آر ایس ایس اگنی پتھ اسکیم کی طرفدار کیوں ہے؟
آر ایس ایس سے منسلک رسالے’آرگنائزر‘ کے مدیر پرفل کیتکر نے حال ہی میں کہا کہ اگنی پتھ اسکیم کو اس مقصد سے شروع کیا گیا ہے کہ شہریوں کو فوج کے لیے تیار کیا جا سکے۔
آر ایس ایس سے منسلک رسالے’آرگنائزر‘ کے مدیر پرفل کیتکر نے حال ہی میں کہا کہ اگنی پتھ اسکیم کو اس مقصد سے شروع کیا گیا ہے کہ شہریوں کو فوج کے لیے تیار کیا جا سکے۔
کانگریس اگر ہندو بیلٹ میں بی جے پی کے رتھ کو روکنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، تو وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنا ٹرم مکمل کرنے میں دشواری پیش آ سکتی ہے۔
مضامین اور کتابوں میں نورانی حوالہ جات سے اپنے دلائل کی عمارت اتنی مضبوط کھڑی کر دیتے تھے کہ اس کو ہلانا یا اس میں سیندھ لگانا نہایت ہی مشکل تھا۔ وہ اپنے پیچھے ایک عظیم ورثہ چھوڑ کر گئے ہیں، جس کے لیے صدیوں تک ان کا شکریہ ادا کیا جائے گا۔
معروف قلمکار اور قانون داں اے جی نورانی نے اپنی کتاب The RSS: A Menace to India میں آر ایس ایس کے حوالے سے کئی اہم انکشافات کیے ہیں ۔انہوں نےیہ بتانے کی سعی کی ہے کہ اس تنظیم کی بنیادی فلاسفی کیا ہے ،دنیا بھر میں اس کی کتنی شاکھائیں ہیں ، مسلم ممالک میں یہ شاکھائیں کیسے کام کرتی ہیں اور بی جے پی کے اہم فیصلوں میں اس کا کیا رول ہوتا ہے۔
بی جے پی نے آئندہ اسمبلی انتخابات کے لیے اپنے امیدواروں کی فہرست جاری کی اور بعد میں اس کو واپس لے لیا، کیوں کہ نئے امیدواروں اور حال ہی میں بی جے پی میں شامل ہونے والے لوگوں کے انتخاب پر پرانے قائدین میں عدم اطمینان کی بات کہی جا رہی ہے۔
ایک اہم سوال یہ ہوگا کہ کیا ان انتخابات کے نتیجے میں خطے میں حقیقی امن قائم ہو سکے گا؟ ویسے تو مودی حکومت بغلیں بجا رہی ہے کہ اس نے کشمیر میں پچھلے پانچ سالوں میں امن قائم کیا ہوا ہے۔ مگر یہ قبرستان کی خاموشی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا منتخب انتظامیہ لوگوں کے حقوق، فلاح و بہبود اور عوامی شراکت پر پالیسی کو دوبارہ مرکوز کرکے سابق ریاست کے لوگوں کی بیگانگی کو کم کرنے میں کردار ادا کرے گی؟
کہا جا رہا تھا کہ سلمان خورشید کو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی ذیلی تنظیم مسلم راشٹریہ منچ (ایم آر ایم) کے قومی کنوینر ڈاکٹر ماجد احمد تالیکوٹی سے کڑی ٹکر ملے گی۔ لیکن مقابلہ یکطرفہ رہا۔
مدھیہ پردیش کے ہائر ایجوکیشن ڈیارٹمنٹ نے تمام سرکاری اور نجی کالج کے پرنسپل کو لکھے ایک خط میں اداروں کو 88 کتابوں کا سیٹ خریدنے کی ہدایت دی ہے۔ اس فہرست میں سریش سونی، دیناناتھ بترا، اتل کوٹھاری، دیویندر راؤ دیشمکھ اور سندیپ واسلیکر جیسے آر ایس ایس کے بڑے لیڈروں کی لکھی ہوئی کتابیں شامل ہیں۔
آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم مسلم راشٹریہ منچ کے قومی کنوینر ڈاکٹر ماجد احمد تالیکوٹی آئی آئی سی سی کی گورننگ باڈی کے انتخاب میں صدارتی عہدے کے امیدوار ہیں۔ سراج الدین قریشی، جو گزشتہ چار انتخابات سے اس عہدے پر ہیں، ڈاکٹر ماجد کی حمایت کررہے ہیں۔
گزشتہ 31 جولائی کو ایس پی ایم پی رام جی لال سمن نے راجیہ سبھا میں کہا تھا کہ نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی میں تقرری کا معیار یہ ہے کہ فرد آر ایس ایس سے وابستہ ہو۔ اسے ریکارڈ سے ہٹانے کی بات کہتے ہوئے جگدیپ دھن کھڑ نے کہا کہ آر ایس ایس ‘بے داغ ساکھ’ والی تنظیم ہے۔
سرکاری ملازمین کے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ میں شامل ہونے پر عائد پابندی کو مرکزی حکومت نے 9 جولائی کو منسوخ کر دیا تھا۔ اس کی منسوخی سے متعلق فیصلہ سرکاری ویب سائٹس پر اپلوڈ کر دیا گیا ہے، لیکن اس فیصلے کو پاس کرنے والی فائل کو ‘خفیہ’ فہرست میں ڈال دیا گیا ہے۔
مدھیہ پردیش ہائی کورٹ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی سرگرمیوں میں سرکاری ملازمین کی شرکت سے متعلق ایک عرضی کی سماعت کر رہی تھی۔ اس دوران اس نے کہا کہ آر ایس ایس جیسی بین الاقوامی شہرت یافتہ تنظیم کو غلط طریقے سے ملک کی کالعدم تنظیموں میں رکھا گیا تھا، جس کی وجہ سے پانچ دہائیوں تک مرکزی حکومت کے ملازمین ملک کی خدمت نہیں کر سکے۔
راہل گاندھی کا یہ کہنا کہ ‘ہم نے رام مندر تحریک کو ہرا دیا ہے، وہی لال کرشن اڈوانی نے جس کی قیادت کی تھی’، آئیڈیالوجیکل وارننگ ہے۔ اصل لڑائی اس نظریے سے ہے جس نے رام جنم بھومی تحریک کو جنم دیا۔ یعنی لڑائی آر ایس ایس کے ہندو راشٹر کے تصور سے ہے۔
ویڈیو: سنگھ پریوار میں موہن بھاگوت کی موجودہ حیثیت کیا ہے؟ کیا سنگھ بی جے پی پر اخلاقی طور پر لگام لگاتا ہے یا اقتدار کے لالچ میں خاموشی سے مودی-شاہ کے پیچھے چلتا ہے؟ سینئر صحافی راہل دیو اور دھیریندر جھا کے ساتھ آشوتوش بھاردواج کی بات چیت۔
اٹل بہاری واجپائی کی وزارت عظمیٰ میں طاقتور اپوزیشن کی جانب سے ان پر اور ان کی حکومت کے خلاف کیےجانے والے سفاک حملوں کی دھارکند کرنے کے لیے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے واجپائی پر اپنی طرف سے منصوبہ بند اور اسپانسر حملے کیے تھے۔ آج نریندر مودی کے سامنے بھی مضبوط اپوزیشن ہے، اور سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت اسی تجربے کا اعادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بھاگوت نے اپنے حالیہ ‘پروچن’ میں کہا کہ الیکشن میں کیا ہوتا ہے اس میں آر ایس ایس کے لوگ نہیں پڑتے، لیکن مہم کے دوران وہ لوگوں کے خیال اور نظریے کی تطہیر کرتے ہیں۔ تو اس بار جب ان کے سابق پرچارک نریندر مودی اور بی جے پی نفرت کا پرنالا بہا رہے تھے تو سنگھ کس طرح کی تطہیرکر رہا تھا؟
لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے بعد اپنی پہلی تقریر میں آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے کہا کہ انتخابی مقابلہ جھوٹ پر مبنی نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے ایک سال سے تشدد سے دوچار منی پور کی صورتحال کے بارے میں سوال کیا کہ اس بات پر کون دھیان دے گا کہ صوبہ آج بھی جل رہا ہے۔
کیا سویم سیوک سماج میں اس شرف قبولیت کو نظر انداز کر پائیں گے جو انہیں مودی حکومت کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے؟ کیا ناراض سویم سیوک اپنے پرچارک وزیر اعظم سے دوری بنا پائیں گے؟ یا آخرکار وہ صلح کر لیں گے، یہ سوچتے ہوئے کہ 2025 کے اپنے صد سالہ سال میں اقتدار سے باہر رہنے کا خطرہ مول لینا دانشمندی کی بات نہیں ہوگی۔
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس نے ہمیشہ ریزرویشن کی حمایت کی ہے۔ لیکن بھاگوت سمیت سنگھ کے کئی عہدیدار ریزرویشن سسٹم کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔
ایک پروگرام کے دوران آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے کہا کہ جب 1925 میں آر ایس ایس کا قیام عمل میں آیا تھا، تب کوئی نہیں جانتا تھا کہ اصل ایجنڈہ کیا ہے۔ سب کو بتایا گیا کہ یہ ہندوؤں کو ایک چھت کے نیچے متحد کرنے کے ارادے سے تشکیل دیا گیا ہے۔ رام جنم بھومی جیسے معاملے تب ہی سامنے آئے جب ہم نے خاطرخواہ طاقت حاصل کر لی۔
پران -پرتشٹھا کی تقریب میں وزیر اعظم نریندر مودی کی آمد کی تیاریاں رام للا کے استقبال کی تیاریوں سے کسی لحاظ سے کمتر نہیں ہے۔ اسٹریٹ لائٹس پر مودی کے ساتھ بھگوان رام کے کٹ آؤٹ لگے ہوئے ہیں، جن کی اونچائی پی ایم کے کٹ آؤٹ سے بھی کم ہے۔ ایسے میں یہ گمان ہونا فطری ہے کہ 22 جنوری کو ایودھیا میں بھگوان رام آئیں گے یا وزیر اعظم مودی کو آنا ہے؟
ہندو معاشرہ یا یوں کہیں کہ پورا ہندوستان ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں سب کو اپنا جائزہ لینے اور اپنے بارے میں غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ خواہ اقتدارمیں بیٹھے لوگ اسے امرت کال کہیں، لیکن یہ سنکرمن کال یعنی متعدی مرض کا زمانہ ہے۔ حماقت اور نفرت کا متعدی مرض، جہاں قدرومنزلت اور وقار کے ہر پیمانے کو مجروح / پامال کیا جا رہا ہے۔
ایودھیا کو ہندوستان کی ، یا کہیں کہ ہندوؤں کی مذہبی راجدھانی کے طور پر قائم کرنے کے لیے سرکار کی سرپرستی میں مہم چل رہی ہے۔ 22 جنوری 2024 کو لوگوں کے ذہنوں میں 26 جنوری یا 15 اگست سے بھی بڑا اور اہم دن بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ رام مندر کے حوالے سے 2019 میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد مودی حکومت پورے چار سال تک ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر کیوں بیٹھی رہی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ 2024 کے عام انتخابات سے صرف چند دن پہلے ہی رام للا کی پران-پرتشٹھا کے بہانے ہندوتوا کا ڈنکا بجا کر ووٹوں کی لہلہاتی فصل کاٹنا آسان ہو جائے اس لیے۔
کانگریس والے ٹھیک کہتے ہیں کہ ان کے بغیر رام مندر نہیں بن سکتا تھا۔ لیکن یہ فخر کی نہیں بلکہ شرم کی بات ہونی چاہیے۔ کانگریس کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ 1949 میں بابری مسجد میں سیندھ ماری یا کوئی نقب زنی نہیں ہوئی تھی، سیندھ ماری سیکولر ہندوستانی جمہوریہ میں ہوئی تھی۔
حال ہی میں ودربھ کے سنگھ چالک شری دھر گھاڈگے نے ذات پر مبنی مردم شماری پر سوال اٹھاتے ہوئے کہاتھا کہ کچھ لوگوں کو اس سے سیاسی طور پر فائدہ ہو سکتا ہے، لیکن یہ قومی اتحاد کے لیے اچھا نہیں ہے۔ اب آر ایس ایس نے زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ تنظیم کی رائے تھی کہ اسے سماج کی ترقی کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے کہا کہ ملک میں ذات پات کے نام پر پھوٹ اور دراڑ پڑتی ہے۔ اگر ذات پات سماج میں عدم مساوات کی جڑ ہے تو آر ایس ایس کا ماننا ہے کہ ذات پر مبنی مردم شماری جیسے اقدامات سے اس میں مزید اضافہ نہیں کرنا چاہیے۔
ویڈیو: کچھ دن پہلے آر ایس ایس نے دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) میں پتھ سنچالن کا ایک پروگرام منعقد کیا تھا۔ اس پر کئی طلبہ تنظیموں نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے یونیورسٹی انتظامیہ سے کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ جے این یو کے بعد اب آر ایس ایس نے دہلی یونیورسٹی کے نارتھ کیمپس میں بھی مارچ نکالا ہے۔
ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے 20 اکتوبر کو دہلی یونیورسٹی سے منسلک سوامی شردھانند کالج میں طالبعلموں کے درمیان نظریات کی تشہیر کے لیے ایک شاکھا کا اہتمام کیا تھا۔ لکشمی بائی کالج کے ایک فیکلٹی ممبر نے بتایا ہے کہ ستمبر سے ان کے کیمپس میں آر ایس ایس نے کئی شاکھائیں کی ہیں۔
کیرالہ کے تراونکور دیواسووم بورڈ نے ایک سرکلر جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ مندروں کے تہواروں اور رسومات کے علاوہ اس کے احاطے کو کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے اور جو اہلکار اس حکم کی تعمیل کرنے میں ناکام رہیں گے، انہیں سخت کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ڈیموکریٹک آزاد پارٹی کے صدر اور کانگریس کے سابق رہنما غلام نبی آزاد نے کہا تھا کہ ہندوستان میں تمام مسلمان اصل میں ہندو تھے، جنہوں نے کچھ عرصہ قبل اسلام قبول کیا۔ پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی نے کہا کہ آزاد کے تبصرے خطرناک اور تفرقہ انگیز ہیں۔
راہل گاندھی نے کہا کہ جب ملک کو تکلیف ہوتی ہے،کسی شہری کو تکلیف ہوتی ہےتوآپ کا دل بھی دکھتا ہے، لیکن بی جے پی-آر ایس ایس کے لوگوں کوکوئی دکھ نہیں، کیونکہ وہ ہندوستان کو تقسیم کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کا منی پور سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کے نظریے نے منی پور کو جلایا ہے۔
گزشتہ جون میں جلگاؤں ضلع کلکٹر کی جانب سے من مانے ڈھنگ سے ایک حکم نامہ جاری کرنے کے کچھ دنوں بعدمسلم کمیونٹی کو 800 سال پرانی جمعہ مسجد میں نماز ادا کرنے سے روک دیا گیا تھا۔
الزام ہے کہ 10 جولائی کو ہری دوار میں کانوڑیوں کے ایک گروپ نے ایک کار میں توڑ پھوڑ کرنے کے ساتھ ہی اس کے ڈرائیور کے ساتھ مارپیٹ بھی کی، کیونکہ ان کی کار غلطی سےایک کانوڑ سے ٹکرا گئی تھی۔ کار ڈرائیور نے بتایا کہ وہ بی جے پی آر اور ایس ایس کے ممبر ہیں اور کالی ٹوپی پہننے کی وجہ سے حملہ آوروں نے انہیں مسلمان سمجھ لیا تھا۔
مہاراشٹر کے جلگاؤں ضلع کے ایرنڈول تعلقہ میں واقع جمعہ مسجدوقف بورڈ کی جائیدادکے طور پررجسٹرڈ ہے، جس کے بارے میں دائیں بازو کے شکایت کنندہ کا دعویٰ ہے کہ یہ ہندو عبادت گاہ کی جگہ پر بنائی گئی تھی۔ کلکٹر کی جانب سے دفعہ 144لاگو کرتے ہوئے احاطے میں نماز پڑھنے پر پابندی عائد کرنے کے احکامات پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
کرناٹک اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی شکست کے بعد شائع ہونے والے ایک شمارے میں آر ایس ایس سے وابستہ میگزین ‘دی آرگنائزر’ نے کہا ہے کہ بی جے پی کے لیے اپنی صورتحال کا جائزہ لینے کا یہ صحیح وقت ہے۔ علاقائی سطح پرمضبوط قیادت اور مؤثر کام کے بغیر وزیر اعظم مودی کا کرشمہ اور ہندوتوا الیکشن جیتنے کے لیے کافی نہیں ہوگا۔
ویڈیو: 28 مئی کو دہلی کے شہباز ڈیری علاقے میں ایک لڑکی کو سرعام قتل کر دیا گیا۔ ملزم ساحل کو پولیس نے اگلے دن یوپی سے گرفتار کیا تھا۔ اب علاقے کے لوگوں اور کارکنوں کا دعویٰ ہے کہ مبینہ طور پر آر ایس ایس سے وابستہ لوگوں نے علاقے کے لوگوں کو فرقہ وارانہ طور پر اکسانے کی کوشش کی۔
جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک نے سال 2019 میں پلوامہ حملے کو لے کر ایک بار پھر مرکزی حکومت کو نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس کی جانچ ہوئی ہوتی تو اس وقت کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کو استعفیٰ دینا پڑتا۔
جموں و کشمیر میں ریلائنس انشورنس اسکیم میں رشوت ستانی اور بدعنوانی سےمتعلق سابق گورنر ستیہ پال ملک کے الزامات کے سلسلے میں سی بی آئی نے نو مقامات پر چھاپے مارے ہیں، جس کے دائرے میں ملک سے وابستہ افرادبھی شامل ہیں۔ ملک کا کہنا ہے کہ جن کی شکایت کی،ان سے کچھ نہیں پوچھ رہے ہیں۔ وہ ہمیں ڈرانا چاہتے ہیں۔