مرکزی حکومت نے گزشتہ26 فروری کو دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس ایس مرلی دھر کے تبادلے کا حکم جاری کیا تھا۔ اسی دن جسٹس مرلی دھر کی صدارت والی بنچ نے مبینہ ہیٹ اسپیچ دینے کے لیے تین بی جےپی رہنماؤں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے میں دہلی پولیس کی ناکامی کو لےکر‘ناراضگی’ کااظہار کیا تھا۔
نئی دہلی: سابق چیف جسٹس آف انڈیا (سی جےآئی)کے جی بال کرشنن نے کہا ہے کہ سرکار کو دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس ایس مرلی دھر کو پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ میں تبادلہ کرنے کا حکم ‘آدھی رات’ کو جاری کرتے ہوئے ‘تھوڑی احتیاط’ برتنی چاہیےتھی۔وزارت قانون نے 26 فروری کو تبادلے کا حکم جاری کیا۔ اسی دن جسٹس مرلی دھر کی صدارت والی بنچ نے مبینہ ہیٹ اسپیچ دینے کے لیے تین بی جےپی رہنماؤں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے میں دہلی پولیس کی ناکامی کو لےکر‘ناراضگی’کا اظہار کیا تھا۔
سرکار نے کہا کہ تبادلے کا کسی معاملے سے کچھ لینا دینا نہیں ہے کیونکہ اس بارےمیں سپریم کورٹ کالیجیم نے پہلے ہی سفارش کر دی تھی اور جسٹس نے بھی اپنی رضامندی دی تھی۔جسٹس بال کرشنن نے جمعہ کو فون پر کہا کہ یہ محض اتفاق ہے کہ آخری تبادلے کانوٹیفیکشن اس دن جاری کیا گیا جب انہوں نے ہیٹ اسپیچ کو لے کرحکم دیا تھا۔ انہوں نے کہا، ‘مجھے نہیں معلوم کہ کون سی تاریخ کو کالیجیم کے سامنےتبادلے کا مدعا آیا۔’
سابق سی جے آئی نے کہا کہ جسٹس مرلی دھر کے تبادلے کا دہلی تشدد معاملے پر شنوائی کرتے ہوئے ان کے تبصرے سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔جسٹس بال کرشنن نے کہا، ‘جب ملک میں حالات اتنے خراب اور میڈیااور دوسرے لوگ فعال ہیں تو سرکار کو آدھی رات کو ایسے تبادلے کے حکم جاری کرتے ہوئے تھوڑی احتیاط برتنی چاہیے تھی کیونکہ اس کا لوگوں کے ذریعے کچھ اور مطلب نکالے جانے کاامکان ہے۔ لوگ اس کو الگ طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔’
انہوں نے کہا کہ انہیں نہیں لگتا کہ جسٹس مرلی دھر کو پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ میں اگلے دن سے ہی عہدہ سنبھالنے کو کہا گیا ہوگا۔جسٹس بال کرشنن نے کہا کہ عام طور پر جب ایسے تبادلے کا حکم دیا جاتا ہے توعہدہ سنبھالنے کا وقت سات دن سے کم نہیں دیا جاتا تاکہ جس جسٹس کا تبادلہ کیا گیا ہے وہ نئی تعیناتی کے لیے اپنے آپ کو تیار کر سکیں۔این جی اوسی جے اےآر نے جمعرات کو جسٹس مرلی دھر کے تبادلے کی مذمت کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ایک ‘ایماندار اور بہادر’ عدلیہ افسرکو سزا دینے کے لیے یہ قدم اٹھایا گیا۔
سرکار کے نوٹیفیکشن میں کہا گیا کہ صدر نے ہندوستان کے سابق جسٹس سے مشورہ کرنے کے بعد یہ فیصلہ لیا۔ اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ جسٹس مرلی دھر کو کب سے نئی ذمہ داری سنبھالنی ہے۔وزیر قانون روی شنکر پرساد نے کہا کہ جسٹس مرلی دھر کا تبادلہ سپریم کورٹ کالیجیم کی سفارش پر کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اس میں طے لائحہ عمل کی پابندی کی گئی ہے۔
وہیں، کانگریس نے جسٹس مرلی دھر کے تبادلے کو لے کر الزام لگایا تھا کہ کئی بی جےپی رہنماؤں کو بچانے اور تشدد کی سازش کا پردہ فاش نہیں ہونے دینے کے مقصد سے سرکار نے تبادلہ کرایا ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں