 
	
	
	
	
دہلی کی عدالتوں نے 2020 کے فسادات سے متعلق کم از کم 17 معاملوں میں ملزمین کو ‘من گھڑت’ شواہد،’فرضی’ گواہ اور ‘فرضی معاملوں’ کا حوالہ دیتے ہوئے بری کر دیا ہے۔ ججوں  نے دہلی پولیس کی تحقیقات پر سنگین سوال اٹھائے ہیں۔
	
	
		 
	
	
	
	
مرادآباد ضلع میں ہندو دیوی-دیوتاؤں کے نام سے بینڈ کا نام  رکھنے پر ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔ ایک شکایت کے بعد تمام مسلم بینڈ آپریٹرز کو پولیس نے ہدایت دی ہے کہ وہ اپنے بینڈ کے نام ہندو دیوی دیوتاؤں کے نام پر نہ رکھیں۔
	
	
		 
	
	
	
	
بنگلہ دیش سے آئے مبینہ شہریوں کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کے درمیان سینکڑوں بنگالی اور آسامی مزدوروں کو گروگرام پولیس نے حراست میں لے کر ‘ہولڈنگ سینٹر’ میں رکھا ہے۔ ان میں زیادہ تر مرد ہیں۔ صرف 19 جولائی کو 74 مزدوروں کو حراست میں لیا گیا۔
	
	
		 
	
	
	
	
جولائی 2006 کےممبئی سلسلہ وار ٹرین دھماکوں کے معاملے میں ممبئی ہائی کورٹ کی جانب سے نچلی عدالت کے ذریعے قصوروار ٹھہرائے گئے تمام 12 لوگوں کو بری کیے جانے کے بعد سپریم کورٹ نے جزوی طور پر فیصلے پر روک لگاتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ کے فیصلے کو مکوکا کے دیگر معاملوں میں مثال نہیں مانا جائے گا۔
	
	
		 
	
	
	
	
بامبے ہائی کورٹ نے 2006 کے ٹرین دھماکہ کیس میں 12 ملزمان کو 19 سال بعد بری کر دیا۔ فیصلے نے دکھایا کہ کس طرح پولیس نے تشدد کے سہارے اقبال جرم کروائے، جانچ میں خامیاں  رہیں اور ٹرائل کورٹ نے اسے نظر انداز کیا۔ ہائی کورٹ نے سخت تبصرے کیے، لیکن تشدد کے لیے قصوروار اہلکاروں کو جوابدہ نہیں ٹھہرایا۔
	
	
		 
	
	
	
	
مدھیہ پردیش کے ڈی جی پی کیلاش مکوانا نے کہا ہے کہ ریپ کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیچھے کئی وجوہات ہیں ،جن میں انٹرنیٹ، موبائل فون، فحش مواد کی دستیابی اور شراب نوشی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریپ کے بڑھتے ہوئے واقعات کو صرف پولیس نہیں روک سکتی۔
	
	
		 
	
	
	
	
سال 2006کے ممبئی ٹرین دھماکہ کیس میں جن لوگوں کو عدالت نے مجرم قرار دیا  یا بری کر دیا ،  ان کے خاندانوں کو اب بھی پولیس کی مسلسل پوچھ گچھ اور نگرانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ بری کر دیے گئے لوگ بھی خود کوریاست کی نظر میں اب تک مجرم جیسا محسوس کرتے ہیں۔
	
	
		 
	
	
	
	
کوردھا میں ایک عیسائی اسکول چلانے والے عیسائی خاندان کو 18 مئی کو چرچ سروس کے دوران ہندوتوا ہجوم کے پرتشدد حملے کے بعد روپوش ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔ متاثرین کا الزام ہے کہ یہ واقعہ برسوں کی ہراسانی اور جبراً وصولی کا نتیجہ ہے، جو پولیس کی بے عملی اور سیاسی مداخلت کے باعث اور بھی بڑھ گیا ہے۔
	
	
		 
	
	
	
	
گزشتہ دنوں ہریانہ کے پانی پت میں بہار کے کشن گنج سے تعلق رکھنے والے مزدورفردوس عالم کی مذہبی ٹوپی کو لے کر ہوئے تنازعہ کے دوران حملے کے بعد موت ہو گئی۔ اہل خانہ نے اس کی وجہ ان کی مذہبی پہچان  بتائی ہے، جبکہ پولیس نے کسی بھی فرقہ وارانہ زاویے سے انکار کیا ہے۔
	
	
		 
	
	
	
	
دہلی پولیس نے جمعہ کے روز دہلی کےلیفٹیننٹ گورنر وی کے سکسینہ کی جانب سے ان کے خلاف دائر  24  سال پرانے ہتک عزت کے معاملےمیں سماجی کارکن میدھا پاٹکر کوگرفتار کیا ہے۔ دہلی کی ایک عدالت نے  2000 میں دائر ایک کیس میں پاٹکر کے خلاف غیر ضمانتی وارنٹ جاری کیا تھا۔
	
	
		 
	
	
	
	
ہندوستان میں سینسر بورڈ نے عالمی شہرت یافتہ فلمساز سندھیا سوری کی فلم ‘سنتوش’ کی ریلیز کو روک دیا کیونکہ اسے لگا کہ یہ پولیس کی منفی امیج کی عکاسی کرتی ہے۔ فلم میں مرکزی کردار اداکارہ شہانا گوسوامی نے ادا کیا ہے، جن کے کام کو خوب پذیرائی ملی ہے۔ ان سے انکت راج کی بات چیت۔
	
	
		 
	
	
	
	
پچھلے دس سالوں سے ہندو تہوار مسلمانوں کی مخالفت کا وسیلہ بن چکے ہیں۔ ہندوؤں کے لیے تہوار منانے کا مطلب یہی رہ گیا ہے وہ جلوس نکالیں اور مسلمانوں کو گالی دیں۔ مسلمانوں کو گالی دیتے ہوئے گانے بجائیں اور ان کے خلاف تشدد کے لیے اشتعال پیدا کریں۔
	
	
		 
	
	
	
	
انج چودھری نے جمعہ کا ذکر کرتے ہوئے اشارہ کیا کہ مسلمانوں کو ہولی کے رنگ سے اعتراض ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ اعتراض دوسروں کو بھی ہو سکتا ہے- کچھ کو رنگ سے الرجی ہو سکتی ہے، کچھ کو رنگ پسند نہیں ہو سکتا۔ ضروری نہیں کہ یہ سب مسلمان ہوں۔ جو نہیں چاہتے انہیں رنگ لگانے کی ضد کیوں؟
	
	
		 
	
	
	
	
سنبھل کے کھگگو سرائے میں ‘دریافت کیے گئے’ مندر کے قریب رہنے والے مسلم خاندان کے مطابق، انتظامیہ ان کے گھر کو گرانا چاہتی ہے، کیونکہ یہ مندر کی پری کرما (طواف) میں رکاوٹ ہے۔ متاثرہ خاندان کے احتجاج کرنے پر پولیس نے گھر کے مالک محمد متین کو 16 جنوری کو گرفتار کر لیا تھا۔
	
	
		 
	
	
	
	
سنبھل پولیس نے بتایا کہ انتظامیہ نے مقامی لوگوں کے ذریعے کنویں کو غیر قانونی طور پرڈھکنے کی شکایت موصول ہونے کے بعد بدھ (22 جنوری) کو کنویں کی کھدائی شروع کی ہے۔ یہ کنواں متنازعہ شاہی جامع مسجد کے قریب ہے۔
	
	
		 
	
	
	
	
ہمیر پور ضلع کا ایک دلت خاندان 10 جنوری کی رات کو اپنے گھر میں ‘عرس’ کا پروگرام منعقد کر رہا تھا، جب بجرنگ دل کے ارکان نے اس میں رکاوٹ ڈالی اور پولیس کو اس کی  اطلاع دی۔ الزام لگایا گیا کہ مسلمان اس خاندان کو زبردستی اسلام قبول کروانے کی کوشش کر رہے تھے۔
	
	
		 
	
	
	
	
سنبھل کی شاہی جامع مسجدسے ملحقہ زمین خالی ہوا کرتی تھی۔ تشدد کے بعد انتظامیہ نے اسے اپنے  قبضے میں لے لیا اوریہاں ستیہ ورت پولیس چوکی کی تعمیر شروع کر دی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ نام سنبھل کی ‘مذہبی اور تاریخی اہمیت’ کو ظاہر کرتا ہے۔
	
	
		 
	
	
	
	
اگر آپ نئے ہندوستان میں مسلمان ہیں، تو آپ کو مسلسل یہ خطرہ در پیش ہے کہ آپ کے نماز پڑھنے کے عمل کو جرم سمجھ لیا جائے۔
	
	
		 
	
	
	
	
میڈیا ہاؤس ‘آج تک’ کے زیراہتمام منعقد ایک کانکلیو میں وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے سنبھل میں ہری ہر مندر کے مبینہ انہدام کے سلسلے میں مسلم کمیونٹی سے ‘اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے’ اور ‘سناتن دھرم کی علامتوں کی راہ میں غیر ضروری رکاوٹیں نہ ڈالنے’ کے لیے بھی کہا۔
	
	
		 
	
	
	
	
نومبر 2024 میں سپریم کورٹ نے مہاراج گنج کے صحافی منوج ٹبریوال کے دو منزلہ آبائی گھر اور دکان کو غیر قانونی طور پر گرانے کے لیے یوپی حکومت کو 25 لاکھ روپے  معاوضہ کے طور پر ادا کرنے کو کہا تھا۔ اب اس معاملے میں کئی افسران کے خلاف نامزدایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
	
	
		 
	
	
	
	
سنبھل کی شاہی جامع مسجد کے سروے کے دوران  24 نومبر کو ہوئے تشدد میں مسلم کمیونٹی کے پانچ لوگوں کی گولی لگنے سے موت ہوگئی تھی۔ اب پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ جس جگہ یہ تشدد ہوا تھا، وہاں سے اسے پاکستانی کارتوس ملا ہے۔
	
	
		 
	
	
	
	
موہن بھاگوت نے کہا ہے کہ ہر مسجد کے نیچے شیو مندر یا کوئی مورتی ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی جانی چاہیے۔ شاید ان کو معلوم ہے کہ اگر یہ سلسلہ شروع ہوا تو رکنے والا نہیں ہے اس کی زد میں ہندو مندر بھی آسکتے ہیں اور تاریخ کے وہ اوراق بھی کھل جائیں گے، جو ثابت کریں گے کہ کس طرح برہمنوں نے بدھ مت کو دبایا اور ان کی عبادت گاہوں کو نہ صرف مسمار کیا بلکہ بدھ بھکشووں اور بدھ مت کے ماننے والوں کو اذیت ناک موت دے کر اس مذہب کو ہی ملک سے بے دخل کر دیا۔
	
	
		 
	
	
	
	
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور سینئر وکیل دشینت دوے نے دی وائر کے لیے کرن تھاپر کو دیے ایک انٹرویو میں کہا کہ مسجدوں کے سروے کی اجازت دے کر سابق سی جے آئی جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے ‘آئین اور ملک کے ساتھ بڑی ناانصافی کی’ ہے۔
	
	
		 
	
	
	
	
سنبھل انتظامیہ نے اپوزیشن جماعتوں کے نمائندوں کو مسجد کے سروے کے دوران تشدد میں مارے گئے پانچ مسلمانوں کے اہل خانہ سے ملنے کے لیے ضلع کا دورہ کرنے کی اجازت نہیں دی۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کا کہنا ہے کہ یہ بی جے پی حکومت کی مبینہ پولیس زیادتیوں کے متاثرین تک رسائی کو روکنے کے منصوبے کا حصہ ہے۔
	
	
		 
	
	
	
	
درخواست 19 نومبر کو دائر کی گئی اور 19 تاریخ کو ہی عدالت نے سروے کی اجازت دے دی۔ اسی دن سروے ہو بھی گیا۔ جامع مسجد کا پہلا سروے رات کے اندھیرے میں ہوا، جبکہ دوسرا صبح سویرے۔ وہ سرکاری کارروائی جو دن کے اجالے میں پوری کی جا سکتی تھی، اس کو بے وقت انجام دیا گیا۔ ایسا کب ہوتا ہے کہ کسی تاریخی عمارت کا سروے پہلے اندھیرے میں ہو اور اس کے بعد صبح کے وقت جب لوگ عموماً اپنی دکانیں بھی نہیں کھول پاتے۔
	
	
		 
	
	
	
	
بی جے پی کے مطابق، سنبھل میں مسجد کے سروے کے دوران جو تشدد ہوا وہ شہر کی ترک اور پٹھان برادریوں سے تعلق رکھنے والے دو سیاسی خاندانوں کے درمیان بالادستی کی لڑائی کا نتیجہ تھا۔ تاہم، مقامی لوگوں اور اپوزیشن رہنماؤں نے اس کی تردید کرتے ہوئے اسے پولیس کو بچانے کی کوشش قرار دیا ہے۔
	
	
		 
	
	
	
	
سنبھل مسجد کی انتظامی کمیٹی کے چیئرمین سینئر وکیل ظفر علی نے سوال اٹھایا کہ مظاہرین ایک دوسرے کو کیوں ماریں گے؟ اگر انہیں گولی چلانی ہی تھی تو وہ عوام پر نہیں پولیس پر گولی چلاتے۔ علی نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے خود پولیس کو بھیڑ پر گولیاں چلاتے ہوئے دیکھا تھا۔
	
	
		 
	
	
	
	
سنبھل میں جامع مسجد کے سروے کے دوران ہوئے تشدد کے سلسلے میں پولیس نے دو خواتین سمیت 25 مسلمانوں کو گرفتار کیا ہے اور ایس پی ایم پی ضیاء الرحمان برق سمیت تقریباً 2500 لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس نے بھیڑ کے خلاف کوئی مہلک ہتھیار استعمال نہیں کیا۔
	
	
		 
	
	
	
	
سنبھل میں مغلیہ دور کی شاہی جامع مسجد کے سروے کے خلاف احتجاج کرنے والی بھیڑکی پولیس کے ساتھ 24 نومبر کو ہوئی جھڑپ میں تین مسلمانون کی موت ہوگئی۔ مقامی مسلمانوں کا الزام ہے کہ تینوں پولیس فائرنگ میں مارے گئے، جبکہ انتظامیہ نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ بھیڑ کے درمیان کراس فائرنگ کا شکار ہوئے۔
	
	
		 
	
	
	
	
ویڈیو: 22 ستمبر کو ملک کی تین ریاستوں میں مبینہ طور پر تین ملزموں کا انکاؤنٹر کیا گیا۔ شمال سے جنوب تک پولیس انکاؤنٹر کے تشویشناک مسئلے پر دی وائر کے پالیٹکل ایڈیٹر اجئے آشیرواد اور صحافی سورو داس کے ساتھ تبادلہ خیال کر رہی ہیں میناکشی تیواری۔
	
	
		 
	
	
	
	
اڑیسہ میں ایک فوجی افسر اور ان کی منگیتر کے ساتھ ہوئی بدسلوکی کے بعد سینٹرل انڈیا ریجن کے جنرل آفیسر کمانڈنگ ان چیف نے اڑیسہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو خط لکھ کر مداخلت کی درخواست کی اور کہا کہ قصوروار پولیس اہلکاروں کو ان کے عہدوں سے ہٹایا جائے اور مناسب سزا دی جائے۔
	
	
		 
	
	
	
	
گزشتہ 23 اگست کو ہریانہ کے فرید آباد میں 12ویں جماعت کے طالبعلم آرین کو مبینہ گئو رکشک گروپ نے پیچھا کرتے ہوئے گولی مار دی تھی۔ متاثرہ خاندان سے ملاقات کے بعد سی پی آئی (ایم) لیڈربرندا کرات کا کہنا ہے کہ پولیس نےمتاثرین کو بتایا کہ ملزم نے ‘غلطی سے’ ان کے بیٹے کو مار دیا۔
	
	
		 
	
	
	
	
تین سال قبل مئی 2021 میں چترکوٹ جیل میں گولہ باری کے ایک مبینہ واقعہ میں تین قیدی مارے گئے تھے، جن میں سے ایک کیرانہ میں ہندوؤں کے گھر چھوڑ کر جانے کے معاملے میں ملزم تھا اور دوسرا گینگسٹر مختار انصاری کا معاون تھا۔ ان دونوں کو جس تیسرے قیدی نے گولی ماری، اس کو پولیس نےانکاؤنٹر میں مارا گرانے کا دعویٰ کیا تھا۔ اہل خانہ  نے اس واقعہ کے پیچھے سازش کا اندیشہ ظاہر کیا تھا۔
	
	
		 
	
	
	
	
نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پچھلے پانچ سالوں میں پولیس حراست میں سب سے زیادہ اموات کے معاملے میں مدھیہ پردیش تیسرے نمبر پر ہے۔ اگست 2023 میں حکومت نے بتایا تھا کہ 1 اپریل 2018 سے 31 مارچ 2023 تک اس طرح کی اموات کے معاملے میں گجرات پہلے اور مہاراشٹر دوسرے نمبر پر تھا۔
	
	
		 
	
	
	
	
فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ہو رہے ایک خاموش مظاہرے کے دوران کئی افراد کو حراست میں لیا گیا۔ اس مظاہرے میں شامل ماہر اقتصادیات جیاں دریج نے دی وائر کو بتایا کہ انہوں نے نعرے بازی نہیں کی، وہ خاموشی سے بینراٹھائے کھڑے تھے، پھر بھی پولیس نے انہیں حراست میں لے لیا۔
	
	
		 
	
	
	
	
بتایا جا رہا ہے کہ 27 جون کو دہلی کے نریلا میں ایک 9 سالہ بچی کے ساتھ گینگ ریپ کرنے کے بعد بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ اہل خانہ کے مطابق، جس جگہ سے بچی کی لاش ملی اس کے بالکل سامنے پولیس چوکی ہے۔
	
	
		 
	
	
	
	
یہ خیال کرنا غلط ہوگا کہ انتخابی مہم کے دوران تشدد کے واقعات کم ہوگئے تھے۔ دراصل زبانی طور پر اور اشتعال انگیز تقریروں کے ذریعے تشدد کے واقعات رونما ہوئے، جنہیں وزیر اعظم اور بی جے پی کے دوسرے بڑے لیڈران انجام دے رہے تھے۔
	
	
		 
	
	
	
	
یہ واقعہ گجرات کے بناس کانٹھا ضلع میں پیش آیا۔ پولیس کے مطابق، جمعرات کو پانچ افراد کے ایک گروپ نے مبینہ طور پر 40 سالہ مشری خان بلوچ کو اس وقت پیٹ-پیٹ کر ہلاک کر دیا، جب وہ دو بھینسوں کو پک اپ وین میں مویشی بازار لے جا رہے تھے۔
	
	
		 
	
	
	
	
وارانسی میں کاشی وشوناتھ مندر میں تعینات پولیس اہلکاروں کو گیروا دھوتی-کرتا اور خواتین اہلکاروں کو بھگوا  شلوار کرتا پہننے کو کہا گیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ پجاریوں کی طرح کپڑے پہننے والے پولیس اہلکار بھیڑ کو بہتر طریقے سے سنبھال سکیں گے۔ تاہم، پولیس کی وردی کے وقار کا حوالہ دیتے ہوئے اس قدم کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
	
	
		 
	
	
	
	
ویڈیو: ایودھیا میں رام مندر پران — پرتشٹھا کے موقع پر تقریباً 300 نوجوانوں کے ایک گروپ نے ممبئی کے قریبی علاقوں میں ان دکانوں پر حملہ کیا، جن کے نام مسلمانوں کی طرح لگ رہے تھے۔ ان دکانوں پر بھی حملہ کیا گیا،جنہوں نے بھگوا جھنڈے نہیں لگارکھے تھے۔ اس سلسلے میں بی جے پی کے مقامی لیڈر پر اکسانے کا الزام لگے ہیں۔