خبریں

کیا طاہر حسین کے مکان پر لڑکی کے ساتھ انہونی ہوئی؟

فیک نیوز راؤنڈ اپ : دہلی فسادات کے بعد سدرشن نیوز کی ایک رپورٹر نے دعویٰ کیا کہ وہ عام آدمی پارٹی کے کونسلر طاہر حسین کے مکان سے رپورٹ کر رہی ہیں۔ جہاں ان کوکسی خاتون کے جلے ہوئے کپڑے، انڈر گارمنٹس، جلا ہوا پرس وغیرہ ملے ہیں۔ رپورٹر نے دعویٰ کیا کہ یہاں ایک خاتون کو گھسیٹ کر لایا گیا تھا اور اس کے ساتھ زیادتی کی گئی تھی پھر اس کو قریب کے نالے میں ڈال دیا گیا۔

فوٹو: ٹوئٹر@tahirhussainaap

فوٹو: ٹوئٹر@tahirhussainaap

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں دہلی پولیس کے قہر کو آج 3 مہینے ہو گئے۔ دہلی پولیس نے 15 دسمبر کی شام یونیورسٹی کی لائبریری کو تباہ کر دیا تھا، وہاں اسٹن گرینیڈ سے طلبا پر حملے کیے گئے تھے۔ اس کے بعد شاہین باغ میں خواتین نے احتجاج شروع کر دیا۔ ان تین مہینوں میں بی جے پی اور دیگر بھگوا جماعتوں نے اس احتجاج کو بدنام کرنے کی کئی کوشش کی ہے لیکن اُن کو کامیابی نہیں ملی۔ اس کی وجہ یہ رہی کہ فسطائی جماعتوں کا یہ پرچار جھوٹ پر مبنی تھا اور فیک نیوز و پروپیگنڈہ  کا حصہ تھا۔ اور جدید تکنیکی دور میں فیک نیوز کے طلسم کو ٹوٹنے میں وقت نہیں لگتا ہے۔

fake 1

گزشتہ ہفتے بھی شاہین باغ کے نام سے ایک فحش ویڈیو شیئر کیا گیا جس میں دکھایا گیا تھا کہ ایک حجاب پوش لڑکی ایک لڑکے کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کر رہی ہے۔ اس ویڈیو کے پس منظر میں کسی خاتون کی آواز آ رہی ہے جو مسلمانوں پر ہو رہے ظلم کے حوالے سے تقریر کر رہی ہے۔ ٹوئٹر پر بابوراؤآپٹے نامی ہینڈل سے اس کو شیئر کیا گیا تھا۔

آلٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ یہ پورن ویڈیو شاہین باغ احتجاج کا نہیں ہے بلکہ یہ کافی پرانا ہے اور مختلف پورن ویب سائٹ پر موجود ہے۔ ایک عربی ویب سائٹ نوٹ پیڈ پر یہ ویڈیو 10 جولائی 2018 کو اپلوڈ کیا گیا تھا، جب کہ شاہین باغ کا احتجاج دسمبر 2019 میں ہی شروع ہوا ہے۔ لہٰذا، یہ ویڈیو شاہین باغ احتجاج کو بدنام کرنے کے لئے عام کیا گیا تھا۔

سدرشن نیوز اور اس کے بانی سریش چہوانکے خود کو میڈیا کا اہم ستون سمجھتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں وہ ذمہ دار صحافت سے میلوں دور ہیں۔ اُن کے چینل اور اُن پر فرقہ وارانہ جذبات کو ہوا دینے کا بھی الزام ہے اور دراصل یہی اُن کی فطرت ہے۔

دہلی فسادات کے بعد سدرشن نیوز کی ایک رپورٹر نے دعویٰ کیا کہ وہ عام آدمی پارٹی کے کونسلر طاہر حسین کے مکان سے رپورٹ کر رہی ہیں۔ رپورٹر نے بتایا کہ یہاں طاہر حسین کے مکان پر کسی خاتون کے جلے ہوئے کپڑے، انڈر گارمنٹس، جلا ہوا پرس وغیرہ ملے ہیں۔ رپورٹر نے دعویٰ کیا کہ یہاں ایک خاتون کو گھسیٹ کر لایا گیا تھا اور اس کے ساتھ زیادتی کی گئی تھی پھر اس کو قریب کے نالے میں ڈال دیا گیا۔ رپورٹر محترمہ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ دہلی پولیس کو اس خاتون کا کٹا ہوا سر نالے میں ملا ہے۔ رپورٹر نے یہ تمام دعوے ایک شخص کی بنیاد پر کیے تھے جسے وہ اپنی رپورٹنگ میں چشم دید گواہ تسلیم کر رہی تھیں۔ جب رپورٹر نے اس شخص سے خاتون کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہہ دیا کہ اس نے خاتون کو نہیں دیکھا۔

سدرشن نیوز کے آفیشل ہینڈل سے 27 فروری کو اس رپورٹ کو ٹوئٹ کیا گیا تھا جس میں اُنہوں نے لکھا:

طاہر حسین کے گھر پر ملے ایک لڑکی کے جلے کپڑے، جلے بیگ اور انڈر گارمنٹس۔ اندازہ ہے کہ لڑکی کے ساتھ ہوئی ہے انہونی۔ ذرائع کے مطابق پولیس کو نالے میں ملی لڑکی کی لاش۔ لڑکی کو طاہر کے گھر میں بے رحمی سے گھسیٹ کر قتل کرنے کا شک۔

سدرشن نیوز کی اس رپورٹر کو یا اس دعوے کو ٹوئٹر ہینڈل سے ٹوئٹ کیا گیا تھا جن میں امت مالویہ ، کپل مشرا، جواہر یادو، ارون یادو وغیرہ شامل تھے۔

آلٹ نیوز نے دہلی پولیس کے جوائنٹ کمشنر ارون کمار سے رابطہ قائم کیا ٹو اُنہوں نے آلٹ نیوز کو واضح کیا کہ یہ خبر بالکل بے بنیاد ہے۔ اور یہ کہ اب تک کی تفتیش میں کسی خاتون کی باڈی چاند باغ کے نالے سے حاصل نہیں ہوئی ہے جہاں آئی بی افسر انکت کا قتل ہوا تھا۔

سی این این، نیوز 18 کی صحافی نتیشا کشیپ نے بھی اپنی رپورٹنگ میں یہی تصدیق کی کہ ابھی تک پولیس کو کسی خاتون کی ڈیڈ باڈی نالے سے حاصل نہیں ہوئی ہے۔

سدرشن نیوز کی رپورٹ جھوٹی اور مشکوک ہے۔ اُن کا چشم دید گواہ کہہ رہا ہے کہ اس نے مظلوم خاتون کو دیکھا نہیں ہے۔ دوسری بات سدرشن نیوز اور وہ گواہ موقع واردات پر موجود اشیاء کو چھو رہے ہیں جس سے ثبوت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہونے کا خطرہ ہے۔ عمدہ صحافت کی ترجمانی نہیں ہے، بلکہ گھٹیا صحافت کی مثال ہے۔ اور اپنی ان حرکتوں کی وجہ سے سریش چہوانکے ایک بار جیل بھی جا چکے ہیں۔

سدرشن نیوز کی طرح ٹائمز ناؤ نے بھی یہی کارنامہ انجام دیا جس میں انہوں نے ShaheenLynchModelہیش ٹیگ کے ذریعے مسلمانوں اور شاہین باغ میں شہریت قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو نشانہ بنایا۔

ٹائمز ناؤ کے ٹوئٹر ہینڈل سے ایک ویڈیو کلپ ٹوئٹ کیا گیا جس کے تعلق سے دعویٰ کیا گیا کہ دہلی فسادات کے دوران دہلی پولیس پر ہوئے حملوں کا یہ چوتھا ویڈیو ہے۔ ٹائمز ناؤ نے دعویٰ کیا کہ ہیلمیٹ پہنا ہوا ایک شخص پولیس پر حملہ  کرتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ یہ ثابت کیے بغیر کہ یہ کون لوگ ہیں، ٹائمز ناؤ نے اس کو شاہین لنچ ماڈل کے ہیش ٹیگ سے شاہین باغ سے جوڑ دیا۔

اسی ویڈیو کو امت مالویہ  نے اس طرح ٹوئٹ کیا:

میجر سریندر پونیہ نے ویڈیو ٹوئٹ میں اس کو دیش توڑنے کی سازش قرار دیا:

آلٹ نیوز نے اس پر تفصیلی انکشاف کیا اور پایا کہ ٹائمز ناؤ کے دعوے غلط ہیں۔ ٹائمز ناؤ نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا تھا کہ یہ نئے ثبوت ہیں۔ جب کہ آلٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ ٹائمز ناؤ کی ویڈیو کا بڑا ورژن 25 فروری کو ہی اپلوڈ کیا جا چکا تھا۔

آلٹ نیوز نے اس ویڈیو میں موجو دکانوں جین فرنیچر اور نیکسا ڈینٹل سے اس بات کو پختہ کیا کہ یہ علاقہ موج پور کا ہے اور واردات قریشی ٹاور کے نیچے ہوئی ہے۔

fake 3

آلٹ نیوز نے ویڈیو شوٹ کرنے والے شخص کو تلاش کیا اور واضح کیا کہ یہ ویڈیو 25 فروری کو 12 بج کر 12 منٹ پر 12 منٹ پر اسنیپ چیٹ پر اپلوڈ کیا گیا تھا۔ آلٹ نیوز کو یہ بھی معلوم ہوا کہ اس ویڈیو سے 2 منٹ قبل 12 بج کر 10 منٹ پر ایک اور ویڈیو اپلوڈ کیا تھا جس میں دکھایا گیا تھا کہ موج پور علاقے میں دو طرف سے پتھر بازی ہو رہی تھی۔ جو لوگ پولیس کے ساتھ تھے وہ بھی پتھر پھینک رہے تھے۔ جب کہ پولیس سامنے والی سمت پر آنسووں گیس کے گولے چھوڑ رہی تھی۔ ان گولوں سے بچنے کے لیے موج پور کے مقامی شہری گلیوں میں گھس رہے تھے۔ اور پولیس کے ساتھ موجود غنڈے اُن پر گلیوں میں گھس کر گولیاں برسا رہے تھے۔ آلٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ گولیاں مارکر یہ لوگ بائیں جانب جا رہے تھے جہاں پولیس فورس اور پولیس کی گاڑیاں کھڑی تھی اور ان دنگائیوں کی حفاظت کر رہی تھیں۔

آلٹ نیوز کو وہ وائرل ویڈیو بھی دستیاب ہوا جو کسی شہری نے قریشی ٹاور کے اندر سے شوٹ کیا تھا۔ اس میں واضح ہو جاتا ہے کہ موج پور میں کس طرح مسلم آبادی کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

لہٰذا، آلٹ نیوز کے انکشاف سے واضح ہو جاتا ہے کہ گولی مارنے والا دنگائی پولیس کو نشانہ نہیں بنا رہا تھا، بلکہ اس کے نشانے پر مقامی مسلمان شہری تھے۔

دہلی فسادات کے بعد گزشتہ ہفتے کچھ تصویریں سوشل میڈیا میں وائرل ہو گئیں۔ یہ تصویریں اس اسلحہ، تلواروں، چاقوؤں اور کرپانوں کی تھیں جو پولیس نے ضبط کی تھیں۔ ان تصویروں کو سوشل میڈیا میں عام کرتے ہوئے مختلف دعوے کیے گئے۔ کسی نے لکھا کہ یہ اسلحہ آر ایس ایس کے دہلی دفتر سے برآمد ہوا ہے۔ کچھ لوگوں نے یہ دعویٰ کیا کہ یہ اسلحہ طاہر حسین کے گھر سے ضبط کیا گیا ہے۔

fake 4

آلٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ یہ 4 تصویریں پرانی ہیں جن کی حقیقت آلٹ نیوز اپنے 2 مضامین میں واضح کر چکا ہے۔ یہ مضامین گزشتہ سال 24 جولائی اور 7 اگست کو شائع کیے گئے تھے۔

آلٹ نیوز کے مطابق پہلی تصویر خالصہ کرپان فیکٹری کی ہے جس کی تائید آلٹ نیوز نے فیکٹری کے دفتر فون کر کی کی تھی۔

دوسری، تیسری اور چوتھی تصویریں گجرات کی ہیں۔

گجرات کرائم برانچ نے گزشتہ سال ایک غیر قانونی آرمز ریکٹ کا پردہ فاش کیا تھا، یہ اسی کی تصویریں ہیں جن کا دہلی فسادات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

Categories: خبریں, فکر و نظر

Tagged as: , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,