خبریں

نوم چومسکی، راجموہن گاندھی اور کئی بین الاقوامی اداروں نے عمر خالد کی رہائی کی مانگ کی

عمر خالد دہلی فسادات سے متعلق معاملے میں ستمبر 2020 سے جیل میں ہیں۔ اس کی مذمت کرتے ہوئے فلسفی، ممتاز دانشور اور ماہر لسانیات نوم چومسکی نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا  ہےکہ خالد کے خلاف جو ایک واحد ثبوت پیش کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ بولنے اور احتجاج کرنے کے اپنے آئینی حق  کا استعمال کر رہے تھے، جو  ایک آزاد معاشرے میں شہریوں کا بنیادی حق ہے۔

(بائیں سے) نوم چومسکی، عمر خالد اور راجموہن گاندھی۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

(بائیں سے) نوم چومسکی، عمر خالد اور راجموہن گاندھی۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: چار بین الاقوامی اداروں  کے ساتھ–ساتھ نوم چومسکی اور مہاتما گاندھی کے پوتے راجموہن گاندھی جیسےممتاز دانشوروں  نے جے این یو کے سابق طالبعلم اور کارکن عمر خالد کی طویل مدتی قید کی مذمت کی ہے۔

ہندوز فار ہیومن رائٹس، انڈین امریکن مسلم کونسل، دلت سالیڈیریٹی فورم اور انڈیا سول واچ انٹرنیشنل نے خالد کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے، جن کو  دہلی پولیس نے 14 ستمبر 2020 کو گرفتار کیا تھا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ ان کا تعلق  2020  میں شمال–مشرقی دہلی میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات سے ہے۔

پولیس نے 2019 کے اواخر اور 2020 کے اوائل میں سی اے اے کے خلاف خالد کی قیادت میں ہوئے احتجاجی مظاہروں کو تشدد کو جوڑنے کی کوشش کی ہے۔

ضمانت کےآرڈر کو تین بار مؤخر کیے جانے کے بعد 23 مارچ کو دہلی کی ایک عدالت نے خالد کو ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ انہوں  نے اس فیصلے کے خلاف دہلی ہائی کورٹ میں اپیل کی ہے۔

چومسکی نے اپنے ایک ریکارڈ شدہ بیان میں کہا،خالد کا معاملہ ایسے کئی معاملوں  میں سے ایک ہے جو جبر کے دور میں ہندوستان کے عدالتی نظام کی ایک سنگین اور تشویشناک تصویر پیش کرتا ہے، جہاں آزاد اداروں اور شہری حقوق کے آزادانہ استعمال کو کمزور کیا جا رہا ہے، جو ہندوستان  کی سیکولر جمہوریت کی قابل احترام روایت کو سبوتاژ کرنے اور ہندو ثقافت کو مسلط کرنے کی سرکاری  کوششوں کا حصہ ہے۔

چومسکی نے یہ بھی کہا کہ ، واحد ثبوت جو پیش کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ بولنے اور احتجاج کرنے کے اپنے آئینی حق کا استعمال کر رہے تھے، جو ایک آزاد معاشرے میں شہریوں کا بنیادی حق ہے۔

چومسکی نے محسوس کیا کہ ہندوستان کی جمہوریت کی نوعیت، جس کی سفاکانہ برطانوی حکومت سے نجات پانے کے لیے تعریف کی جاتی  رہی ہے، حال ہی میں اس پر اس قدر زوال آیا ہے کہ یہ ‘انتہائی افسوسناک’ ہے۔

چومسکی نے کہا، ہم سب بس امید کر سکتے ہیں کہ انصاف کی آزادی کے سلسلے میں کئی  نوجوان کارکنوں کے جرأت مندانہ دفاع کی وجہ سے اس المناک دورکو واپس موڑنے میں کامیابی ملے گی ، اور ایک بہتر دنیا کی تلاش میں ہندوستانی قیادت کی واپسی کی راہ ہموار ہوگی ۔

اربانا—شَمپین میں یونیورسٹی آف الینوائے کے ریسرچر پروفیسر راجموہن گاندھی نے بھی چومسکی کی طرح ہی ایک ویڈیو بیان جاری کیا ہے، جس میں جے این یو  میں ڈاکٹریٹ کے طالبعلم کے طور پر خالد کی علمی خدمات کو اجاگر کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ،خالد کی صورت میں ہندوستان کے پاس ایک ایسا ذہن ہے جو حساس اور ذی فہم  ہے… ہندوستان کے اس باصلاحیت نوجوان بیٹے کو لگاتار 20 مہینوں سے خاموش کر دیا گیا ہے۔

گاندھی کا خیال ہے کہ، خالد کی مسلسل خاموشی دنیا میں ہندوستان کی امیج  پر ایک داغ  ہے اور ہندوستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

انہوں نے کہا، ہم سب جانتے ہیں کہ آج بالادستی اور مساوات کے درمیان عالمی سطح پر ایک کشمکش جاری ہے، جو آمریت اور جمہوریت اور جبر اور انسانی وقار کے درمیان کی کشمکش بھی ہے۔ ہندوستان  اس کشمکش  کے مرکز میں ہے۔ عمر خالد اور غلط طریقے سے حراست میں لیے گئے دیگر لوگوں ،جن کی تعداد ہزاروں میں ہے، ان کا حراست  میں بتایا ہر اضافی دن دنیا میں جمہوریت کے خلاف، انسانی وقار کے خلاف اور ہندوستان کے صاف ستھرے امیج کے خلاف  ایک دھچکا ہے۔

اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔