہ ہم ایک سماج کے طور پر ہوش مند اور ذی شعور نہیں ہیں۔ کوئی بھی غیر معمولی واقعہ ہمیں جڑ سے ہلا دے سکتا ہے۔ اس ساری صورتحال میں غصے کی جو نئی لہر دہشت گردی اور پاکستان مخالف جذبات کے نام پر دیکھی گئی اس نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ ہندوستان کا سب سے بڑا مسئلہ مسلمانوں سے نفرت ہے۔
دونوں ممالک خاص طور پر ہندوستانی میڈیا کی موجودہ روش نے بھی ٹریک ٹو کو زوال کی وادی میں دھکیل دیا ہے۔
غلط انفارمیشن کے علاوہ ٹی وی اینکروں کی گندی زبان اور گالی گلوچ نے ایک نئی تاریخ رقم کی۔سفید جھوٹ اور پروپیگنڈہ کوئی انٹرنیٹ ٹرول نہیں بلکہ قومی سطح کے بڑے میڈیا ادارے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کسی کے کہنے پر پھیلا رہے تھے۔
ہندوستانی فوج کے آپریشن سیندور کے بعد پاکستان اور ہندوستان کے درمیان بے انتہاکشیدگی کا مشاہدہ کیا گیا۔ تاہم،اس دوران جنگی جنون میں ہندوستانی ٹی وی میڈیا کی جانب سے بہت سی غلط معلومات اور فیک نیوز کو خبر کے طور پر پیش کیا گیا۔ اس موضوع پر دی ہندو کے سینئر صحافی کلول بھٹاچاریہ اور دی وائر کے پالیٹکل ایڈیٹر اجئے آشیرواد سے تبادلہ خیال کر رہی ہیں میناکشی تیواری۔
جس حکومت نے اب صوفیہ قریشی کو اپنا چہرہ بناکرپیش کیا ہے، وہ ایک فوجی کی بیوی کے ساتھ کھڑی نہیں ہوئی۔ صرف اس لیےاسےتنہا چھوڑ دیا گیا کہ وہ اپنی تکلیف کے ساتھ اور اس کے باوجودمسلمانوں کے ساتھ کھڑی ہوئی تھی۔
دنیا بھر کے دفاعی ماہرین ہندوستانی فضائیہ کی اس کارروائی کی کامیابی کے حوالے سے شک و شبہ کا اظہار کرتے ہیں۔ امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک متفق ہیں کہ میزائل ٹارگٹ سے خاصے دور گرے۔
ہمانشی نروال کے بیان میں انسانیت کو بیدار کرنے کی جو طاقت تھی، اس سے خوفزدہ ہندوتوا گروہ کی جانب سے ان کی ساکھ کو ختم کرنے کے لیےمذمتی مہم چلائی جا رہی ہے۔ یہ ایک عام ہندو کے لیے آزمائش کا وقت ہے؛ وہ ہمانشی کے ساتھ کھڑا ہوگا یا ان پر حملہ آور اس گروہ کے ساتھ؟
ویڈیو: پہلگام دہشت گردانہ حملے کو لے کر قومی سلامتی سے متعلق سوالات کے درمیان مرکزی حکومت نے ذات پر مبنی مردم شماری کرانے کی بات کہی ہے۔ کیا یہ بڑے سوالات سے توجہ ہٹانے کا طریقہ ہے؟ دی وائر کی مدیر سیما چشتی اور سینئر صحافی اوماکانت لکھیڑا کے ساتھ تبادلہ خیال کر رہی ہیں میناکشی تیواری۔
پہلگام میں دہشت گردانہ تشدد کے اشتعال کے درمیان ذات پر مبنی مردم شماری کا اعلان کیا گیا ہے۔ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ پانچ سال تک کشمیر کو اپنے قبضے میں رکھنے کے بعد بھی بی جے پی حکومت سیاحوں کی حفاظت کیوں نہیں کر سکی؟ اس سوال سے توجہ ہٹانے کے لیے حکومت نے اخبارات اور ٹی وی چینلوں کو موضوع دیتے ہوئے ذات پر مبنی مردم شماری کا اعلان کر دیا ہے۔
پہلگام حملے کے دو دن کے اندر ہی وادی میں گیارہ مکانوں کو تہس نہس کر نے اور گرفتاریوں کے سلسلہ کی وجہ سے خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ مکانات ان خاندانوں کے تھے، جن کے افراد خانہ نے واردات میں مدد دی تھی۔ ابھی تو تفتیش کا آغاز بھی نہیں ہوا۔یہ کس طرح کا انصاف ہے؟
جب کوئی معاشرہ انسداد دہشت گردی کی کارروائی کے بجائے، نمائشی اور کھوکھلے ‘انصاف’ کا انتخاب کرتا ہے تو اس کا فائدہ دہشت گردوں اور ان کے آقاؤں کو ہوتا ہے۔
جنوبی کشمیر کے پہلگام میں دہشت گردوں کے ذریعے سیاحوں پر حملے کے بعد وزیر داخلہ کے علاقے میں سیکورٹی اور امن قائم ہونے کے دعووں پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ اس سلسلے میں سینئر صحافی سنجے کے جھا اور دی وائر کی نیشنل افیئرز کی ایڈیٹر سنگیتا بروآ پیشاروتی سے تبادلہ خیال کر رہی ہیں میناکشی تیواری ۔
ایک تحقیق کے مطابق، اگست 2019 تک ترکیہ میں 52000 مضبوط وقف، 5268 نئے وقف، 256 مُلحق وقف، اور 167 اقلیتی وقف رجسٹرڈ تھے۔یہودیوں اور عیسائیوں کے بھی اس ملک میں اپنے وقف ہیں، جن کا وہ اپنی مرضی سے دیکھ بھال کرتے ہیں۔