ویڈیو: امریکی صدارتی انتخابات میں ریپبلکن امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ کی جیت کا عالمی منظر نامے پر کیا اثر پڑے گا اور ٹرمپ کی واپسی کا امریکہ کی سیاست اور معاشرے پر کیا اثر پڑے گا،اس بارے میں بتا رہے ہیں دی وائر ہندی کے مدیرآشوتوش بھاردواج ۔
ڈونالڈ ٹرمپ کی جیت پر دنیا بھر کے رہنماؤں کے پیغامات اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ آنے والے برسوں میں دنیا کس سمت جا سکتی ہے۔
صدارتی انتخابات میں کملا ہیرس کی آمد امریکی جمہوری نظام کی طاقت اور مستحکم معاشرے کی خوبصورتی کی دلیل ہے۔ ان کی ماں شیاملا 1958 میں امریکہ آئی تھیں اور صرف 66 سال بعد ان کی بیٹی اس کرہ ارض کی سب سے طاقتور مملکت کی صدر بن سکتی ہیں۔
غزہ کے مکینوں کو راحت کی چند سانسیں لینے کا موقع ملا ہے۔ مگر کب تک؟ جب تک فلسطین کے مسئلہ کا کوئی پائیدار حل عمل میں نہیں لایا جائےگا، تب تک جنگ بندی عارضی ہی رہےگی۔ پائیدار حل ہی میں اسرائیل کی سلامتی بھی ہے۔
جو لوگ یقین کرتے ہیں کہ ہندوستان اب بھی ایک جمہوریت ہے، انہیں گزشتہ چند مہینوں میں منی پور سے مظفر نگر تک رونما ہونے والے واقعات پر نگاہ کرنی چاہیے۔ وارننگ کا وقت ختم ہو چکا ہے اور ہم اپنے عوام الناس کے ایک حصے سے اتنے ہی خوفزدہ ہیں جتنے اپنے رہنماؤں سے۔
امریکی صدر جو بائیڈن کا دعویٰ ہے کہ ان کی حکومت کا کلیدی اصول ‘جمہوریت کا تحفظ’ ہے۔ یہ قابل ستائش امرہے، لیکن ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورے کے وقت واشنگٹن میں جو کچھ ہوا وہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ امریکی حکمراں جس شخص کے آگے سجدہ ریز تھے، اس نے بڑے منظم طریقے سے ہندوستانی جمہوریت کو کمزور کیا ہے۔
’وال اسٹریٹ جرنل‘اخبار کی نامہ نگارسبرینا صدیقی نے امریکہ کے دورے پر گئے وزیراعظم نریندر مودی سے ہندوستان میں اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے بارے میں سوال پوچھا تھا، جس کے بعد بی جے پی اور ہندوتوا کے حامیوں نے ان کے والدین کے پاکستانی ہونے کا دعویٰ کرکے ان کو’پاکستان کی بیٹی’ بتایا تھا۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے امریکی ددورے کے دوران سابق امریکی صدر براک اوباما نے ہندوستان میں اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سےتشویش کا اظہار کیا تھا۔ اس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے الزام لگایا کہ جب اوباما امریکی صدر تھے ،تب چھ مسلم اکثریتی ممالک پر26000 سے زیادہ بموں سے حملہ کیا گیا تھا۔
’وال اسٹریٹ جرنل‘اخبار کی نامہ نگارسبرینا صدیقی نے امریکہ کے دورے پر گئے وزیراعظم نریندر مودی سے ہندوستان میں اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے بارے میں سوال پوچھا تھا، جس کے بعد ان کے والدین کے پاکستانی ہونے کا دعویٰ کرکے ان کو’پاکستان کی بیٹی’ بتایا جا رہا ہے۔
ویڈیو: کیا نریندر مودی کا دورہ امریکہ اتنی ہی بڑی حصولیابی ہے جتنی ہندوستانی میڈیا بتا رہا ہے؟ اس بارے میں تبادلہ خیال کر رہے ہیں دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند اور دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن۔
ویڈیو: وزیر اعظم نریندر مودی نے نو سالوں میں پہلی بار امریکہ دورے پر ایک پریس کانفرنس میں شرکت کی، جہاں ان سےہندوستان میں مسلمانوں اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں سوال پوچھا گیا۔ اس کے جواب میں انہوں نے ملک میں کسی قسم کی تفریق اور امتیازی سلوک نہ ہونے کی بات کہی۔ لیکن کیا یہ سچ ہے؟
ایک ٹی وی انٹرویو میں سابق امریکی صدر براک اوباما نے کہا کہ اگر وہ نریندر مودی سے بات چیت کرتے تو ملک میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا ذکر ہوتا۔ دوسری جانب امریکہ میں صدر جو بائیڈن کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں پی ایم مودی نے کہا کہ ہندوستان میں مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں ہے۔
اپنے امریکی دورے کے دوران کہیں کوئی ہندوستان کے اندر رونما ہونے والے ایشو نہ اٹھائے وزیر اعظم نریندر مودی اپنے ساتھ اربوں ڈالر کے دفاعی سودوں کی ایک طویل فہرست اپنے ساتھ لے کر گئے ہیں۔ اب اگر کوئی یہ ایشو اٹھانا بھی چاہے، تو ہندوستان سے پہلے ہتھیار بنانے والے کمپنیاں اس سے خود ہی نپٹ لیں گی۔
بڑا سوال یہ ہے کہ کیا بائیڈن انتظامیہ کے لیے ایسی جمہوریت کے ساتھ اتحاد کرنا جائز ہے، جو ملکی سیاست اور خارجہ پالیسی میں چین کے آمرانہ نظام کی عکاسی کرتی ہو؟ شیطان کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک عفریت کی سرپرستی کرنا ماضی میں امریکہ کے لیے مہنگا ثابت ہوا ہے۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ سبھی گروپ مل کر ایک وسیع البنیاد حکومت بناکر عالم اسلام کے سینے پر موجود اس ناسور کو ختم کروانے میں مدد کرکے عوام کو بھنور سے نکال کر ان کو پر امن زندگی جینے کا موقع فراہم کرواتے اور عالمی اور علاقائی طاقتوں کا کھلونا بننے سے احتراز کرتے۔
ویڈیو: امریکہ میں اقتدار کی تبدیلی کے بعد صدر جو بائیڈن اورنائب صدر کملا ہیرس نے عہدہ سنبھال لیا ہے۔ اس مدعے پر دی وائر کی سینئر ایڈیٹرعارفہ خانم شیروانی کا نظریہ۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے عہدہ سنبھالتے ہی سابق صدر ٹرمپ کی متعدد پالیسیاں منسوخ کردی ہیں جن میں مسلم ممالک پر عائد سفری پابندیاں شامل ہیں۔
امریکہ کے سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ملک کی 152 سالہ پرانی روایت کو نظرانداز کرتے ہوئے جو بائیڈن کی تقریب حلف برداری میں حصہ نہیں لیا اوروہائٹ ہاؤس سے نکل کر سیدھے فلورڈا چلے گئے۔ صدر بائیڈن نے کہا کہ ہم اپنے شراکت داروں کے ساتھ تعلقات کو درست کریں گے۔ وہیں نائب صدر کملا ہیرس نے کہا کہ وہ خدمت کرنے کے لیے تیار ہیں۔
امریکی پارلیامنٹ کیمپس میں ہوئےتشدد کے بعد ٹوئٹر نے‘آگے اور تشدد کے خطرے کے مدنظر’ ڈونالڈ ٹرمپ کا اکاؤنٹ مستقل طور پر بند کر دیا ہے۔ اس سے پہلے فیس بک اور انسٹاگرام بھی ٹرمپ کے اکاؤنٹ بلاک کر چکے ہیں۔
بڑا سوال ہے کہ اوبامہ نے مشرق وسطیٰ میں جس طرح امیدیں جگائیں تھیں، کیا بائیڈن ان میں کوئی رمق پیدا کرنے میں کامیاب ہو پائیں گے؟ بارہ سال قبل کا خوشگوار ماحول اب نفرت میں تبدیل ہو گیا ہے۔
اندازہ ہے کہ افغانستان، فلسطین،عرب-اسرائیل تعلقات کے حوالے سے جوبائیڈن کی انتظامیہ ٹرمپ کی پالیسیوں کو برقرار رکھے گی مگر حقوق انسانی کے حوالے سے امریکہ سے اب کچھ زیادہ چیخ و پکار سنائی دی جائےگی۔
جو بائیڈن کی قیادت میں امریکی انتظامیہ سےہندوستان کوتجارت ، تارکین وطن اور اہم اسٹریٹجک امور پر مثبت رخ کی امید رہے گی۔
صدارتی انتخاب کے بے حدسخت مقابلے میں تاریخی جیت حاصل کرنے کے بعد ڈیموکریٹک رہنما جو بائیڈن نے کہا کہ میں ایسا صدر بننے کاعہد کرتا ہوں، جو بانٹنے نہیں، بلکہ متحد کرنے کی کوشش کرے گا، جو ڈیموکریٹک ری پبلکن ریاستوں میں فرق نہیں کرےگا، بلکہ پورے امریکہ کو ایک نظر سے دیکھےگا۔
کملا ہیرس امریکی نائب صدر کاعہدہ سنبھالنے والی پہلی خاتون، پہلی غیرسفیدفام امریکی اور پہلی ایشیائی نژاد امریکی ہیں۔ اپنے پہلے خطاب میں انہوں نے خواتین کی حق رائے دہی کے لیے کھڑی ہوئیں تمام عورتوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہر بچی، جو آج مجھے دیکھ رہی ہے، وہ جان جائےگی کہ یہ امکانات کا ملک ہے۔
اختیارات کا غلط استعمال کرنے کے الزام میں صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے لئے امریکی وفد نے 230-197 کی اکثریت سے مواخذہ کی تجویز پاس کر دی۔ اب یہ معاملہ ری پبلکن پارٹی کی اکثریت والے سینیٹ میں سماعت کے لئے جائےگا۔