نتن نبین کو بی جے پی کے قائم مقام صدر کے طور پر مقرر کرنے کا فیصلہ نریندر مودی کی قیادت کی اسی کڑی کا حصہ ہے، جس کے تحت پارٹی صدر کے عہدے کو مسلسل کمزور کیا گیا ہے۔ نئے صدر کا اپنا سیاسی وزن بہت کم ہے۔ حالاں کہ یہ قدم بہار میں ایک بڑا انتخابی داؤ بھی ہے۔
وشو ہندو پریشد نے ’سانسکرتک سجگتا‘ یعنی’ثقافتی بیداری‘ کے نام پر ہندوؤں سے کرسمس نہ منانے کی اپیل کی ہے۔ قانون کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مذہبی آزادی اور آئین کی تمہید میں درج بھائی چارے کے اصولوں کے خلاف ہے۔
مذہبی آزادی سے متعلق یونائیٹڈ اسٹیٹس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجیئس فریڈم کےتازہ اپڈیٹ بریف میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان کا سیاسی نظام مذہبی اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک کو فروغ دیتا ہے، اس کے ساتھ ہی حکمران بی جے پی اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کااتحاد ‘امتیازی’ قوانین کو فروغ دیتا ہے۔
سابق جج ایس مرلی دھر نے پروفیسر جی این سائی بابا میموریل لیکچر میں کہا کہ آر ایس ایس تفرقہ انگیز ایجنڈہ کو فروغ دے رہی ہےاور گمراہ کن تاریخ پڑھا رہی ہے۔ انہوں نے تعلیمی میدان میں نوجوانوں کے ذہنوں پر قبضہ، ادارہ جاتی مداخلت اور اکیڈمک آزادی پر سوال اٹھائےاور سائی بابا کیس کے توسط سے عدلیہ کے رویے پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ، جس نے ابھی حال میں اپنی 100 ویں سالگرہ منائی ہے، ‘غیر سیاسی’ ہونے کا دعویٰ کرتی ہے، حالانکہ اس کےنظریے کا عکس اقتدار کے اعلیٰ ترین عہدوں سے لے کر تعلیمی اداروں حتیٰ کہ سنیما تک پر دیکھا جا سکتا ہے۔آر ایس ایس کے 100 سالہ سفر پر صحافی اور مصنف دھیریندر جھا اور دی وائر کے بانی مدیرسدھارتھ وردراجن کے ساتھ تبادلہ خیال کر رہی ہیں میناکشی۔
کیرالہ کے وزیر اعلیٰ پنارائی وجین نے آر ایس ایس کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر یادگاری ڈاک ٹکٹ اور سکہ جاری کرنے کو آئین کی توہین قرار دیا اور آر ایس ایس کا موازنہ اسرائیل کے صیہونیوں سے کیا۔ سنگھ کی تنقید کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈروں نے اسے تفرقہ انگیز، رجعت پسند اور تحریک آزادی کی مخالفت کرنے والی تنظیم قرار دیا ہے۔
وزیر اعظم مودی کی جانب سے آر ایس ایس کی صد سالہ تقریبات میں جاری یادگاری ڈاک ٹکٹ 100 روپے کا سکہ اپوزیشن کے نشانے پر ہے۔ سی پی آئی (ایم) اور کیرالہ کے وزیر اعلیٰ نے اسے آئین کی توہین قرار دیا ہے۔ سینئر وکیل اندرا جئے سنگھ نے پوچھا ہے کہ کیا یہ سیکولر آئین کے تحت قانونی ٹینڈر ہے؟ اپوزیشن اسے جدوجہد آزادی کی یاد کی توہین گردان رہی ہے۔
آر ایس ایس کے پرچارکوں میں سے ایک نریندر مودی آج ہندوستان کے وزیر اعظم ہیں۔ جس کی وجہ سے اس کا اثر قومی زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں نظر آتا ہے۔
ایک طرف جہاں ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے ٹرمپ کے ٹیرف اور جنگ بندی کے ثالثی کے دعووں پر امریکہ کے خلاف براہ راست کچھ کہنے سے گریز کیا ہے، وہیں بی جے پی کی مربی تنظیم آر ایس ایس نے کہا ہے کہ امریکہ دہشت گردی اور آمریت کو فروغ دے رہا ہے۔
راجستھان کی سروہی عدالت نے سادھو اودھیشانند مہاراج کے قتل کے معاملے میں آر ایس ایس کے سابق پرچارک اتم گری کو عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ یہ قتل سنگھ کے دفتر میں ہوا تھا۔ یہ شاید پہلا معاملہ ہے جب سنگھ کے کسی عہدیدار کو سنگھ پریوار کے کسی دوسرے رکن کے قتل کا مجرم ٹھہرایا گیا ہے۔
سنگھ کو لگتا ہے کہ مودی کے بعد ایک تو اقتدار کی کشمکش امت شاہ اور یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے درمیان ہوگی، دوسری طرف کسی سنجیدہ طاقتورلیڈرشپ کی عدم موجودگی کی وجہ سے اس کی کانگریس سے بھی بری حالت ہو جائےگی،جس کا سد باب کرنا ضروری ہے۔
سپریم کورٹ نے اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر علی خان محمود آباد کے سوشل میڈیا پوسٹ کو لے کر درج ایف آئی آر معاملے کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی خصوصی تفتیشی ٹیم کو پھٹکار لگاتے ہوئے پوچھا کہ ایس آئی ٹی خود کو ہی گمراہ کیوں کر رہی ہے، جبکہ اس کی تحقیقات کا دائرہ صرف دو ایف آئی آر تک ہی محدود ہے ۔
آر ایس ایس کے جنرل سکریٹری دتاتریہ ہوسبلے کی جانب سے آئین ہند کی تمہید سے ‘سیکولر’ اور ‘سوشلسٹ’ الفاظ کو ہٹانے کی بات کہے جانے کے بعد نائب صدر جگدیپ دھنکھڑ نے ان الفاظ پر اعتراض کرتے ہوئے انہیں ‘ناسور’ قرار دیا۔ وہیں، کانگریس نے کہا ہے کہ اگر آئین کے کسی بھی لفظ کو چھونے کی کوشش کی گئی تو پارٹی آخری سانس تک اس کی مخالفت کرے گی۔
ایمرجنسی پر ایک پروگرام میں خطاب کرتے ہوئے آر ایس ایس کے جنرل سکریٹری دتاتریہ ہوسبلے نے آئین کے دیباچے میں تبدیلی کا مطالبہ کیا تھا۔ اس پر تنقید کرتے ہوئے کانگریس نے کہا کہ آر ایس ایس نے امبیڈکر کے آئین کو کبھی قبول نہیں کیا اور ان کا مطالبہ اسے تباہ کرنے کی سازش کا حصہ ہے۔
وشو ہندو پریشد کی شکایت کے بعد حکام نے امن و امان کے خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے اتر پردیش کے ایودھیا اور بارہ بنکی میں دو سالانہ عرس کی تقریبات کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔
محمود آباد کے بہانے اب اشوکا یونیورسٹی پر حملہ کیا جا رہا ہے۔ کیا ہم اس ادارے سےامید کر سکتے ہیں کہ یہ ہارورڈ کی طرح حکومت کے سامنے اٹھ کرکھڑا ہوجائے؟ شاید وہ روایت یہاں نہیں ہے۔ خدشہ یہ ہے کہ اس بار پھر سے اس ادارے کے آقا بی جے پی کو مطمئن کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی قربانی دے دیں گے۔
پہلگام میں دہشت گردانہ تشدد کے اشتعال کے درمیان ذات پر مبنی مردم شماری کا اعلان کیا گیا ہے۔ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ پانچ سال تک کشمیر کو اپنے قبضے میں رکھنے کے بعد بھی بی جے پی حکومت سیاحوں کی حفاظت کیوں نہیں کر سکی؟ اس سوال سے توجہ ہٹانے کے لیے حکومت نے اخبارات اور ٹی وی چینلوں کو موضوع دیتے ہوئے ذات پر مبنی مردم شماری کا اعلان کر دیا ہے۔
بی جے پی نے کانگریس پرنیشنل ہیرالڈ اخبار کو دی گئی پبلک پراپرٹی کا غلط استعمال کرنے کا الزام لگایا ہے۔ اس پر کانگریس نے سوال کیا کہ کیا آر ایس ایس کے ترجمان پانچ جنیہ اور آرگنائزرمفت میں کام کرتے ہیں۔
سنگھ اور بی جے پی کے رشتوں میں پچھلے ایک سال میں اتار چڑھاؤ آیا ہے۔ 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے بعد بی جے پی کھل کر سنگھ کی تعریف کرتی نظر آ رہی ہے۔ حال ہی میں نریندر مودی وزیر اعظم بننے کے بعد پہلی بار سنگھ ہیڈ کوارٹر پہنچے۔ کیا سنگھ بدل رہا ہے؟ سنگھ-بی جے پی کے رشتوں پر سینئر صحافیوں – راہل دیو اور دھیریندر جھا کے ساتھ آشوتوش بھاردواج کی بات چیت۔
آر ایس ایس کے جن خیالات کو پردے میں رکھ کر اٹل بہاری یا لال کرشن اڈوانی پیش کیا کرتے تھے، ان کو مودی کے منہ سے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے سنا جا سکتا ہے۔ اور مودی کی وجہ سے بہت سے دانشور اور صنعتکار آر ایس ایس کی سلامی بجاتے ہیں۔ آر ایس ایس کواور کیا چاہیے؟
سنبھل میں سالانہ نیجا میلے پر پابندی لگاتے ہوئے پولیس کا موقف آر ایس ایس اور اس سے وابستہ تنظیموں کے دیرینہ خیالات کے مطابق تھا۔ سنگھ سالار مسعود کی کہانی کو موجودہ سیاست سے جوڑ کر انہیں ولن کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
جیسے جیسے مسلمانوں کو 2014 کے بعد سیاسی طور پر بے وزن کر دیا گیا ہے، دہلی کی افطارپارٹیاں بھی قصہ پارینہ بن گئی ہیں۔ ہندوستان میں اس تناظر میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا مسلمانوں کو واقعی سیاسی اچھوت بنایا گیا ہے اور کیا جو پارٹیاں مسلمانوں کے حقوق یاان کی تقریبات میں شرکت کریں گیں ان کو ووٹ نہیں ملیں گے؟
لیکس فریڈمین کے پوڈ کاسٹ میں پی ایم مودی نے 2002 کے گجرات فسادات، آر ایس ایس کے نظریے اور دہشت گردی سے متاثرہ پاکستان پر تبادلہ خیال کیا۔ جمہوریت میں تنقید کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اگر آپ واقعی اپنی سوچ اور عمل میں جمہوریت پسند ہیں تو آپ کو تنقید کو گلے لگانا چاہیے۔
آئین کی تمہید سے لفظ ‘سیکولر’ اور ‘سوشلزم’ کو ہٹانے کا مطالبہ جمہوریت اور آئین کے لیے خطرے کی علامت ہے۔ الفاظ میں تبدیلی کے بجائے اپنی ذہنیت میں تبدیلی کا سامان کیا جانا چاہیے۔
امبیڈکر کا کہنا تھا کہ ہندو راج اس ملک کے لیے سب سے بڑی آفت ہوگی کیونکہ ہندو راشٹر کا خواب آزادی، مساوات اور بھائی چارے کے خلاف ہے اور یہ جمہوریت کے بنیادی اصولوں سے میل نہیں کھاتا۔
آر ایس ایس سے منسلک رسالے’آرگنائزر‘ کے مدیر پرفل کیتکر نے حال ہی میں کہا کہ اگنی پتھ اسکیم کو اس مقصد سے شروع کیا گیا ہے کہ شہریوں کو فوج کے لیے تیار کیا جا سکے۔
کانگریس اگر ہندو بیلٹ میں بی جے پی کے رتھ کو روکنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، تو وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنا ٹرم مکمل کرنے میں دشواری پیش آ سکتی ہے۔
مضامین اور کتابوں میں نورانی حوالہ جات سے اپنے دلائل کی عمارت اتنی مضبوط کھڑی کر دیتے تھے کہ اس کو ہلانا یا اس میں سیندھ لگانا نہایت ہی مشکل تھا۔ وہ اپنے پیچھے ایک عظیم ورثہ چھوڑ کر گئے ہیں، جس کے لیے صدیوں تک ان کا شکریہ ادا کیا جائے گا۔
معروف قلمکار اور قانون داں اے جی نورانی نے اپنی کتاب The RSS: A Menace to India میں آر ایس ایس کے حوالے سے کئی اہم انکشافات کیے ہیں ۔انہوں نےیہ بتانے کی سعی کی ہے کہ اس تنظیم کی بنیادی فلاسفی کیا ہے ،دنیا بھر میں اس کی کتنی شاکھائیں ہیں ، مسلم ممالک میں یہ شاکھائیں کیسے کام کرتی ہیں اور بی جے پی کے اہم فیصلوں میں اس کا کیا رول ہوتا ہے۔
بی جے پی نے آئندہ اسمبلی انتخابات کے لیے اپنے امیدواروں کی فہرست جاری کی اور بعد میں اس کو واپس لے لیا، کیوں کہ نئے امیدواروں اور حال ہی میں بی جے پی میں شامل ہونے والے لوگوں کے انتخاب پر پرانے قائدین میں عدم اطمینان کی بات کہی جا رہی ہے۔
ایک اہم سوال یہ ہوگا کہ کیا ان انتخابات کے نتیجے میں خطے میں حقیقی امن قائم ہو سکے گا؟ ویسے تو مودی حکومت بغلیں بجا رہی ہے کہ اس نے کشمیر میں پچھلے پانچ سالوں میں امن قائم کیا ہوا ہے۔ مگر یہ قبرستان کی خاموشی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا منتخب انتظامیہ لوگوں کے حقوق، فلاح و بہبود اور عوامی شراکت پر پالیسی کو دوبارہ مرکوز کرکے سابق ریاست کے لوگوں کی بیگانگی کو کم کرنے میں کردار ادا کرے گی؟
کہا جا رہا تھا کہ سلمان خورشید کو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی ذیلی تنظیم مسلم راشٹریہ منچ (ایم آر ایم) کے قومی کنوینر ڈاکٹر ماجد احمد تالیکوٹی سے کڑی ٹکر ملے گی۔ لیکن مقابلہ یکطرفہ رہا۔
مدھیہ پردیش کے ہائر ایجوکیشن ڈیارٹمنٹ نے تمام سرکاری اور نجی کالج کے پرنسپل کو لکھے ایک خط میں اداروں کو 88 کتابوں کا سیٹ خریدنے کی ہدایت دی ہے۔ اس فہرست میں سریش سونی، دیناناتھ بترا، اتل کوٹھاری، دیویندر راؤ دیشمکھ اور سندیپ واسلیکر جیسے آر ایس ایس کے بڑے لیڈروں کی لکھی ہوئی کتابیں شامل ہیں۔
آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم مسلم راشٹریہ منچ کے قومی کنوینر ڈاکٹر ماجد احمد تالیکوٹی آئی آئی سی سی کی گورننگ باڈی کے انتخاب میں صدارتی عہدے کے امیدوار ہیں۔ سراج الدین قریشی، جو گزشتہ چار انتخابات سے اس عہدے پر ہیں، ڈاکٹر ماجد کی حمایت کررہے ہیں۔
گزشتہ 31 جولائی کو ایس پی ایم پی رام جی لال سمن نے راجیہ سبھا میں کہا تھا کہ نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی میں تقرری کا معیار یہ ہے کہ فرد آر ایس ایس سے وابستہ ہو۔ اسے ریکارڈ سے ہٹانے کی بات کہتے ہوئے جگدیپ دھن کھڑ نے کہا کہ آر ایس ایس ‘بے داغ ساکھ’ والی تنظیم ہے۔
سرکاری ملازمین کے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ میں شامل ہونے پر عائد پابندی کو مرکزی حکومت نے 9 جولائی کو منسوخ کر دیا تھا۔ اس کی منسوخی سے متعلق فیصلہ سرکاری ویب سائٹس پر اپلوڈ کر دیا گیا ہے، لیکن اس فیصلے کو پاس کرنے والی فائل کو ‘خفیہ’ فہرست میں ڈال دیا گیا ہے۔
مدھیہ پردیش ہائی کورٹ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی سرگرمیوں میں سرکاری ملازمین کی شرکت سے متعلق ایک عرضی کی سماعت کر رہی تھی۔ اس دوران اس نے کہا کہ آر ایس ایس جیسی بین الاقوامی شہرت یافتہ تنظیم کو غلط طریقے سے ملک کی کالعدم تنظیموں میں رکھا گیا تھا، جس کی وجہ سے پانچ دہائیوں تک مرکزی حکومت کے ملازمین ملک کی خدمت نہیں کر سکے۔
راہل گاندھی کا یہ کہنا کہ ‘ہم نے رام مندر تحریک کو ہرا دیا ہے، وہی لال کرشن اڈوانی نے جس کی قیادت کی تھی’، آئیڈیالوجیکل وارننگ ہے۔ اصل لڑائی اس نظریے سے ہے جس نے رام جنم بھومی تحریک کو جنم دیا۔ یعنی لڑائی آر ایس ایس کے ہندو راشٹر کے تصور سے ہے۔
اٹل بہاری واجپائی کی وزارت عظمیٰ میں طاقتور اپوزیشن کی جانب سے ان پر اور ان کی حکومت کے خلاف کیےجانے والے سفاک حملوں کی دھارکند کرنے کے لیے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے واجپائی پر اپنی طرف سے منصوبہ بند اور اسپانسر حملے کیے تھے۔ آج نریندر مودی کے سامنے بھی مضبوط اپوزیشن ہے، اور سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت اسی تجربے کا اعادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے بعد اپنی پہلی تقریر میں آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے کہا کہ انتخابی مقابلہ جھوٹ پر مبنی نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے ایک سال سے تشدد سے دوچار منی پور کی صورتحال کے بارے میں سوال کیا کہ اس بات پر کون دھیان دے گا کہ صوبہ آج بھی جل رہا ہے۔