سنبھل کے کھگگو سرائے میں ‘دریافت کیے گئے’ مندر کے قریب رہنے والے مسلم خاندان کے مطابق، انتظامیہ ان کے گھر کو گرانا چاہتی ہے، کیونکہ یہ مندر کی پری کرما (طواف) میں رکاوٹ ہے۔ متاثرہ خاندان کے احتجاج کرنے پر پولیس نے گھر کے مالک محمد متین کو 16 جنوری کو گرفتار کر لیا تھا۔
سنبھل پولیس نے بتایا کہ انتظامیہ نے مقامی لوگوں کے ذریعے کنویں کو غیر قانونی طور پرڈھکنے کی شکایت موصول ہونے کے بعد بدھ (22 جنوری) کو کنویں کی کھدائی شروع کی ہے۔ یہ کنواں متنازعہ شاہی جامع مسجد کے قریب ہے۔
آرٹ گیلری میں نمائش کے لیے رکھی گئی پدم ایوارڈیافتہ آرٹسٹ ایم ایف حسین کی دو پینٹنگ کو دہلی ہائی کورٹ کے ایک وکیل نے ‘قابل اعتراض’ بتاتے ہوئے شکایت درج کرائی تھی۔ اب عدالت نے انہیں ضبط کرنے کا حکم دیا ہے۔
سنبھل کی شاہی جامع مسجدسے ملحقہ زمین خالی ہوا کرتی تھی۔ تشدد کے بعد انتظامیہ نے اسے اپنے قبضے میں لے لیا اوریہاں ستیہ ورت پولیس چوکی کی تعمیر شروع کر دی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ نام سنبھل کی ‘مذہبی اور تاریخی اہمیت’ کو ظاہر کرتا ہے۔
دہلی فسادات کے ایک معاملے میں مقامی عدالت نے پایا کہ دہلی پولیس کے ایک تفتیشی افسر نے مبینہ طور پر ثبوت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی، جس کے نتیجے میں ایک ملزم کو غلط طریقے سے پھنسایا گیا۔ عدالت نے دہلی پولیس کمشنر کو پولیس اہلکار کے طرز عمل کا جائزہ لینے اور مناسب کارروائی کرنے کی ہدایت دی ہے۔
میڈیا ہاؤس ‘آج تک’ کے زیراہتمام منعقد ایک کانکلیو میں وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے سنبھل میں ہری ہر مندر کے مبینہ انہدام کے سلسلے میں مسلم کمیونٹی سے ‘اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے’ اور ‘سناتن دھرم کی علامتوں کی راہ میں غیر ضروری رکاوٹیں نہ ڈالنے’ کے لیے بھی کہا۔
تین دہائی قبل جب یہ عبادت گاہوں کا بل پارلیامنٹ میں پیش کیا گیا تھا تو بی جے پی نے اسے ‘سیاہ ترین ‘ بل قرار دیا تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیاتھا کہ یہ’مغل اور برطانوی دور حکومت میں ہندو مندروں پر کی جانے والی تمام تجاوزات کو قانونی حیثیت دینے’ کی کوشش کی کرتا ہے۔ جبکہ غیر بی جے پی ارکان پارلیامنٹ نے اس کی حمایت کرتے ہوئے اسے سیکولرازم اور ہم آہنگی کے تحفظ کے لیے ایک ضروری قدم قرار دیا تھا۔
جب تک ہندوستانی عدالتوں کو پلیس آف ورشپ ایکٹ 1991 کی روح کو پامال کرنے کی اجازت دی جاتی رہے گی، تب تک تاریخ کے زخم کریدے جاتے رہیں گے، ہم آہنگی بگڑتی رہے گی اور خون خرابہ ہوتا رہے گا۔
موہن بھاگوت نے کہا ہے کہ ہر مسجد کے نیچے شیو مندر یا کوئی مورتی ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی جانی چاہیے۔ شاید ان کو معلوم ہے کہ اگر یہ سلسلہ شروع ہوا تو رکنے والا نہیں ہے اس کی زد میں ہندو مندر بھی آسکتے ہیں اور تاریخ کے وہ اوراق بھی کھل جائیں گے، جو ثابت کریں گے کہ کس طرح برہمنوں نے بدھ مت کو دبایا اور ان کی عبادت گاہوں کو نہ صرف مسمار کیا بلکہ بدھ بھکشووں اور بدھ مت کے ماننے والوں کو اذیت ناک موت دے کر اس مذہب کو ہی ملک سے بے دخل کر دیا۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور سینئر وکیل دشینت دوے نے دی وائر کے لیے کرن تھاپر کو دیے ایک انٹرویو میں کہا کہ مسجدوں کے سروے کی اجازت دے کر سابق سی جے آئی جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے ‘آئین اور ملک کے ساتھ بڑی ناانصافی کی’ ہے۔
سنبھل انتظامیہ نے اپوزیشن جماعتوں کے نمائندوں کو مسجد کے سروے کے دوران تشدد میں مارے گئے پانچ مسلمانوں کے اہل خانہ سے ملنے کے لیے ضلع کا دورہ کرنے کی اجازت نہیں دی۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کا کہنا ہے کہ یہ بی جے پی حکومت کی مبینہ پولیس زیادتیوں کے متاثرین تک رسائی کو روکنے کے منصوبے کا حصہ ہے۔
درخواست 19 نومبر کو دائر کی گئی اور 19 تاریخ کو ہی عدالت نے سروے کی اجازت دے دی۔ اسی دن سروے ہو بھی گیا۔ جامع مسجد کا پہلا سروے رات کے اندھیرے میں ہوا، جبکہ دوسرا صبح سویرے۔ وہ سرکاری کارروائی جو دن کے اجالے میں پوری کی جا سکتی تھی، اس کو بے وقت انجام دیا گیا۔ ایسا کب ہوتا ہے کہ کسی تاریخی عمارت کا سروے پہلے اندھیرے میں ہو اور اس کے بعد صبح کے وقت جب لوگ عموماً اپنی دکانیں بھی نہیں کھول پاتے۔
بی جے پی کے مطابق، سنبھل میں مسجد کے سروے کے دوران جو تشدد ہوا وہ شہر کی ترک اور پٹھان برادریوں سے تعلق رکھنے والے دو سیاسی خاندانوں کے درمیان بالادستی کی لڑائی کا نتیجہ تھا۔ تاہم، مقامی لوگوں اور اپوزیشن رہنماؤں نے اس کی تردید کرتے ہوئے اسے پولیس کو بچانے کی کوشش قرار دیا ہے۔
سنبھل مسجد کی انتظامی کمیٹی کے چیئرمین سینئر وکیل ظفر علی نے سوال اٹھایا کہ مظاہرین ایک دوسرے کو کیوں ماریں گے؟ اگر انہیں گولی چلانی ہی تھی تو وہ عوام پر نہیں پولیس پر گولی چلاتے۔ علی نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے خود پولیس کو بھیڑ پر گولیاں چلاتے ہوئے دیکھا تھا۔
سنبھل میں جامع مسجد کے سروے کے دوران ہوئے تشدد کے سلسلے میں پولیس نے دو خواتین سمیت 25 مسلمانوں کو گرفتار کیا ہے اور ایس پی ایم پی ضیاء الرحمان برق سمیت تقریباً 2500 لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس نے بھیڑ کے خلاف کوئی مہلک ہتھیار استعمال نہیں کیا۔
سنبھل میں مغلیہ دور کی شاہی جامع مسجد کے سروے کے خلاف احتجاج کرنے والی بھیڑکی پولیس کے ساتھ 24 نومبر کو ہوئی جھڑپ میں تین مسلمانون کی موت ہوگئی۔ مقامی مسلمانوں کا الزام ہے کہ تینوں پولیس فائرنگ میں مارے گئے، جبکہ انتظامیہ نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ بھیڑ کے درمیان کراس فائرنگ کا شکار ہوئے۔
سنبھل کی ایک مقامی عدالت میں دائر درخواست میں ہندوتوا کے حامی وکیل ہری شنکر جین سمیت کئی لوگوں نے دعویٰ کیا ہے کہ شاہی جامع مسجد وشنو کے اوتار کالکی کا مندر ہے۔ عدالت نے مسجد کے سروے کا حکم دیا تھا، جس کے چند گھنٹوں کے اندر یہ کارروائی مکمل کر لی گئی۔
کال ٹو ایکشن آن ایکسٹریم ہیٹ اپنی نوعیت کی پہلی رپورٹ ہے، جس میں شدید گرمی کے حوالے سے اقوام متحدہ کے دس رکن ممالک کی صورتحال بیان کی گئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق، اس سال گرمی کی شروعات کے بعد سے جون کے وسط تک ہندوستان میں گرمی کے باعث 100 سے زائد اموات ہوئیں۔
شدید گرمی کمزور طبقے کو غیر مساوی طور پر متاثر کرتی ہے۔ غریب محنت کشوں کو تو سکون کا لمحہ میسر ہے نہ طبی سہولیات۔ کنسٹرکشن اور ایگریکلچر ورکز تو لمبے وقت تک کھلے آسمان کے نیچے براہ راست شدید درجہ حرارت کا سامنا کرتے ہیں، ایسے میں شدید گرمی ان کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔
عدالت نے حکومتوں کی سرزنش کرتے ہوئے موسم کی مار جھیل رہے لوگوں کی پریشانی اور موسمیاتی تبدیلیوں کو سنجیدگی سے لینے کی اپیل کی۔
حال ہی میں سامنے آئے ایک وائرل ویڈیو میں دہلی پولیس کے سب انسپکٹر منوج تومر کو شہر کے اندرلوک علاقے میں مکی جامع مسجد کے قریب نماز ادا کرنے والے لوگوں کو لات مارتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ اس واقعہ سے پیدا ہونے والے غم و غصے کے درمیان انہیں معطل کر دیا گیا تھا۔
ویڈیو: سپریم کورٹ نے ایک عرضی گزار کی جانب سے ترنمول کانگریس کے لیڈروں کے ذریعے مغربی بنگال کے سندیش خالی میں خواتین کےجنسی استحصال کے الزامات کا موازنہ منی پور میں ہوئے خواتین کے معاملات کے ساتھ کرنے پر اعتراض کیا ہے اور ان سے عدالت کی نگرانی میں معاملے کی سی بی آئی/ایس آئی ٹی تحقیقات کے لیے کلکتہ ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے کو کہا ہے۔
رائٹرز کی 16 نومبر 2023 کو شائع ہونے والی ایک خصوصی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ دہلی کی کمپنی ایپن نے مبینہ طور پر سیاستدانوں، بین الاقوامی شخصیات، ممتاز وکلاء اور دیگر کا ڈیٹا چوری کیا ہے۔
تمل ناڈو کے دھرم پوری ضلع کےآدی واسی گاؤں واچتھی میں 20 جون 1992 کو محکمہ جنگلات اور پولیس کے اہلکاروں نے اسمگل کی گئی صندل کی لکڑی کی تلاش میں چھاپہ مارا تھا۔ اس دوران گاؤں والوں پر تشدد کرنے کے علاوہ 18 خواتین کے ساتھ ریپ کیا گیا تھا۔ مدراس ہائی کورٹ نے ملزمین کوقصوروار ٹھہرانے کے سیشن کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔
سال 2020 کے شمال–مشرقی دہلی فسادات سے متعلق ایک معاملے میں تین لوگوں کو بری کرتے ہوئےدہلی کی ایک عدالت نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ دہلی پولیس کے جانچ افسر نے ‘شواہد میں ہیرا پھیری’ کی اور ‘پہلے سے سوچے سمجھے اور میکانکی طریقے سے’چارج شیٹ داخل کی۔
دہلی کی ایک عدالت نے کہا کہ ہائی کورٹ کے ایک حالیہ فیصلے کے مطابق،ہیٹ اسپیچ وغیرہ کے معاملے میں کوڈ آف کریمنل پروسیجر (سی آر پی سی) کی دفعات کے تحت تحقیقات اور ایف آئی آر کے درج کرنے کے لیے حکومت کی منظوری ضروری ہوتی ہے۔
مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے ایک جج کو مبینہ طور پر بدنام کرنے کے کے لیے دو وکلاء سمیت دیگرکو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے سپریم کورٹ نےکہا کہ ہوسکتا ہے کہ جج نے غلط فیصلہ دیا ہو، جسے بعد میں رد کیاجاسکتا ہے،لیکن انہیں بدنام کرنے کی کوشش کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
یو اے پی اے سے متعلق ایک کیس میں آئی ایس آئی ایس کے نظریات کوفروغ دینے کے ملزمین کے خلاف الزامات طے کرتے ہوئے دہلی کی ایک عدالت نے کہا کہ کسی خاص مذہبی فلسفے پر مشتمل لٹریچر رکھنا جرم نہیں ہے، جب تک کہ کسی دہشت گردانہ فعل میں اس کے اطلاق کو ظاہر کرنے والا مواد موجود نہ ہو۔
مہاراشٹر کے ایک ڈاکٹر نے ہاسٹل میں نابالغ طالبات کے ساتھ جنسی زیادتی کے بارے میں علم ہونے کے باوجود اتھارٹی کو مطلع نہیں کیا تھا، جس کے لیے پولیس نے اس کے خلاف پاکسو کے تحت معاملہ درج کر لیا تھا۔ ہائی کورٹ کے ڈاکٹر کے خلاف کیس کو ردکرنے کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔
نومبر 2020 میں زی نیوز کی ایک نشریات میں شہلا رشید کے والد کا انٹرویو دکھایا گیا تھا، جس میں انہوں نے شہلا پر دہشت گردانہ فنڈنگ سے متعلق سرگرمیوں میں شامل ہونے کا الزام لگایا تھا۔ شہلا نے دہلی ہائی کورٹ میں دائر عرضی میں مطالبہ کیا ہے کہ چینل ان سےغیرمشروط معافی مانگے۔
ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق، مہاراشٹر میں ناگپور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے ہتھیاروں کے ‘غیر قانونی قبضے’کے سلسلے میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے خلاف شکایت موصول ہونے کے باوجود مقدمہ درج کرنے میں مبینہ ناکامی کے لیے یہ نوٹس جاری کیا ہے اور چار ہفتے کے اندر جواب داخل کرنے کو کہا ہے۔
نومبر 2020 میں زی نیوز کی ایک نشریات میں شہلا رشید کے والد کا انٹرویو دکھایا گیا تھا، جس میں انہوں نے شہلا پر دہشت گردانہ فنڈنگ سے متعلق سرگرمیوں میں شامل ہونے کا الزام لگایا تھا۔این بی ڈی ایس اے نے یہ کہتے ہوئے کہ اس نشریات میں غیرجانبداری کا فقدان تھا، چینل سے اس کی ویب سائٹ سمیت تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارموں سے اس ویڈیو کو ہٹا نےکوکہا ہے۔
گزشتہ ہفتے نریندر مودی حکومت کےدو ذمہ دارافرادقومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال اور چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت نے وسیع تر قومی مفاد کے نام پر قانون کی حکمرانی کی خلاف ورزی کو جائز ٹھہرانے کے لیے نئی تھیوری کی تشکیل کی کوشش کی ہے۔
اتر پردیش کےعلی گڑھ ضلع کا معاملہ۔اہل خانہ نے ایف آئی آر پر حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے لڑکے12ویں میں پڑھتے ہیں اور وہ اپنے دوستوں کے بیچ محض ‘بات چیت’ کر رہے تھے۔ اس کو لےکر بےوجہ کسی نے شکایت درج کرائی ہے۔شکایت درج کرانے والے بی جے پی رہنما نے کہا کہ ویڈیوکی وجہ سے لوگوں میں غصہ ہے اور اس کی وجہ سےمذہبی منافرت پھیل سکتی ہے۔
مبینہ طور پر‘تبدیلی مذہب کا سب سے بڑاریکٹ’چلانے کےالزام میں یوپی اے ٹی ایس نے اسلامی اسکالر مولانا کلیم صدیقی کو گزشتہ 21ستمبر کو میرٹھ سے گرفتار کیا تھا۔ صدیقی کے وکیل نے کہا ہے کہ پولیس ثبوت کے طور پر ان کے یوٹیوب چینل کو پیش کر رہی ہے جو پہلے سے ہی عوامی ہے اور اس میں کچھ بھی مجرمانہ یاملک کے خلاف نہیں ہے۔
شہلارشید، ان کی والدہ زبیدہ اختر اور بہن آصمہ رشید نے یہ کہتے ہوئے مقدمہ دائر کیا تھا کہ ان کے والد عبدالرشید شورا جھوٹے اور بیہودہ الزام لگاکر ان کی عزت کو کم کرنے کا کام کر رہے ہیں، جس میں انہیں ملک مخالف کہنا تک شامل ہے۔ مدعا علیہان میں عبدل، کچھ میڈیا آؤٹ لیٹس، فیس بک، ٹوئٹر، یوٹیوب اور گوگل شامل ہیں۔
اتر پردیش کے اناؤضلع کی23سالہ لڑکی کے ساتھ مبینہ طور پرگینگ ریپ کیا گیا تھا۔پچھلے سال دسمبر میں جب معاملے کی شنوائی کے لیےلڑکی عدالت جا رہی تھی تو ضمانت پر رہاہوئےریپ کے دوملزمین نے تین دیگر کے ساتھ مل کر زندہ جلا دیا تھا۔ اگلے دن لڑکی نے دہلی کے ایک اسپتال میں دم توڑ دیا تھا۔
اتر پردیش پولیس نے بتایا کہ کچہری میں کچھ لوگوں نے بار ایسوسی ایشن کے جوائنٹ سکریٹری سنجیو لودھی پر بم سے حملہ کیا۔ ایک بم پھٹا جبکہ باقی دو میں دھماکہ نہیں ہوا۔
ویڈیو: حیدرآباد ریپ پھر انکاؤنٹراور اناؤ کی ریپ متاثرہ کے قتل کے معاملے میں کس طرح سماج میں مجرموں کو پھانسی کی سزا کی مانگ اور ملک کے بڑے میڈیا اداروں کی ان مدعوں پر ہوئی رپورٹنگ پر سپریم کورٹ کی وکیل اونی بنسل،ہندوستان ٹائمس کےپالیٹیکل ایڈیٹر ونود شرمااور دی وائر کی سینئر ایڈیٹر رعارفہ خانم شیروانی سے بات کر رہے ہیں سینئر صحافی ارملیش۔
اتر پردیش کے اناؤ ضلع میں ایک ریپ متاثرہ کو جمعرات کی صبح ریپ کے ملزمین سمیت پانچ لوگوں نے آگ کے حوالے کر دیا تھا۔ تقریباً 90 فیصد تک جھلس چکی متاثرہ کو ایئر ایمبولینس کے ذریعے دہلی لایا گیا تھا۔ متاثرہ نے جمعہ دیر رات دم توڑ دیا۔