مدھیہ پردیش کی حکومت نے اسمبلی میں شہریت قانون کے خلاف تجویز پاس کرتے ہوئے اس کو ہندوستانی آئین کے بنیادی جذبے کی خلاف ورزی بتایا۔ اس سے پہلے کیرل، پنجاب، مغربی بنگال اور راجستھان میں اس قانون کے خلاف تجویز پاس کی جا چکی ہے۔
نئی دہلی: مدھیہ پردیش کی کانگریس حکومت نے شہریت قانون (سی اےاے)کے خلاف بدھ کو اسمبلی میں تجویز پاس کرتے ہوئے مرکزی حکومت سے اس قانون کو رد کرنے کی اپیل کی ہے۔شہریت قانون کے خلاف تجویز پاس کرنے والی مدھیہ پردیش پانچویں ریاست بن گئی ہے۔ اس سے پہلے کیرل، پنجاب، راجستھان اورمغربی بنگال کی اسمبلی میں بھی یہ تجویز پاس ہو چکی ہے۔
انڈیا ٹو ڈے کی رپورٹ کے مطابق، اس تجویز میں شہریت قانون کو ہندوستانی آئین کے بنیادی جذبےکی خلاف ورزی بتاتے ہوئے قانون کے نافذ ہونے پر ملک بھر میں ہوئے مظاہروں کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔تجویز میں کہا گیا، ‘ہندوستان ایک سیکولرملک ہے اور آئین کی تمہید میں اس کا واضح طورپرذکر ہے۔ اس کے ساتھ ہی آئین کاآرٹیکل 14 سب کے لیے برابری کی گارنٹی دیتا ہے اور کسی بھی طرح کے امتیازی سلوک کو روکتا ہے۔ شہریت قانون نے آئین کے ان اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے اور اس قانون کو رد کیا جانا چاہیے۔’
مدھیہ پردیش کی کابینہ کی میٹنگ میں اس تجویز کے پاس ہونے کے بعد ریاست کے وزیرقانون پی سی شرما نے کہا کہ کانگریس پارٹی نے شہریت قانون پر اپنی رائے صاف کر دی ہے۔ یہ ہمارے آئین کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہے اس لیے ریاست کابینہ نے متفقہ طورپر اس تجویز کو پاس کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی حکومت سے ان اہتماموں کو واپس لینے کی اپیل کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریاستی حکومت یہ بھی اپیل کرتی ہے کہ مرکزاین پی آر سے ان اطلاعات کو واپس لینے کے بعد ہی مردم شماری کی قواعد کو آگے بڑھائے، جس نے لوگوں میں خدشات پیدا کیے ہیں۔انہوں نے کہا، ‘مرکزی حکومت کو پہلے ان اہتماموں کو واپس لینا چاہیے اور پھر نئے سرے سے مردم شماری کی کارروائی کی طرف بڑھنا چاہیے۔’
مدھیہ پردیش میں سی اےاے کو لے کر بڑے پیمانے پر مظاہرے ہو رہے ہیں۔ ان میں سے اکثر مظاہرے ابھی تک پرامن رہے ہیں۔بتا دیں کہ کیرل، پنجاب اور راجستھان کی اسمبلی بھی اسی طرح کا تجویز پاس کر چکی ہیں۔مغربی بنگال اسمبلی میں سی اے اےکے خلاف تجویز پاس ہو چکی ہے۔
پارلیامانی امور کے وزیرپارتھ چٹرجی نے مغربی بنگال اسمبلی میں تجویز پیش کیا تھا۔ تجویز میں مرکزی حکومت سے اس قانون کو رد کرنے کے ساتھ این آرسی کو آگے بڑھانے اور (این پی آر کو اپ ڈیٹ کرنے کے منصوبوں کورد کرنے کی بھی اپیل کی گئی تھی۔وہیں، راجستھان کی کانگریس حکومت نے بھی سی اےاے کے خلاف اسمبلی میں تجویز پاس کی تھی۔
راجستھان حکومت نے تجویز میں کہا تھا، ‘پارلیامنٹ میں حال ہی میں پاس کئے گئے شہریت قانون کا مقصد مذہب کی بنیاد پرغیرقانونی مہاجرین کو الگ تھلگ کرنا ہے۔مذہبی کی بنیاد پر اس طرح کا امتیازی سلوک آئین میں درج سیکولر تصورات کے موافق نہیں ہے اور یہ واضح طورپردفعہ 14 کی خلاف ورزی ہے۔’
اس تجویز میں کہا گیا، ‘ملک کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ ایک ایسا قانون پاس ہوا، جو مذہبی بنیادپر لوگوں کو بانٹتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں شہریت قانون کو لے کر غصہ اور ناراضگی ہے اور اس کے خلاف مظاہرےہو رہے ہیں۔’شہریت قانون کے خلاف سب سے پہلے کیرل نے اسمبلی میں تجویز پاس کی تھی۔ ساتھ ہی کیرل حکومت نے اس قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج دیا ہے۔
شہریت قانون اور دوسرے ضابطوں کوچیلنج دیتے ہوئے کیرل نے کہا تھا، ‘یہ قانون آرٹیکل14،21 اور 25 کے تحت بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور یہ قانون غیرمناسب اورغیر منطقی ہے۔’اس کے بعد پنجاب میں حکمراں کانگریس نے بھی سی اےاے کے خلاف تجویزاسمبلی میں پاس کی۔ اس تجویز میں شہریت قانون کو غیر آئینی بتاتے ہوئے کانگریس نے مانگ کی کہ اس قانون کو ختم کیا جائے۔
واضح ہو کہ شہریت قانون میں افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے مذہبی استحصال کی وجہ سے ہندوستان آئے ہندو، سکھ، بودھ، جین، پارسی اور عیسائی کمیونٹی کے لوگوں کو ہندوستانی شہریت دینے کا اہتمام کیا گیا ہے۔اس قانون کو ‘غیر آئینی ’ اور ‘برابری کے حق کی خلاف ورزی کرنے والا’ قرار دیتے ہوئے کئی لوگوں نے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج دیاہے۔
Categories: خبریں