دوسرے ممالک ہوں گے جہاں گریتااسٹار ہیں ، ہم اپنی گریتا دشا روی کو جیل میں رکھتے ہیں۔ وہ کوئی اور زمانہ ہوگا اور کوئی اور ملک جہاں مفاد سے اوپر اٹھ کر فطرت اور ماحولیات کی فکرکرنے والوں کا استقبال ہوتا ہے۔ یہاں ان کو جیل ملتا ہے۔
دشا روی کی گرفتاری ہم سب کے منھ پر اس اقتدار کا بوٹ ہے۔ ہمیں بتلایا جا رہا ہے کہ اس ملک میں کسی کی کوئی قیمت نہیں، کسی کا لحاظ نہیں، کوئی حد نہیں جو یہ حکومت عبور کرنے میں جھجک محسوس کرے۔یہ حکومت اپنے حامیوں کو روز گوشت کا ایک ٹکڑا پھینک رہی ہے۔ ان کے منھ میں خون جو لگ گیا ہے!آج وہ دشا روی ہے، کل منور فاروقی تھا، کل کوئی اور ہوگا۔
خون کی پیاس شدید کردی گئی ہے۔ اور تازہ ، کھچا گوشت چاہیے۔ جتنے ذہین، دردمند ذہن ہوں سب کو اس بھیڑ کے حوالے کیا جانا ہوگا۔اور روز روز ایسا نیا شکار تلاش کرنے میں ملک کی بہترین دانش گاہوں سے پڑھے، ملک کے سب سے ذہین دانشور مانے جانے والے ہمارے آپ کے ماحول کے ہی لوگ اعلیٰ پولیس افسران اورحکام اپنی تحقیقی صلاحیت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
وہ ہمارے آپ کے پیسے سے پڑھ کر یہاں تک پہنچے تھے۔ جب انہوں نے یہ امتحانات پاس کیے ہوں گے، ان کی تصویریں ان کی صلاحیت کے قصوں کے ساتھ چھپی ہوں گی۔ آج وہ اس حکومت کے لیے شکار تلاش کرنے کا کام کر رہے ہیں۔
یہ خون کی پیاسی بھیڑ کل گریتا تُنبیرکی تصویر جلا رہی تھی۔ اس طرف وہ گریتا کو جلانے کا سکھ حاصل کر رہی تھی۔ لیکن بہتر ہوتا اگر وہ گریتا کو پابہ زنجیر کر پاتے۔وہ ممکن نہیں تھا۔ دشا روی کو اس کے بدلے راشٹروادی خون کے پیاسوں کے سکون کے لیے پیش کیا جا سکتا تھا۔ دوسرے ممالک ہوں گے جہاں گریتا اسٹارہیں ۔ ہم اپنی گریتا، دشا روی کو جیل میں رکھتے ہیں۔
وہ کوئی اور زمانہ ہوگا اور کوئی اور ملک جہاں مفاد سے اوپر اٹھ کر فطرت اور ماحولیات کی فکر کرنے والوں کا استقبال ہوتا ہے۔ یہاں اسے جیل ملتا ہے۔اکیس سالہ دشا روی کو گھیرے ہوئے پولیس والوں کو دیکھیے۔ اس کے پیچھے کیمرہ لےکر دوڑتے ہوئے صحافیوں کو دیکھیے۔‘آپ کچھ کہنا چاہتی ہیں؟’اس نوجوان اسٹوڈنٹ کے پیچھے بھاگتے اس سوال کو سنیے۔ ‘آپ رو کیوں رہی ہیں؟’ ایک آواز آتی ہے۔
دشا کو گھیرے ہوئے لمبے چوڑے بہادر پولیس والوں کا گروہ ایک دشا سے دوسری دشا میں اسے جیسے بھگاتا ہوا چلتا ہے۔وہ کیوں رو پڑی؟ اس نے پوچھا عدالت سے کہ اس نے ٹول کٹ میں صرف دو سطروں کو ایڈیٹ کیا تھا۔ملک کے کسانوں کی حمایت کر رہی تھی۔ کیا یہ جرم ہے؟
کتنا بڑا شکار کیا ہے دہلی کے حکمراں نے! ان کے لیے دہلی پولیس نے۔ اور اس عدالت نے بھی کتنی خطرناک سازش کرنے والی دیشدروہی کو دہلی پولس کے حوالے کیا ہے کہ وہ معاملے کی تہہ تک پہنچے۔دہلی پولس بہت سنجیدہ ہے۔ اس نے پتہ کیا ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ دشا روی نے وہ ‘ٹول کٹ’تیار کیا تھا اور ایڈیٹ کیا تھا جس کا استعمال کرکے گریتا نےہندوستان کے کسان آندولن کے لیے بین الاقوامی حمایت حاصل کرکے بھارت کے خلاف کام کیا ہے۔
پولیس کو کوئی شک نہیں کہ دشا اس سازش میں شامل ہے۔ کیا ہوا جو دشا کو اکیلی ماں نے پالا ہے! کیا ہوا کہ وہ صرف 21 سال کی ہے!کیا یہ سب کچھ ایک ملک کے خلاف سازش کرنے والی، اسے دنیا کی نگاہ میں بدنام کرنے والی کو چھوٹ دینے کی دلیل ہو سکتی ہے! کیا آپ راشٹروادی پتھر دل میں رحم کا جذبہ بیدار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟
اسی بنگلورو میں امولیہ بھی گرفتار ہوئی تھی!اس جدیدا ورآفاقیت کا سوانگ بھرنے والے شہر میں ہی۔ وہ جو کہنا چاہتی تھی کہ زندہ باد کا نعرہ ہر ملک کے لیے، ہر عوام کے لیے، وہ ہندستان ہو، پاکستان یا بنگلہ دیش!
لیکن اس تنگ دل ملک کے کانوں کو پوری دنیا کے لیے محبت کی بات زہر ہے۔ سو، امولیہ کو جیل میں ڈالا گیا۔
تازہ، زندہ خون چاہیے۔ جتنے کم عمر لوگ پکڑے جا ئیں گے، خوف اتنا ہی گہرا بٹھایا جا سکےگا۔ اسی لیے دہلی کی جیلوں میں پچھلے ایک سال میں جنہیں ٹھونسا گیا، وہ سب 30 یا اس کے نیچے کی سن کے ہیں۔دشا روی کی گرفتاری پر غصے کی لہر اٹھنی چاہیے۔ لعنتیں بھیجی جانی چاہیے اس سرکار اور اس پولیس کو۔ اس حکومت کو جو ہمارے سب سے بہترین دل اور ذہنوں کو دہشت میں قید کر دینا چاہتی ہے۔
نہیں، ہمیں دشا کی بہادری کا ترانہ گانا نہیں شروع کر دینا چاہیے۔ دشا روی کی جگہ جیل نہیں ہے۔ اسے ملک اور راشٹر کی سرحدوں سے آگے قدرت کی آزادی کے لیے کام کرنے کو آزاد رہنا چاہیے۔دشا کا پولیس کی حراست میں ایک ایک دن اس ملک کے لیے، اس ملک کی سیاست کے لیے، انتظامیہ اور سازشوں کی کہانی گڑھنے والی پولیس کے لیے، عدلیہ کی بے حسی اور اس سماج کی خاموشی پر لعنت ہے۔
اگر اس لمحہ طلبانہیں اٹھ کھڑے ہوتے، اساتذہ نہیں بولتے، سائنسداں اور دانشور نہیں بولتے، اگر ابھی بھی عدالتیں نہیں ہلتیں تو مان لینا چاہیے کہ اس ملک میں نوجوان آوازوں کی جگہ نہیں ہے۔میں لکھ رہا ہوں اور غصے اور بے بسی سے میری انگلیاں کانپ رہی ہیں۔ لگ رہا ہے اس ملک کی چھاتی پر چڑھ کر ایک بھیڑ کود رہی ہے اور قہقہہ لگا رہی ہے۔ کیا ہم یہ تماشہ یوں ہی دیکھتے رہیں گے؟
کیا دشا کی آنکھوں سے گرا آنسو کا قطرہ بےکار جائےگا؟ کیا وہ انصاف کی سیل بن کر اس ظلم کے نظام کو بہا نہیں لے جائےگا؟ آہ!
(مضمون نگار دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر