وہیں مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نےتمام ریاستوں سے اپیل کی ہے کہ وہ این پی آرنافذکرنے سے پہلے اس کو دھیان سے پڑھ لیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ،میں تمام ریاستوں سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ شہریت قانون کے خلاف تجویز پاس کریں۔
نئی دہلی: شہریت قانون کے خلاف تجویز پاس کرنے کے بعد کیرل کابینہ نے ریاست میں این پی آر کونافذ نہیں کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ریاستی حکومت کی کابینہ میٹنگ میں یہ فیصلہ لیا گیا ہے۔
کیرل حکومت کا کہنا ہے کہ ریاست میں این پی آر نہیں کرانے کے فیصلے کے بارے میں رجسٹرار جنرل کو اطلاع دے دی جائےگی۔ حالانکہ حکومت نے یہ بھی کہا ہے کہ ریاست میں مردم شماری کا کام ضابطے کے مطابق کیا جائےگا۔ این پی آر نہ کرانے کے پیچھےحکومت کی دلیل ہے کہ آئین کے تحت عوام کے مفاد کی تحفظی اور نظم ونسق دیکھنا ریاستی حکومت کی ذمہ داری ہے، ایسے میں کیرل میں این پی آرنافذ نہیں کرنے کا فیصلہ لیا گیا ہے۔
Kerala cabinet decides to inform Census Registrar General that NPR cannot be implemented in the state. State would provide all cooperation in the conduct of Census operations. Any attempt to enforce NPR will only jeopardise the 2021 Census. #CAA_NRC_Protests
— Thomas Isaac (@drthomasisaac) January 20, 2020
ریاستی حکومت نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ کیرل پولیس نے این پی آر نافذ ہونے پر نظم ونسق کا خطرہ بتایا ہے۔ حکومت نے یہ بھی کہا کہ اگر ریاست میں مردم شماری کے ساتھ این پی آر کی کارروائی کی گئی تومردم شماری بھی ٹھیک طرح سے پوری نہیں ہو پائےگی۔ اس لیے کیرل حکومت نے ریاست میں این پی آرنافذنہ کرنے کا فیصلہ لیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ شہریت قانون کے بعد این پی آر کو لے کر ریاستی حکومتوں اور مرکزی حکومت کے بیچ تنازعہ بڑھتا جا رہا ہے۔ سوموار کو پنرائی وجین کی قیادت والی کیرل حکومت نے واضح طورپرکہا ہے کہ وہ این پی آر کو اپنی ریاست میں نافذ نہیں کریں گے۔واضح ہوکہ گزشتہ دنوں پنجاب میں حکمراں کانگریس حکومت نے اسمبلی میں شہریت ترمیم قانون کو رد کرنے کی مانگ والی تجویز پاس کی۔ ریاستی حکومت نے این پی آر میں بھی ترمیم کا مطالبہ کیا ہے، تاکہ لوگوں کے بیچ پھیلے این پی آر اور این آرسی کے ڈر کو ختم کیا جا سکے۔ پنجاب سے پہلے کیرل کی حکومت بھی ایسی تجویز لا چکی ہے۔
بتادیں کہ سی پی آئی (ایم)کی قیادت والی ایل ڈی ایف اور اپوزیشن کانگریس کی قیادت والی یو ڈی ایف نے تجویز کی حمایت کی تھی۔متنازعہ شہریت ترمیم قانون کے جواز کو چیلنج کرتے ہوئے کیرل ریاست نے مرکزی حکومت کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمہ بھی دائر کیا ہے۔
West Bengal CM Mamata Banerjee: I appeal to governments of all northeastern states and opposition ruled states that before taking any decision on conducting NPR, the state governments should study it carefully carefully. I appeal to all states to pass resolution against CAA. pic.twitter.com/MPNDzq92Ni
— ANI (@ANI) January 20, 2020
غور طلب ہے کہ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نےتمام ریاستوں سے اپیل کی ہے کہ وہ این پی آرنافذکرنے سے پہلے اس کو دھیان سے پڑھ لیں۔ممتا بنرجی نے کہاکہ ، میں ریاستی کی حکومتوں سے اپیل کرتی ہوں کہ این پی آر نافذ کرنے کے لیے کوئی بھی فیصلہ لینے سے پہلے اس کو احتیاط کے ساتھ پڑھ لیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ،میں تمام ریاستوں سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ شہریت قانون کے خلاف تجویز پاس کریں۔’
آفس آف دی رجسٹرار جنرل اینڈ سنسس کمشنر آف انڈیا کی ویب سائٹ کے مطابق، این پی آر کا مقصد ملک کے عام شہریوں کا وسیع پہچان ڈیٹابیس بنانا ہے۔ اس ڈیٹا میں مردم شماری کے ساتھ بایومیٹرک جانکاری بھی ہوگی۔اگلے سال مردم شماری کے ساتھ لائے جانے والے این پی آر کے بارے میں افسر نے کہا کہ کوئی بھی ریاست اس قواعد سے انکار نہیں کر سکتا کیونکہ یہ شہریت قانون کے مطابق کیا جائےگا۔
این پی آر ملک کے عام شہریوں کا رجسٹر ہے۔ اس کو شہریت ایکٹ 1955 اور شہریت (شہریوں کا رجسٹریشن اور قومی شناختی کارڈوں کا جاری کیا جانا)ضابطہ2003 کے اہتماموں کے تحت مقامی(گاؤں/قصبہ)،ضلع، ریاست اور قومی سطح پر تیار کیا جا رہا ہے۔ہندوستان کے ہر شہری کے لیے این پی آر کے تحت رجسٹرڈہونا ضروری ہے۔ این پی آر کے مقاصد کے لیے عام شہریوں کی تعریف ایک ایسے فرد کے طور پر کی گئی ہے، جو کسی مقامی حلقے میں گزشتہ چھ مہینے تک یا زیادہ وقت تک رہا ہو یا جو اس حلقے میں اگلے چھ مہینے یا زیادہ وقت تک رہنے کا ارادہ رکھتا ہو۔
کیوں اٹھ رہے ہیں سوال
ملک بھر میں این آر سی اورشہریت ترمیم قانون کے بیچ این پی آر لانے کے فیصلے پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ کہا جا رہا کہ یہ ملک گیر سطح پر این آر سی لانے کا پہلا قدم ہے۔
واضح ہو کہ مختلف مواقع پروزیر داخلہ امت شاہ اور بی جے پی کے رہنماؤں کے ذریعے پورے ملک میں این آر سی لانے کی بات کہی گئی ہے، لیکن گزشتہ اتوار کودہلی میں ہوئی ایک ریلی میں وزیر اعظم نریندر مودی نےاس سے انکار کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے پانچ سالوں کی ان کی حکومت میں این آر سی پر کوئی چرچہ نہیں ہوئی ہے۔ لیکن گزشتہ 9 دسمبر کو شہریت قانون2019 پر لوک سبھا میں چرچہ کے دوران وزیر داخلہ نے واضح طورپرکہا کہ ہندوستان میں این آر سی نافذ کیا جائےگا۔
انہوں نے کہا تھا، ‘ہمیں این آر سی کے لیے کوئی بیک گراؤنڈ تیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم پورے ملک میں این آر سی لائیں گے۔ ایک بھی گھس پیٹھ کو چھوڑا نہیں جائےگا۔’ ان کےعلاوہ وزیر وفاع راجناتھ سنگھ اوربی جےپی کے جےپی نڈا نے بھی کہا ہے کہ پورے ملک میں این آر سی نافذ کیا جائےگا۔
این پی آر کو منظوری ملنے کے بعد سرکار نے کہا کہ یہ این آر سی سے جڑا ہوا نہیں ہے، لیکن ایسا نہیں ہے۔
اگست 2019 میں رجسٹرار جنرل آف انڈیا اور رجسٹرار جنرل اینڈ سنسس کمشنر آف انڈیا وویک جوشی نے این پی آر پر بات کرتے ہوئے کہا تھاکہ آسام کے علاوہ پورے ملک میں این پی آرپر کام شروع کیا جائےگا۔ سرکار نے ملک بھر میں شہریوں کا رجسٹربنانے کو لےکر اس کی بنیادتیار کرنے کے لیے ستمبر 2020 تک ایک قومی آبادیاتی رجسٹرپیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تب ایک حکام کے حوالے سے کہا گیا تھاکہ این پی آر ملک میں رہنے والے شہریوں کی ایک مفصل فہرست ہوگی۔ این پی آر کے پورا ہونے اور شائع ہونے کے بعد این آرسی تیار کرنے کے لیے اس کے ایک بنیاد بننے کی امید ہے۔
Categories: خبریں