دہلی تشدد کا کوئی’ہندو‘یا’مسلم‘حزب نہیں ہے، بلکہ یہ لوگوں کوفرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم کرنے کی ایک گھناؤنی سیاسی چال ہے۔ 2002 کے فسادات نے بی جے پی کوگجرات میں ناقابل تسخیر بنا دیا۔ گجرات ماڈل کے اس بےحد اہم پہلو کو اب دہلی میں اتارنے کی کوشش زور شور سے شروع ہو گئی ہے۔
دہلی میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد شہریت قانون (سی اے اے)مخالفین اورسی اے اے حامیوں یا دو حزبوں کے درمیان سڑک پر ہوئی آپسی لڑائی ہے-بڑے میڈیااداروں کے ذریعے آگے بڑھائے جا رہے اس نیریٹو سے کسی غلط فہمی میں مت پڑیے۔ اورخدا کے واسطے وزیر مملکت برائے داخلہ جی کشن ریڈی کے اس مضحکہ خیز دعوے پر بھی یقین مت کیجئے کہ دہلی میں ہوئے تشدد ‘ہندوستان کو بدنام کرنے کی سازش’ہے۔
دہلی کے فسادات میں مرنے والوں کی تعداد جبکہ 40 سے اوپر پہنچ گئی ہے، ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ شمال مشرقی دہلی کے مختلف حصوں میں سی اے اے کی مخالفت کر رہی عورتوں اور بچوں پر-جن میں سے زیادہ تر مسلمان ہیں-جنونی طریقے سے تشددبرپاکئے جانے سے پہلے کے 70 دنوں میں قومی راجدھانی پوری طرح سے پرامن رہی تھی۔مختلف جگہوں پر ہوئے 70 دنوں کے ان پر امن مظاہروں کے دوران کسی گروہ بند بھیڑ نےکوئی دنگا فساد نہیں کیا، کہیں پتھربازی نہیں ہوئی، دکانوں اور گھروں کو جلانے کاواقعہ نہیں دیکھا گیا۔ ہمارے سامنے صرف ہاتھوں میں ترنگا اور آئین کی تمہید لئےامبیڈکر، مہاتما گاندھی اور مولانا آزاد جیسی عظیم شخصیات کی تصویروں کی صحبت میں دھرنا پر بیٹھے لوگوں کی تصویریں آئیں۔
سوال ہے کہ آخر پھر شہر میں اچانک تشدد کی لپٹیں کیسے اٹھ گئیں؟ کون ایساچاہتا تھا؟ کس نے ایسا ہونے دیا؟ اب تک یہ بالکل صاف ہو چکا ہے کہ گزشتہ دنوں کےتشدد اور فرقہ وارانہ فسادات صاف طور پر بی جے پی رہنما کپل مشرا کے ذریعے دہلی پولیس کے سامنے مظاہرین کے خلاف براہ راست کارروائی کے اعلان کے بعد ہوئے۔مرکزی وزیر داخلہ کو رپورٹ کرنے والی دہلی پولیس نہ صرف اشتعال انگیزتقاریر پر بلکہ اس کے بعد پھیلے تشدد پر بھی لگام لگانے میں ناکام رہی۔ مشرا کےلفظوں سے مشتعل ہوکر ہندوتووادیوں اور بلوائیوں کے گروہوں نے شمال مشرقی دہلی کےایک سی اے اے مخالف مظاہروں پر حملہ کر دیا اور اس طرح سے اپنی دفاع کے نام پر تشدد کرنے کا سلوا جڈوم کا ماڈل دہلی کی زمین پر ظاہر ہو گیا۔
ایک آزادانہ تفتیش سے یقینی طور پر یہ پتہ چلےگا کہ آخر شرپسند بھیڑ کو جمع کرنے کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا کیونکہ ایسے گروہ خودبخود تیار نہیں ہوتے۔ قیاس آرائی ہےکہ اپنے اوپر حملہ ہونے پر مظاہرین نے-جو پچھلے کئی دنوں سے پر امن دھرنا پر بیٹھےہوئے تھے-جوابی کارروائی کی۔ لیکن یہ معاملہ یہیں ختم ہو جاتا اگر دہلی پولیس نےاپنا اور مرکزی وزیر داخلہ نے اپنا کام کیا ہوتا۔بڑے میڈیا نے سی اے اے مخالف دھرنا پر ایک ہندوتووادی گروہ کے ذریعے جمع کی گئی فسادی بھیڑ کے تشددآمیز حملے کو سی اے اے حامیوں اور سی اے اے مخالفین کےدرمیان لڑائی’کے طور پر پیش کیا۔ لیکن جو ہو رہا تھا اس کی کڑوی سچائی اس شام اور اگلے دن تک اجاگر ہو گئی۔
اگر جمع کی گئی بھیڑ صرف سی اے اے کی حمایت میں تھی، تو وہ ‘بھارت میں رہنا ہوگا، تو جئے شری رام کہنا ہوگا ‘جیسے نعرے کیوں لگا رہے تھے؟یہ صاف تھا کہ ہندوتووادی رہنماؤں کے ذریعے اکٹھا کئے گئے دستوں کا مقصد دوسرا تھا-مسلمانوں کوڈرانا اور ان پر حملہ کرنا، پوری دہلی کو ڈر اور عدم تحفظ کے دھند میں لپیٹ دینااور شہر ہی نہیں پورے ملک کو فرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم کرنا۔دہلی میں لگی آگ اصل میں فرقہ وارانہ فساد کی آگ تھی، یہ منگل کو تب صاف ہو گیا جب شمال مشرقی دہلی کے کئی علاقوں میں مسجدوں، مسلمانوں کی دکانوں اورمسلمانوں کے گھروں کو نشانہ بنایا گیا۔
بابری مسجد کی تباہی سے ملتے جلتے ایک منظر میں کچھ شرپسند شاہدرا کے اشوک نگر کی بڑی مسجد پر چڑھ گئے، وہاں بھگوا جھنڈالگادیا اور مینار کے حصوں کو توڑنےکی کوشش کی۔ اس کے بعد انہوں نے مسجد میں آگ لگا دی۔میرے ہم پیشہ معاون ناؤمی بارٹن اور اویچل دوبے اشوک نگر میں تھے اور انہوں نے مسجدکے توڑ-پھوڑ پر ایک فوری رپورٹ بھیجی۔ آن لائن پلیٹ فارم پر بی جے پی حامیوں نےاس خبر کے فرضی ہونے کا دعویٰ کیا۔ وزیر مملکت برائے داخلہ جی کشن ریڈی نے ان نیوز پلیٹ فارموں پر کارروائی کرنے کی مانگ کی، جنہوں نے ان کے مطابق ‘ فرضی خبروں ‘کی اشاعت کی تھی۔
ظاہر ہے مودی حکومت کی نگرانی میں دہلی میں جو ہو رہا تھا، اس کی کریہہ سچائی سے انکار کرنے کی کوشش زیادہ وقت تک کامیاب نہیں ہوئی۔ آخر دی وائر کے نامہن گاروں نے ویسے ویڈیو فوٹیج جاری کئے تھے، جن کے وہ چشم دید تھے۔بعد میں یہ پتہ چلا کہ مصطفیٰ آباد میں بھی مسجدوں پر حملہ کیا گیا اور ان کو جلایا گیا۔ اس سے بھی خراب یہ تھا کہ غریب مزدور مسلم فیملی کے چھوٹے-چھوٹےگھروں کو بھی جئے شری رام کے نعرے لگانے والے نقاب پوش غنڈوں نے تباہ کر دیا۔
میرے ہم پیشہ ساتھی رگھو کرناڈ نے ان کے ہندو پڑوسیوں سے بات کی جنہوں نے اس کی گواہی دی اور یہ بھی بتایا کہ آگ زنی کرنے والوں نے ان کو بھی جئے شری رام کا نعرہ نہیں لگانے کی صورت میں جان سے مارنے کی دھمکی دی۔اگر کسی کو اب بھی لگتا ہے کہ حکومت اور پولیس کی منشا صحیح تھی اور وہ ہندوستان کو بدنام کرنے کی ناقابل یقین سازش سے لڑ رہے تھے، تو رات 1:42 بجے دہلی ہائی کورٹ کے حکم کے بعد ان کی ہر غلط فہمی دور ہو جانی چاہیے۔
فساد کے شکارتقریباً 20 لوگ مصطفیٰ آباد کے ایک چھوٹے سے ہاسپٹل- الہند ہاسپٹل-میں زخمی حالت میں بھرتی تھے، جن کو مناسب علاج کے لئے سرکاری ہاسپٹل گرو تیغ بہادر ہاسپٹل لےکر جانے کی ضرورت تھی۔الہند ہاسپٹل کے ڈاکٹر 4 بجے سے ہی مریضوں کو صحیح سلامت نکالنے کے لئے پولیس سے ایمبولینس کو اسکارٹ مہیا کرانے کی مانگکر رہے تھے، کیونکہ ہندوتووادی گروہ سے ان کو لگاتاردھمکیاں مل رہی تھیں۔ لیکن پولیس نے ان کی کوئی مدد نہیں کی۔
ناامید ہوکر انہوں نے ایک وکیل کی مدد سے ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایااور جسٹس مرلی دھر نے اپنے گھر میں ہی بلائی گئی خاص عدالت میں معاملے کی سماعت کی اور پولیس کو زخمی لوگوں کو محفوظ باہر نکالنے کا انتظام کرنے کا حکم دیا۔
سال 1984 اور 2002 سے 2020 تک
جسٹس مرلی دھر نے بدھ کی دوپہر کو بی جے پی رہنماؤں کے اشتعال انگیزبیانات پر نوٹس تک لینے میں ناکام رہنے کے لئے دہلی پولیس کو پھٹکار لگائی۔ ان کومعلوم تھا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔آخر وہ وہی جج تھے، جنہوں نے 1984 کے سکھ قتل عام کے لئےکانگریس رہنما سجن کمار کو جیل بھیجا تھا۔ اور شاید یہی وجہ تھی کہ مرکز نے فوراًپنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ میں ان کے تبادلے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔
کیا تین دنوں تک دہلی میں جو ہوا، اس میں اور فرقہ وارانہ تشدد کے پچھلےواقعات میں کوئی یکسانیت ہے؟ہاں ہے۔راجدھانی میں یہ سب 1984 میں دیکھا تھا جب اندراگاندھی کے قتل کے بعد کانگریس حکومت کی نگرانی میں ہزاروں سکھوں کا قتل عام ہواتھا۔ہو سکتا ہے کہ راجیو گاندھی نام نہاد طور پر ‘ ناتجربہ کار ‘ رہے ہوں،لیکن ان کے وزیر داخلہ نرسمہا راؤ کوئی نوسکھیا نہیں تھے اور دہلی پولیس کے پاس اچھا-خاصا تجربہ تھا۔ لیکن پھر بھی انہوں نے 3000 سے زیادہ لوگوں کا قتل عام ہونے دیا۔
سال 2002 میں نریندر مودی وزیراعلیٰ کے طور پراس ریاستی حکومت کی قیادت کر رہے تھے، جس میں انہوں نے ہندوتووادی فسادیوں کےہاتھوں ایک ہزار سے زیادہ معصوم مسلمانوں کا قتل ہونے دیا۔ 1984 اور 2002 میں پولیس تشدد کی خاموش تماشائی بنی رہی کیونکہ اس کو معلوم تھا کہ فسادی بھیڑ کو حکمراں جماعت کی اعلانیہ اجازت حاصل ہے۔ 2020 کی دہلی اس سے الگ نہیں ہے۔
خون میں پھیلا زہر
لوگ یہ سوال پوچھ سکتے ہیں کہ نریندر مودی، امت شاہ اور بی جے پی ایک ایسے وقت میں تشدد ہونے کی اجازت کیوں دیںگے، جب وہ ڈونالڈ ٹرمپ کی میزبانی کر رہے تھے؟اتفاق کی بات ہے کہ کانگریس حکومت کو بھی اس وقت جب دنیا بھر کے رہنما اندرا گاندھی کی آخری رسوم کی ادائیگی کے لئے دہلی میں جمع ہوئے تھے، دہلی کی سڑکوں پر نسلی قتل عام کی نمائش کرنے سے کوئی دقت نہیں ہوئی۔ پھر بھی یہ سوال اپنی جگہ پر قائم ہے کہ آخر کیوں مودی اینڈ کمپنی اپنے ہی انعقاد کو نقصان پہنچانا چاہیںگے؟
اس کا جواب بہت آسان ہے۔ کیا آپ کو مینڈک اور بچھو کی کہانی یاد ہے؟ ایک مینڈک ایک بچھو کو ندی پار کرانے میں مدد کرتا ہے، لیکن وہ بچھو اس مینڈک کو ہی ڈنک مار دیتا ہے۔ جب دونوں ڈوبنے لگتے ہیں، تو مینڈک چلاتا ہے کہ تم نے مجھے ڈنک کیوں مارا؟ اب ہم دونوں مر جائیںگے۔ تب بچھو اپنا کندھا اچکاتے ہوئے کہتا ہے، میں کیا کر سکتا ہوں، یہ میری فطرت میں ہے۔
حقیقت یہ ہے پولرائزیشن کی سیاست بی جے پی کی فطرت میں ہے اور بھلے یہ فرقہ وارانہ زہر ہندوستان کے لئے ایک شرمندگی کا سبب بن جائے، لیکن وہ اس سے باز نہیں آسکتے ہیں۔مودی اور شاہ کے لئے امریکی صدر کا دورہ سال میں ایک بار ہونے والا پروگرام ہے، لیکن سیاست، انتخابی تشہیر اور ووٹ بینک کی تعمیر ایک مسلسل چلنے والا اور کبھی نہ ختم ہونے والا منصوبہ ہے۔
حال میں ختم ہوئے دہلی اسمبلی انتخابات ایک واضح فرقہ وارانہ ایجنڈے پر لڑا گیا۔ انہوں نے ایسے انتخابی اشتہار دیے، جو کھلے طور پر فرقہ وارانہ قسم کے تھے۔ بی جے پی رہنماؤں نے سوشل میڈیا پر کھلکر مسلم مخالف میمس اور تصویریں شیئر کیں ۔
ان الفاظ اور تصویروں کا ایک مستقل پیغام یہ تھا کہ مسلمان غدار ہیں اور غداروں کو گولی مار دینی چاہیے۔ بی جے پی کے لئے بدقسمتی کی بات یہ رہی کہ دہلی کے رائےدہندگان اس نفرت بھری مہم کے جھانسے میں نہیں آئے اور بھلے بھگوا پارٹی کے ووٹ شیئر میں کچھ فیصد کا اضافہ ہوا، لیکن پھر بھی اس کو عام آدمی پارٹی کے ہاتھوں کراری شکست جھیلنی پڑی۔لیکن اپنے فرقہ وارانہ ایجنڈے پر عام آدمی پارٹی کی چپی میں بی جے پی کو ایک سیاسی امکان دکھائی دی۔
پارٹی کے مقامی رہنماؤں نے یہ حساب لگایا کہ اگر ہم مسلمانوں کے خلاف ایک جارحانہ مہم چلاتے ہیں اور ایک فرقہ وارانہ فساد بھڑکاتے ہیں، تو عام آدمی پارٹی اس کا جواب دینے میں اہل نہیں ہوگی کیونکہ یہ ہندوتوا فیملی کی مسلم مخالف تقریر پر نہیں اتر سکتی اور نہ اس کی جارحانہ طورپر مخالفت کر سکتی ہیں۔ اور اس طرح سے ایک پولرائزڈ ماحول میں بی جے پی ایک بار پھر اپنے فرنٹ فٹ پر کھیل سکتی ہے۔
بی جے پی اور سنگھ پریوار کے یہاں کچھ بھی اتفاقیہ نہیں ہوتا ہے۔ نہ ہی وہ کبھی اپنے دورگامی اہداف کو آنکھوں سے اوجھل ہونے دیتے ہیں۔ سنگھ پریوار کا ہر کام سوچا سمجھا اور منصوبہ بند ہوتا ہے اور ہر فرد اور تنظیم کا کردار طے ہوتا ہے، جس کو ہر کسی کو لازمی طور پر نبھانا ہوتا ہے۔2020 کے فرقہ وارانہ فسادات بچی ہوئی بی جے پی حکومتی ریاستوں اور ظاہری طور پر مرکز میں اپنے اقتدار کو بچانے کی بی جے پی کی مہم کی شروعات بھر ہے۔ ایسے میں جبکہ معیشت میں اصلاح کا کوئی اشارہ نہیں ہے، حکمراں جماعت میں پھیل رہی ناامیدی کا خمیازہ دہلی کی عوام کو چکانا پڑا ہے۔
اس تشدد کا کوئی ‘ ہندو حزب ‘ یا ‘ مسلم حزب ‘ نہیں ہے، بلکہ یہ لوگوں کو فرقہ وارانہ بنیاد پر بانٹنے کی ایک گھناؤنی سیاسی چال ہے۔ 2002 کے فسادات نے بی جے پی کو گجرات میں ناقابل تسخیر بنا دیا۔ گجرات ماڈل کے اس بےحد اہم پہلو کو اب دہلی میں اتارنے کی کوشش زور شور سے شروع ہو گئی ہے۔
Categories: فکر و نظر