جہاں بی جے پی ایس پی (اور کانگریس) کی جانب سے اتر پردیش میں دی گئی گہری چوٹ کو ٹھیک سے سہلا تک نہیں پا رہی، اس کے بہی خواہ دانشور اور تجزیہ کار مدعی سست گواہ چست کی طرز پر اس چوٹ کو معمولی قرار دینے کے لیے یکے بعد دیگرے ناقص اور بودی دلیل لا رہے ہیں۔
ایگزٹ پول ایک فی الفور واقعہ ہوتا ہے، مثلاً آپ نے کس کو ووٹ دیا؟ کیوں ووٹ دیا؟ آپ کا تعلق کس برادری سے ہے؟ یہ سوال رفتہ رفتہ ہونے والی تبدیلیوں کا مشاہدہ نہیں کر پاتے۔ اتر پردیش میں ایسی ہی تبدیلیوں نے وزیر اعظم مودی کے ‘400 پار’ کے نعرے کی ہوا نکال دی۔
مودی نے اپنے ووٹروں سے مسلم مخالف مینڈیٹ مانگا تھا۔ انہوں نے یہ کہہ کر ڈرایا تھا کہ اپوزیشن پارٹی کانگریس ان کی جائیداد اور دیگر وسائل چھین کر مسلمانوں میں تقسیم کر دے گی۔ بی جے پی کو واضح اکثریت نہ ملنا اس بات کا اشارہ ہے کہ ہندوستان کو نفرت کی یہ سیاست قبول نہیں ہے۔
اسرائیلی شہریوں کے اعلیٰ یورپین معیار زندگی کی ایک قیمت ہے۔ یہ قیمت کون ادا کرتا ہے؟ دراصل مالدار یورپی شہروں کی طرز پر عوامی خدمات بہم پہنچانے اور اعلیٰ معیار زندگی کے تحفظ کے لیے خاطر خواہ وسائل خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ یہ وسائل امریکی ٹیکس دہندگان کو ادا کرنے پڑتے ہیں۔ امریکی اداروں اور شہریوں میں اب اس پر سوال اٹھنا شروع ہو گئے ہیں کہ وہ کب تک اور کیوں اسرائیل کی ناز برداری کرتے رہیں گے؟
چونکہ مودی نے یہ الیکشن صرف اپنے نام پر لڑا تھا، صرف اپنے لیے ووٹ مانگے تھے، بی جے پی کے منشور کا نام بھی ‘مودی کی گارنٹی’ تھا۔ یہ ہار بھی صرف مودی کی ہے۔ ان کے پاس اگلی حکومت کی سربراہی کا کوئی حق نہیں بچا ہے۔
فیض آباد لوک سبھا سیٹ کے رائے دہندگان نے واضح طور پر جواب دیا ہے کہ وزیر اعظم کی پارٹی ایودھیا کی نمائندگی کرنے کی اہل نہیں ہے۔
زمانۂ قدیم کے بارے میں، وہ بھی ماضی بعید کے ایسے پہلو پر لکھنا جس کے اسرار سے بہت کم پردہ ہٹا ہے، ناولٹ کو خالص تخیل کی اڑان بنا سکتا تھا، لیکن ’سندھو‘ کی کہانی جیم عباسی نے نہایت قائل کرنے والے اور معروضی انداز میں لکھی ہے۔ کوئی تخلیق کار تاریخی بیانیے کے بین السطور میں کیا کیا پڑھ سکتا ہے، اگر سمجھنا ہو تو ’سندھو‘ کو ضرور پڑھنا چاہیے۔
اتر پردیش میں نوجوانوں کے لیے بے روزگاری ایک بڑا مسئلہ بن گئی ہے۔ سرکاری نوکریوں کا خواب دیکھنے والے نوجوانوں کا کہنا ہے کہ بھرتی کے امتحانات کا لمبا انتظار، پھر پیپر لیک کا مسئلہ اور بعض اوقات بڑے پیمانے پر دھاندلی کی وجہ سے امتحانات کا رد ہوجانا بھی اب ریاست میں عام سا واقعہ ہے۔
پورے ہندوستان سےموصول ہونے والی خبریں بتا رہی ہیں کہ 2014 اور 2019 کا ‘مودی میجک’ اس بار ندارد ہے کیونکہ انتخابات لوک سبھا حلقہ اور ریاستی سطح پر لڑے گئے ہیں، جہاں بے روزگاری، مہنگائی اور دیہی بحران پورے ہندوستان میں یکساں اور بنیادی ایشو ہیں۔
چار جون کے بعد برسر اقتدار آنے والی پارٹی پر لازم ہے کہ مسلم آبادی کے لیے ایسے پروگرام تیار کرے، جس سے وہ بھی دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی طرح اپنے پیروں پر کھڑے ہوں اور ملک کی اقتصادیات میں اپنا حصہ ڈالیں۔
اے ڈی آر اور کامن کاز کی درخواست پر الیکشن کمیشن کو ووٹروں کی تعداد سے متعلق فارم 17 سی کے ریکارڈ کو پبلک کرنے کی ہدایت دینے سے سپریم کورٹ کی جانب سے انکار اور کمیشن کے رویے کے حوالے سے پیدا ہونے والےشکوک و شبہات کے بارے میں سماجی کارکن انجلی بھاردواج اور دی وائر کے بانی مدیر ایم کے وینو سے تبادلہ خیال کر رہی ہیں میناکشی تیواری۔
پتنجلی نے یوگا اور آیوروید کو فروغ دینے کے لیے ایک خیراتی ادارہ قائم کیا تھا۔ تاہم، اس نے برسوں تک کوئی چیریٹی کا کام نہیں کیا، بلکہ اس کا استعمال اس گروپ کے بڑھتے ہوئے کاروبار کو مضبوط کرنے کے لیے کیا گیا۔
کیا سویم سیوک سماج میں اس شرف قبولیت کو نظر انداز کر پائیں گے جو انہیں مودی حکومت کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے؟ کیا ناراض سویم سیوک اپنے پرچارک وزیر اعظم سے دوری بنا پائیں گے؟ یا آخرکار وہ صلح کر لیں گے، یہ سوچتے ہوئے کہ 2025 کے اپنے صد سالہ سال میں اقتدار سے باہر رہنے کا خطرہ مول لینا دانشمندی کی بات نہیں ہوگی۔
فی الحال نائب صدر محمد مخبر نے صدارتی اختیارات سنبھال لیے ہیں۔ مگر آئین کی رو سے نئے صدر کا انتخاب 50 دنوں کے اندرکروانا ضرور ی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس اچانک تبدیلی نے ایران کو سیاسی طور پر غیر یقینی صورتحال میں ڈال دیا ہے۔
بی ایچ یو کی جانب سے جاری ایک اسٹڈی، جس میں 926 افراد نے حصہ لیا تھا، میں کہا گیا تھا کہ ان میں سے 33 فیصد لوگوں کو کوویکسین لینے کے بعد کسی نہ کسی طرح کے مضر اثرات کا سامنا کرنا پڑا۔ اب آئی سی ایم آر نے اس تحقیق پر سوال اٹھاتے ہوےئے خود کو اس سے الگ کر لیا ہے۔
کئی انتخابات کے بعد ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اپوزیشن اتحاد کے ایشوز عام لوگوں تک پہنچے ہیں اور ان کا اثر بھی پڑ رہا ہے۔
جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت اور آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد پہلی بار صوبے میں ہونے والی ووٹنگ اور اور دہلی لوک سبھا انتخابات میں ‘انڈیا’ اتحاد کی پوزیشن کے موضوع پر کشمیر کے صحافی آکاش حسن اور دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن کے ساتھ تبادلہ خیال کر رہی ہیں میناکشی تیواری۔
ویڈیو: گزشتہ دس سالوں میں ملک کی سیاست کے ساتھ ہی ہندی سنیما میں بھی اہم تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔ جہاں ایک خاص قسم کے سنیما کو آسانی سے فنڈنگ وغیرہ مل رہی ہے، وہیں انڈسٹری کے بہت سے باصلاحیت لوگوں، خصوصی طور پر وہ لوگ جو بی جے پی کے نظریے سے اتفاق نہیں رکھتے، مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس بارے میں اداکار سشانت سنگھ سے بات کر رہے ہیں دی وائر ہندی کے مدیر آشوتوش بھاردواج۔
کہا جاتا ہے کہ کانگریس میں امیدوار الیکشن لڑتا ہے، بی جے پی میں یہ ذمہ داری تنظیم سنبھالتی ہے۔ اس بار بی جے پی اور سنگھ کے کارکنوں میں زیادہ جوش نظر نہیں آ رہا ہے۔
پچھلے کچھ سالوں میں کسی ریپسٹ کے نام نہاد ہندو اور بی جے پی یا سنگھ کا حمایتی ہونے پر اس کے حق میں کیا کیانہیں کیا گیا۔اس کو بچانے کے لیے جلوس نکالے گئے، قومی پرچم کے ساتھ مارچ نکالا گیا، تھانوں پر دباؤ بنائے گئے، میڈیا کو خاموش کرایا گیا۔ یہاں تک کہ متاثرین کو ہی مورد الزام ٹھہرایا گیا، ان کی کردارکشی کی گئی، اہل خانہ کو دھمکیاں دی گئیں اور سودا کرنے پر مجبور کیا گیا۔
گزشتہ اپریل میں راجستھان کے بانس واڑہ سے شروع ہونے والی تقریروں کی ایک سیریز میں وزیر اعظم نریندر مودی نے کھلے عام مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے جھوٹے دعوے کیے ہیں کہ کانگریس ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی سے ریزرویشن چھین کر مسلمانوں کو دینا چاہتی ہے۔ بی جے پی نے اپنے آفیشل اکاؤنٹ سے سوشل میڈیا پر مسلم مخالف ویڈیو بھی ڈالے ہیں۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں جن مطالبات کو لے کر طوفان برپا ہوگیا ہے اور جس کے نتیجے میں کئی جانیں بھی چلی گئیں، کو بڑی آسانی کے ساتھ افہام و تفہیم کے ساتھ حل کیا جاسکتا تھا۔ بجلی کے بل اور آٹے کی قیمتوں میں کمی یا اسی سبسڈی کی مانگ، جس کا اطلاق گلگت بلتستان پر ہوتا ہے، کوئی ایسے مطالبات نہ تھے، جن پر کوئی مراعات نہیں دی جا سکتی تھی۔
گزشتہ دنوں تعلیمی اداروں سے متعلق دو معاملے سامنے آئے۔ پہلا معاملہ ایک پرائیویٹ یونیورسٹی ‘گلگوٹیا یونیورسٹی’ کے مبینہ سیاسی استعمال کا تھا، وہیں دوسرا معاملہ ممبئی کے ایک پرائیویٹ اسکول سے متعلق تھا، جس کی پرنسپل کو ان کے سیاسی خیالات کے اظہار کی وجہ سے نوکری سے نکال دیا گیا۔ ان دونوں معاملوں پر ویڈیو میں بات کی گئی ہے۔
اتراکھنڈ کے کئی گاؤں فوجیوں کے گاؤں کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ریاست کی معیشت اور سماجی نظام کا ایک بڑا حصہ فوج سے وابستہ ہے۔ اگنی پتھ اسکیم کے آنے کے بعد یہ نظام بحران کا شکار ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی انتخابی تقریروں میں کانگریس کی جانب سے مسلمانوں کو ‘الگ کوٹا’ دینے کے گمراہ کن دعووں، بی جے پی کو فائدہ پہنچانے والے بی ایس پی کے انتخابی فیصلوں اور الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری پر اٹھنے والے سوالوں پر دی وائر کی مدیر سیما چشتی اور سپریم کورٹ کے وکیل صارم نوید کے ساتھ تبادلہ خیال کر رہی ہیں میناکشی تیواری۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی اقتصادی مشاورتی کونسل (ای اے سی –پی ایم) کی طرف سے انتخابات کے درمیان آبادی پر مبنی رپورٹ کی بنیاد پر کہا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کی آبادی میں 43 فیصد اضافہ ہوا ہے اور ہندوؤں کی آبادی میں 7 فیصد کمی ہوئی ہے۔ تاہم یہ مکمل سچائی نہیں ہے۔ اس فرقہ وارانہ سیاست پر دی وائر کی ہیلتھ رپورٹر بن جوت کور سے اجئے کمار کی بات چیت۔
بی جے پی لوک سبھا انتخابات 2024 میں پہلے ہی مسلمان مخالف مہم چلا رہی ہے۔ پی ایم -ای اے سی کی رپورٹ آنے کے بعد میڈیا اس کے کچھ حصوں کا حوالہ دے کر سنسنی خیز خبریں دکھا رہا ہے، جس سے لگتا ہے کہ بی جے پی کے جھوٹے بیانیے کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ ماہ ایک انتخابی ریلی میں مسلمانوں کو ‘زیادہ بچے پیدا کرنے والے’ کہا تھا۔
گجرات کی سورت لوک سبھا سیٹ سے بی جے پی امیدوار کے بلامقابلہ منتخب ہونے کے چند دن بعد مدھیہ پردیش کے اندور میں کانگریس امیدوار نے اپنا پرچہ نامزدگی واپس لے لیا اور چند گھنٹوں کے اندر ہی بی جے پی میں شامل ہو گئے۔ ریاستی کانگریس کے صدر جیتو پٹواری کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے سیاسی مافیا نے اندور کے 20 لاکھ ووٹروں کو ووٹ دینے کے حق سے محروم کرکے جمہوریت کا قتل کیا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کانگریس پر جھوٹا الزام لگا رہے ہیں کہ وہ الیکشن میں صنعتکار مکیش امبانی اور گوتم اڈانی کو ایشو نہیں بنا رہی، جبکہ اس دوران وہ خود ان سلگتے سوالوں کا جواب نہیں دے رہے ہیں جو ان دونوں صنعتکاروں کے ساتھ ان کی حکومت کے تعلقات کے حوالے سے اٹھائے جا تے رہے ہیں۔
کووڈ وبائی امراض کے اثرات ہندوستانی معیشت پر بھی واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ جہاں ایک طرف بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے، وہیں دوسری طرف شہروں میں مختلف کاموں میں لگے مزدور زرعی شعبے سے منسلک ہونے پر مجبور ہوئے ہیں۔
نریندر مودی کے دل میں کانگریس کا اتنا خوف سما گیا ہے کہ وہ اپنی بات کہنے کے بجائے صرف کانگریس اور ان کے لیڈروں کے خلاف بیان بازی کر رہے ہیں۔ راہل گاندھی ان کے لیے ڈراؤنا خواب بن گئے ہیں۔
مدھیہ پردیش کے گوالیار-چنبل علاقے میں فوج میں جانے کی لمبی روایت رہی ہے۔ مثال کے طور پر، اب تک ہر بھرتی میں مرینا کے قاضی بسئی گاؤں کے 4-5 نوجوان فوج میں چنے جاتے تھے۔ اگنی پتھ اسکیم کے شروع ہونے کے بعد پہلی بار ایسا ہوا کہ گاؤں سے کوئی بھی نہیں چنا گیا۔ فوج کی بھرتی پر انحصار کرنے والے یہ نوجوان اب انجانے کام کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔
فیکٹ چیک: کانگریس کے منشور کو شعوری طور پرنظر انداز کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی ہندو رائے دہندگان کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا رہے ہیں۔
‘بات بھارت کی’ کے پہلے ایپی سوڈ میں منی پور میں شروع ہوئے تشدد کے ایک سال مکمل ہونے، پی ایم مودی کی تقریروں میں بڑھتے ہوئے بے بنیاد دعوے اور الیکشن کمیشن کی خاموشی کے حوالے سے سینئر صحافیوں – ندھیش تیاگی اور سنگیتا بروآ پیشاروتی کے ساتھ تبادلہ خیال کر رہی ہیں میناکشی تیواری۔
ویڈیو: اب ملک کے سیاسی ڈسکورس میں لفظ ووٹر زیادہ رائج نہیں ہے اور اس کی جگہ ‘لابھارتھی’ (مستفید) نے لے لی ہے۔ کیا یہ تبدیلی ملک کے شہریوں کے لیے خوش کن ہے یا ان کے حقوق کے لیے خطرہ؟ پبلک پالیسی ایکسپرٹ یامنی ایر سے بات کر رہے ہیں دی وائر ہندی کے مدیر آشوتوش بھاردواج۔
پاکستان نے امریکہ کی شدید مخالفت کی وجہ سے 2013سے اس پائپ لائن پر کام بند کیا ہوا تھا۔
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس نے ہمیشہ ریزرویشن کی حمایت کی ہے۔ لیکن بھاگوت سمیت سنگھ کے کئی عہدیدار ریزرویشن سسٹم کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے 21 سے 25 اپریل کے درمیان ملک کے مختلف حصوں میں منعقد انتخابی ریلیوں میں وزیر اعظم نریندر مودی نے جو دعوے کیے ہیں، ان کے حوالے سے اسکرول کے فیکٹ چیک میں پتہ چلا ہے کہ اس مدت میں انہوں نے کانگریس کے خلاف لگاتار جھوٹ پھیلانے کا کام کیا ہے۔
لوک سبھا انتخابات کے لیے بی جے پی کی انتخابی مہم میں پارٹی کے اسٹار پرچارک اور وزیر اعظم نریندر مودی مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں اور کانگریس کے منشور کا نام لے کر گمراہ کن اور فرضی دعوے کر رہے ہیں۔ کیا ان میں اور گراوٹ آئے گی، اس بارے میں تبادلہ خیال کر رہے ہیں دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن اور ڈی یو کے پروفیسر اپوروانند۔
اس اسکیم سے ان گاؤں دیہات اور نوجوانوں کی زندگیوں پر کیا اثر پڑا ہے؟ کیا اب یہ فوجیوں کے گاؤں نہیں کہلائیں گے؟ زندگی کا واحد خواب چکنا چور ہونے کے بعد یہ نوجوان اب کیا کر رہے ہیں؟ کیا فوج کو اس اسکیم کی ضرورت ہے؟ کیا یہ فوج کی جدید کاری کے لیے ضروری قدم ہے؟ ان سوالوں کی چھان بین کے لیے دی وائر نے ملک کے کئی ایسے علاقوں کا دورہ کیا۔ اس سلسلے میں پہلی قسط ہریانہ سے۔