جب میڈیا وکاس یادو کے بارے میں قیاس آرائیوں میں مصروف تھا، وہ اپنے گھر آئے، اہل خانہ کے ساتھ وقت گزارا، انہیں تسلی دی اور واپس لوٹ گئے۔ وکاس کے گھر والے حکومت کے رویے سے ناخوش ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ ہندوستانی حکومت نے وکاس کو بچانے کی کوشش نہیں کی۔
وکاس کے اہل خانہ نے بتایا کہ امریکہ کی جانب سے 17 اکتوبر کو الزام عائد کیے جانے کے چوبیس گھنٹے کے اندر یعنی 18 اکتوبر کو وکاس نے انہیں فون پر کہاتھا، ‘تشویش کی کوئی بات نہیں، میں خیریت سے ہوں اور محفوظ ہوں۔’
جو لوگ یقین کرتے ہیں کہ ہندوستان اب بھی ایک جمہوریت ہے، انہیں گزشتہ چند مہینوں میں منی پور سے مظفر نگر تک رونما ہونے والے واقعات پر نگاہ کرنی چاہیے۔ وارننگ کا وقت ختم ہو چکا ہے اور ہم اپنے عوام الناس کے ایک حصے سے اتنے ہی خوفزدہ ہیں جتنے اپنے رہنماؤں سے۔
امریکی صدر جو بائیڈن کا دعویٰ ہے کہ ان کی حکومت کا کلیدی اصول ‘جمہوریت کا تحفظ’ ہے۔ یہ قابل ستائش امرہے، لیکن ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورے کے وقت واشنگٹن میں جو کچھ ہوا وہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ امریکی حکمراں جس شخص کے آگے سجدہ ریز تھے، اس نے بڑے منظم طریقے سے ہندوستانی جمہوریت کو کمزور کیا ہے۔
’وال اسٹریٹ جرنل‘اخبار کی نامہ نگارسبرینا صدیقی نے امریکہ کے دورے پر گئے وزیراعظم نریندر مودی سے ہندوستان میں اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے بارے میں سوال پوچھا تھا، جس کے بعد بی جے پی اور ہندوتوا کے حامیوں نے ان کے والدین کے پاکستانی ہونے کا دعویٰ کرکے ان کو’پاکستان کی بیٹی’ بتایا تھا۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے امریکی ددورے کے دوران سابق امریکی صدر براک اوباما نے ہندوستان میں اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سےتشویش کا اظہار کیا تھا۔ اس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے الزام لگایا کہ جب اوباما امریکی صدر تھے ،تب چھ مسلم اکثریتی ممالک پر26000 سے زیادہ بموں سے حملہ کیا گیا تھا۔
’وال اسٹریٹ جرنل‘اخبار کی نامہ نگارسبرینا صدیقی نے امریکہ کے دورے پر گئے وزیراعظم نریندر مودی سے ہندوستان میں اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے بارے میں سوال پوچھا تھا، جس کے بعد ان کے والدین کے پاکستانی ہونے کا دعویٰ کرکے ان کو’پاکستان کی بیٹی’ بتایا جا رہا ہے۔
ویڈیو: کیا نریندر مودی کا دورہ امریکہ اتنی ہی بڑی حصولیابی ہے جتنی ہندوستانی میڈیا بتا رہا ہے؟ اس بارے میں تبادلہ خیال کر رہے ہیں دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند اور دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن۔
ویڈیو: وزیر اعظم نریندر مودی نے نو سالوں میں پہلی بار امریکہ دورے پر ایک پریس کانفرنس میں شرکت کی، جہاں ان سےہندوستان میں مسلمانوں اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں سوال پوچھا گیا۔ اس کے جواب میں انہوں نے ملک میں کسی قسم کی تفریق اور امتیازی سلوک نہ ہونے کی بات کہی۔ لیکن کیا یہ سچ ہے؟
ایک ٹی وی انٹرویو میں سابق امریکی صدر براک اوباما نے کہا کہ اگر وہ نریندر مودی سے بات چیت کرتے تو ملک میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا ذکر ہوتا۔ دوسری جانب امریکہ میں صدر جو بائیڈن کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں پی ایم مودی نے کہا کہ ہندوستان میں مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں ہے۔
امریکہ میں مسلسل بڑھتی ہوئی افراط زر ہندوستان جیسے ترقی پذیر ممالک کےاقتصادی نظام میں بڑے پیمانے پر اثر انداز ہو سکتی ہے ۔
ٹائمز آف اسرائیل کے کالم نگار ڈیوڈ ہوروز کے مطابق اسرائیل لڑائی تو جیت گیا، مگر جنگ ہار گہا ہے۔ان کے مطابق اسرائیل کو بڑی طاقتوں کی طرف سے جو سفارتی امداد ایسے اوقات میں مہیا ہوتی تھی، و ہ اس بار اس سے محروم تھا اور دنیا بھر میں اس کے خلاف ایک ماحول بن گیا تھا، جو اب کسی وقت یہودی مخالف رویہ اختیار کر سکتا ہے۔
اس شہر میں سرکاری طور پر مسلمانوں کو بے دخل کرنے اور یہودیوں کو آباد کرنے کا سلسلہ تیز تر ہوگیا ہے۔ اس وقت شہر کی61فیصد آبادی اب یہودیوں پر مشتمل ہے اور مسلمان، جو ایک وقت اکثریت میں ہوتے تھے، اب محض 36فیصد رہ گئے ہیں۔
جس طرح کورونا وائرس انسانی جسم میں داخل ہو جاتا ہے اور وہاں موجود بیماریوں کے اثرات کو تیز کر دیتا ہے ، ٹھیک اسی طرح اس نے مختلف ممالک اور معاشرےمیں رسائی حاصل کر کےان کی کمزوریوں کو بے نقاب کردیا ہے۔
امریکی تاریخ سے متعلق ایک صفحہ بتاتا ہے کہ میڈیا اور دانشوروں کے ایک طبقہ کے ذریعےحمایت یافتہ نسل پرستی اورفرقہ واریت کا زہر طویل عرصے سے سیاست کا کھاد پانی ہے۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ اور جرمنی کی سرکاری مواصلاتی ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امریکی انٹیلی جنس تنظیم سی آئی اے نے ایک سوئس کمپنی کے ذریعے تقریباً پچاس سالوں سے زیادہ وقت تک دنیا کے تمام ممالک کی خفیہ معلومات اور جانکاری میں سیندھ لگائی اور امریکی پالیسی طے کرنے میں مدد دی۔
امریکہ کی خاتون رکن پارلیامان کن ڈیبی ڈنگیل نے کہا ہے کہ جموں و کشمیر میں غیرمنصفانہ طریقے سے ہزاروں لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے اور لاکھوں لوگوں کی پہنچ انٹرنیٹ اور ٹیلی فون تک نہیں ہے۔
امریکہ میں’سینیٹ انڈیا کاکس’کے کو چیئرمین اور امریکی رکن پارلیامنٹ مارک وارنر نے کشمیر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت ہندسے اپیل کی ہے کہ وہ پریس، اطلاعات اور سیاسی شراکت داری کی آزادی دےکر جمہوری اصولوں کی پابندی کرے۔
امریکی پارلیامنٹ کے خارجہ امور کی کمیٹی نے کہا کہ کشمیر میں مواصلاتی ذرائع پر پابندی کی وجہ سے کشمیریوں کی روزمرہ کی زندگی پر تباہ کن اثر پڑ رہا ہے۔ ہندوستان کے لئے ان پابندیوں کو اٹھانے اور کشمیریوں کو کسی بھی دیگر ہندوستانی شہری کی طرح یکساں حقوق اور خصوصی اختیارات دینے کا وقت ہے۔
امریکی رکن پارلیامان اس سے پہلے جموں و کشمیر کے حالات کا جائزہ لینے کے لئے وہاں جانا چاہتے تھے، حالانکہ حکومت ہند نے ان کو اس کی اجازت نہیں دی تھی۔
ہندوستانی حکومت سے جموں و کشمیر جانے کی اجازت نہ ملنے کے باوجود امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن پارلیامان کریس وان ہولن اس ہفتے ہندوستان آئے۔انہوں نے افسروں اور سول سوسائٹی کےلوگوں سے ملاقات کی۔
کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال کو لےکر امریکہ کے دو رکن پارلیامان نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزیر خارجہ مائک پومپیو سے اپیل کی ہے کہ وہ کشمیر میں مواصلاتی ذرائع کو فوراً بحال کرنے اور حراست میں لئے گئے تمام لوگوں کو آزاد کرنےکے لئے حکومت ہند پر دباؤ ڈالیں۔
امریکی وزارت خارجہ کے اس بیان پر ہندوستان نے سرکاری طور پر کوئی رد عمل نہیں دیا ہے۔
ویڈیو: امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی اور پاکستان کے وزیراعظم عمران خان سے فون پر بات کی۔کشمیر کو لے کر ٹرمپ کے رول پردی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی کا نظریہ۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا کہ کشمیر بےحد پیچیدہ جگہ ہے۔ یہاں ہندو ہیں اور مسلمان بھی اور میں نہیں کہوںگا کہ ان کے بیچ کافی میل جول ہے۔
کیا امریکہ ہماری موجودہ عالمی تنہائی میں کچھ ہاتھ بٹائے گا یا پھر سو پیاز اور سو جوتے ہی ہمارا مقدر رہیں گے؟ کیا اس سب کا ہماری مقتدرہ نے جائزہ لیا ہے؟ یا ہم فقط کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا کرواتے رہیں گے اور عمران خان دوسرے ورلڈ کپ سے دل بہلاتے رہیں گے؟
جہاں ساری دنیا کو اس بات کا احساس جلدہی ہو گیا تھا کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ ایک قابل اعتماد ساتھی نہیں ہے، نریندر مودی نے اس کے باوجود ہندوستان کے واشنگٹن سے رشتے مضبوط کئے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس کی قیمت کیا ہوگی۔
جئے شنکر کو خارجہ سکریٹری بنائے جانے کی کانگریسی لیڈران نے اس لئے مخالفت کی تھی کہ ان کے مطابق ایک امریکہ نواز آفیسر کی تعیناتی سے ہندوستان کی غیر جانبدارانہ شبیہ متاثر ہوگی۔ وکی لیکس فائلز نے جئے شنکر کی امریکہ کے ساتھ قربت کو طشت از بام کردیا تھا۔ بتایا گیا کہ جئےشنکر کی تعیناتی سے ہمسایہ ممالک سے تعلقات خراب ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔
یوم نکبہ: فلسطین-ہماری آنکھوں کے آگے گم ہوتے ہوئے ایک ملک کا نام ہے۔فلسطین کے زخم سے خون آہستہ آہستہ ٹپک رہا ہے۔ لیکن وہ ہماری روح کو نہیں چھوتا۔ ابھی جو لاکھوں فلسطینی جلاوطن ہیں، کیا ان کو اپنے ملک لوٹنے کا حق نہیں ہے؟ کیا ہم اسرائیل کے جھوٹ کو سچ مان لیںگے۔
ہتھیاروں کی عالمی سطح پر تجارت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ ہتھیار فروخت کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک امریکا ہے، جو عالمی سطح پر بیچے گئے ہتھیاروں کا 36فیصد حصہ فروخت کرتا ہے۔
وزیر اعظم مودی نے ٹوئٹ کیا ہے کہ 2014 سے پہلے ملک میں موبائل بنانے والی صرف 2 کمپنیاں تھیں، آج موبائل مینوفیکچرنگ کمپنیوں کی تعداد 120 ہو گئی ہے۔سوال ہے کہ کمپنیوں کی تعداد 2 سے 120 ہو جانے پر کتنے لوگوں کو روزگار ملا؟
جارج ہیربرٹ والکر بش 1924ء میں میساچیوسٹس میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کی سیاسی زندگی کا آغاز 1962ء میں اس وقت ہوا، جب وہ ریپبلکن پارٹی کی جانب سے ہیرس کاؤنٹی کے چیئر مین منتخب ہوئے۔
عمران خان کے وزیر اعظم بن جانے کے بعد پاکستان کی طرف سے کوئی ایسی بات نہیں ہوئی جو ہندوستان کو ایسا مخالفانہ ردعمل ظاہر کرنے کا موقع دے سکتی ہو جس سے وہ اپنے ووٹ بینک کو منظم اور متحدہ کرنے کا کام لے سکے۔
امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے کہاہے کہ انسان کی مذہبی آزادی کے بنیادی حق کو لےکر چین کا رویہ ٹھیک نہیں ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن کو وائٹ ہاؤس میں مدعو کیا ہے۔ ان دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات رواں برس موسم خزاں میں ہو گی۔
جن گن من کی بات کے اس ایپی سوڈ میں سنیے سوئس بینک میں ہندوستانیوں کی بڑھتی مالیت،نکی ہیلی کی ہندوستان آمد اور مگہر میں مودی کی تقریر پر ونود دوا کا تبصرہ
پاکستان میں کئی حلقوں نے وفاقی وزیرِ دفاع خرم دستگیرکے اس حالیہ بیان کو حقیقت پسندانہ قرار دیا ہے، جس میں وفاقی وزیر نے امریکا سے یہ شکوہ کیا تھا کہ واشنگٹن نے جمہوری پاکستان سے تعلقات استوار کرنے کی موثرکوششیں نہیں کیں۔
سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے اپنے امریکی دورے سے چند دن قبل ایران کو شدید دھمکیاں دی ہیں۔ محمد بن سلمان کا دورہ امریکا انیس مارچ سے شروع ہو گا۔
بین الاقوامی قوتوں کے درمیان ’طاقت اور رسہ کشی کی وجہ‘ سے شام میں جاری خونریز اور لاکھوں زندگیاں کھا جانے والی خانہ جنگی اپنے آٹھویں سال میں داخل ہو گئی ہے۔
جیسے جیسے اسلام آباد میں امریکا کا اثر و رسوخ ماند پڑ رہا ہے، ویسے ویسے روس پاکستان سے سفارتی، عسکری اور اقتصادی تعلقات بڑھا رہا ہے۔ سرد جنگ کے دشمن آج کے اتحادی بننے جا رہے ہیں۔