پریس کونسل آف انڈیا کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کووڈ 19 کے دوران میڈیا اداروں کی جانب سے صحافیوں کو ہٹانے کے سلسلے میں اس کی تشکیل کردہ کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے 80 فیصد صحافیوں نے کہا کہ ان پر استعفیٰ یا وی آر ایس کا دباؤ تھا۔
انٹرویو: مؤرخ، ماہر تعلیم اور حقوق نسواں کی علمبردار اُوما چکرورتی ملک کی آزادی کے وقت چھ سال کی تھیں۔ تعلیمی سرگرمیاں، سماجی خدمات اور فلم پروڈکشن کے شعبوں میں بیش بہا کارنامہ انجام دینے والی اُوما کا کہنا ہے کہ آج مذہب کے نام پر ہو رہی لنچنگ، فسادات وغیرہ تحریک آزادی اور اس کے وعدوں کے ساتھ فریب ہے۔
کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ انضمام ایک سماجی اور ثقافتی عمل ہے، جس کو روزانہ کی بنیاد پر انجام دیے بغیر کام نہیں چلے گا۔
رائٹ ونگ کشمیر کو مسلمان حملہ آوروں کی سرزمین قرار دے کر ہندوستان سے اس کی بیگانگی کو اور بڑھا رہے ہیں۔ پچھلے پانچ سالوں میں ہندوستان کے ساتھ کشمیر کی خلیج بڑھ گئی ہے۔
اگست 2019 میں دعوے کیے جا رہے تھے کہ بہت جلد کشمیری پنڈت کشمیر واپس آجائیں گے، باقی ہندوستانی بھی پہلگام اور سون مرگ میں زمین خرید سکیں گے۔ لیکن حالات اس قدر بگڑے کہ وادی میں باقی رہ گئے پنڈت بھی اپنا گھر بار چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں۔
’وقت کے ساتھ میں نے اپنی شناخت کو چھپانا شروع کر دیا ہے۔ جب کوئی مجھ سے پوچھتا ہے کہ آپ کہاں سے ہیں، تو میں کہتی ہوں – یہیں دلی سے۔‘
کشمیر اس وقت دو طرح کے جذبات سے بر سرپیکار ہے؛ شدید غصہ اور احساس ذلت، اور گہری مایوسی کی یہ کیفیت غیرتغیرپسند ہے۔ نہ تو پاکستان آزادی دلا سکتا ہے اور نہ ہی مرکز کی کوئی آئندہ حکومت 5 اگست سے پہلے کے حالات کو بحال کر پائے گی۔
کشمیر پر ہونے والے بحث و مباحثہ سے کشمیری غائب ہیں۔ ان کے بغیر ان کی سرزمین کی قسمت کا فیصلہ ہو رہا ہے۔ اس ستم ظریفی کے ساتھ آپ جہلم کے پانیوں میں غوطہ زن ہو سکتے ہیں – یہ ندی دونوں طبقے کی نال سے لپٹی ہوئی یادوں اور مضطرب ڈور سے بندھے درد کے ہمراہ رواں ہے۔
پانچ اگست 2019 کے بعد کا کشمیرہندوستان کے لیے آئینہ ہے۔ اس کے بعد ہندوستان کا کشمیرائزیشن تیز رفتاری سے ہوا ہے۔ شہریوں کے حقوق کی پامالی، گورنروں کی ہنگامہ آرائی ، وفاقی حکومت کی من مانی۔
ٹھیک پانچ سال پہلے 5 اگست 2019 کو مرکز کی بی جے پی حکومت نے جموں و کشمیر کو آزاد ہندوستان میں شامل کرنے کی شرط کے طور پر آرٹیکل 370 کے تحت دی گئی خصوصی حیثیت کو منسوخ کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ ریاست کو مرکز کے زیر انتظام علاقوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تبدیل کر دیا تھا۔
ہندوستان کی مقتدر شخصیات نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ پانچ سال قبل لیے گئے اس فیصلہ نے جموں و کشمیر کو ایک غیر یقینی صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔ اس میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ عسکریت پسندوں کے بڑھتی ہوئی کارروائیوں کی وجہ سے حکومت قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کو مؤخر کر سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسا قدم انتہائی غیر معمولی ہوگا، کیونکہ ماضی میں اس سے بھی خراب حالات میں انتخابات کا انعقاد کیا جا چکا ہے۔
فن لینڈ مسلسل ساتویں سال دنیا کے سب سے خوشحال ممالک میں سرفہرست ہے، جبکہ افغانستان فہرست میں سب سے نیچے ہے۔
ہندوستان میں مرکزی حکومتوں نے مختلف وجوہات کی بنا پر 115 بار آئین کی دفعہ 356 کا استعمال کرتے ہوئے صوبائی حکومتوں کو معزول کیا ہے۔ اب مرکزی حکومت کو ایک اور ہتھیار مل گیا ہے۔ اپوزیشن کے زیر اقتدار کسی بھی صوبائی حکومت کو نہ صرف اب معزول کیا جا سکے گا، بلکہ اس ریاست کو پارلیامنٹ کی عددی قوت کے بل پر براہ راست مرکزی علاقے میں تبدیل کیا جاسکے گا اور صوبائی اسمبلی کے مشورہ کے بغیر ہی دولخت بھی کیا جا سکے گا۔
اپوزیشن کا کہنا ہے کہ وہ اس بات سے مایوس ہے کہ سپریم کورٹ نے جموں و کشمیر ریاست کو تقسیم کرنے اور اس کی حیثیت کو کم کرکے دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں کرنے کے سوال پر فیصلہ نہیں دیا۔ جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کو ہٹانے کے فیصلے کو برقرار رکھنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر کانگریس نے کہا کہ وہ ‘احترام کے ساتھ اس فیصلے سےمتفق نہیں’ ہے۔
سی جے آئی ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی بنچ نے کہا کہ آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے اور جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کا آئینی فیصلہ پوری طرح سے جائز ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے ریاست میں 30 ستمبر 2024 سے پہلے اسمبلی انتخابات کرانے کی ہدایت بھی دی۔
اس وقت تمام نگاہیں ہندوستانی سپریم کورٹ کی طرف ٹکی ہوئی ہیں۔ کیا سپریم کورٹ واقعی کوئی تاریخ رقم کرے گا؟ ایک بڑا سوال ہے، جس کا جواب وقت ہی دے گا۔
جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کے خلاف سپریم کورٹ میں جاری سماعت میں عرضی گزاروں کے وکیل کپل سبل نے مرکز پر صوبے کے لوگوں کی خواہش کو سمجھنے کی کوشش کیے بغیر ہی ‘یکطرفہ’ فیصلہ لینے کا الزام لگایا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ جب آپ جموں و کشمیر سے اس طرح کے خصوصی تعلقات کو توڑنا چاہتے ہیں تو لوگوں کی رائے لینی ہوگی۔
فورم فار ہیومن رائٹس ان جموں وکشمیر سے وابستہ اس غیر رسمی گروپ نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ حکومتی دعووں کے برعکس کشمیر کے زمینی حقائق کچھ اور ہی کہانی بیان کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت کا امن و امان و سلامتی کا دعویٰ صحیح ہے، تو یہ خطہ پچھلے پانچ سالوں سے منتخب اسمبلی کے بغیر کیوں ہے؟
کشمیر کے معاملے پر چاہے سپریم کورٹ ہو یا قومی انسانی حقوق کمیشن، ہندوستان کے کسی بھی مؤقر ادارے کا ریکارڈ کچھ زیادہ اچھا نہیں رہا ہے، مگر چونکہ اس مقدمہ کے ہندوستان کے عمومی وفاقی ڈھانچہ پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے، اس لیے شاید سپریم کورٹ کو اس کو صرف کشمیر کی عینک سے دیکھنے کے بجائے وفاقی ڈھانچہ اور دیگر ریاستوں پر اس کے اثرات کو بھی دیکھنا پڑے گا۔ امید ہے کہ وہ ایک معروضی نتیجے پر پہنچ کر کشمیری عوام کی کچھ داد رسی کا انتظام کر پائےگی۔
اگست 2019 میں جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کی بیشتر دفعات کو منسوخ کرنے اور صوبے کو دو یونین ٹریٹری میں تقسیم کرنے کے مودی حکومت کےفیصلے کے خلاف بیس سے زیادہ عرضیاں عدالت میں زیر التوا ہیں۔ سی جے آئی ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی پانچ ججوں کی بنچ اگلے ہفتے ان کی سماعت کرے گی۔
دو ہزار روپے کے نوٹ رکھنے والوں کے لیے اب ایک واضح ترغیب ہے کہ وہ بینک میں رقم جمع کرنے کے بجائے صرف ایکسچینج کے لیے جائیں اور انکم ٹیکس کے مقاصد کے لیے جانچ پڑتال کی جائے۔ تاہم، نوٹوں کی تبدیلی کو بہت مشکل بنا دیا گیا ہے کیونکہ ایک وقت میں صرف 20000 روپے ہی بدلے جا سکتے ہیں۔
ویڈیو: 2000 روپے کا نوٹ کیوں جاری کیا گیا تھااور کیوں اس کو واپس لیا گیا؟ کیا کالا دھن ختم ہوگیا؟ کیا ہندوستان میں اس نوٹ کی ضرورت ہے؟
ریزرو بینک آف انڈیا کی جانب سے 2000 روپے کے نوٹ کو واپس لینے کے فیصلے کو صحیح ٹھہرانے کے لیے جو دلائل پیش کیے گئے ہیں، ان میں سے کوئی بھی قابل قبول نہیں ہیں۔
بارہ ابواب پر مشتمل 400صفحات کی اس کتاب میں کشمیر کے سبھی ایشوز خاص طور پر پچھلے تین سال کے دوران پیش آئے واقعات اور ان کے اثرات کا جامع جائزہ لیا گیا ہے۔ انورادھا نے اس کتاب میں ہندوستان کے سیکولر اور لبرل طبقہ کو مخاطب کرکے خبردار کیا ہے کہ موجودہ بی جے پی حکومت کشمیر کو ایک لیبارٹری کی طرح استعمال کر رہی ہے اور اگر اس کو روکا نہ گیاتو یہ تجربات قریہ قریہ، گلی گلی ہندوستان کے دیگر علاقوں میں دہرائے جائیں گے۔
اگر دیکھا جائے تو پولیس سربراہ کا یہ دعویٰ کہ انہوں نے کشمیر میں نسبتاً امن و امان قائم کروانے میں کامیابی حاصل کی ہے کچھ غلط نہیں ہے۔ مگر یہ قبرستان کی پر اسرار خاموشی جیسی ہے۔خود ہندوستان کے سیکورٹی اور دیگر اداروں میں بھی اس پر حیرت ہے کہ کشمیریوں کی اس خاموشی کے پیچھے مجموعی سمجھداری یا ناامیدی ہے یا یہ کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے۔
کووڈ-19 کے حوالے سے حکومتی رہنما خطوط کے درمیان ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھ ممالک میں بڑھتے ہوئے کووڈ کیسز کے پیش نظر چوکسی اور احتیاط ضروری ہے۔ ایمس، دہلی کے سابق ڈائریکٹر رندیپ گلیریا کا کہنا ہے کہ چین میں انفیکشن کے لیے ذمہ دار اومیکرون بی ایف7 سب –ویرینٹ پہلے ہی ملک میں پایا جا چکا ہے اور ملک میں کووِڈ کے سنگین معاملات میں اضافے اورمریضوں کے اسپتال میں داخل ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
ویڈیو: 400 سال پرانی بابری مسجد کا انہدام ملک کی سیاست کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہوا ہے۔ اس انہدام کے 30 سال مکمل ہونے پر اس بارے میں دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند سے تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔
اڈانی گروپ کے ذریعے این ڈی ٹی وی کی حصہ داری خریدنے کے بعد این ڈی ٹی وی انڈیا کے گروپ ایڈیٹر رویش کمار نے استعفیٰ دیتے ہوئے کہا کہ عوام کو چونی سمجھنے والے جگت سیٹھ ہر ملک میں ہیں۔ اگر وہ دعویٰ کریں کہ وہ صحیح معلومات پہنچاناچاہتے ہیں تواس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی جیب میں ڈالر رکھ کر آپ کی جیب میں چونی ڈالنا چاہتے ہیں۔
ایک میڈیا رپورٹ میں آر ٹی آئی کے تحت ملی جانکاری کے حوالےسے بتایا گیا ہے کہ 30 مارچ 2020 سے 30 ستمبر 2022 تک کووڈ کے دوران اپنی خدمات انجام دیتے ہوئے جان گنوانے والے 428 ڈاکٹروں کے اہل خانہ کو 214 کروڑ روپے کا معاوضہ دیا گیا،جبکہ آئی ایم اے کے مطابق، کووڈ کی پہلی دو لہروں میں اپنی جان گنوانے والے ڈاکٹروں کی تعداد 1596 تھی۔
کیرالہ کی سابق وزیر صحت اور کمیونسٹ پارٹی آف مارکسسٹ کی سینئر لیڈر کے کے شیلجا نے کہا کہ انہوں نےاس ایوارڈکو لینے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ اسے حاصل کرنے میں انفرادی طور پر کوئی دلچسپی نہیں رکھتی ہیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا اندازہ ہے کہ 2020 میں ہی ہندوستان میں 8.30 لاکھ لوگ کورونا وائرس کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔دی رپورٹرز کلیکٹو کے ایک تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ ان اندازوں کو حقائق سے پرے قرار دے کر مسترد کرنے کے لیے مرکزی حکومت نے جن اعداد وشمار کا استعمال کیا ، ان کی صداقت مشتبہ ہے۔
سوموار کو روپیہ امریکی ڈالر کے مقابلے 60 پیسے ٹوٹ کر 77.50 کی ریکارڈ نچلی سطح پر بند ہوا۔ اس پر مرکز کو نشانہ بناتے ہوئے راہل گاندھی نے کہا کہ وزیر اعظم ملک کی معاشی اور سماجی حقیقتوں کو چھپا کر نہیں رکھ سکتے۔ اب انہیں معیشت پر توجہ دینی چاہیے نہ کہ میڈیا کی سرخیوں کو سنبھالنے پر۔
رجسٹرار جنرل آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق سال 2020 میں رجسٹرڈ کل اموات میں سے تقریباً 1.3 فیصد لوگوں کو ایلوپیتھی یا دیگر طبی شعبوں کے اہل پیشہ ور افراد سے طبی سہولیات ملی تھیں۔ مرنے والوں میں سے 45 فیصد کو ان کی موت کے وقت کوئی طبی سہولت نہیں مل پائی تھی۔ 2019 میں طبی سہولیات کے فقدان میں مرنے والوں کی تعداد 35.5 فیصد تھی۔
الہ آباد ہائی کورٹ نے اتر پردیش کے بدایوں ضلع کے رہنے والے عرفان کی جانب سے دائرعرضی کو خارج کرتے ہوئے یہ تبصرہ کیا۔ اس عرضی میں ضلع انتظامیہ کے دسمبر 2021 کے فیصلے کو رد کرنے کی مانگ کی گئی تھی، جس کے تحت مسجد میں اذان کے وقت لاؤڈ اسپیکر کا استعمال کرنے کی گزارش کو مسترد کر دیا گیاتھا۔
ہندوستان نے ڈبلیو ایچ او کی جانب سے مصدقہ اعداد و شمار کی دستیابی کے باوجود کورونا وائرس کی وبا سے متعلق اموات کی اعلیٰ شرح کے تخمینے کو پیش کرنے کے لیے ریاضیاتی ماڈل کے استعمال پر شدید اعتراض کیا ہے اور کہا ہے کہ اس ماڈل اور ڈیٹا اکٹھا کرنے کا طریقہ کارمشکوک ہے۔
پچھلے کئی سالوں سے ہندوستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے پاکستان کے لیے پانی ایک اہم ایشو کی صورت اختیار کر گیا ہے، مگر جھیل ولر کی صحت کے حوالے سے کبھی بھی دونوں ممالک نے کوئی سرگرمی نہیں دکھائی ہے۔ ہندوستان کے لیے شاید اس کی اتنی اقتصادی اہمیت نہیں ہے، مگر پاکستانی زراعت اور پن بجلی کے لیے اس کی حیثیت شہ رگ سے بھی زیادہ ہے۔
بتایا جا رہا ہے کہ شاہ فیصل نے اپنے تمام سابقہ ٹوئٹ ڈیلیٹ کر دیے ہیں، جو مرکزی حکومت کی تنقید میں لکھے گئے تھے۔ ساتھ ہی وہ سوشل میڈیا پر موجودہ بی جے پی حکومت کی پالیسیوں کے زبردست حامی نظر آ رہے ہیں۔ ان دنوں وہ اکثر اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کی تقاریر، بیانات اور اعلانات کو شیئر کر رہے ہیں۔
ریاست کے ایڈیشنل چیف سکریٹری (ہوم) اونیش کمار اوستھی نے بتایا کہ 2018 کا ایک سرکاری آرڈر ہے، ساؤنڈ ڈیسیبل کی مقررہ حد اور عدالت کی ہدایات کے لیے مقررہ ضابطے ہیں۔ اب اضلاع کو اس پر سختی سے عمل درآمد کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ گزشتہ ہفتے وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ نے کہا تھا کہ ہر کسی کو اپنے مذہبی عقائد کے مطابق عبادت کرنے کی آزادی ہے، لیکن لاؤڈ اسپیکر کی آواز احاطے سے باہر نہیں جانی چاہیے۔
مرکزی وزیر مملکت برائے صحت و خاندانی بہبود بھارتی پوار نے پارلیامنٹ میں بتایا کہ ملک میں کووڈ-19 کی وجہ سے اب تک مجموعی طور پر 521358 لوگوں کی موت ہو چکی ہے، جبکہ مرکز ی حکومت کی درخواست پر 20 ریاستوں اور یونین ٹریٹری کی جانب سے […]
لانسیٹ جریدے کے ایک نئے تجزیے کے مطابق، 2020 اور 2021 میں کووڈ-19 کی وبا کے دوران ہندوستان میں ایک اندازے کے حساب سے 40.7 لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ یہ تعداد سرکاری طور پر ہندوستان میں کووڈ-19 سے ہونے والی اموات سے آٹھ گنا زیادہ ہے۔ حالاں کہ حکومت نے اس رپورٹ کو خارج کر دیا ہے۔