جو لوگ یقین کرتے ہیں کہ ہندوستان اب بھی ایک جمہوریت ہے، انہیں گزشتہ چند مہینوں میں منی پور سے مظفر نگر تک رونما ہونے والے واقعات پر نگاہ کرنی چاہیے۔ وارننگ کا وقت ختم ہو چکا ہے اور ہم اپنے عوام الناس کے ایک حصے سے اتنے ہی خوفزدہ ہیں جتنے اپنے رہنماؤں سے۔
بلقیس بانو گینگ ریپ کیس میں11 قصورواروں کی سزا میں تخفیف اور قبل از وقت رہائی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت میں ایک مجرم کے وکیل کے دلائل سنتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ اس معاملے میں انہیں (مجرموں) کئی دنوں تک کئی بار باہر آنے کا موقع ملا۔
سپریم کورٹ نے بلقیس بانوکے گینگ ریپ کے مجرموں کی قبل از وقت رہائی کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ گجرات حکومت کا یہ کہنا کہ تمام قیدیوں کو اصلاح کا موقع دیا جانا چاہیے، درست ہے، لیکن کیا ایسا تمام معاملوں میں کیا جاتا ہے۔
عوام کی غالب اکثریت یکساں سول کوڈ کو مسلمانوں کے نظریے سے دیکھتی ہے۔ ان کو نہیں معلوم کہ دیگر فرقے بھی اس کے مخالف ہیں۔ یہ خدشہ بھی سر اٹھا رہا ہے کہ کہیں اس کی آڑ میں ہندو کوڈ یا ہندو رسوم و رواج کو دیگر اقوام پر تو نہیں تھوپا جائے گا۔
جولائی 2018 میں سپریم کورٹ نے ہجومی تشدد اور لنچنگ کے واقعات کو روکنے کے لیے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو کئی گائیڈ لائن جاری کیے تھے۔ اب عدالت نے 2018 سے اس طرح کے پرتشدد واقعات کے سلسلے میں دائر کی گئی شکایتوں، ایف آئی آر اور عدالتوں میں پیش کیے گئے چالان سے متعلق سالانہ ڈیٹا جمع کرنے کو کہاہے۔
یونیفارم سول کوڈ کے بارے میں نوبل انعام یافتہ ماہراقتصادیات امرتیہ سین نے سوال اٹھایا اور پوچھا کہ اس طرح کی قواعدسےکس کو فائدہ ہوگا۔ یہ عمل یقینی طور پر ‘ہندو راشٹر’ کے خیال سے جڑا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ،’ہندو راشٹر’ ہی واحد راستہ نہیں ہو سکتا، جس کے ذریعے ملک ترقی کر سکتا ہے۔
ویڈیو: یونیفارم سول کوڈ کو لے کر ملک میں جاری سیاسی بحث نئی نہیں ہے، لیکن وزیر اعظم نریندر مودی کا یہ کہنا کہ یو سی سی ملک کی ضرورت ہے، کیا سچ میں ایسا ہے؟
ویڈیو: وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ دنوں یکساں سول کوڈ کی پرزور وکالت کی تھی۔ کیا یہ اگلے عام انتخابات سے پہلے بی جے پی کی طرف سے کوئی انتخابی چال ہے؟ اس بارے میں بتا رہی ہیں دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی۔
جے این یو کے سابق طالبعلم عمر خالد نے سال 2020 میں شمال–مشرقی دہلی میں ہونے والے فسادات سے متعلق ایک معاملے میں جیل میں ایک ہزار دن پورےکر لیے ہیں۔ خالد کو دہلی پولیس نے ستمبر 2020 میں گرفتار کیا تھا اور ان پر یو اے پی اے اور آئی پی سی کی مختلف دفعات کے تحت الزام لگائے گئے ہیں۔
راجستھان کے الور ضلع میں20 اور 21 جولائی2018 کی درمیانی شب کو مبینہ طور پر گئو رکشکوں کے حملے میں31 سالہ رکبر خان کی موت ہو گئی تھی۔ واقعہ کے وقت رکبر ایک اور شخص اسلم خان کے ہمراہ گائے لے کرجا رہے تھے۔
وفاتیہ: بزرگ صحافی شیتلا سنگھ نہیں رہے۔صحافت میں سات دہائیوں تک سرگرم رہتے ہوئے انہوں نے ملک اور بیرون ملک راست گفتارکی سی امیج اور شہرت حاصل کی اور اپنی صحافت کو اس قدرمعروضی بنائے رکھا کہ مخالفین بھی ان کے پیش کردہ حقائق پر شک و شبہ کی جرأت نہیں کرتے تھے۔
گجرات کے داہود ضلع کے رندھیک پور میں گزشتہ 7 مارچ کو ایک مسلم آٹورکشہ ڈرائیورسے ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا۔ اس میں ایک شخص کی جان چلی گئی جبکہ دوسرا زخمی ہوگیا۔ حادثہ کے بعد مرنے والے اور زخمی کے لواحقین رندھیک پور کے اس علاقے میں گئے جہاں مسلمان رہتے تھے۔ ان کی دھمکی کے بعد مسلمانوں نے اپنے گھر بار چھوڑ دیے ہیں۔
سخن ہائے گفتنی: ایک مسلمان وہ نہیں کہہ سکتا جو ایک ہندو کہہ سکتا ہے؟ ایک کشمیری وہ نہیں کہہ سکتاہے جو دوسرے لوگ کہہ سکتے ہیں۔آج یکجہتی، بھائی چارہ اور دوسروں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانا پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہوگیا ہے ،لیکن ایسا کرنا نہایت خطرناک اور جان جوکھم میں ڈالنے کی طرح ہے ۔
ویڈیو: گزشتہ دنوں بی بی سی ڈاکیومنٹری کی نشریات کے بعد ادارے کے دفتر پہنچے انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ اور صنعتکار گوتم اڈانی کے کاروبارکے سلسلے میں سوال اٹھانے والی ہنڈن برگ رپورٹ سے متعلق تنازعہ پردہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند اور دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن کی بات چیت۔
مودی حکومت کی جانب سے پریس کی آزادی اور جمہوریت پر جاری حملوں کے بارے میں بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے، لیکن تازہ ترین حملے سے پتہ چلتا ہے کہ پریس کی آزادی ‘مودی سینا’ کی مرضی کی غلام بن ہو چکی ہے۔
بی بی سی ہنڈن برگ معاملے کو ہندوستانی میڈیا اس طرح پیش کر رہا ہے کہ یہ ہندوستان کےٹوین ٹاورز پر کسی حملے سے کم نہیں ہے۔ یہ ٹوین ٹاور ہیں، وزیر اعظم نریندر مودی اور ہندوستان کے سب سے بڑے صنعت کار گوتم اڈانی۔ ان دونوں پر لگائے گئے الزامات ہلکے نہیں ہیں۔
بی بی سی کے دہلی اور ممبئی کے دفاتر میں محکمہ انکم ٹیکس کی کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے کئی میڈیا اداروں نے اسے صحافتی اداروں کو ڈرانے اور دھمکانے کے لیے سرکاری ایجنسیوں کا غلط استعمال قرار دیا ہے۔
بی بی سی کے دہلی اورممبئی واقع دفاتر میں یہ کارروائی 2002 کے گجرات فسادات میں نریندر مودی کے کردار اور ہندوستان میں اقلیتوں کی صورتحال پر دو حصوں پر مشتمل ڈاکیومنٹری ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ کے نشر ہونے کے چند ہفتوں بعد ہوئی ہے۔ اس ڈاکیومنٹری پر حکومت ہند نے پابندی عائد کر رکھی ہے۔
گزشتہ 4 فروری کو ساکیت ڈسٹرکورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج ارول ورما نے جامعہ تشدد کیس میں شرجیل امام، آصف اقبال تنہا ، صفورہ زرگر اور آٹھ دیگر کو بری کر دیا تھا۔ جج ورما نے پایا تھا کہ پولیس نے ‘حقیقی مجرموں’ کو نہیں پکڑااور ان ملزمین کو ‘قربانی کا بکرا’ بنانے میں کامیاب رہی۔
سال 2019 کے جامعہ تشدد کے سلسلے میں درج ایک معاملے میں شرجیل امام، صفورہ زرگر اور آصف اقبال تنہا سمیت 11 لوگوں کو بری کرنے والے کورٹ کے فیصلےمیں کہا گیا ہے کہ معاملے میں پولیس کی طرف سے تین ضمنی چارج شیٹ دائرکرنا انتہائی غیر معمولی واقعہ تھا۔ اس نے ضمنی چارج شیٹ داخل کرکے ‘تفتیش’ کی آڑ میں پرانے حقائق کو ہی پیش کرنے کی کوشش کی۔
بی بی سی ڈاکیومنٹری سیریز ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ پر ہندوستانی حکومت کی جانب سے عائد پابندیوں کو 500 سے زیادہ ہندوستانی سائنسدانوں اور ماہرین تعلیم نے ملک کی خودمختاری اور سالمیت کے لیے نقصاندہ بتایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکیومنٹری پر روک لگانا ہندوستانی شہریوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
جامعہ نگر علاقے میں دسمبر 2019 میں ہوئے تشدد کے سلسلے میں درج ایک معاملے میں شرجیل امام، صفورہ زرگر اور آصف اقبال تنہا سمیت11 افراد کو الزام سے بری کرتے ہوئے دہلی کی عدالت نے کہا کہ چونکہ پولیس حقیقی مجرموں کو پکڑنے میں ناکام رہی، اس لیے اس نے ان ملزمین کو قربانی کا بکرا بنا دیا۔
گجرات دنگوں میں وزیر اعظم نریندر مودی کے رول پر بنی بی بی سی ڈاکیومنٹری کے خلاف اوورسیز انڈین کمیونٹی کے بڑے پیمانے پر احتجاج کےمدنظر برطانوی وزیر اعظم رشی سنک کے ترجمان نے کہا کہ وہ اس بات پر زور دینا چاہیں گے کہ ہم ہندوستان کو ناقابل یقین حد تک اہم بین الاقوامی شراکت دارتسلیم کرتے ہیں۔
امریکہ کےنیشنل پریس کلب نےاپنے بیان میں ہندوستانی حکومت سے بی بی سی کی دستاویزی سیریز ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ سے پابندی ہٹانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ہندوستان ‘پریس کی آزادی کو تباہ کرنا جاری رکھتا ہے’ تو وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر اپنی پہچان کو برقرار نہیں رکھ سکتا۔
پونے کے ہدپسر واقع انتی نگر مسجد کے باہر 2 جون 2014 کو 24 سالہ تکنیکی ماہر محسن شیخ کو اس وقت قتل کر دیا گیا تھا، جب وہ نماز پڑھ کر لوٹ رہے تھے ۔ تمام 21 ملزمان ہندو راشٹر سینا نامی ہندوتوا تنظیم کا حصہ تھے۔
ہندوستان میں گجرات دنگوں میں نریندر مودی کے رول سےمتعلق بی بی سی ڈاکیومنٹری کے ٹیلی کاسٹ کو روکنے کے لیے مرکزی حکومت کی ہر ممکن کوشش کے باوجود جمعرات کو ملک میں کم از کم تین جگہوں- ترواننت پورم میں کانگریس اورکولکاتہ اور حیدرآباد میں اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا نے اس کی اسکریننگ کا اہتمام کیا۔
بی بی سی کی دستاویزی فلم ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ میں گجرات دنگوں کے حوالے سے برطانوی حکومت کی غیرمطبوعہ تحقیقاتی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے نریندر مودی کو تشدد کا براہ راست ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تشدد منصوبہ بندتھا اور گودھرا کے واقعہ نے صرف ایک بہانہ دے دیا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کوئی اور بہانہ مل جاتا۔
غیرت نہایت ہی غیر ضروری اور فضول شے ہے۔ اس کے بغیر انسان بنے رہنا بھلے مشکل ہو، غیرت کے ساتھ وائس چانسلر بنے رہنا ناممکن ہے۔ جامعہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وی سی وقتاً فوقتاً اس کی تصدیق کرتے رہتے ہیں۔
بی بی سی کی دستاویزی سیریز ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ کی دوسری اور آخری قسط منگل کو برطانیہ میں نشر کی گئی۔ اس میں بی جے پی حکومت کے دوران لنچنگ کے واقعات میں ہوئے اضافہ، آرٹیکل 370 کے خاتمہ، سی اے اے اور اس کے خلاف مظاہروں اور دہلی میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے بارے میں بات کی گئی ہے۔
گزشتہ ہفتے اطلاعات و نشریات کے سکریٹری کی طرف سے آئی ٹی رول 2021 کے رول 16 کا استعمال کرتے ہوئے گجرات فسادات میں وزیر اعظم نریندر مودی کے رول کو اجاگر کرنے والی بی بی سی کی ڈاکیومنٹری کو بلاک کرنے کی ہدایات جاری کی گئی تھیں۔
انٹرنیٹ آرکائیودنیا بھر کے صارفین کے ذریعےویب پیج کے مجموعوں اور میڈیا اپ لوڈ کا ایک ذخیرہ ہے۔ بی بی سی کی ڈاکیومنٹری ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ کی پہلی قسط کے بارے میں اس کی ویب سائٹ پر لکھا ہوا نظر آرہا ہے کہ ‘یہ مواد اب دستیاب نہیں ہے’۔
دی ہندو کے سابق ایڈیٹراین رام نے مودی حکومت کی جانب سے بی بی سی کی ڈاکیومنٹری کو سوشل میڈیا پر بلاک کرنے کے حوالے سے کہا کہ انہوں نے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ ہندوستان کا قومی سلامتی اور عوامی نظام اتنا نازک ہے کہ اسے ایک ایسی ڈاکیومنٹری سے خطرہ ہے جو ملک میں نشر نہیں ہوئی ہےاور یوٹیوب/ٹوئٹر تک رسائی رکھنے والی بہت کم آبادی نے اس کو دیکھا ہے۔
برطانیہ میں نشر ہونے والی دستاویزی فلم ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ میں بی بی سی نے کہا ہے کہ برطانوی حکومت کی خفیہ تحقیقات میں نریندر مودی گجرات دنگوں کے لیے ذمہ دار پائے گئے تھے۔ اس ڈاکیومنٹری کے سامنے آنے کے بعد 2002 میں برٹن کے سکریٹری خارجہ رہے جیک سٹرا کے ساتھ کرن تھاپر کی بات چیت۔
برطانیہ میں نشر ہونے والی ڈاکیومنٹری ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ میں بی بی سی نے کہا ہے کہ برطانوی حکومت کی خفیہ تحقیقات میں نریندر مودی گجرات دنگوں کے ذمہ دار پائے گئے تھے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے اسے ‘پروپیگنڈہ’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں تعصب ہے،غیرجانبداری کا فقدان ہے اور نوآبادیاتی ذہنیت کی عکاسی ہے۔
بی بی سی نے برطانیہ میں ‘انڈیا: دی مودی کویشچن’ کے نام سے ایک ڈاکیومنٹری نشر کی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ برطانوی حکومت کی جانب سےکروائی گئی گجرات دنگوں کی جانچ (جو آج تک غیر مطبوعہ رہی ہے) میں نریندر مودی کو براہ راست تشدد کے لیے ذمہ دار پایا گیا تھا۔
جسٹس ایس اے نذیر کی الوداعی تقریب میں سپریم کورٹ بار کونسل کے صدر نے ان کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ سیکولر ہیں۔ ان کے خیال میں جسٹس نذیرکے سیکولر ہونے کی وجہ یہ تھی کہ وہ بابری مسجد کے تنازعہ میں فیصلہ کرنے والی سپریم کورٹ کی بنچ کے واحد مسلمان رکن تھے، لیکن انھوں نےمندر بنانے کے لیے مسجد کی زمین کو مسجد توڑنے والوں کے ہی سپرد کرنے کے فیصلے پر دستخط کیا۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی سربراہی والی سپریم کورٹ کالجیم نے بامبے ہائی کورٹ کی وکیل نیلا گوکھلے کو بامبے ہائی کورٹ کی جج کے طور پر تقرری کو منظوری دی ہے۔ نیلا گوکھلے 2008 کے مالیگاؤں بم دھماکہ کیس کے ملزم لیفٹیننٹ کرنل پرساد پروہت کی وکیل ہیں۔
بلقیس بانو نے اپنی عرضی میں سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر نظرثانی کی مانگ کی تھی، جس میں گجرات حکومت کو مجرموں کی سزاپر کا فیصلہ لینے کی اجازت دی گئی تھی۔ ان کی دلیل تھی کہ سپریم کورٹ کا یہ خیال کہ مجرموں کورہا کرنے کا فیصلہ کرنے کے لیے گجرات میں ایک ‘مناسب حکومت’ ہے ضابطہ فوجداری کی دفعات کے خلاف ہے۔
دہلی دنگوں کے معاملے میں یو اے پی اے کے تحت گرفتار عمر خالد نے اپنی بہن کی شادی کے پیش نظر دو ہفتے کے لیے عبوری ضمانت مانگی تھی۔ عدالت نے انہیں 23 سے 30 دسمبر تک کے لیے ضمانت دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس میں مزید توسیع کا مطالبہ نہ کریں۔
ویڈیو: 400 سال پرانی بابری مسجد کا انہدام ملک کی سیاست کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہوا ہے۔ اس انہدام کے 30 سال مکمل ہونے پر اس بارے میں دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند سے تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔