اس نئے ہندو حق اور اختیارات کی بدولت کوئی بھی ہندو کسی بھی مسلمان سے کسی بھی موضوع پر پوچھ گچھ کرسکتا ہے۔ اسے ‘جئے شری رام’ کا نعرہ لگانے پر مجبور کر سکتا ہے ، کسی مسلمان کا ٹفن کھول کر دیکھ سکتا ہے، اس کا فریج چیک کر سکتا ہے، اس کی نماز میں خلل ڈال سکتا ہے۔
کیا واقعی سڑکوں پر ہر طرح کی مذہبی تقریبات پر پابندی لگا سکتے ہیں؟ پھر تو بیس منٹ کی نماز سے زیادہ ہندوؤں کی سینکڑوں مذہبی تقریبات متاثر ہونے لگ جائیں گی، جو کئی دنوں تک جاری رہتی ہیں۔ پابندی لگانے کی بے چینی سڑکوں کے انتظام کو بہتر بنانے کی خواہش بالکل نہیں ہے، بلکہ ایک کمیونٹی کے تئیں تعصب اور زہر اگلنے کی ضد ہے۔
کیا ہمارے بچے ایسے ہندوستان میں بڑے ہوں گے جہاں مذہب ہماری ہر پہچان، بات چیت اور زندگی کے اصولوں پر محیط ہے – اور یہ دوسروں کو کمتر یا دوسرے درجے کا بنا دیتا ہے؟
یہ المیہ ہی ہے کہ مریادا پرشوتم کہے جانے والے رام کے نام پرآئین کے تقدس کو پامال کیا جا رہا ہے اور ہندو اس میں جوش و خروش کے ساتھ حصہ لے رہے ہیں اور فخر بھی محسوس کر رہے ہیں۔
دیانند سرسوتی کہتے تھے کہ اول تو مورتی پوجا ناجائز ہے اور دوسرا یہ ملک کی ایکتا کے لیے خطرناک ہے۔
ہندو معاشرہ یا یوں کہیں کہ پورا ہندوستان ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں سب کو اپنا جائزہ لینے اور اپنے بارے میں غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ خواہ اقتدارمیں بیٹھے لوگ اسے امرت کال کہیں، لیکن یہ سنکرمن کال یعنی متعدی مرض کا زمانہ ہے۔ حماقت اور نفرت کا متعدی مرض، جہاں قدرومنزلت اور وقار کے ہر پیمانے کو مجروح / پامال کیا جا رہا ہے۔
ایودھیا کو ہندوستان کی ، یا کہیں کہ ہندوؤں کی مذہبی راجدھانی کے طور پر قائم کرنے کے لیے سرکار کی سرپرستی میں مہم چل رہی ہے۔ 22 جنوری 2024 کو لوگوں کے ذہنوں میں 26 جنوری یا 15 اگست سے بھی بڑا اور اہم دن بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔
ویڈیو: ایودھیا میں زیر تعمیر رام مندر کی ‘پران-پرتشٹھا’ تقریب کے حوالے سے ہو رہی سیاست اور اس مندر کے پس منظر پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن اور دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند ۔
ویڈیو: کسان رہنما راکیش ٹکیت نے دی وائر کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران گزشتہ 10 سالوں کی زرعی پالیسیوں اور ہندوستانی کسانوں کی موجودہ صورتحال، چینی کی برآمدات پر پابندی اور کارپوریٹ کے نئے خطرات کے بارے میں بات چیت کی۔
یہ لیڈر جلسوں میں سرمائے اور سرمایہ داروں کے خلاف زہر اگلتے ہیں صرف ا س لئے کہ وہ خود سرمایہ اکٹھا کر سکیں۔ کیا یہ سرمایہ داروں سے بدترین نہیں؟ یہ چوروں کے چور ہیں، رہزنوں کے رہزن۔ اب وقت آ گیا ہے کہ عوام ان پر اپنی بے اعتمادی ظاہر کر دیں۔
سپریم کورٹ ایک مسلمان شخص کی درخواست پر سماعت کر رہی تھی، جنہوں نے الزام لگایا ہے کہ جولائی 2021 میں مذہب کے نام پر ان پر حملہ کیا گیا، ان کے ساتھ بدسلوکی کی گئی اور یوپی پولیس نے ہیٹ کرائم کی شکایت تک درج نہیں کی۔ عدالت نے کہا کہ جب نفرت کے جذبے سے کیے جانے والے جرائم کے خلاف کارروائی نہیں کی جائے گی تب ایسا ماحول بنے گا، جو خطرناک ہوگا۔
دھوکہ دہی سےہونے والے تبدیلی مذہب کو روکنے کے لیےمرکز اور ریاستوں کو کڑی کارروائی کرنے کی ہدایت دینے کی گزارش کرنے والی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ ہم پورے ملک کے لیے فکر مند ہیں۔ اگر یہ آپ کی ریاست میں ہو رہا ہے تو یہ برا ہے۔ اگر نہیں ہو رہا ہے تو اچھی بات ہے۔ اسے سیاسی ایشو نہ بنائیں۔
ڈی ڈبلیو کے لیے تنیکا گوڈبولے کی رپورٹ: بھارتی دارالحکومت دہلی میں دس سے بھی کم خاندانوں پر مشتمل ایک چھوٹی سی یہودی برادری اور ان کی ایک عبادت گاہ بھی ہے۔ ربی ایزاکیل آئزک اس برادری کو ایک ساتھ جمع کرنے اور یہودی روایات کو زندہ رکھنے کا کام کرتے ہیں۔
گزشتہ دنوں نریندر مودی حکومت نے سپریم کورٹ میں پیش کیے گئے ایک حلف نامے میں کہا ہے کہ ‘مذہب کی آزادی کے حق میں دوسرے لوگوں کو کسی خاص مذہب کے اختیار کرنے کا بنیادی حق شامل نہیں ہے’۔
سپریم کورٹ میں ایک عرضی کی سماعت کے دوران مرکزی حکومت نے اپنے حلف نامے میں کہا ہے کہ مذہب کی آزادی کا حق یقینی طور پر کسی شخص کو دھوکہ دہی، زبردستی یا لالچ کے ذریعے مذہب تبدیل کرانے کا حق نہیں دیتا۔ اس طرح کی روایات پر قابو پانے والے قوانین سماج کے کمزور طبقوں کے حقوق کے تحفظ کے لیےضروری ہیں۔
مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ دہشت گردی کی مالی اعانت دہشت گردی سے زیادہ خطرناک ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردی کے خطرے کو کسی مذہب، قومیت یا کسی گروہ سے منسلک نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی منسلک کیا جانا چاہیے۔
عید مبارک کے جواب میں اکشے ترتیہ یا پرشورام جینتی کی مبارکباد دینا کلینڈر پرست مذہبیت کی علامت ہے۔ ہم ہر جگہ اپنا تسلط چاہتے ہیں۔ آواز کی سرزمین پر، آواز کی لہروں پر بھی، دوسروں کی عبادت گاہوں پر اور سماج کے نفسی وجودپر بھی۔
بی جے پی کے رکن پارلیامنٹ ساکشی مہاراج نے فیس بک پر ایک پوسٹ میں ٹوپی لگائے ایک مخصوص مذہب کے نوجوانوں کے ہجوم کی تصویر لگاتے ہوئے لکھا ہے کہ، ایک دن یہ بھیڑ آپ کے گھر میں داخل ہوجائے گی، تب پولیس بچانے نہیں آئے گی۔ اس لیے خو دانتظام کر لیجیے۔
بھرت ناٹیم رقاصہ مانسیہ وی پی کو 21 اپریل کو ترشور کے کدلمانکیم مندر میں ایک تقریب میں پرفارم کرنا تھا، لیکن انہیں منظوری نہیں ملی، کیونکہ مندر کی روایت کے مطابق غیر ہندو احاطے میں داخل نہیں ہو سکتے۔ ایک مسلم گھرانے میں پیدا ہوئی مانسیہ کا کہنا ہے کہ وہ کسی مذہب کو نہیں مانتی۔
یوم پیدائش پر خاص:استاد بسم اللہ خاں ایسے بنارسی تھے جو گنگا میں وضو کر کے نماز پڑھتے تھے اور سرسوتی کو یاد کر کے شہنائی کی تان چھیڑتے تھے ۔اسلام کے ایسے پیروکار تھے جو اپنے مذہب میں موسیقی کے حرام ہونے کے سوال پر ہنس کر کہتے تھے ،کیا ہو اسلا م میں موسیقی کی ممانعت ہے ،قرآن کی شروعات تو’ بسم اللہ‘ سے ہی ہوتی ہے۔
پولیس نے بتایا کہ گڑگاؤں کے سیکٹر-45 میں رماڈا ہوٹل کےقریب بہار کے رہنے والے عبدالرحمٰن اور ان کے دوست محمد اعظم سے دو افراد نے مبینہ طور پر موبائل فون چھیننے کے بعد مار پیٹ کی اور ان کے مذہب کی توہین کی ۔ حملہ آوروں نے انہیں خنزیر کا گوشت کھلانے کی بات بھی کہی اور کوئی سفید پاؤڈر کھانے کو مجبور کیا۔
بی جے پی رکن پارلیامنٹ تیجسوی سوریہ نے اُڈپی میں ایک پروگرام کے دوران کہا کہ ہندو مذہب چھوڑ کر گئے لوگوں کی واپس اسی مذہب میں’ٹیپو جینتی’پر ہونی چاہیے اور یہ’گھر واپسی’ہندوؤں کی ذمہ داری ہے۔سوریہ نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کے مسلمانوں کو ہندو مذہب اختیار کرنا چاہیے۔ پاکستان متحدہ ہندوستان کےنظریےمیں شامل ہے۔
اتر پردیش کےعلی گڑھ ضلع کا معاملہ۔اہل خانہ نے ایف آئی آر پر حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے لڑکے12ویں میں پڑھتے ہیں اور وہ اپنے دوستوں کے بیچ محض ‘بات چیت’ کر رہے تھے۔ اس کو لےکر بےوجہ کسی نے شکایت درج کرائی ہے۔شکایت درج کرانے والے بی جے پی رہنما نے کہا کہ ویڈیوکی وجہ سے لوگوں میں غصہ ہے اور اس کی وجہ سےمذہبی منافرت پھیل سکتی ہے۔
مبینہ طور پر‘تبدیلی مذہب کا سب سے بڑاریکٹ’چلانے کےالزام میں یوپی اے ٹی ایس نے اسلامی اسکالر مولانا کلیم صدیقی کو گزشتہ 21ستمبر کو میرٹھ سے گرفتار کیا تھا۔ صدیقی کے وکیل نے کہا ہے کہ پولیس ثبوت کے طور پر ان کے یوٹیوب چینل کو پیش کر رہی ہے جو پہلے سے ہی عوامی ہے اور اس میں کچھ بھی مجرمانہ یاملک کے خلاف نہیں ہے۔
ایودھیا میں صدر رام ناتھ کووند کو اپنے خطاب میں نہ اودھ کی‘جو رب ہے وہی رام ہے’ کی گنگا جمنی تہذیب کی یاد آئی، نہ ہی اپنے آبائی شہر کانپور کےاس رکشےوالے کی، جسے گزشتہ دنوں بجرنگ دل کے کارکنوں نے مسلمان ہونے کی وجہ سے پیٹا اور جبراً ‘جئے شری رام’ بلوا کر اپنی ‘انا’ کی تسکین کا سامان کیا تھا۔
اکالی دل پچھلی کئی دہائیوں سے بی جےپی کا ایک دم چھلہ بن گئی تھی۔ جب اس کے گڑھ پنجاب میں مرکزی حکومت کےکسانوں کے تئیں رویہ کی وجہ سے اس کی سبکی ہو رہی تھی تو وہ اپنی ساکھ بچانے کے لیے بی جے پی اور حکومت سے الگ تو ہوگئی مگر سکھوں کی اکثریت کی حمایت سے ابھی بھی وہ محروم ہے۔ اس لیے کشمیر میں سکھ خطرے میں ہے کاالارام بجا کر وہ اپنا سیاسی الو سیدھا کرنا چاہتی تھی، جس کو مقامی آبادی نے ناکام بنادیا۔
معاملہ ناسک کا ہے، جہاں ایک ہندو خاتون کی مسلمان مرد سے شادی کا کارڈ وہاٹس ایپ پر لیک ہونے کے بعد کچھ لوگوں نے اسے ‘لو جہاد’ بتاتے ہوئے اس کی مخالفت کی۔ گھر والوں کی رضامندی سے شادی کی تقریب 18 جولائی کو ہونی تھی، لیکن اب اسے رد کر دیا گیا ہے۔
ویڈیو: حال ہی میں پیو ریسرچ سینٹر نے 2019 کے اواخر اور 2020 کی شروعات کے بیچ17زبانوں میں لگ بھگ 30000بالغان کےانٹرویوز پر مبنی ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ ‘ہندوستان میں مذہبی رواداری اور علیحدگی’کے عنوان سےاس مطالعے نےہندوستانی سماج میں مذہب کی حرکیات میں جامع بصیرت فراہم کی ہے۔ اس موضوع پر پروفیسر اپوروانند نے ماہر تعلیم پرتاپ بھانو مہتہ کے ساتھ بات چیت کی۔
ویڈیو:ایک طرف آر ایس ایس کے چیف موہن بھاگوت کا ملک کی یکجہتی کو لےکر بیان آتا ہے اور دوسری طرف اقلیتی طبقے کے خلاف کچھ بی جے پی رہنما نفرت کی آگ پھیلا رہے ہیں۔ اس موضوع پر دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی کا نظریہ
آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے آر ایس ایس کی اقلیتی اکائی مسلم راشٹریہ منچ کے ایک پروگرام میں کہا کہ تمام ہندوستانیوں کا ڈی این اے ایک ہے۔ جو لوگ لنچنگ میں شامل ہیں، وہ ہندوتوا کے خلاف ہیں۔ کئی اپوزیشن رہنماؤں نے ان کے بیان کو‘قول وفعل میں تضاد’قرار دیتے ہوئے ان کو نشانہ بنایا ہے۔
امریکہ کے پیو ریسرچ سینٹرنے ہندوستان میں مذہبی ہونے کو لےکرسروے رپورٹ شائع کی ہے۔ رپورٹ دکھاتی ہے کہ ہم ہندوستانی دور سے سلام کےاصول پر عمل پیرا ہیں۔ آپ ہم سے زیادہ دوستی کی امید نہ کریں، ہم آپ کو تنگ نہیں کریں گے جب تک آپ اپنے دائرے میں بنے رہیں۔
ویڈیو: کشمیر میں دو سکھ لڑکیوں کے مذہب تبدیل کرنےاور نکاح کا معاملہ طول پکڑ چکا ہے۔ سکھ کمیونٹی کے لوگ کشمیر سے لےکر نئی دہلی تک مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ کشمیر میں آئے دن اغوا، دباؤ بناکر تو کبھی بہلا پھسلاکر لڑکیوں کا مذہب تبدیل کروایا جا رہا ہے۔ اس موضوع پر عارفہ خانم شیروانی نے جموں وکشمیر کے صحافیوں گوہر گیلانی، شاکر میر اور سماجی کارکن کنول جیت کور سے چرچہ کی۔
یوگی حکومت کی ایک اہم نشانی یہ ہے کہ اس نے میڈیا کو چپ کرانے کے لیے ایف آئی آر اور دھمکیوں کا سہارا لیا ہے۔ ان کے غیر مہذب تبصرے کا ویڈیو شیئر کرنے کے بعد دی گئی ایف آئی آر کی دھمکیاں اسی بات کی تصدیق […]
لڑکی کی شکایت کی بنیاد پر قتل کی کوشش کا معاملہ درج کیا گیا ہے۔ مختلف کمیونٹی کے بیچ دشمنی کو بڑھاوا دینا سےمتعلق دفعہ بھی لگائی گئی ہے۔ بجرنگ دل کے گرفتار چار میں سے دو کارکنوں کی اسی طرح کے معاملوں میں مجرمانہ تاریخ رہی ہے۔
بورڈ آف سکینڈری ایجوکیشن راجستھان کے لیےچھپی12ویں جماعت کی سیاسیات کی کتاب کو لےکرتنازعہ ۔ جئے پور میں کتاب سے متعلق ایک جوابی کتاب شائع کرنے والےاشاعتی ادارے کے دفتر میں توڑ پھوڑ کرنے کے سلسلے میں تین افراد گرفتار۔
گجرات کے وزیر اعلیٰ وجئے روپانی نے گودھرا میں ایک انتخابی ریلی کے دوران کہا کہ ان کی سرکار ایک مارچ سے شروع ہو رہے ودھان سبھاسیشن میں لو جہاد کے خلاف قانون لانا چاہتی ہے تاکہ ہندو لڑکیوں کے اغوا اور تبدیلی مذہب کو روکا جا سکے۔
سخن ہائے گفتنی: محبت کی خاطر کی جا رہی اس جنگ میں یہ ضروری ہے کہ اس کو فوجی کی طرح لڑا جائے اور خوبصورت طریقے سے جیتا جائے۔
دہلی کے ایک وکیل نے بتایا کہ اتر پردیش کے ایٹہ ضلع واقع جلیسر کی خاتون کو ان کی مرضی سے مذہب تبدیل کرواکر شادی کروانے میں مدد کی تھی۔ ڈر کی وجہ سےجوڑا لاپتہ ہو گیاہے۔الزام ہے کہ ان کی تلاش میں اتر پردیش پولیس نے وکیل کی فیملی کے لگ بھگ دس لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔
یوگی آدتیہ ناتھ کا کہنا تھا کہ مسلم لڑکیاں خود ہی ہندو لڑکوں سے شادیاں کرکے بہ رضاو رغبت مذہب تبدیل کرتی ہیں۔
مدھیہ پردیش اور اڑیسہ کےتبدیلی مذہب کے انسداد سے متعلق قوانین میں کہیں بھی بین مذہبی شادی کا ذکر نہیں تھا اور نہ ہی سپریم کورٹ نے اس پر کوئی تبصرہ کیا تھا۔ ایسے میں اتر پردیش سرکار کا ایسا کوئی اختیار نہیں بنتا کہ وہ بنا کسی ثبوت یادلیل کے بین مذہبی شادیوں کو نظم و نسق کے سوال سے جوڑ دے۔