مذہبی آزادی سے متعلق اپنی 2024 کی سالانہ رپورٹ میں امریکی کمیشن نے ہندوستان کو ‘مذہبی آزادی کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہونے’ کے لیے ‘خصوصی تشویش والے ملک’ کے طور پر فہرست میں شامل کرنے کی سفارش کی ہے۔ رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے ہندوستان نے کمیشن کو ایجنڈے والا متعصب ادارہ قرار دیا ہے۔
کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ انضمام ایک سماجی اور ثقافتی عمل ہے، جس کو روزانہ کی بنیاد پر انجام دیے بغیر کام نہیں چلے گا۔
رائٹ ونگ کشمیر کو مسلمان حملہ آوروں کی سرزمین قرار دے کر ہندوستان سے اس کی بیگانگی کو اور بڑھا رہے ہیں۔ پچھلے پانچ سالوں میں ہندوستان کے ساتھ کشمیر کی خلیج بڑھ گئی ہے۔
اگست 2019 میں دعوے کیے جا رہے تھے کہ بہت جلد کشمیری پنڈت کشمیر واپس آجائیں گے، باقی ہندوستانی بھی پہلگام اور سون مرگ میں زمین خرید سکیں گے۔ لیکن حالات اس قدر بگڑے کہ وادی میں باقی رہ گئے پنڈت بھی اپنا گھر بار چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں۔
’وقت کے ساتھ میں نے اپنی شناخت کو چھپانا شروع کر دیا ہے۔ جب کوئی مجھ سے پوچھتا ہے کہ آپ کہاں سے ہیں، تو میں کہتی ہوں – یہیں دلی سے۔‘
کشمیر اس وقت دو طرح کے جذبات سے بر سرپیکار ہے؛ شدید غصہ اور احساس ذلت، اور گہری مایوسی کی یہ کیفیت غیرتغیرپسند ہے۔ نہ تو پاکستان آزادی دلا سکتا ہے اور نہ ہی مرکز کی کوئی آئندہ حکومت 5 اگست سے پہلے کے حالات کو بحال کر پائے گی۔
کشمیر پر ہونے والے بحث و مباحثہ سے کشمیری غائب ہیں۔ ان کے بغیر ان کی سرزمین کی قسمت کا فیصلہ ہو رہا ہے۔ اس ستم ظریفی کے ساتھ آپ جہلم کے پانیوں میں غوطہ زن ہو سکتے ہیں – یہ ندی دونوں طبقے کی نال سے لپٹی ہوئی یادوں اور مضطرب ڈور سے بندھے درد کے ہمراہ رواں ہے۔
پانچ اگست 2019 کے بعد کا کشمیرہندوستان کے لیے آئینہ ہے۔ اس کے بعد ہندوستان کا کشمیرائزیشن تیز رفتاری سے ہوا ہے۔ شہریوں کے حقوق کی پامالی، گورنروں کی ہنگامہ آرائی ، وفاقی حکومت کی من مانی۔
ٹھیک پانچ سال پہلے 5 اگست 2019 کو مرکز کی بی جے پی حکومت نے جموں و کشمیر کو آزاد ہندوستان میں شامل کرنے کی شرط کے طور پر آرٹیکل 370 کے تحت دی گئی خصوصی حیثیت کو منسوخ کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ ریاست کو مرکز کے زیر انتظام علاقوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تبدیل کر دیا تھا۔
ہندوستان کی مقتدر شخصیات نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ پانچ سال قبل لیے گئے اس فیصلہ نے جموں و کشمیر کو ایک غیر یقینی صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔ اس میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ عسکریت پسندوں کے بڑھتی ہوئی کارروائیوں کی وجہ سے حکومت قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کو مؤخر کر سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسا قدم انتہائی غیر معمولی ہوگا، کیونکہ ماضی میں اس سے بھی خراب حالات میں انتخابات کا انعقاد کیا جا چکا ہے۔
ہندوستان میں مرکزی حکومتوں نے مختلف وجوہات کی بنا پر 115 بار آئین کی دفعہ 356 کا استعمال کرتے ہوئے صوبائی حکومتوں کو معزول کیا ہے۔ اب مرکزی حکومت کو ایک اور ہتھیار مل گیا ہے۔ اپوزیشن کے زیر اقتدار کسی بھی صوبائی حکومت کو نہ صرف اب معزول کیا جا سکے گا، بلکہ اس ریاست کو پارلیامنٹ کی عددی قوت کے بل پر براہ راست مرکزی علاقے میں تبدیل کیا جاسکے گا اور صوبائی اسمبلی کے مشورہ کے بغیر ہی دولخت بھی کیا جا سکے گا۔
اپوزیشن کا کہنا ہے کہ وہ اس بات سے مایوس ہے کہ سپریم کورٹ نے جموں و کشمیر ریاست کو تقسیم کرنے اور اس کی حیثیت کو کم کرکے دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں کرنے کے سوال پر فیصلہ نہیں دیا۔ جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کو ہٹانے کے فیصلے کو برقرار رکھنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر کانگریس نے کہا کہ وہ ‘احترام کے ساتھ اس فیصلے سےمتفق نہیں’ ہے۔
سی جے آئی ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی بنچ نے کہا کہ آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے اور جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کا آئینی فیصلہ پوری طرح سے جائز ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے ریاست میں 30 ستمبر 2024 سے پہلے اسمبلی انتخابات کرانے کی ہدایت بھی دی۔
اس وقت تمام نگاہیں ہندوستانی سپریم کورٹ کی طرف ٹکی ہوئی ہیں۔ کیا سپریم کورٹ واقعی کوئی تاریخ رقم کرے گا؟ ایک بڑا سوال ہے، جس کا جواب وقت ہی دے گا۔
جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کے خلاف سپریم کورٹ میں جاری سماعت میں عرضی گزاروں کے وکیل کپل سبل نے مرکز پر صوبے کے لوگوں کی خواہش کو سمجھنے کی کوشش کیے بغیر ہی ‘یکطرفہ’ فیصلہ لینے کا الزام لگایا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ جب آپ جموں و کشمیر سے اس طرح کے خصوصی تعلقات کو توڑنا چاہتے ہیں تو لوگوں کی رائے لینی ہوگی۔
فورم فار ہیومن رائٹس ان جموں وکشمیر سے وابستہ اس غیر رسمی گروپ نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ حکومتی دعووں کے برعکس کشمیر کے زمینی حقائق کچھ اور ہی کہانی بیان کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت کا امن و امان و سلامتی کا دعویٰ صحیح ہے، تو یہ خطہ پچھلے پانچ سالوں سے منتخب اسمبلی کے بغیر کیوں ہے؟
کشمیر کے معاملے پر چاہے سپریم کورٹ ہو یا قومی انسانی حقوق کمیشن، ہندوستان کے کسی بھی مؤقر ادارے کا ریکارڈ کچھ زیادہ اچھا نہیں رہا ہے، مگر چونکہ اس مقدمہ کے ہندوستان کے عمومی وفاقی ڈھانچہ پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے، اس لیے شاید سپریم کورٹ کو اس کو صرف کشمیر کی عینک سے دیکھنے کے بجائے وفاقی ڈھانچہ اور دیگر ریاستوں پر اس کے اثرات کو بھی دیکھنا پڑے گا۔ امید ہے کہ وہ ایک معروضی نتیجے پر پہنچ کر کشمیری عوام کی کچھ داد رسی کا انتظام کر پائےگی۔
اگست 2019 میں جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کی بیشتر دفعات کو منسوخ کرنے اور صوبے کو دو یونین ٹریٹری میں تقسیم کرنے کے مودی حکومت کےفیصلے کے خلاف بیس سے زیادہ عرضیاں عدالت میں زیر التوا ہیں۔ سی جے آئی ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی پانچ ججوں کی بنچ اگلے ہفتے ان کی سماعت کرے گی۔
ویڈیو: امریکی محکمہ خارجہ نے گزشتہ دنوں ہندوستان میں اقلیتوں کے خلاف ‘نشانہ بنا کر کیے جا رہے مسلسل حملوں’ کو اجاگر کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی ہولو کاسٹ میوزیم ہندوستان کو ’نسل کشی کے امکانات والے ممالک’ کے طور پر دیکھتا ہے۔ اس موضوع پر صحافی،رائٹر اور ایمنیسٹی انڈیا کے سربراہ آکار پٹیل سے بات چیت۔
وزیر اعظم نریندر مودی آئندہ ماہ واشنگٹن کے دورے پر جانے والے ہیں،اس سے پہلے امریکی محکمہ خارجہ نے ہندوستان میں اقلیتوں کے خلاف ہدف بناکر کیے جانے والےمسلسل حملوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی ہولوکاسٹ میوزیم ہندوستان کو’نسل کشی کے امکانات والے ممالک’ کے طور پر دیکھتا ہے۔
احمد آباد کے نرودا گام میں 2002 کے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران 11 افراد مارے گئے تھے، جس کے تمام ملزمین کو گزشتہ ماہ بری کر دیا گیا۔اب منظر عام پر آئے 1728 صفحات کے عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تحقیقاتی ایجنسی نے گواہوں کے بیانات کی تصدیق نہیں کی تھی۔
یونائیٹڈ اسٹیٹس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجیئس فریڈم کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال 2022 میں ہندوستان میں مذہبی آزادی کی صورتحال بدتر ہوتی چلی گئی۔ ریاستی اور مقامی سطحوں پر مذہبی طور پرامتیازی پالیسیوں کو فروغ دیا گیا۔
قابل ذکر ہے کہ 28 فروری 2002 کو احمد آباد کے نرودا گام میں فرقہ وارانہ فسادات کے دوران 11 افراد کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس معاملے میں 86 ملزمان میں سےگزشتہ دنوں گجرات کی سابق وزیر مایا کوڈنانی اور بجرنگ دل کے سابق لیڈر بابو بجرنگی سمیت67 لوگوں کو بری کر دیا گیا۔
گجرات میں احمد آباد کے نرودا گام میں 28 فروری 2002 کوفرقہ وارانہ فسادات کے دوران 11 افرادکو قتل کر دیا گیا تھا۔ اس معاملے میں 86 افراد ملزم بنائے گئے تھے، جن میں گجرات حکومت کی سابق وزیر مایا کوڈنانی اور بجرنگ دل کے سابق لیڈر بابو بجرنگی بھی شامل تھے۔ نرودا گام میں قتل عام کا یہ واقعہ اس سال کے نو بڑے فرقہ وارانہ فسادات میں سے ایک تھا۔
یونائیٹڈ اسٹیٹس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجیئس فریڈم (یو ایس سی آئی آر ایف) کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں مذہبی آزادی اور متعلقہ انسانی حقوق کو مسلسل خطرہ لاحق ہے۔ اس سال اپریل میں بھی کمیشن نے اپنی سالانہ رپورٹ میں سفارش کی تھی کہ امریکی محکمہ خارجہ ہندوستان کو ‘خصوصی تشویش’ والے ممالک کی فہرست میں ڈالے۔
مغربی بنگال اسمبلی میں مرکزی تفتیشی ایجنسیوں کی ‘زیادتیوں’ کے خلاف ایک قرارداد کی منظوری کے دوران وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے کہا کہ بی جے پی لیڈروں کا ایک طبقہ اپنے مفاد کے لیے ایجنسیوں کا غلط استعمال کر رہا ہے۔ وزیر اعظم کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ مرکزی حکومت کے کام اور ان کی پارٹی کے مفاد آپس میں نہ ٹکرائیں۔
مودی سرکار کی جانب سے 5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے سے ایک دن قبل سرکردہ ریاستی رہنماؤں کو نظر بند کر دیا گیا تھا، جن میں حریت کانفرنس کے سینئر رہنما میر واعظ عمر فاروق بھی تھے۔ حریت کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ ریاستی حکام نے میر واعظ پر لگائے گئے الزامات کی تفصیلات بتانے سے انکار کردیا ہے۔
ایسے پاکستانی شہریوں کی شہریت کی درخواستوں کو فاسٹ ٹریک کرنے کے لیے مرکزی حکومت کے دو نوٹیفیکیشن اور شہریت قانون کے پاس ہونے کے باوجود اب تک اس معاملے میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
یو ایس سی آئی آر ایف نے لگاتار تیسرے سال امریکی محکمہ خارجہ سے سفارش کی ہے کہ وہ ‘خصوصی تشویش والے ملک’ کے طور پر ہندوستان کی درجہ بندی کرے۔ رپورٹ کے مطابق، جن 15 ممالک کو اس زمرے میں رکھنے کا کہا گیا ہے، ان کی حکومتوں میں سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں اور انہوں نے عدم برداشت کا موقف اختیار کیا ہوا ہے۔
وی ایچ پی کے جوائنٹ جنرل سکریٹری سریندر جین نے کہا کہ ملک کو سیاسی آزادی1947میں ملی لیکن مذہبی اور ثقافتی آزادی رام مندر کی تحریک کے ذریعے حاصل ہوئی۔ جین نے یہ بھی کہا کہ چندے کی مہم نے پورے ملک کو ساتھ لاکر بتایا کہ صرف رام ہی ملک کو متحد کر سکتے ہیں۔ سیکولر سیاست نے صرف ملک کو تقسیم ہی کیا ہے۔
جہاں مغربی اور عرب ممالک ان دنوں ہندوستان کی ناراضگی کے پیش نظر حکومتی سطح پر کشمیر سے دامن بچا کر ہی چلتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ انسانی حقوق کے حوالے سے کوئی بیان جاری کرکے خاموش ہو جاتے ہیں، وسط ایشائی ممالک کشمیر کی صورت حال کے حوالے سے خاصے فکرمند دکھائی دے رہے تھے۔
مرکزی وزیرمملکت برائےداخلہ نتیانند رائےنے لوک سبھا میں بتایا کہ ابھی تک سرکار نے قومی سطح پر ہندوستانی شہریوں کا قومی رجسٹر تیارکرنے کا کوئی فیصلہ نہیں لیا ہے۔ حالانکہ مردم شماری 2021 کے پہلے مرحلے کے ساتھ شہریت ایکٹ 1955 کے تحت این پی آر کو اپ ڈیٹ کرنے کا فیصلہ ضرور لیا ہے۔
اس بیچ مرکزی حکومت نے راجیہ سبھا میں بتایا کہ 2019 میں یو اے پی اے کے تحت 1948 لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور 34 ملزمین کو قصوروار ٹھہرایا گیا۔ ایک اور سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ 31 دسمبر 2019 تک ملک کی مختلف جیلوں میں478600قیدی بند تھے،جن میں144125 قصوروار ٹھہرائے گئے تھے جبکہ 330487 زیر سماعت و 19913 خواتین تھیں۔
دو سال قبل یہ بھی بتایا گیا تھا کہ پچاس ہزار نوکریاں فوری طور فراہم کی جائیں گی۔تاہم دوسال بعد صورتحال یہ ہے جموں وکشمیر میں بےروزگار نوجوانوں کی تعداد 6لاکھ سے زائد ہے جن میں ساڑھے تین لاکھ کشمیر اور تقریباًاڑھائی لاکھ جموں صوبہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ایک طرف ترقی و خوشحالی کی باتیں ہورہی ہیں تو دوسری جانب عملی طور یہاں روزگار کے مواقع محدود کیے جارہے ہیں۔
اتراکھنڈ کی بنیاد رکھنے والی بی جے پی کے ماتھے پر سب سے بڑا داغ یہ لگا ہے کہ بھاری اکثریت سے سرکار چلانے کے باوجود اس نے دس سال کے اقتدار میں صوبے پر سات وزیر اعلیٰ تھوپ ڈالے ۔ پارٹی کی ناکامی یہ بھی ہے کہ اب تک اس کا کوئی بھی وزیر اعلیٰ اپنی مدت پوری نہیں کر سکا۔
پوڑی سے لوک سبھا ایم پی تیرتھ سنگھ راوت کو بی جے پی کی مرکزی قیادت کی جانب سے ترویندر سنگھ راوت کی جگہ پر وزیر اعلیٰ چنا گیا تھا۔ اتراکھنڈ بی جے پی میں عدم اطمینان کی وجہ سے ترویندر سنگھ راوت نے گزشتہ نو مارچ کو استعفیٰ دے دیا تھا۔
وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ پولیس کو غریب، دلت اور آدی واسیوں کے لیےحساس ہونا چاہیے۔ پولیس کی امیج کو بہتر بنانے کے لیے‘سنواد اور سنویدنا’ دونوں ضروری ہے۔ عوامی تعلقات کے بغیر جرم کے بارے میں معلومات جمع کرنا مشکل ہے، اس لیے ایس پی، ڈی ایس پی کی سطح کے پولیس افسروں کو تحصیل اور گاؤں میں جانا چاہیے اور لوگوں سے ملنا چاہیے۔
کئی افواہوں کے درمیان جس افواہ نے واقعی خوف و ہراس پھیلایا ہے وہ یہ ہے کہ وادی کشمیر کے کل رقبہ 15520مربع کلومیٹر میں سے 8600مربع کلومیٹر پر جموں اور دہلی میں رہنے والے کشمیری پنڈتوں کو بسا کر ایک علیحدہ مرکز کے زیر انتظام علاقہ تشکیل دیے جانے کی تجویز ہے۔ اس کا نام پنن کشمیرہوگا۔
جن دنوں یہ گروپ کشمیر کے دورہ پر تھا، حکومت نے بتایا کہ حریت لیڈر میر واعظ عمر فاروق ہاؤس اریسٹ نہیں ہیں اور کہیں بھی آ جا سکتے ہیں۔ اگلے روز یہ گروپ ان کی رہائش گا ہ پر پہنچا۔ مگر سیکورٹی اہلکاروں نے ان کو اندر جانے کی اجازت نہیں دے دی۔
سرکاری ذرائع نے بتایا کہ وزارت داخلہ کے حکم کے مطابق 77 میں سے 61ایم ایل اے کو کم از کم‘ایکس’زمرے کی سیکیورٹی دی جائیگی اور سی آئی ایس ایف کے کمانڈو تعینات کیے جائیں گے۔انہوں نے بتایا کہ باقی کو یا تو سینٹرل سیکیورٹی حاصل ہے یا انہیں‘وائی’زمرے کی سب سے اعلیٰ سیکیورٹی مہیا کرائی جائےگی۔