ویڈیو: چھتیس گڑھ کے صحافی مکیش چندراکر نے اگست 2024 میں دی وائر ہندی پر ‘بستر کے صحافیوں کی آندھرا پردیش میں گرفتاری’ کی رپورٹ شائع ہونے کے اگلے روز کہا تھا کہ ریاست کے ایک سینئر پولیس افسر نے اس خبر پر اعتراض کیا تھا۔ اس بارے میں دی وائر ہندی کے مدیر آشوتوش بھاردواج سے ذیشان کاسکر کی بات چیت۔
چھتیس گڑھ کے بستر ڈویژن کے صحافی مکیش چندراکر کےقتل کو حال ہی میں ان کے ذریعے کی گئی ایک رپورٹ سے جوڑا جا رہا ہے، جس میں انہوں نے دیگر صحافیوں کے ساتھ بیجاپور کے گنگالور سے نیلسنار تک 120 کروڑ روپے کی لاگت سے بن رہی سڑک میں گڑبڑی کے بارے میں بتایا تھا۔
بستر کے صحافی مکیش چندراکر کے قتل معاملہ کو حال ہی میں ان کے ذریعے کی گئی ایک رپورٹ سے جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے۔ میڈیا تنظیموں نے اس قتل کے بعد صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ قتل کے ذمہ دار لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
پچھلی ڈیڑھ دہائی میں ماؤ واد سے مقابلے کے نام پر بستر میں ڈھیر ساری پونجی پہنچی ہے، ٹھیکیدار پنپ چکے ہیں اور بہت سے تعمیراتی کام شروع ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان سے وابستہ منافع کی تار کو ہلانے کی کوئی بھی کوشش مہلک ہوگی۔ اس لیے اس حملہ آور کے پہلے نشانے پر بستر کے صحافی آ جاتے ہیں۔
راج شیکھر کا کام نصف صدی سے زیادہ پر محیط ہے، جس کے دوران انہوں نے دلتوں کے جذبات اور مسائل کی انتھک نمائندگی کی ہے، اپنے پلیٹ فارم کا استعمال کرتے ہوئے اعلیٰ ذات کی بالادستی کو چیلنج کیا۔ جرنل دلت وائس کو انہوں نے 1981 میں قائم تھا۔ ان کا جرنل ہندوستان کے انسانی حقوق سے محروم سبھی طبقات کے ترجمان کے طور پر کام کرتا تھا۔
کانگریس لیڈر ڈولی شرما نے بی جے پی لیڈر اتل گرگ پر الزام لگائے تھے، جس کی بنیاد پر غازی آباد کے صحافی عمران خان نے اپنے اخبار میں خبر شائع کی تھی۔ یوپی پولیس نے اسے ہتک عزت کا معاملہ مانتے ہوئے عمران کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا ہے۔
جی ایس ٹی چوری کے مبینہ کیس میں گرفتار سینئر صحافی مہیش لانگا کے خلاف گجرات میری ٹائم بورڈ کے خفیہ دستاویز رکھنے کے الزام میں بھی ایک مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اس پر میڈیا اداروں کا کہنا ہے کہ صحافیوں کو کام کے دوران حساس دستاویز کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے لیے تعزیری کارروائی شروع کرنا تشویشناک ہے۔
احمد آباد میں گرفتار کیے گئے صحافی مہیش لانگا کے وکیل نے کہا ہے کہ جس کمپنی (ڈی اے انٹرپرائز) کا نام ایف آئی آر میں درج ہے، ان کے موکل نہ تو اس کے ڈائریکٹر ہیں اور نہ ہی پروموٹر۔
احمد آباد میں دی ہندو کے صحافی مہیش لانگا کو مبینہ جی ایس ٹی گھوٹالے سے متعلق معاملے میں گرفتار کیا گیا ہے، حالاں کہ اس سے متعلق ایف آئی آر میں وہ نامزد نہیں ہیں۔ دی ہندو کا کہنا ہے کہ مہیش کی گرفتاری کا ان کی طرف سے کی گئی رپورٹ سے کوئی تعلق نہیں لگتا ہے۔
جھارکھنڈ کے آزاد صحافی روپیش کمار سنگھ کو 17 جولائی 2022 کو ماؤ نوازوں سے مبینہ تعلقات کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان دو سالوں میں انہوں نے اب تک چار جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی ہیں۔ پڑھیے جدوجہد کی یہ کہانی …
اتراکھنڈ پولیس نے انکتا بھنڈاری قتل کیس میں انصاف کے لیے آواز اٹھانے والے آزاد صحافی اور ‘جاگو اتراکھنڈ’ کے مدیر آشوتوش نیگی کو گرفتار کرتے ہوئے کہا کہ اسے ان جیسے نام نہاد سماجی کارکنوں کی منشا پر شبہ ہے۔ ان کا ایجنڈا انصاف کا حصول نہیں بلکہ معاشرے میں انارکی پھیلانا اور تنازعہ پیدا کرنا ہے۔
مہاراشٹر کے پونے شہر کا واقعہ۔ بی جے پی کے سینئر لیڈر لال کرشن اڈوانی کو ‘بھارت رتن’ سے نوازے جانے کے بعد ان کے اور وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف مبینہ قابل اعتراض تبصرے کرنے کے لیے واگلے نشانے پر آگئے ہیں۔ واگلے نے اس حوالے سے سوشل سائٹ ایکس پر تبصرہ کیا تھا۔ اس سلسلے میں ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
ہندوستان کا صحافی اس وقت ایودھیا میں بھگوان رام کے ساتھ مصروف ہے۔ اس کو اب حکمران جماعت کے ایجنڈے کو چلانے اور اقتدار میں حکومت کے بجائے اپوزیشن سے سوال کرنے سے ہی فرصت نہیں ملتی ہے، تو کیسے پڑوسی کا حال دریافت کرنے پہنچ جائے گا۔
ویڈیو: کانگریس لیڈر راہل گاندھی کے حوالے سے ٹی وی میڈیا میں تقریباً دو دہائی تک کام کر چکے دیاشنکر مشرا کی کتاب کے رسم اجرا کی تقریب میں دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی کا اظہار خیال۔
ویڈیو: تقریباً دو دہائیوں تک ٹی وی میڈیا میں کام کرنے والے دیا شنکر مشرا کا کہنا ہے کہ کانگریس کے رکن پارلیامنٹ راہل گاندھی پر کتاب لکھنے کا ان کا فیصلہ جس صحافتی ادارے میں وہ کام کرتے تھے اسے پسند نہیں آیا، جس کی وجہ سے انہوں نے یہ نوکری چھوڑ دی۔ ان سے دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی کی بات چیت۔
بک ریویو: 1989 میں انگلینڈ کی صحافی جون اسمتھ کی تحریر کردہ ‘مساجنیز’ زندگی کے ہر شعبے — عدالت سے لے کر سنیما تک میں عام اور رائج خواتین کی تضحیک کی چھان بین کرتی ہے۔ ہندوستانی تناظر میں دیکھیں تو خواتین کی تضحیک کا یہ دائرہ لامحدود نظر آتا ہے۔
آلٹ نیوز کے صحافی محمد زبیر کے خلاف مظفر نگر کے اسکول کے مسلمان طالبعلم کو ساتھی طالبعلموں کے ذریعے زدوکوب کرنے سے متعلق ویڈیو شیئر کرکے طالبعلم کی شناخت ظاہر کرنے کے الزام میں کیس درج کیا گیا ہے۔ زبیر نے اس کو ‘بدلے کی سیاست’ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے این سی پی آر کے کہنے کے بعد مذکورہ ویڈیو ہٹا دیا تھا۔
چند سال قبل اپنا یوٹیوب چینل شروع کرنے کے بعد سےتلنگانہ کی فری لانس صحافی تلسی چندو کو آن لائن ٹرولنگ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان کے ویڈیوکی وجہ سے انہیں’اینٹی ہندو’، ‘اربن نکسل’ اور ‘کمیونسٹ’ کے طور پر برانڈ کیا جا رہا ہے۔ اب ان کو جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی ملنے لگی ہیں۔
وفاتیہ: بزرگ صحافی شیتلا سنگھ نہیں رہے۔صحافت میں سات دہائیوں تک سرگرم رہتے ہوئے انہوں نے ملک اور بیرون ملک راست گفتارکی سی امیج اور شہرت حاصل کی اور اپنی صحافت کو اس قدرمعروضی بنائے رکھا کہ مخالفین بھی ان کے پیش کردہ حقائق پر شک و شبہ کی جرأت نہیں کرتے تھے۔
ویڈیو: تقریباً تین ماہ قبل زی نیوز میں اسسٹنٹ نیوز ایڈیٹر کے طور پر کام کرنے والے ددن وشوکرما نے نوئیڈا فلم سٹی میں کئی میڈیا اداروں کے دفاتر کے درمیان ایک اسٹال لگا کر پوہا بیچنے کا شروع کیا ہے اور اس کا نام ‘پترکر پوہا والا’ رکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب انہیں طویل عرصے تک کسی نے نوکری نہیں دی تو آخر کار انہوں نے اپنا کاروبار شروع کرنے کا سوچا۔ ان کی کہانی۔
واقعہ سنبھل کے بدھ نگر کھنڈوا گاؤں کا ہے، جہاں 11 مارچ کو ثانوی تعلیم کی وزیر مملکت (آزادانہ چارج) گلاب دیوی ایک تقریب میں شرکت کے لیے پہنچی تھیں۔ یہاں ایک مقامی صحافی سنجے رانا نے ان سے گاؤں میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کے بارے میں سوال کیا۔ اس کے بعد بی جے وائی ایم لیڈر کی شکایت پر رانا کو گرفتار کیا گیا ہے۔
ویڈیو: صحافی دیویندر کھرے کو 26 فروری کی شام کو اتر پردیش کے شہر جونپور میں نامعلوم حملہ آوروں نے گولی مار دی، جس سے وہ زخمی ہو گئے۔کھرے نے الزام لگایا کہ یہ حملہ بی جے پی کے ضلع صدر پشپ راج سنگھ کے بھائی ریتوراج سنگھ نے کرایا تھا۔ یاقوت علی کی رپورٹ۔
اتر پردیش کے شہر جونپور میں26 فروری کی شام کو ایک نیوز چینل کے نمائندہ دیویندر کھرے پر گولیاں چلائی گئیں، جس میں وہ زخمی ہو گئے۔ ان کی شکایت پر بی جے پی ضلع صدر پشپ راج سنگھ کے بھائی ریتوراج سنگھ اور دیگر کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
مہاراشٹر کے رتناگیری سے شائع ہونے والے ایک مقامی اخبار میں مجرمانہ پس منظر والے مقامی لینڈ ایجنٹ کے بارے میں خبر لکھنے کے کچھ ہی گھنٹوں کے بعدششی کانت واریشے نامی صحافی کو اس ایجنٹ نے کار سے کچل دیا، بعد میں شدیدطور پر زخمی صحافی کی ہسپتال میں موت ہوگئی۔
اڈانی گروپ کے ذریعے این ڈی ٹی وی کی حصہ داری خریدنے کے بعد این ڈی ٹی وی انڈیا کے گروپ ایڈیٹر رویش کمار نے استعفیٰ دیتے ہوئے کہا کہ عوام کو چونی سمجھنے والے جگت سیٹھ ہر ملک میں ہیں۔ اگر وہ دعویٰ کریں کہ وہ صحیح معلومات پہنچاناچاہتے ہیں تواس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی جیب میں ڈالر رکھ کر آپ کی جیب میں چونی ڈالنا چاہتے ہیں۔
سال 2016 میں بہار کے سیوان ضلع میں صحافی راج دیو رنجن کا قتل کر دیا گیا تھا۔ سیوان سے چار بار رکن پارلیامنٹ رہےمرحوم محمد شہاب الدین قتل کے ملزمین میں سے ایک تھے۔ گزشتہ چھ سال سے معاملے میں سی بی آئی کی تحقیقات چل رہی ہے اور رنجن کے اہل خانہ انصاف کے انتظار میں ہیں۔
کیرالہ کی سابق وزیر صحت اور کمیونسٹ پارٹی آف مارکسسٹ کی سینئر لیڈر کے کے شیلجا نے کہا کہ انہوں نےاس ایوارڈکو لینے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ اسے حاصل کرنے میں انفرادی طور پر کوئی دلچسپی نہیں رکھتی ہیں۔
ہر دو تین ماہ بعد سیکورٹی ایجنسیاں کشمیر میں کسی نہ کسی صحافی کےدروازے پر دستک دینے پہنچ جاتی ہیں،اور یہ منظر خود بخود دوسروں کےذہنوں میں خوف پیدا کر دیتا ہےکہ اگلی باری ان کی ہو سکتی ہے۔
صحافی رعنا ایوب کے جس ٹوئٹ پر پابندی عائد کی گئی ہے، وہ 9 اپریل 2021 کو پوسٹ کیا گیا تھا۔ اس میں انہوں نے وارانسی میں گیان واپی مسجد کے سروے کی اجازت دینے کے ٹرائل کورٹ کے فیصلے پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا تھا۔
صحافی اور کالم نگار سی جے ورلیمین ‘اسلامو فوبیا’ اور دہشت گردی جیسےموضوعات پر لکھنے کے لیے معروف ہیں۔ ورلیمین نے کہا ہے کہ نریندر مودی کی انتہا پسند اور ہندو فسطائی حکومت کے مطالبے پر ہندوستان میں ان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
یہ واقعہ بیگوسرائے ضلع کے بکھری تھانہ حلقے کا ہے، جہاں 20 مئی کی رات کو ایک شادی کی تقریب سے لوٹ رہے 26 سالہ صحافی سبھاش کمار مہتو کو گولی مار دی گئی ۔ اہل خانہ اور دوستوں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ شراب اور ریت مافیا کے سلسلے میں کی جانے والی رپورٹنگ ہے۔ حالاں کہ، پولیس نے اس کی تردید کی ہے۔
انڈیا رائٹرز نامی ویب سائٹ اور میگزین کے ایڈیٹر نیلیش شرما کو کانگریس لیڈر کی شکایت پر گرفتار کیا گیا تھا۔ انہوں نے الزام لگایا تھاکہ شرما بھوپیش بگھیل حکومت کے خلاف اپنے کالم میں طنزیہ مضامین لکھتے ہیں۔ اب پولیس نے ان کے خلاف جسم فروشی کے دھندے میں ملوث ہونے کا معاملہ درج کیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ ان کے فون سے فحش مواد ملے ہیں۔
کانگریس کے ایک رہنما نے انڈیا رائٹرز نامی ویب سائٹ اورمیگزین کے ایڈیٹر نیلیش شرما کے خلاف شکایت درج کرائی ہے۔ان کا الزام ہے کہ نیلیش نے اپنے کالم ‘گھروا کی ماٹی’ میں جن افسانوی کرداروں کا ذکر کیا ہے وہ کانگریس کے رہنما اور وزیروں سے ملتے جلتے ہیں۔
شوپیاں کےایگزیکٹیو مجسٹریٹ نےگرفتاری وارنٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ گوہر گیلانی لگاتارعوامی امن وامان کو متاثرکر رہے ہیں۔ انہیں 7 فروری کو عدالت میں پیش ہونے کے لیے بلایا گیا تھا، لیکن وہ حاضر نہیں ہوئے۔
سیاست، ثقافت اور معاشرت ہر موضوع پر کمال باتیں کرتے تو اپنا الگ نقش چھوڑ جاتے۔ ان کی قصہ گوئی کا اندازمسحور کن تھا اور ان میں خبروں کو سونگھنے کی فطری صلاحیت تھی۔
سینئر صحافی اور این ڈی ٹی وی انڈیا کے ایگزیکٹو ایڈیٹر کمال خان کاجمعہ کو لکھنؤ میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوگیا۔ وہ اپنی نفاست، شگفتہ بیانی، شائستہ گوئی اور زبان وبیان پرعبورکےلیے معروف تھے۔
’یہ کہنا شاید صحیح نہیں کہ ہمیں اپنے اسلاف کے کارناموں کا علم نہیں ‘ لیکن کیا کیجیے کہ ہم اپنے کلچر ہیرو کو کہانیوں میں تلاش کرتے پھرتے ہیں۔منشی نولکشورکو میں کلچر ہیرو کے طور پر جانتا ہوں کہ انہوں نے کتابوں کی صورت آب حیات کے چشمے جاری کیے۔‘
جموں وکشمیر ہائی کورٹ نے یہ بھی کہا کہ اس طرح ایف آئی آر درج کرنا صحافی کو ‘چپ کرانے’ کا طریقہ تھا۔ صحافی کی ایک رپورٹ 19اپریل2018 کو جموں کےایک اخبار میں شائع ہوئی تھی، جو ایک شخص کو پولیس حراست میں ہراساں کرنے سے متعلق تھی۔ اس کو لےکر پولیس نے ان پر کیس درج کیا تھا۔
منی پور کےصحافی کشورچندر وانگ کھیم نے بی جے پی صدرایس ٹکیندرسنگھ کی کووڈ 19 مہاماری سے موت کے بعد فیس بک پر ایک طنزیہ پوسٹ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ گئوموتر(گائے کا پیشاب) اور گوبر کام نہیں آیا۔گزشتہ مئی مہینے میں گرفتاری کے فوراً بعد انہیں ضمانت مل گئی تھی، لیکن انتظامیہ نے انہیں جیل میں ڈال کر این ایس اے لگا دیا تھا۔
منی پور بی جے پی کے صدرسیکھوم ٹکیندر سنگھ کی کورونا انفیکشن سے موت کے بعدصحافی کشورچندر وانگ کھیم اور کارکن ایریندرو لیچومبام نے اپنے فیس بک پوسٹ کے ذریعے سرکار کو نشانہ بناتے ہوئے لکھا تھا کہ کورونا کا علاج گائےکا پیشاب یاگوبر نہیں بلکہ سائنس ہے۔