سال 2020 کے دہلی فسادات کے دوران ایک ویڈیو وائرل ہوا تھا، جس میں پانچ نوجوان زخمی حالت میں زمین پر پڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کم از کم سات پولیس اہلکار ان نوجوانوں کو گھیرکر قومی ترانہ گانے کے لیے مجبور کرنے کے علاوہ انہیں لاٹھیوں سے مارتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان میں سے ایک نوجوان فیضان کی موت ہو گئی تھی۔
حال ہی میں سامنے آئے ایک وائرل ویڈیو میں دہلی پولیس کے سب انسپکٹر منوج تومر کو شہر کے اندرلوک علاقے میں مکی جامع مسجد کے قریب نماز ادا کرنے والے لوگوں کو لات مارتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ اس واقعہ سے پیدا ہونے والے غم و غصے کے درمیان انہیں معطل کر دیا گیا تھا۔
جمعہ کی صبح سی بی آئی کے لوگ دہلی کے وسنت کنج واقع سابق آئی اے ایس افسر اور انسانی حقوق کے کارکن ہرش مندر کے گھر اور جنوبی دہلی کے ہی ادھ چینی واقع ان کے دفتر پہنچے تھے۔ اس سے قبل ستمبر 2021 میں ای ڈی نے ان کے یہاں چھاپے ماری کی تھی۔
پندرہ دسمبر 2019 کو دہلی پولیس نے سی اے اے مخالف مظاہرے میں پتھراؤ کا حوالہ دیتے ہوئے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے کیمپس اور لائبریری میں گھس کر طالبعلموں کی پٹائی کی تھی۔ اس تشدد کے چار سال ہونے پر جامعہ کے طالبعلموں نے ‘یوم مزاحمت’ مناتے ہوئے کیمپس میں مارچ نکالا۔
گزشتہ 3 اکتوبر کو دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے یو اے پی اے کے تحت درج ایک کیس کے سلسلے میں نیوز ویب سائٹ نیوز کلک اور اس کے عملے کے یہاں چھاپے ماری کی تھی۔ اس دوران 90 سے زائد صحافیوں کے تقریباً 250 الکٹرانک آلات ضبط کیے گئے تھے۔ تقریباً ایک ماہ بعد بھی انہیں واپس نہیں کرنے سے صحافیوں کے لیے کام کرنا دشوار ہو گیا ہے۔
ویڈیو: یو اے پی اے کے تحت درج ایک معاملے میں پوچھ گچھ کے بعد دہلی پولیس نے نیوز ویب سائٹ نیوز کلک کے مدیر پربیر پرکایستھ اور ایچ آر ہیڈ امت چکرورتی کو 3 اکتوبر کو گرفتار کیا ہے۔ اس معاملے پر سوراج انڈیا پارٹی کے لیڈر یوگیندر یادو سے بات چیت۔
اکتوبر کے شروعاتی چند دنوں میں ہی ملک کی مختلف ریاستوں میں مرکزی ایجنسیوں کے منظم ‘چھاپے’، ‘قانونی کارروائیاں’، نئے درج کیے گئے مقدمات اور ان آوازوں پر قدغن لگانے کی کوششوں کا مشاہدہ کیا گیا، جو اس حکومت سے اختلاف رکھتے ہیں یا اس کی تنقید کرتے ہیں۔
حکومت کے جس قدم سے ملک کا نقصان ہو، اس کی تنقید ہی ملک کا مفاد ہے۔ ‘نیوز کلک’ کی تمام رپورٹنگ سرکاری دعووں کی پڑتال کرتی ہے، لیکن یہی تو صحافت ہے۔ اگرسرکار کے حق میں لکھتے اور بولتے رہیں تو یہ اس کا پروپیگنڈہ ہے۔ اس میں صحافت کہاں ہے؟
ایف آئی آر میں نیوز کلک کے ایڈیٹر پربیر پرکایستھ، گوتم نولکھا اور امریکی کاروباری نیول رائے سنگھم کے خلاف یو اے پی اے کی پانچ دفعات لگائی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ، شاؤمی اور وی وو کی طرف سے ‘غیر قانونی فنڈنگ’ اور کسی ‘گوتم بھاٹیہ’ کے ذریعے ‘ان ٹیلی کام کمپنیوں کے’ قانونی معاملات میں دفاع’ کے بارے میں بات کی گئی ہے۔ کمپنیوں سے متعلق عدالتی ریکارڈ میں کسی گوتم بھاٹیہ کے وکیل ہونے کے شواہد نہیں ہیں۔
نیوز کلک کے بانی اور مدیر پربیر پرکایستھ اور پورٹل کے ایچ آرہیڈ امت چکرورتی کو منگل کو یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیا گیا تھا، لیکن پولیس نے ان کے وکیلوں کو ایف آئی آر کی کاپی دینے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد انہوں نے عدالت سے رجوع کیا ہے۔
معروف قلمکار اور کارکن ارندھتی رائے نے نیوز کلک سے وابستہ صحافیوں کے یہاں چھاپے ماری کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ اگر 2024 میں بھارتیہ جنتا پارٹی دوبارہ اقتدار میں آتی ہے تو ملک میں جمہوریت کا نام ونشان نہیں رہے گا۔
نیوز کلک نے اپنے صحافیوں اور عملے کے یہاں چھاپوں، پوچھ گچھ اور گرفتاریوں کے بعد جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ ایسی حکومت، جو پریس کی آزادی کا احترام نہیں کرتی اور تنقید کو غداری یا ‘اینٹی نیشنل’ یا پروپیگنڈہ سمجھتی ہے، اس کی اس کارروائی کی شدید مذمت کرتے ہیں۔
یو اے پی اے کے تحت درج ایک معاملے میں پوچھ گچھ کے بعد دہلی پولیس نے گزشتہ منگل کو نیوز ویب سائٹ نیوز کلک کے ایڈیٹر پربیر پرکایستھ اور ایڈمنسٹریٹر امت چکرورتی کو گرفتار کر لیا ہے۔ یہ معاملہ نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ پر مبنی ہے، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس ویب سائٹ کو ‘ہندوستان مخالف’ ماحول بنانے کے لیے چین سے فنڈنگ کی گئی ہے۔
ایک پورے میڈیا آرگنائزیشن پر ‘چھاپے ماری’ اور صحافیوں کے الکٹرانک آلات کو لازمی ضابطہ پرعمل کیے بغیرچھین لینا آزاد پریس کے لیے نیک شگون نہیں ہے، اور جمہوریت کے لیے اس سے بھی بدتر۔
نیوز کلک سے وابستہ صحافیوں، کارکنوں وغیرہ کے گھروں پر چھاپے ماری، ان کے موبائل، لیپ ٹاپ وغیرہ ضبط کرنے اوران سے پوچھ گچھ کرنے کی کارروائی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے میڈیا تنظیموں، کارکنوں اور اپوزیشن نے اسے میڈیا کو ڈرانے کی کوشش قرار دیا ہے۔
صحافیوں، کارکنوں اور اسٹینڈ اپ کامیڈین کے خلاف یہ چھاپے ماری سخت یو اے پی اے کے تحت گزشتہ اگست میں درج کی گئی ایف آئی آر سےمتعلق ہے۔ پولیس نے نیوز ویب سائٹ نیوزکلک کے ملازمین کے گھروں پر چھاپے مار کر ان کے موبائل اور لیپ ٹاپ جیسے الکٹرانک آلات ضبط کر لیے ہیں۔
پولیس نے بتایا کہ شمال–مشرقی دہلی کے سندر نگری میں پوجا پنڈال سے پرساد چوری کرنے کے شبہ میں ایک 26 سالہ ذہنی طور پر معذور شخص کو بجلی کے کھمبے سے باندھ کر لاٹھیوں سے کئی گھنٹوں تک مارا پیٹا گیا، جس کے باعث اس کی موت ہوگئی۔ نوجوان کی پہچان ایثار محمد کے طور پر ہوئی ہے۔
جے این یو کے سابق طالبعلم عمر خالد نے سال 2020 میں شمال–مشرقی دہلی میں ہونے والے فسادات سے متعلق ایک معاملے میں جیل میں ایک ہزار دن پورےکر لیے ہیں۔ خالد کو دہلی پولیس نے ستمبر 2020 میں گرفتار کیا تھا اور ان پر یو اے پی اے اور آئی پی سی کی مختلف دفعات کے تحت الزام لگائے گئے ہیں۔
اتوار کو کراول نگر میں منعقدہ ‘ہندو راشٹر پنچایت’ میں بی جے پی لیڈر اوریونائٹیڈ ہندو فرنٹ کے بین الاقوامی ورکنگ صدر جئے بھگوان گوئل نے علاقے میں مسلمانوں کو مکانات فروخت نہ کرنے اور ان کے ساتھ کوئی کاروبار نہ کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ان کا مقصد شمال–مشرقی دہلی کو پہلا ‘ہندو راشٹر ضلع ‘ بنانا ہے۔ پولیس نے تقریب کی منظوری نہ لینےکے حوالے سے مقدمہ درج کر لیا ہے۔
کشمیر میں میڈیا بلیک آؤٹ اور ریاستی جبر پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے 15 مارچ کو گاندھی پیس فاؤنڈیشن میں ایک سیمینارہونے والاتھا۔ چند روز قبل ہی بھارت میں فاشزم کے موضوع پر ایک اور سیمینار کوپولیس نے منظوری نہیں دی، منتظمین نے اسے دہلی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا، پھر پولیس کے فیصلے کو رد کیاگیا۔
گزشتہ 4 فروری کو ساکیت ڈسٹرکورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج ارول ورما نے جامعہ تشدد کیس میں شرجیل امام، آصف اقبال تنہا ، صفورہ زرگر اور آٹھ دیگر کو بری کر دیا تھا۔ جج ورما نے پایا تھا کہ پولیس نے ‘حقیقی مجرموں’ کو نہیں پکڑااور ان ملزمین کو ‘قربانی کا بکرا’ بنانے میں کامیاب رہی۔
سال 2019 کے جامعہ تشدد کے سلسلے میں درج ایک معاملے میں شرجیل امام، صفورہ زرگر اور آصف اقبال تنہا سمیت 11 لوگوں کو بری کرنے والے کورٹ کے فیصلےمیں کہا گیا ہے کہ معاملے میں پولیس کی طرف سے تین ضمنی چارج شیٹ دائرکرنا انتہائی غیر معمولی واقعہ تھا۔ اس نے ضمنی چارج شیٹ داخل کرکے ‘تفتیش’ کی آڑ میں پرانے حقائق کو ہی پیش کرنے کی کوشش کی۔
جامعہ نگر علاقے میں دسمبر 2019 میں ہوئے تشدد کے سلسلے میں درج ایک معاملے میں شرجیل امام، صفورہ زرگر اور آصف اقبال تنہا سمیت11 افراد کو الزام سے بری کرتے ہوئے دہلی کی عدالت نے کہا کہ چونکہ پولیس حقیقی مجرموں کو پکڑنے میں ناکام رہی، اس لیے اس نے ان ملزمین کو قربانی کا بکرا بنا دیا۔
یہ معاملہ آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کے اگست 2020 میں کیے گئے ایک ٹوئٹ سے متعلق ہے، جس میں انہوں نے ایک صارف کی پروفائل پکچر شیئر کرتے ہوئے پوچھا تھا کہ کیا اپنی پوتی کی تصویر لگاکر قابل اعتراض زبان کا استعمال کرنا ٹھیک ہے۔ اس کے بعد صارف نے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی تھی۔
دہلی دنگوں کے معاملے میں یو اے پی اے کے تحت گرفتار عمر خالد نے اپنی بہن کی شادی کے پیش نظر دو ہفتے کے لیے عبوری ضمانت مانگی تھی۔ عدالت نے انہیں 23 سے 30 دسمبر تک کے لیے ضمانت دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس میں مزید توسیع کا مطالبہ نہ کریں۔
بک ریویو: تحریک کے ساتھ ہی تحریکوں کو دستاویزی پیرہن عطا کرنا ایک اہم اور ذمہ دارانہ کام ہے۔ صحافی مندیپ پنیا نے زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی تحریک کے سفر کو تخلیقی انداز میں حقائق کے ساتھ پیش کرکے اس سمت میں کوشش کی ہے۔
دسمبر 2019 کو شہریت قانون کے خلاف ہوئے مظاہرہ کے بعد دہلی پولیس نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کیمپس میں گھس کر لاٹھی چارج کیا تھا، جس میں تقریباً 100 لوگ زخمی ہوئے تھے۔ وہیں، ایک اسٹوڈنٹ کے ایک آنکھ کی روشنی چلی گئی تھی۔
دہلی فسادات سے متعلق معاملوں میں یو اے پی اے کے تحت گرفتار عمر خالد نے اپنی بہن کی شادی کے پیش نظر دہلی کی ایک عدالت میں دو ہفتے کی عبوری ضمانت کے لیے درخواست دائر کی ہے۔ اس کی مخالفت کرتے ہوئے پولیس نے کہا کہ اس کی رہائی سے ‘معاشرے بدامنی’ پھیل سکتی ہے۔
بی جے پی لیڈر امت مالویہ کی شکایت پر دہلی پولیس نے دی وائر کے دفتر اور بانی مدیران کے گھروں کی تلاشی لیتے ہوئےمختلف الیکٹرانک آلات ضبط کیے تھے۔ایڈیٹرز گلڈ نے دہلی پولیس سے تحقیقات میں غیر جانبدار رہنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایسے طریقے اختیار نہ کریں جس سے جمہوری اصولوں کی توہین ہو۔
بی جے پی لیڈر امت مالویہ کی شکایت پر دہلی پولیس نے 31 اکتوبر کو دہلی میں دی وائر کے دفتر اور بانی مدیرسدھارتھ وردراجن، ایم کے وینو، ڈپٹی ایڈیٹر جہانوی سین کے علاوہ ممبئی میں سدھارتھ بھاٹیہ اور پروڈکٹ کم بزنس ہیڈ متھن کدامبی کے گھر کی تلاشی لی تھی اورمختلف الیکٹرانک آلات اپنے قبضے میں لیے تھے۔
عدالتوں میں انصاف اب استثنائی بنتا جا رہا ہے، بالخصوص جب انصاف مانگنے والے مسلمان ہوں یا مودی حکومت کے ناقدین ہوں یا پھر مخالفین۔
دہلی ہائی کورٹ نے ضمانت دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ عمر خالد کیس کے دیگر شریک ملزمان کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے اور ان کے خلاف لگائے گئے الزامات پہلی نظر میں درست ہیں ۔ دہلی پولیس کے ذریعےستمبر 2020 میں گرفتار خالد نے ضمانت کے لیے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ شمال–مشرقی دہلی میں ہوئے تشدد میں ان کا کوئی مجرمانہ رول نہیں تھا۔
دہلی پولیس کے ایک حکم نامےکے مطابق، سی آر پی سی کی دفعہ 144 نیو فرینڈس کالونی، جامعہ نگر اور اوکھلا علاقے میں 17 نومبر تک نافذ رہے گی۔ اس حکم کو ذہن میں رکھتے ہوئے جامعہ ملیہ اسلامیہ نے اپنے طلبا اور اساتذہ کو ہدایت دی ہے کہ وہ یونیورسٹی کیمپس اور اس کے آس پاس گروپ میں جمع نہ ہوں۔
اکثرسوچتا ہوں یہ اندھیری سرنگ کتنی لمبی ہے؟ کیا کوئی روشنی نظر آرہی ہے؟ کیا میں اس کے انجام کے قریب ہوں یا اب تک صرف آدھا فاصلہ طے ہوا ہے؟ یا آزمائش کا دور ابھی بس شروع ہی ہوا ہے؟
دہلی میں فرقہ وارانہ تشدد کی سازش کرنے کے الزام میں اسٹوڈنٹ لیڈعمر خالد ستمبر 2020 سے جیل میں ہیں۔ قید کے دو سال پورے ہونے پر ایک پروگرام میں ان کی والدہ صبیحہ خانم نے کہا کہ عمر کو نہ صرف ضمانت ملنی چاہیے بلکہ ان کے خلاف تمام معاملے بھی بند ہونے چاہیے۔
ہندوستان کی آزادی کے 75 سال کا جشن منانے کے لیے جاری ‘آزادی کے امرت مہوتسو’ کے سرکاری ذرائع ابلاغ میں ملک کے موجودہ اور واحد ‘محبوب لیڈر’ کا ہی تذکرہ کیا جا رہا ہے اور ان ہی کی تصویریں نظر آ رہی ہیں۔
انٹرویو: چار سال پرانےایک ٹوئٹ کے لیے دہلی پولیس کے ذریعے حراست میں لیے جانے کے بعد آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر نےتقریباً تین ہفتے جیل میں گزارے۔ اس دوران یوپی پولیس نے ان کے خلاف کئی مقدمات درج کیے۔ تاہم، سپریم کورٹ نے انہیں یہ کہتے ہوئے ضمانت دے دی کہ ان کی مسلسل حراست کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ان کے ساتھ علی شان جعفری کی بات چیت۔
گزشتہ دنوں یوپی میں عمل میں آئی دو گرفتاریوں سے واضح ہے کہ اظہار رائے کی آزادی اب باقی نہیں رہی۔ یا پھر جیسا کہ عیدی امین نے ایک بار کہا تھا کہ ، بولنے کی آزادی توہے، لیکن ہم بولنے کے بعد کی آزادی کی ضمانت نہیں دے سکتے۔
فیکٹ چیک ویب سائٹ آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کو ضمانت دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ انہیں مسلسل حراست میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ عدالت نے انہیں بدھ کو ہی رہا کرنے کا حکم دیا۔ اس کے ساتھ ہی ان کے خلاف اتر پردیش میں درج تمام معاملے دہلی پولیس کو تحقیقات کے لیے سونپ دیے اور یوپی حکومت کی طرف سے بنائی گئی ایس آئی ٹی کو بھی ختم کرنے کی ہدایت دی۔
کانسٹی ٹیوشنل کنڈکٹ گروپ سے تعلق رکھنے والے 72 سابق نوکر شاہوں کے ایک گروپ نے اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال کو خط لکھا ہے، جس میں فیکٹ چیک ویب سائٹ آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کو مسلسل حراست میں رکھنے اور ان کی شخصی آزادی کی خلاف ورزی پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قانون کے سامنے مساوات کے آئینی اصول کے پیروکار کے طور پر نوپور شرما اور محمد زبیر کے درمیان امتیازی سلوک کا مشاہدہ کرناانتہائی پریشان کن ہے۔