فرانسیسی نقاد پیترک ابراہم کا تبصرہ: خالد جاوید کا ناول ’موت کی کتاب‘ اپنی گہری تاریکی اور معنوی تہہ داری کے باعث ایک عظیم تخلیقی شہ پارہ ہے۔ یہ ہمیں ہماری اپنی داخلی تاریکیوں سے روشناس کراتا ہے اور ہمیں اس بات کے لیے مجبور کرتا ہے کہ اس کا مطالعہ بار بار کیا جائے۔
گزشتہ چھ دہائیوں سے ادبی دنیا میں فعال ونود کمار شکل یکم جنوری 1937 کو راج ناندگاؤں میں پیدا ہوئے۔ وہ کئی دہائیوں سے رائے پور میں مقیم ہیں۔ ان کا شمار ان معدودے چند ادیبوں میں ہوتا ہے، جنہوں نے زبان کے نئے محاورے وضع کیے ہیں۔
حال ہی میں آئی فلم ‘ان گلیوں میں’ کے ڈائریکٹر اویناش داس کے ساتھ دی وائر کی مدیر سیما چشتی کی بات چیت۔ لکھنؤ میں سیٹ یہ فلم ایک چھوٹے سے شہر میں بین المذاہب محبت کی باریکیوں کو تلاش کرتی ہے اور اس پر معاشرے کے ردعمل کے جوہر کو پیش کرتی ہے۔ فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے والی پروپیگنڈہ فلموں کے درمیان، داس کی یہ فلم تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح آئی ہے، جو ڈیجیٹل دور میں محبت، پہچان اور سماجی اصولوں پر ایک نقطہ نظر پیش کرتی ہے۔
ورون گروور نغمہ نگار، اسکرین رائٹر اور اسٹینڈ اپ کامک کے طور پر معروف ہیں۔ تاہم، گزشتہ دنوں انہوں نے ڈائریکٹر کے طور پر اپنی ایک نئی شناخت بنائی ہے۔ اس کے علاوہ وہ ادب اطفال بھی لکھتے ہیں۔ ان سے دی وائر ہندی کے مدیر آشوتوش بھاردواج کی بات چیت۔
بک ریویو: آڈری ٹروشکی نے اپنی اس کتاب کے ذریعے ان کی درست تصویر پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ یہ کتاب ہمیں بہت سی ایسی باتیں بتاتی ہے، جو ملک کی بھگوا سیاست اور بھگوا تاریخ و صحافت ہم سے چھپاتی ہے ۔ مثلاً یہ تو بتایا جاتا ہے کہ اورنگزیب نے ہولی پر روک لگائی تھی مگر یہ چھپایا جاتا ہے کہ اورنگزیب نے عید اور بقرعید پر بھی روک لگائی تھی ۔
آپ ہی سوچیے جس قوم نے وقت کی اہمیت کو ہمیشہ بعد از وقت محسوس کیا اس کے لیے کیلنڈروں کے تکلف کی کیا ضرورت ہے۔
شیام بینگل ہر بار ایک نیا موضوع لے کر آتے تھے۔ ‘جنون’ (1979) جیسی تاریخی پس منظر والی فلم کے فوراً بعد انہوں نے ‘کلیگ’ (1981) میں مہابھارت کو بنیاد بنا کر جدید دنیا میں رشتوں کی کھوج بین کی اور پھر ‘منڈی’ (1983) میں کوٹھے کی حقیقی زندگی کی عکاسی کی۔
’گرم ہوا‘پہلی فلم تھی جس میں تقسیم ملک کے فوراً بعد ہندوستانی مسلمانوں کے تجربے کو سلیقے سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔گرم ہواکے بننے سے پہلے تک مقبول ہندی فلموں میں خاص کر مسلم کرداروں کو ٹوکن کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔
تاریخ، ادب اور صحافت کے بامعنی امتزاج کو پیش کرتی یہ تحریریں آج کے ہندوستان اور مسلمان سے مکالمہ قائم کرتی ہیں اور اس سیاست کو سمجھنے میں بھی مدد کرتی ہیں جہاں ⸺کرسی⸺ کی بنیاد ہی نفرت اور تشدد پر ٹکی ہوئی ہے۔ جس کا واحد مقصد مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کو عام کرنا، اس رویے کو نارملائز کرنا اور اپنا الو سیدھا کرنا ہے۔
لاہور اور دہلی بالکل جڑواں بہنیں لگتی ہیں۔ اگر دہلی میں کسی شخص کو نیند کی گولی کھلا کر لاہور میں جگایا جائے، تو شاید ہی اس کو پتہ چلے کہ وہ کسی دوسرے شہر میں ہے۔
’ہان‘ جنوبی کوریائی زبان کا نمائندہ لفظ ہے۔ یہ ان تمام احساسات کی ترجمانی کرتا ہے، جنہیں کوریا اپنی پہچان کی علامت گردانتا ہے۔
یو ایس اے آئی ڈی اور روم ٹو ریڈ انڈیا ٹرسٹ نے آدی واسی ادیبہ اور شاعرہ جسنتا کیرکیٹا کو ان کی کتاب ‘جرہل’ کے لیے ایوارڈ کے لیے منتخب کیا تھا۔ جسنتا نے اسرائیل کی طرف سے فلسطین کے خلاف چھیڑی گئی جنگ کے متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے اس ایوارڈ کو لینے سے انکار کر دیا ہے۔
کیفیہ فلسطینی قوم پرستی اور اس سے اظہار یکجہتی کی علامت ہے۔ امریکہ کے نوگوچی میوزیم نے گزشتہ اگست میں اعلان کیا تھا کہ اس کے ملازمین کام کے اوقات میں ایسا لباس نہیں پہن سکتے، جو ’سیاسی پیغامات، نعرے یا علامتوں‘ کا اظہار کرتے ہوں۔
طلسم بمبئی، ایک پارسی مصنف کی اُردو میں لکھی ہوئی کتاب ہے، شہر کی سیر و سیاحت کے تعلق سے جہاں اُردو میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے، وہیں کسی بھی زبان میں شہر کے لیے ابتدائی رہنما کتابوں میں بھی اس کا نام لیا جا سکتا ہے۔
پریم چند جب شہر جاتے گاؤں کی تلخیوں کو ساتھ لے جاتے، گھر گاؤں میں نہیں تھا ان کے دل میں تھا، جہاں رہتے گاؤں ان کے ساتھ رہتا، جب گاؤں میں رہتے تو شہر کی فضا ذہن کو گرفت میں لیے رہتی۔ اسکول کی عمارت ابھرتی، کتابوں کے جملے سرسراتے لیکن شہر کی تکلیف گاؤں کی تکلیف میں جذب نہیں ہوتی۔ ذہن دونوں جانب رہتا۔ دونوں طرف اذیتیں ہی تھیں۔ شہر اور گاؤں دونوں کے راستے دماغ میں ملتے تھے یہی ایک مرکز تھا۔
پین پنٹر ایوارڈ ایسے لکھاری کو دیا جاتا ہے جو اظہار رائے کی آزادی کے تحفظ کے لیے سرگرم ہیں اور اکثر اپنی جان کی پراوہ کیے بغیر اپنی آزادی کو جوکھم میں ڈالتے ہیں۔ ایک جیوری نے کہا کہ ارندھتی رائے آزادی اور انصاف کی توانا آواز ہیں، جن کی تحریریں تقریباً تیس سالوں سے بڑی وضاحت اور استقامت کے ساتھ سامنے آئی ہیں۔
ہمیں خیال آیا ‘اقبال’ عربی کا لفظ ہے۔ ہندوستان میں رہتے ہوئے عربی نام رکھنا کہاں کی حب الوطنی ہے۔ ہم نے اپنا نام ‘کنگال چند’ رکھ لیا۔ یہ نام ویسے بھی ہماری مالی حالت کی غمازی کرتا تھا۔ نہ صرف ہماری بلکہ ملک کی حالت کی بھی!
بظاہر یہ پارٹیاں مختلف تھیں۔ ان کے الیکشن نشان مختلف تھے، ان کے نعرے مختلف تھے، اصول مختلف تھے، لیکن ان سب کا نصب العین ایک تھا۔ یعنی قلیل سے قلیل مدت میں ہندوستان کو تباہ و برباد کیا جائے۔
زمانۂ قدیم کے بارے میں، وہ بھی ماضی بعید کے ایسے پہلو پر لکھنا جس کے اسرار سے بہت کم پردہ ہٹا ہے، ناولٹ کو خالص تخیل کی اڑان بنا سکتا تھا، لیکن ’سندھو‘ کی کہانی جیم عباسی نے نہایت قائل کرنے والے اور معروضی انداز میں لکھی ہے۔ کوئی تخلیق کار تاریخی بیانیے کے بین السطور میں کیا کیا پڑھ سکتا ہے، اگر سمجھنا ہو تو ’سندھو‘ کو ضرور پڑھنا چاہیے۔
ویڈیو: گزشتہ دس سالوں میں ملک کی سیاست کے ساتھ ہی ہندی سنیما میں بھی اہم تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔ جہاں ایک خاص قسم کے سنیما کو آسانی سے فنڈنگ وغیرہ مل رہی ہے، وہیں انڈسٹری کے بہت سے باصلاحیت لوگوں، خصوصی طور پر وہ لوگ جو بی جے پی کے نظریے سے اتفاق نہیں رکھتے، مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس بارے میں اداکار سشانت سنگھ سے بات کر رہے ہیں دی وائر ہندی کے مدیر آشوتوش بھاردواج۔
امین سایانی کی آواز سامعین پر جادو کرتی رہی۔ہندوستانیوں کی جانے کتنی نسلیں ہر بدھ کی شب 8 بجے نشر ہونے والے بناکا گیت مالا میں ان کی آواز کے ساتھ پروان چڑھی ہیں۔
گیان پیٹھ کے تازہ ترین اعلان میں واضح طور پر مشہور زمانہ امرت کال کی بازگشت سنی جا سکتی ہے۔ اکیڈمیاں توحکومت کے زیر سایہ کام کرتی ہیں، شاید اس لیے وقتاً فوقتاً انحراف کر سکتی ہیں، لیکن گیان پیٹھ ایوارڈ کے اعلان نے ادبی دنیا میں بڑے پیمانے پرہلچل پیدا کر دی ہے۔ سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا گیان پیٹھ نےسمجھوتے کی راہ اختیار کر لی ہے؟
مصنف ہندوستان کے ایک نامور صحافی ہیں، جو انگریزی کے مؤقر اخبار دی ہندو کے ساتھ پچھلی دو دہائی سے وابستہ ہیں۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے حوالے سے ان کی کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ پیش نظر کتاب میں تقریباً تمام موضوعات، جن میں لو جہاد، ہجومی تشدد، مساجد پر نشانہ، حجاب اور ہندوتوا وغیرہ شامل ہیں، پر بحث کی گئی ہے۔
انٹرویو: موت کے ساتھ زندگی بسر کرنے والے وارانسی کے ڈوم برادری کے لوگوں پر صحافی رادھیکا اینگر نے ‘فائر آن گنگیز: لائف امنگ دی ڈیڈ ان بنارس’ کے عنوان سے کتاب لکھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ لوگ بھی زندگی میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں، لیکن مشکلیں ایسی ہیں کہ ان کی زندگی اگلے پہرکی روٹی کی جدوجہد میں ہی گزر جا رہی ہے۔
ویڈیو: کانگریس لیڈر راہل گاندھی کے حوالے سے ٹی وی میڈیا میں تقریباً دو دہائی تک کام کر چکے دیاشنکر مشرا کی کتاب کے رسم اجرا کی تقریب میں دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی کا اظہار خیال۔
منور رانا کی شاعری میں ماضی کی آہٹوں کے ساتھ آج کی تاریخ، تہذیب اور تصویر قید ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کی ذہنی ساخت اور انفرادی احساس کا روز نامچہ ہے جس میں ایک ایک لمحے کا حال درج ہے۔
شموئل احمد (1943-2022) کی نہ صرف اردو ادب پر بلکہ عالمی ادب پر بھی گہری نظر تھی۔ شموئل احمد جیسا بے باک اور نڈر افسانہ نگار بننا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ افسانے اور ناول لکھے جاتے رہیں گے لیکن شموئل جیسا شاید ہی کوئی دوسرا پیدا ہو۔
ڈاکٹر امام اعظم کی ادب دوستی،ادب نوازی اور ادبی فعالیت قابل رشک رہی۔انہیں اردو ادب سے والہانہ عشق تھا۔
یہ ایک ڈاکٹر کے عزم اور حوصلے کی داستان ہے، یہ ایک خاندان کے مایوسی سے ابھرنے اور لوگوں میں امید کی جوت جگانے کی داستان ہے، یہ کرپشن اور ناانصافی و تعصب کے خلاف جدوجہد کی داستان ہے۔ یہ داستان پڑھی جانی چاہیے تاکہ لوگوں میں امید بندھے کہ انصاف کے لیے طاقتور لو گوں سے بھی لڑائی لڑی جا سکتی ہے، اور لڑ کر جیتی بھی جاسکتی ہے۔
بک ریویو: 1989 میں انگلینڈ کی صحافی جون اسمتھ کی تحریر کردہ ‘مساجنیز’ زندگی کے ہر شعبے — عدالت سے لے کر سنیما تک میں عام اور رائج خواتین کی تضحیک کی چھان بین کرتی ہے۔ ہندوستانی تناظر میں دیکھیں تو خواتین کی تضحیک کا یہ دائرہ لامحدود نظر آتا ہے۔
شاہ رخ خان بھلے ہی کہیں کہ ان کی دلچسپی صرف ‘انٹرٹین’ کرنے میں ہے، لیکن ان کی حالیہ فلموں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ انٹرٹینمنٹ کے ساتھ کوئی نہ کوئی پیغام دینے میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔
رائے ریاض حسین کی کتاب ‘رائے عامہ’ پاکستان کی موجودہ تاریخ کا آئینہ ہے اور یہ کتاب ایک ایسے شخص نے لکھی ہے، جس کو پاور کوریڈورز کے اندرون تک رسائی تھی۔
شاہ رخ خان کی فلم ‘جوان’ کا واضح سیاسی پیغام یہ ہے کہ جمہوریت کو ‘فعال شہریوں’ کی مسلسل نگرانی سے الگ کر کے سیاستدانوں کے بھروسے نہیں چھوڑا جا سکتا۔
ویڈیو: خدائے سخن میر ؔ کو یاد کر رہے ہیں معروف سائنس داں اور شاعرگوہر رضا
سال2021 میں 98 سال کی عمر میں ایک یہودی خاتون سیلما نے اپنے نام کو سرنامہ بناکر کتاب تحریر کی اور جرمنی اور یورپ میں 1933 سے 1945 کے درمیان یہودیوں کے حالات کو قلمبند کیا۔ ہزاروں کلومیٹر اور کئی دہائیوں کی مسافت کے باوجود یہ کتاب 2023 کے ہندوستان میں کسی نامانوس دنیا کی سرگزشت نہیں لگتی۔
حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سے مقتبس؛ کربلا والوں کے دُکھ میں شامل ہونا ہماری تہذیب کا لازمی جزو تھا۔سوگ کی اس تہذیب کے اپنے تقاضے تھے۔ میں نے تو اپنے شہر کے غیر مسلموں کو بھی اس سوگ کا حصہ بنتے دیکھا تھا۔تب ہمارے دِل نرم تھے۔عزادار جہاں سے گزرتے انہیں احترام دِیا جاتا۔
یوم وفات پر خاص: تحریک عدم تعاون کے پس منظر میں لکھی گئی نظم میں انگریزوں کے خلاف بغاوت کی پکار کے بعد نذرالاسلام ‘باغی شاعر’ کہلائے۔ استعماریت، مذہبی انتہا پسندی اور فسطائیت کے خلاف ان کی شاعری سے ہی انڈو-اسلامک نشاۃ ثانیہ کا آغاز تصور کیا جاتا ہے۔
حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سے مقتبس؛ ملک یار محمد، نیزہ بازی اور گھڑ سواری سے شہرت پانے والے کوٹ فتح خان والے ملک عطا محمد خان کے والد تھے؛ تاہم یہ بات مجھے بہت بعد میں پتہ چلی تھی۔ ملک عطا محمد خان کی شہرت ہندوستان میں ہونے والے ایشیائی کھیلوں میں پاکستان کو چاندی کا تمغہ دلانے کی وجہ سے ہوئی اور پھر اس میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ جنہیں نیزہ بازی یا گھڑ سواری میں دلچسپی نہ تھی وہ پی ٹی وی کے مشہور ڈرامے ‘الفا، براوو ،چارلی’ کی وجہ سے انہیں پہچاننے لگے تھے۔ اس ڈرامے میں انہوں نے کیپٹن فراز کے جاگیردار والد کا کردار ادا کیا تھا۔
بک ریویو: ’استفسار‘ کا یہ شمارہ ثبوت ہے اس کے مدیران کی اہلیت اور محنت کا، اور اس یقین کا کہ نیر مسعود جیسے نقاد، محقق اور فکشن نگار پر وہ ایک ایسا بھرپور اورخصوصی شمارہ نکال سکتے ہیں، جو آنے والے دنوں میں طلباء کے لیے اور شائقین ادب کے لیے ریفرنس کا ایک قیمتی ذریعہ بن سکے۔
قمر صدیقی لکھتے ہیں؛ ارتضیٰ نشاطؔ بنیادی طور پر حسیت اور عصری شعور کے شاعر ہیں۔ لیکن انھوں نے عصری سچائیوں کو سپاٹ نہیں ہونے دیا۔ آج کے دور میں گم ہوتے انسانی رشتوں کی عظمت کو ارتضیٰ نشاط نے اپنے شعری اسلوب میں زندہ کردیا ہے۔