گجرات فسادات کے دوران بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ کے لیے عمر قید کی سزا پانے والے 11 مجرموں کو اگست 2022 میں گجرات حکومت کی جانب سے دی گئی معافی کو رد کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ریاستی حکومت نے اپنے ’اختیارات کا غلط استعمال‘ کیا ہے اور وہ قیدیوں کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔
سال 2022 میں مودی حکومت نے بلقیس بانو کے ساتھ ریپ کرنے والے سزا یافتہ مجرموں کی رہائی کو منظوری دی تھی۔ بعد میں بلقیس کی اپیل پر سپریم کورٹ نے کیس کو اپنے ہاتھوں میں لیا تھا اور درندوں کو واپس جیل رسید کیا تھا۔
سپریم کورٹ نے 8 جنوری کو بلقیس بانو کے گینگ ریپ اور ان کے خاندان کے قتل کے 11 مجرموں کی سزا معافی اور رہائی کو رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ گجرات حکومت نے انہیں قبل از وقت رہا کر کے ‘اختیارات کا غلط استعمال’ کیا تھا۔
سپریم کورٹ نے 8 جنوری کو بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ کرنے والے اور ان کے خاندان کے قتل کے 11 مجرموں کی قبل از وقت رہائی کوخارج کرتے ہوئے کہا تھا کہ گجرات حکومت کے پاس انہیں وقت سے پہلے رہا کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ رہائی کے فیصلے کو رد کرتے ہوئے عدالت نے مجرموں کو دو ہفتوں کے اندر دوبارہ جیل میں سرینڈر کرنے کو کہا تھا۔
گجرات حکومت کی جانب سے بلقیس بانو کیس میں 11 مجرموں کو دی گئی سزا معافی کو رد کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے 8 جنوری کو انہیں جیل حکام کے سامنے دو ہفتوں کے اندر خودسپردگی کرنے کو کہا تھا۔ ان میں سے 10 نے ذاتی وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی ہے اور سرینڈر کرنے کے لیے مزید وقت کا مطالبہ کیا ہے۔
سال 2002 میں بلقیس کے ساتھ ہوئی زیادتی کے بعد گجرات کے دو افسران – گودھرا کی اس وقت کی ڈی ایم جینتی روی اور گودھرا سول اسپتال کی ڈاکٹر روہنی کٹی نے تمام سیاسی اور انتظامی دباؤ کے باوجودجس ایمانداری اور دیانت داری سےاپنا کردار نبھایا، وہ واقعی ایک مثال ہے۔
سپریم کورٹ نے 8 جنوری کو بلقیس بانو گینگ ریپ کیس کے 11 مجرموں کو دی گئی سزا معافی کو رد کرتے ہوئے انہیں سرینڈر کرنے کو کہا ہے۔ گجرات کے داہود کے ایس پی نے بتایاکہ پولیس کو ان کے سرینڈر سے متعلق کوئی اطلاع نہیں ملی ہے اور نہ ہی انہیں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی کاپی موصول ہوئی ہے۔
بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ اور ان کے اہل خانہ کے قتل کے 11 قصورواروں کی گجرات حکومت کی جانب سے سزا معافی اور رہائی کو رد کرنے والے سپریم کورٹ کے فیصلے کے پیچھے کچھ خواتین ہیں جو بلقیس کو انصاف دلانے کے لیے آگےآئیں۔
بلقیس بانو کی جیت ہندوستان کی ان خواتین اور مردوں کو شرمندہ کرتی ہے جو اس کیس پر اس لیے خاموش رہےکہ انہیں وزیر اعظم مودی سے سوال کرنا پڑتا، انہیں بی جے پی سے سوال کرنا پڑتا۔
بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ اور ان کے خاندان کے قتل کے 11 مجرموں کی سزا معافی اور رہائی کو رد کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ گجرات حکومت کے پاس مجرموں کو قبل از وقت رہا کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ عدالت نےقصورواروں کو دو ہفتے میں واپس جیل میں سرینڈر کرنے کو کہا ہے۔
سپریم کورٹ کے ذریعے بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ اور ان کے اہل خانہ کے قتل کے 11 قصورواروں کی سزا معافی منسوخ کیے جانے کے بعد بلقیس نے عدالت کے ساتھ ساتھ ان کی حمایت میں کھڑے ہونے والوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میری دعا ہے کہ قانون کی بالادستی قائم رہےاور قانون کی نظر میں سب یکساں رہے۔
بلقیس بانو گینگ ریپ کیس میں11 قصورواروں کی سزا میں تخفیف اور قبل از وقت رہائی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت میں ایک مجرم کے وکیل کے دلائل سنتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ اس معاملے میں انہیں (مجرموں) کئی دنوں تک کئی بار باہر آنے کا موقع ملا۔
سپریم کورٹ نے بلقیس بانوکے گینگ ریپ کے مجرموں کی قبل از وقت رہائی کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ گجرات حکومت کا یہ کہنا کہ تمام قیدیوں کو اصلاح کا موقع دیا جانا چاہیے، درست ہے، لیکن کیا ایسا تمام معاملوں میں کیا جاتا ہے۔
بے گناہوں کے قتل، خواتین کے ساتھ صریح زیادتیاں، اپنے ہی ملک میں پناہ گزین بننے کو مجبور لوگ، شرپسندوں کے خلاف قانون کے محافظوں کی سست کارروائی، تشدد کے مذہبی یا فرقہ وارانہ ہونے کے واضح اشارے … ہم واقعات کے سلسلے کو دہراتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، بس درمیان میں ایک طویل وقفہ ہے۔
پی ایم مودی کا کہنا ہے کہ منی پور ویڈیو نے قوم کو شرمسارکر دیا ہے۔ مگر گجرات میں ان کی حکومت کے دوران جو کھیل کھیلا گیا وہ شاید چنگیز و ہلاکو کو بھی شرمسار کرنے کے لیے کافی ہے۔شبنم ہاشمی کا کہنا ہے کہ آج کے ہندوستان میں بربریت کا ہر ایک واقعہ گجرات ماڈل کا حصہ ہے۔ لنچنگ، زمینوں پر قبضہ، جمہوریت، تعلیمی اور سائنسی اداروں کو ختم کرنا، میڈیا پر کنٹرول، خواتین پر بڑھتے ہوئے جنسی حملے، آزادی اظہار اور آزادی صحافت پر حملے – ان سب کا تجربہ گجرات میں کیا گیا ہے۔
بلقیس بانو کےگینگ ریپ اور ان کے خاندان کے افراد کے قتل کے 11 مجرموں کو اگست 2022 میں گجرات حکومت کی معافی کی پالیسی کے تحت رہا کیا گیا تھا۔ ان میں سے ایک شیلیش بھٹ بھی تھے، جو گزشتہ سنیچر کو ایک سرکاری تقریب میں بی جے پی ایم پی جسونت سنگھ بھابھور، ان کے بھائی اور بی جے پی ایم ایل اے شیلیش بھابھور کے ساتھ ڈائس پر موجود تھے۔
گجرات کے داہود ضلع کے رندھیک پور میں گزشتہ 7 مارچ کو ایک مسلم آٹورکشہ ڈرائیورسے ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا۔ اس میں ایک شخص کی جان چلی گئی جبکہ دوسرا زخمی ہوگیا۔ حادثہ کے بعد مرنے والے اور زخمی کے لواحقین رندھیک پور کے اس علاقے میں گئے جہاں مسلمان رہتے تھے۔ ان کی دھمکی کے بعد مسلمانوں نے اپنے گھر بار چھوڑ دیے ہیں۔
بلقیس بانو نے اپنی عرضی میں سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر نظرثانی کی مانگ کی تھی، جس میں گجرات حکومت کو مجرموں کی سزاپر کا فیصلہ لینے کی اجازت دی گئی تھی۔ ان کی دلیل تھی کہ سپریم کورٹ کا یہ خیال کہ مجرموں کورہا کرنے کا فیصلہ کرنے کے لیے گجرات میں ایک ‘مناسب حکومت’ ہے ضابطہ فوجداری کی دفعات کے خلاف ہے۔
بلقیس بانو نے 2002 کے گینگ ریپ اور قتل معاملے میں 11 مجرموں کوسزا میں چھوٹ اور ان کی رہائی کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر نظرثانی کا بھی مطالبہ کیا ہے، جس میں گجرات حکومت کو مجرموں کی سزا پر فیصلہ کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
بلقیس بانو نے اپنی عرضی میں سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر نظرثانی کا بھی مطالبہ کیا ہے، جس میں گجرات حکومت کو مجرموں کی سزا کے بارے میں فیصلہ کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
گجرات کے سابق وزیر چندر سنگھ راؤل جی اس کمیٹی میں شامل تھے، جس نے بلقیس بانو گینگ ریپ اور ان کے خاندان کے سات افراد کے قتل کے 11 مجرموں کو بری کرنے کے حق میں متفقہ طور پرفیصلہ دیا تھا۔گودھرا سے چھ بار ایم ایل اے رہ چکے راؤل جی نے ایک انٹرویو میں مجرموں کو ‘سنسکاری برہمن’ بتایا تھا۔
نیشنل فیڈریشن آف انڈین ویمن نے سپریم کورٹ میں ایک نئی درخواست دائر کی ہے، جس میں بلقیس بانو گینگ ریپ اور ان کے خاندان کے سات افراد کے قتل کے 11 مجرموں کی سزا معاف کرنے کے گجرات حکومت کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے۔ نئی […]
ایک رپورٹ کے مطابق، 2002 کے گجرات فسادات میں بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ اور اس کے خاندان کے افراد کے قتل کے 11 قصورواروں میں سے کچھ کے خلاف پیرول پر باہر رہتے ہوئے ‘عورت کی توہین’ کے الزام میں ایک ایف آئی آر درج کی گئی اور دو شکایتیں بھی پولیس کو موصول ہوئی تھیں۔ ان پر گواہوں کو دھمکانے کا الزام بھی لگاتھا۔
بلقیس بانو گینگ ریپ کیس میں 11 قصورواروں کی سزامعافی اور رہائی کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے مرکزی وزیر پرہلاد جوشی نے کہا کہ جو بھی ہوا ہے، قانون کے مطابق ہوا ہے۔ وہیں سپریم کورٹ نے اس معاملے میں گجرات سرکار کی جانب سے دائر جواب کو ‘بوجھل’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں حقائق پر مبنی بیانات غائب ہیں۔
سپریم کورٹ میں بلقیس بانو کیس کے11 قصورواروں کی قبل از وقت رہائی کے خلاف دائرعرضی کے جواب میں گجرات حکومت نے کہا ہے کہ اس فیصلے کو مرکزی وزارت داخلہ نے منظوری دی تھی۔ حکومت کے حلف نامہ کے مطابق، سی بی آئی، اسپیشل کرائم برانچ ممبئی اور سی بی آئی کورٹ نے سزامعافی کی مخالفت کی تھی۔
گجرات پولیس نے سندیپ پانڈے سمیت سات سماجی کارکنوں کو 25 ستمبر کی دیر رات اس لیے حراست میں لے لیا کہ وہ اگلے دن گجرات فسادات کے دوران گینگ ریپ کی شکار ہونے والی بلقیس بانو کی حمایت میں ان کے مجرموں کی قبل از وقت رہائی کے خلاف پیدل مارچ نکالنے والے تھے۔
گجرات حکومت کی معافی کی پالیسی کےتحت بلقیس بانو گینگ ریپ اور ان کےاہل خانہ کےقتل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے11 مجرموں کو قبل از وقت رہا کر دیا گیا ہے۔ اس کیس میں کلیدی گواہ رہے ایک شخص نے الزام لگایا ہے کہ رہا ہوئےایک مجرم نے انہیں جان سے مارنے کی دھمکی دی ہے۔
بلقیس بانو کیس کے 11 مجرمین کو رہا کیا گیا تو نودیپ نے مجھے فون کیا، وہ اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پا رہی تھی۔ لگتا تھا کہ وہ اپنا درد یاد کر رہی تھی۔اس کو لگا جیسے وہ ایک بار پھر ملک کے قانون کے ہاتھوں شرمسار ہو گئی۔ مجھے لگا کہ یہ نہ صرف نودیپ بلکہ عصمت دری کا شکار ہونے والی ہر عورت کی اخلاقی شکست ہے۔
سن 2002 میں سپریم کورٹ نے بلقیس کیس میں شمولیت کا فیصلہ کیا تھا، کیونکہ اسے معلوم تھا کہ گجرات حکومت مجرموں کو بچا رہی ہے۔ بیس سال بعد بھی کچھ نہیں بدلا ہے۔
سابق نوکر شاہوں کی جانب سے چیف جسٹس کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ ہم حیران ہیں کہ سپریم کورٹ نے اس معاملے کو اتنا ضروری کیوں سمجھا کہ دو ماہ کے اندر فیصلہ لینا پڑا۔ ساتھ ہی سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ کیس کی تحقیقات گجرات کی 1992 کی معافی کی پالیسی کے مطابق کی جانی چاہیے نہ کہ اس کی موجودہ پالیسی کے مطابق۔
بلقیس بانو کیس کے 11 مجرموں کی رہائی پر ہماچل پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اور مرکزی وزیر سینئر بی جے پی لیڈر شانتا کمار نے کہا کہ گجرات حکومت کو اپنی غلطی کو سدھارنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ سزا سے ملی چھوٹ ان مجرموں کے اثرورسوخ کی حد کو ظاہر کرتی ہے اور ان کی طاقت کے بارے میں پتہ چلتا ہے کہ ان کے لیے قوانین میں تبدیلی کی گئی۔
بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ اور ان کے رشتہ داروں کے قتل کے 11 مجرموں کی قبل از وقت رہائی کے خلاف عرضی کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ ملزمین نے جو کیا، اس کے لیے ان کو سزا ملی۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ معافی کے حقدار ہیں اور کیا یہ معافی قانون کے مطابق دی گئی؟
داہود کے ڈی ایم کوسونپے گئے گئے میمورنڈم میں رندھیک پور کی مسلم کمیونٹی نے کہا ہے کہ وہ خوف کے مارے گاؤں چھوڑ کر جا رہے ہیں کیونکہ انہیں تحفظ،بالخصوص خواتین کی فکر ہے۔ جب تک ان ملزمین کی گرفتاری نہیں ہوتی وہ، واپس نہیں آئیں گے۔ 2002 کے فسادات میں رندھیک پورگاؤں میں ہی بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ کیا گیا تھا اور ان کے خاندان کوقتل کیا گیا تھا۔
ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات تو پہلے بھی ہوتے تھے اور فسادیوں کا چھوٹ جانا بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ فرق بس یہ ہے کہ عدالتوں سے مجرم ثابت ہونے اور سزائیں پانے کے بعد بھی انصاف کے عمل کو انگوٹھا دکھایا جا رہا ہے۔ ایک غیر محسوس طریقے سے20 کروڑمسلمانوں کو بتایا جا رہا ہے کہ یا تو وہ دوسرے درجہ کے شہری بننا منظور کریں یا کہیں اور چلے جائیں۔
سپریم کورٹ کی سابق جج سجاتا منوہر 2003 میں اس وقت نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کی رکن تھیں، جب کمیشن نے بلقیس بانو گینگ ریپ کیس میں مداخلت کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہم خواتین کو بااختیار بنانا چاہتے ہیں، لیکن ان کے تحفظ کو یقینی نہیں بناتے۔ یہ سزا معافی ان کے تحفظ کے سلسلے میں مثبت پیغام نہیں ہے۔
گجرات سے کانگریس کے تین مسلم ایم ایل اے نے صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کو خط لکھ کر اپیل کی ہے کہ وہ مرکزی وزارت داخلہ اور ریاستی حکومت کو 2002 کے بلقیس بانو گینگ ریپ کیس میں عمر قید کی سزا پانے والے 11 مجرموں کی رہائی کے ‘شرمناک فیصلے’ کو واپس لینے کی ہدایت دیں۔
سال 2002 کے گجرات فسادات کےدوران بالقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ اور ان کے خاندان کے سات افراد کے قتل کے11 مجرموں کی رہائی پر یونائیٹڈ اسٹیٹس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجیئس فریڈم نے کہا ہے کہ یہ قدم انصاف کا مذاق ہے اور سزا سے بچنے کے اس پیٹرن کا حصہ ہے، جس کا ہندوستان میں اقلیت مخالف تشدد کے ملزم فائدہ اٹھاتے ہیں۔
پندرہ اگست کو گجرات کی بی جے پی حکومت نے اپنی معافی کی پالیسی کے تحت بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ اور ان کے خاندان کے سات افراد کو قتل کرنے کے جرم میں عمر قید کی سزاکاٹ رہے11 مجرموں کو رہا کر دیا تھا۔
سپریم کورٹ سے بلقیس بانو کیس میں11 مجرموں کی سزا کی معافی کو رد کرنے کی اپیل کرتے ہوئے سماجی کارکنوں سمیت ان دستخط کنندگان نے کہا کہ اس طرح کے فیصلے سے ہر اس ریپ متاثرہ کے حوصلے پست ہوں گے اور ان پر اثر پڑے گا جس کو انصاف کے نظام پر بھروسہ کرنے کو کہا جاتا ہے۔
بلقیس بانو ریپ کے11 قصورواروں کی سزا کو معاف کرنے والی سرکاری کمیٹی میں شامل رہےگودھرا سے بی جے پی ایم ایل اے سی کے راؤل جی نے ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ رہا کیے گئے مجرم اس جرم میں شامل تھے یا نہیں اور یہ ممکن ہے کہ انہیں پھنسیایاگیاہو۔